قرآن اور ذکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : کوثر رشید

منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام 26 ستمبر 2007ء کو الحمرا ہال نمبر 1 میں تیسری سالانہ عظیم الشان سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا قرآن کی نگاہ میں‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا۔ خطاب سے قبل انہوں نے اس موضوع کو منتخب کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک المیہ یہ ہے کہ امت تفرقہ میں تقسیم ہوگئی ہے اور بد قسمتی سے تنگ نظری اور انتہاپسندی نے بہت سارے حقائق کو نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ انسان تعصب کی بھینٹ چڑھ کر حقائق کا انکار کرنے لگ گیا ہے اورایک دوسرے پر الزام تراشی کا عمل شروع ہے۔ نتیجۃً صورتحال یہ بن گئی ہے کہ کوئی شخص اگر اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھا کا نام یا سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء اورحضرت سیدنا مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہما کا ذکر کثرت سے کرتا ہے یا اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھا کی محبت کی بات کرتا ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس شخص کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ اسی طرح لوگوں کے ذہنوں میں خلفاء راشدین کی نفرت پیدا کرنے اوراہل بیت اطہار کا مقام کم کرنے کے لئے اہل تشیع کی طرف سے خلفاء راشدین کے بارے میں غلط روایات گھڑ کر بیان ہونے لگی ہیں۔ خلفاء راشدین اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نفرت سرا سرگمراہی، تباہی اوراپنے آپ کوایمان سے محروم کر دینے کے مترادف ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس منفرد، محقق اور اچھوتے خطاب میں مذکورہ تمام غلط تصورات کی اصلاح کی گئی ہے اورقرآن حکیم، ائمہ احادیث و تفاسیر کی تصریحات کی روشنی میں مقام سیدۃ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اورمقام اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھا واضح کیاگیا ہے۔

سیدۃ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ قرآن کی نگاہ میں کیا ہیں؟ اگر بہت گہرائی میں جا کر دیکھیں اور ان مقامات کا بھی جائزہ لیں جہاں قرآن مجید میں سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا اوراہل بیت اطہار کا ذکر بالواسطہ آیا ہے توان آیات کریمہ اور مقامات مبارکہ کی تعداد بڑھ جائے گی۔ اس لئے بالواسطہ ذکر کو چھوڑ کر صرف ان مقامات قرآنی پر اکتفا کریں گے جن میں بلا واسطہ اور براہ راست ذکر کیا گیا ہے۔ سیدہ کائنات فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اوراہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا ذکر قرآن مجید میں پانچ مقامات پر آیا ہے۔ ان میں سے بعض مقامات پر ان کا ذکر سن کر آپ کو خوشگوار حیرت بھی ہوگی کیونکہ اس ریفرنس میں ان کا ذکر اس سے پہلے شاید کبھی بھی نہ آیا ہو۔

پہلا مقام : سورۃ الکوثر

یہ ایک حسین بیان ہے۔ سورۃ الکوثر سے کوئی ناواقف نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُO

(الکوثر، 108)

’’اے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکر ہے) بیشک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن بے نسل اور بے نام و نشان ہوگا‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

