مختلف مسالک کی دنیا میں یہ ایک غلط مفروضہ قائم ہو چکا ہے کہ خانوادہ اہلبیت اور خاص طور پر کربلا کے شہدا اور مقتدر شخصیات کے بارے میں سب سے زیادہ علم یا عشق ومحبت کسی ایک مخصوص فرقے کو یا مسلک کو حاصل ہے۔
میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی اس میں کم ازکم میں نے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ محبت اور عشق دراصل ایک رویہ ہے لیکن اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ دنیا بھر میں عشق اور محبت کا ایک ہی رنگ اور ایک ہی ڈھنگ ہے۔ انسانوں سے محبت سے قطع نظر اپنے رب سے بھی محبت کے کتنے ہی انداز ہیں اور میری نظر میں کوئی انداز بھی غلط نہیں۔
یہی سوچ کر میں اپنی استطاعت اور علمی و دینی علوم کی کمی سے واقف ہونے کے باوجود کربلاکی اس شیر دل خاتون اور ثانیء بنت رسول پر قلم اٹھانے کی جرآت کی ہے جو صرف مسلم خواتین کے لیئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی حْریت پسند خواتین کے لیئے ایک مینارہ نور ہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ھوئے ہیں اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ہیں۔
عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی آدم علیہ السلام کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ وہاجرہ و خدیجہ و عایشپ اور طیبہ وطاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم جیسی عظیم شخصیات اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ھیں وہاں جناب زینب سلام اللہ بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بنکر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل، سچ اور جھوٹ، ایمان و کفر اور عدل وظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔
آغاز میں ہی ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں جو عام مسلمانوں نے شاید جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہ کی تینوں صاحبزادیوں کا نام زینب ہی تھا جو دراصل ‘‘زینِ اب‘‘ یعنی والد کی زینت اور فخر ہے
کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کی سرزمین پر وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں۔
سیدہ زینب کی ولادت اور سرکار دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرشاری
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی تھیں۔ وہ 5 جمادی الاول 6ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
سیدہ سلام اللہ علیہا کی پیدائش پر پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیاتھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر میں تھے۔ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے۔
حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی نواسی کا نام منتخب فرمائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کو سلام کرکے رخصت ہوتے تھے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے سیدہ سلام اللہ علیہا کو آکر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے۔
حسب معمول جیسے ہی سفر سے واپس تشریف لائے سب سے پہلے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر میں داخل ہوئے تو اہل خانہ نے نو مولود کی مبارک باد پیش کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ کر سب تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا۔ روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا : خدا نے اس بچی کا نام " زینب " منتخب کیاہے۔
زینب کے معنی ھیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں " زین " معنی زینت اور "اب"معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں۔ حضور اقدس نے جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے سینہ اقدس سے لگالیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کے رخسار مبارک پر رکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے کیونکہ آقا دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب سیدہ زینب پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے۔
نشوو نماء
سیدہ زینب کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں۔
نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبریٰ فاطمہ زہراء نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گئیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین کریمین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز ہمّ عصری کا شرف بخشا جو زینب سلام اللہ علیہا کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت ایک روشن مثال بن گیا۔
شعوری اور فکری تربیت
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہ و حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیرمعمولی کردار بن گیاہے کیونکہ اپنی بے مثل ذکاوت سے کام اور علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر وہ خود اخلاق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں۔
جب بھی ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف شعبوں پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں۔ چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں ہنستی اور مسکراتی تین چار ماہ کی ایک معصوم بچی ہو۔ چاہے وہ کوفہ میں خلیفہ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی امام حسین کے ساتھ شریک و پشت پناہ ، فاتح کوفہ و شام ہو، ہرجگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہے۔
روایت کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لئے کھانے کی فرمائش کی، انہوں نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب سلام اللہ علیہا کے لئے رکھ چھوڑی ہے۔ یہ سن کر بیٹی زینب سلام اللہ علیہا نے مسکراتے ہوئے کہا : مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھالوں گی۔ یہ سن کر ماں نے بیٹی کو سینے سے لگالیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں اور فرمایا: ’’تم واقعتا زینب ہو‘‘۔
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو بھی بچپن میں ہی اپنے نانا محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی عظیم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کردیا۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ’’ثانی زہراء‘‘ اور ’’عقیلہ بنی ہاشم‘‘ جیسے خطاب عطاکرنے پر مجبور ہوگئی۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت کے پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد اپنے والد گرامی حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھاتھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و عملی مراتب پر فائز ہوئیں۔