یعنی ہر خیر سے محروم ہونے والا منقطع النسل ہوگا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن باقی نہیں رہے گا۔ لفظ کوثر کے درجن سے زیادہ معانی ہیں۔ جنہیں ائمہ تفسیر، ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔ الکوثر کا ایک معنی اَلْخَيْرُ الْکَثَير ہے جن کو امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔ اَلْخَيْرُ الْکَثَير میں کم و بیش سارے معانی پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہر خیر کی کثرت الکوثر میں ہے۔ الکوثر کا معروف ترین معنی جو احادیث صحیحہ میں بیان ہوا ہے وہ حوضِ کوثر ہے۔ (التفسیر الکبیر، 32 : 124) جس کا پانی قیامت کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو پلائیں گے۔ یہ معانی وہ ہیں جو اکثر و بیشتر سنے جاتے ہیں ان میں سے پہلا بحر کوثر، دوسرا حوض کوثر زیادہ تر سنا جاتا ہے لیکن تیسرا معنی زیادہ نہیں سنا جاتا جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کے باب کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے وہ اَلْخَيْرُ الْکَثَير (بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، 5 : 2405، رقم : 6207) ہے۔ اَلْخَيْرُ الْکَثَير میں ہر چیز کی کثرت آجاتی ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تفسیر الکبیر میں سب سے زیادہ ممکنہ معانی بیان کئے ہیں۔ پہلے قول کے مطابق انہوں نے رَاَيْتُ نَهْرًا فِی الْجَنَّةِ (التفسیر الکبیر، 32 : 124) ’’میں نے جنت میں نہر دیکھی‘‘ کو کوثر کہا ہے۔ دوسرا قول حوض کوثر ہے۔ تیسر اقوال اَلْکَوْثَرُ اَلَادْه. (التفسیرالکبیر، 32 : 124) ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ الْکَوْثر کا یہ معنی باقی بارہ معانی میں سے تیسرا ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت قاسم علیہ السلام کا اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا تو مشرکین کے ساتھ عاص بن وائل نے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو طعنہ دیا کہ یہ ابتر ہیں، منقطع النسل ہیں۔ ان کی نسل کٹ گئی ہے اور اب محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا نام لینے والا (معاذ اللہ) دنیا میں کوئی نہیں رہے گا۔ اس پرامام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان کے اس طعنے کے رد میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ کوثر کو نازل فرمایا۔ ان کی یہ بات قابل توجہ ہے کیونکہ شانِ نزول کی سب سے زیادہ موافقت اورمطابقت اس معنی کے ساتھ بنتی ہے اور یہ معنی اعلیٰ و ارفع ہے اور زیادہ مقبول و معروف ہے۔ امام فخر الدین رازی رضی اللہ عنھا فرماتے ہیں۔ اس سورت کے ذریعے اللہ رب العزت نے ان کے طعنے کا رد کیا اور فرمایا کہ اے محبوب آپ ابتر نہیں ہوئے۔ آپ کی نسل کٹی ہے نہ کٹے گی۔ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْ بیشک آپ کے دشمن کی نسل کٹ جائے گی۔ اس کا نام و نشان مٹ جائیگا۔ اس کی نسل کا نشان تک اگلی دنیا میں کسی کو دکھائی نہیں دے گا۔ یہاں کوثر کثرت کا معنی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت کی کثرت ہے چونکہ یہ سورت اس طعنے کے رد میں نازل ہوئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ’’اے میرے محبوب ہم نے آپ کو ذریت، اولاد اور نسل کی وہ کثرت عطا کی ہے کہ قیامت تک کوئی زمانہ اٰل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اولاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی نہیں ہوگا۔ یعنی سادات کے وجود سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہوگا۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کے اس تیسرے معنی پر دلیل لاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ فَانْظُرْ کَمْ قُتِلَ اَهْلَ الْبَيْت؟ (التفسیر الکبیر، 32 : 124) لوگو! دیکھو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے کتنے نفوس قدسیہ کو چن چن کر شہید کر دیا گیا؟ اتنی کثرت کے ساتھ اہل بیت رضی اللہ عنھا کی شہادتیں ہوئیں مگر اس کے باوجود سارا زمانہ، سارا عالم، سارا جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت رضی اللہ عنھا اور ذریت سے بھرا پڑا ہے۔ سب سے زیادہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھا کی شہادتیں ہونے کے باوجود یعنی ذریت حسین رضی اللہ عنھا میں سے صرف ایک بچہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کربلا میں زندہ رہے اورحضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنھا سے ان کے فقط ایک صاحبزادے۔ لیکن روئے زمین کے گوشے گوشے میں ذریت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے۔

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ آگے فرماتے ہیں وَلَمْ يَبْقِ مِنْ بَنْی اُمَيَّةِ فِی الدُّنْيَا (التفسیرالکبیر، 32 : 124) ادھر بنی امیہ کو دیکھو ان کی ذریت دنیا سے ناپید ہوگئی۔ اہل بیت رضی اللہ عنھا کو شہید کرنے والے جوچاہتے تھے کہ نسل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کٹ جائے اور اہل بیت رضی اللہ عنھا نہ رہے وہ خود تو درکنار ان کے قاتلوں میں سے بھی کسی کا نام و نشان دنیا میں نظر نہیں آتا۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو یہاں پر ہی ختم نہیں کیا بلکہ وہ اس سے آگے فرماتے ہیں۔

ثُمَّ انْظُرْ کَمْ کَانَ فِيهِمْ مِنَ الْاَکَابِرِ مِنَ الْعُلَمَآءِ کَالْبَاقِرٍوَ الصَّادِقِ وَالْکَاظِمِ وَالرِّضَا عَلَيْهِمُ السَّلَام وَ النَّفْسِ الزَّکِيّةِ مِنَ اَمْثَالِهِمْ.

(التفسير الکبير، 32 : 124)

پھر دیکھو کیسے کیسے علم کے پہاڑ ہوئے اور کیسے کیسے معرفت کے ستون ہوئے، کیسے کیسے امام اورپیشوا ہوئے ایک طرف امام باقر رضی اللہ عنہ نظر آتے ہیں تو دوسری طرف امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نظر آتے ہیں۔ اُدھر موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ نظر آتے ہیں تو اِدھر نفسِ زکیّہ، علم و معرفت کے بڑے بڑے ستون، اہل بیت نظر آتے ہیں۔

اس معنی کی تائید میں تفسیر بیضاوی میں قول ہے۔ امام بیضاوی الکوثر کی تفسیر میں فرماتے ہیں

وَقِيْلَ اَوْلَادُه

 (تفسیرالبیضاوی، 8 : 403) کوثر سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ہے۔ اسی طرح امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر جلالین کے حاشیہ میں ذکر کرتے ہیں۔

فَلاَ تَجِدْ ذُرِّيَّةً مِنْ الْخَلْقِ مِثْلَ ذُرِّيَّةً مصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْکَثْرَةِ وَلَا فِی الْبَرْکَةِ اَلٰی يَوْمِ الْقِيَامَهِ.

(تفسير الجلالين، 6 : 2436)

جتنی نسل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑھی کائنات میں کسی انسان کی نہیں بڑھی اور یہ کثرت عدد میں ہی نہیں بلکہ برکت میں بھی ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہے گی اور پھر فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں حضرت قاسم رضی اللہ عنھا اورحضرت عبداللہ رضی اللہ عنھا جن کو طیب اور طاہر بھی کہتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام تین صاحبزادے تھے اور چار صاحبزادی تھیں۔ حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہن۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری اولاد حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنھا سے تھی سوائے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جو حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا سے تھے۔ امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سوائے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تمام اولاد پاک وصال فرماگئی تھی۔ پھر فرمایا

وذُرِّيَّتُهُ صلی الله عليه وآله وسلم اَلْبَاقِيَةُ اِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مِنْ نَسْلِهَا.

(تفسير الجلالين، 6 : 2437)

پوری کائنات جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد پاک ہے صرف بطن فاطمہ رضی اللہ عنہا کی برکت سے بھری پڑی ہے۔ قیامت تک باقی رہے گی۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت کی کثرت کو کوثر کہا گیا ہے۔ اسی قول کو بڑے اکابر ائمہ اہل سنت، ائمہ تفسیر بغیر جھجک کے نقل کرتے رہے۔ میرے نزدیک کوثر سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریت ہے چونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تینوں بیٹے چھوٹی عمر میں وصال فرما گئے تھے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نسل تو بیٹے سے چلنی تھی اور بیٹے وصال فرماگئے تو پھر وہ کوثر کا خواب جو کثرت ذریت کے معنی کے لحاظ سے ہے اس کی تعبیر کیسے ہوئی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث مبارکہ میں اس کا جواب ہے۔ جسے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ معجم الکبیر میں، امام ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ المسند میں، امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ الفردوس میں، الخطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تاریخ بغدادی میں روایت کرتے ہیں۔ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ حضرت سیدۃ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : ہر ماں کی اولاد اپنے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے۔ کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میری ہوگی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَنَا وَلِيِّهُمْ وَاَنَا عَصْبَتُهُمْ

(طبرانی، المعجم الکبير، 3 : 44، رقم : 2632)

’’میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کاباپ ہوں لہٰذا آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو نواسہ نہیں کہا بلکہ بیٹا کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد علی رضی اللہ عنھا کی طرف نہیں بلکہ میری طرف منسوب ہوگی۔ دوسری روایت جس کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فضائل صحابہ میں روایت کیا اور امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے المعجم الکبیر میں میں روایت کیا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھا فرماتے ہیں : ’’میں نے اپنے کانوں سے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا‘‘۔

کہ ہر ماں کی اولاد کا عصبہ اس کا باپ ہوتا ہے اور اس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے۔ سوائے فاطمہ رضی اللہ عنھا کی اولاد کے کہ ان کا باپ میں ہونگا اور وہ میری طرف منسوب ہوگئی۔ اس حدیث کی تعبیر یہ ہوئی کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا زندہ نہیں رہا تاہم آپ کی ذریت اور نسل کو قیامت تک پھیلانے کا مقام حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیتے ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل اور ذریت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلے گی چونکہ وہ ذریت و نسل جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوثر بنی، اس کوثر کے لئے نہر فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو بنایا۔ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ایک معنی کی رو سے کوثر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

دوسرا مقام : سورۃ الدھر

ذریت مصطفیٰ اورآل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرت کے لحاظ سے دوسری آیت کریمہ جہاں سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کا ذکر ہوا سورۃ الدھر ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔ ایک مرتبہ جب حضرت امام حسن اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں بیمار ہوگئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لئے نذر کرو۔ منت مانو‘‘۔

سیدنا علی رضی اللہ عنھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اوران کی خادمہ حضرت فضہ رضی اللہ عنھا تینوں نے منت مان لی کہ اگر یہ شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روزے رکھیں گے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھا نے شمعون خیبر جو یہودی تھا سے کچھ قرض لیا اور ایک روایت میں ہے کہ کام کر کے اجرت کے طور پر کچھ لیا اور ان تھوڑے سے پیسوں سے سحری و افطاری کا اہتمام کیا۔ پہلے دن جب افطار کا وقت ہوا تو دروازے پر آ کر ایک شخص نے آواز دی۔ اے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھوکا ہوں۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنھا سے پوچھا اور روٹی کے ساتھ جو کھانا پکا تھا وہ سارا اُٹھا کر مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگلے دن روزہ رکھا جوبچا تھا وہ پکایا۔ افطار کا وقت ہوا تو ایک اور سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں تو سارا پکا ہوا کھانا اس یتیم کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن روزہ رکھا پھر سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں خدا کے لئے مجھے دیں۔ میں بھوکاہوں۔ پھر سب کچھ اس کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ یوں تینوں دن جب روزہ پانی سے افطار ہوتا رہا۔ منت پوری کرنے سے امام حسن رضی اللہ عنھا اور امام حسین رضی اللہ عنھا شفایاب ہو تو گئے تھے مگر بھوک کی وجہ سے ان کے پیارے پیارے چہرے مرجھاگئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھا اورخاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کے چہرے بھی مرجھا گئے تھے اور ان کا پیٹ اندر کی طرف لگ گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی، حسنین کریمین، سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم کا چہرہ دیکھا تو پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا : آقا علیہ السلام یہ واقعہ ہوا ہے۔ بس اتنی بات ہوئی تھی اور ابھی آقا علیہ السلام کے دل میں تھوڑا سا دکھ آیا ہی تھا کہ میری شہزادی بیٹی نے کتنی قربانی دی ہے؟ میرے شہزادوں نے تین دن کیسے بھوک سے گذارے کہ اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام اترے اورحاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ لیجئے سورۃ الدھر کی آیات۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے تحفہ بھیجی ہیں۔ اس لئے کہ جب انہوں نے نذر مانی تھی تو افطار کے وقت وہ اللہ کی محبت میں کسی دن مسکین، کسی دن یتیم اور کسی دن قیدی کو کھانا کھلا دیتے تھے۔ اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے سورۃ الدھر کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔

يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًاO وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاO إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاO

(الدهر، 76 : 7 - 10)

’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جن کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے اور اپنا کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود ایثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کردینے والا ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جلیل القدر تابعی حضرت مجاہد بن رباح رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر تابعین سے روایت کرتے ہیں :

اِنَّهَا نَزَلَتْ فِیْ عَلِّی بِن اَبِی طَالِب رضی الله عنها وَ فَاطِمَةَ الزَّهْرَا اَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّد صلی الله عليه وآله وسلم.

(تفسير القرطبی، 19 : 130)

’’بے شک یہ سورت حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان میں نازل ہوئی ہے‘‘۔

یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس شان نزول کا انکار کرتے ہیں اور دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ سورۃ الدھر مکی ہے اور واقعہ مدینہ کا ہے تو یہ شان نزول کیسے بن گیا؟ ظاہراً دیکھ کر ایک عام آدمی اور تھوڑا پڑھا ہواعالم جب اعتراض سنتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ مکی سورت ہے تو حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کیسے پیدا ہوگئے؟ جبکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اورخاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شادی بھی مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ بہت سے ائمہ تفسیر نے اس اعتراض کا جواب بیان کیا ہے۔ تفسیر مظہری میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سورت مکی ہے مگر یاد رکھ لیں کسی سورت کا مکی یا مدنی ہونا اس بات کو لازم نہیں ہے۔ کسی سورت کی اگر ایک دو، چار یا دس آیتیں مکہ میں نازل ہوتی ہیں تو باقی مدینہ میں نازل نہیں ہوسکتیں یا مدنی سورت ہے تو کچھ آیات مکی نہیں ہوسکتیں۔ بے شمار سورتیں ایسی ہیں جو مدنی ہیں مگر جب آقا علیہ السلام مکہ میں حج کے لئے تشریف لے گئے تو سفر مکہ میں آیات نازل ہوئیں حتیٰ کہ سورہ مائدہ جو خود مدنی سورت ہے لیکن اس کی آخری آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي۔ (المائدہ، 5 : 3) جو مکہ میں میدان عرفات میں نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع ادا فرما رہے تھے۔ اسی طرح کوئی سورت مدنی ہو اور مکہ میں اس کی کچھ آیتیں نازل ہوجائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ سورت مدنی ہی رہتی ہے۔ یہ اصول تفسیر کا مسلمہ قاعدہ ہے۔ اس اعتراض کا یہ ایک جواب ہوا اور دوسرا اعتراض یہ کہ یہ شانِ نزول اس آیت کا نہیں ہے۔ اور وہ اس کی دلیل ایک انصاری صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہیں جس نے مسکین، یتیم اور اسیر کو کھلایا تھا۔ ان کے اس اعتراض کا کا جواب یہ ہے کہ

جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تھے اس وقت نہ کوئی انصاری تھا اور نہ کوئی مہاجر۔ ایسے کم علم لوگ شان اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھا کا انکار کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس انصاری صحابی کا تعلق مدینہ دور سے ہے کیونکہ قیدی تو بنے ہی ہجرت مدینہ کے بعد جب غزوہ بدر مدینہ منورہ میں ہوا تھا اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ چار آیات نازل فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ واقعہ مدینہ کے دور کا ہے۔ لہذا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ مکی سورت کی دو چار آیات اگر مدینہ میں نازل ہوں تو وہ سورت مکی ہی رہتی ہے۔ لہذا ان آیات کا شان نزول وہی ہے جس کو کثرت کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ رحم اللہ عنہم نے بیان کیا ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے مسکین، یتیم اور اسیر کو کھلانے اور خود فاقہ کرنے پر سورہ دہر میں اللہ رب العزت نے ان کا ذکر کرکے ساتھ یہ بھی فرمایا :

وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًاO

(الدّهر، 76 : 12)

’’اور اس بات کے عوض کہ انہوں نے صبر کیا ہے (رہنے کو) جنت اور (پہننے کو) ریشمی پوشاک عطا کرے گا‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

تیسرا مقام : سورۃ الشوریٰ

تیسرا مقام جہاں پر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کا ذکر آیا ہے وہ سورۃ الشوری ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى.

(الشوریٰ، 42 : 23)

’’فرما دیجئے : میں اس تبلیغ (رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ مگر اپنی اور اللہ کی قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

یعنی میں فریضہ رسالت ادا کررہا ہوں، تمہیں توحید کی دعوت دے رہا ہوں ضلالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت اور روشنی کی طرف لارہا ہوں۔ ذلت و رسوائی کے گڑھوں میں گری ہوئی انسانیت کو اٹھا کر عزت و تمکنت دے رہا ہوں۔ آخرت کے عذاب سے بچا رہا ہوں، دوزخ سے نکال کر جنت کے دروازے کی طرف لارہا ہوں یہ میرے جتنے احسانات ہیں فریضہ رسالت کی ادائیگی میں ہیں۔ ان تمام احسانات کا تم سے اپنے لئے کوئی اجر، کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ہاں! اس پر میں تمہیں ایک تلقین کرتا ہوں کہ میرے اہل قرابت کے ساتھ محبت رکھنا، صحیح بخاری میں امام بخاری حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، 3 : 1289، رقم : 3306) سے مراد آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پورا خاندان قریش ہے۔ پوچھا گیا مَنْ هُمْ؟ آپ کی وہ قرابت کون ہے؟ جن سے محبت و مودت کرنا قرار دیا جارہا ہے تو آقا علیہ السلام نے فرمایا :

هُمْ آلِ عَلِیٌّ

وہ قرابت آلِ علی (حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما) ہیں۔

مفسرین نے اس سے مراد بنو ہاشم، بنو عبدالمطلب اور ان کا سارا خاندان جن پر صدقہ حرام ہے لیا ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل قیامت تک قرابت ہے۔ ایک مقام پر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْن، اَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللّٰهِ وَاَهْلِ بَيْتِیْ. (مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنہم، 4 : 1873، رقم : 2408) اے لوگو! میں تم میں دو وزنی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جو تمہارے ایمان کے بچاؤ اور حفاظت کا باعث ہونگیں۔ اللہ کی کتاب اور میری اہل بیت پھر فرمایا : اُذَکِّرُکُمُ اللّٰهِ فِیْ اَهْلَ بَيْتِیْ (مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنہم، 4 : 1873، رقم : 2408) اپنی اہل بیت کے معاملے میں تمہیں خدا کا خوف یاد دلاتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ان سے سوء خلق نہ کربیٹھو۔ صحیح مسلم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری روایت میں فرمایا : ’’قرآن اور میری اہل بیت کو اکٹھا تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ کبھی آپس میں جدا نہیں ہوگے‘‘۔ صحیح مسلم، جامع ترمذی، صحاح ستہ اور کثیر کتب میں صحیح اسناد کے ساتھ متعدد احادیث شان اہل بیتِ اطہار میں بیان ہوئی ہیں۔ یہاں بعض ذہن جو اہل بیت کی محبت سے خالی ہیں۔ حضور علیہ السلام کی شان میں تنقیص کے لئے معاذاللہ یہ اعتراض کرسکتے ہیں کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا میں تم سے رسالت کے فریضے کی ادائیگی پر اجر نہیں مانگتا مگر إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى کہہ کر اپنی قرابت کے ساتھ محبت مانگ لی ہے۔ تو یہ خیال بعض لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے۔ معاذ اللہ اس کا جواب امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ، امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اور جملہ ائمہ نے روایت کیا ہے مگر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے خاص انداز سے تفسیر المظہری میں جواب دیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ اجر ہوتا ہے اپنے لئے جب آقا علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فرما دیا قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا میں اس پر تم سے اجر نہیں مانگتا تو اجر کی نفی ہوگئی۔ اب کسی مسلمان کے ذہن میں کسی قسم کے اجر کا خیال إِلَّا الْمَوَدَّةَ کے بعد نہیں آنا چاہئے۔ جب اجر کی نفی اپنے لئے پہلے ہی کردی تو پھر اجر کیسا؟ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اہل بیت رضی اللہ عنھا کی محبت بتائی وہ حکم دیا ہے اجر نہیں مانگا۔ (جاری ہے)