ائمہ تصوف، جلیل القدر ائمہ حدیث بھی تھے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

عظیم ولی کامل اور عالم الحدیث حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد

تحریک منہاج القرآن کے تحت امسال بھی جامع المنہاج میں حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا مسنون اجتماعی اعتکاف منعقد ہوا جس میں حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے امام ابو عبدالرحمن السلمی کی تصوف پر پہلی جامع کتاب طبقات الصوفیہ سے سلسلہ وار دروس تصوف دیئے۔ ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کئے گئے اس خطاب کی نہایت اہمیت کے پیشِ نظر نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔

(منجانب : ادارہ دختران اسلام)


گوشہ درود کی انتظامیہ کے مطابق تحریک منہاج القرآن کے مرکزی گوشہ درود کے لئے ماہ ستمبر میں پڑھے گئے درود پاک کی تعداد 30 کروڑ ہے جبکہ اب تک گوشہ درود میں پڑھے گئے درود پاک کی تعداد الحمدللہ 2 ارب تیس کروڑ ہوچکی ہے جس پر اللہ رب العزت کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے جو اس تحریک سے خدمت لے رہا ہے۔ میری آپ سب کو نصیحت ہے کہ جہاں آپ اللہ تعالیٰ کے لئے سال میں دس دن مسنون اعتکاف کے لئے نکالتے ہیں اسی طرح دس دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے گوشہ درود کے لئے بھی نکالیں۔

آج رات ہم امام ابو عبدالرحمن محمد بن حسین السلمی کی کتاب ’’طبقات الصوفیہ‘‘ جو طبقات سلمی کے نام سے معروف ہے اور اولیاء کرام کے احوال، فرمودات اور ارشادات پر مشتمل تاریخ اسلام اور تصوف پر لکھی گئی پہلی جامع کتاب ہے سے سلسلہ دروس کا آغاز کریں گے۔ تذکرۃ الاولیاء والاصفیاء کے موضوع پر لکھی گئی بعد کی کتب نے اسی کتاب پر انحصار اور استفادہ کیا ہے۔ امام عبدالرحمن السلمی 325 ہجری میں پیدا ہوئے اور 402 ہجری میں وفات پائی۔ اس عظیم کام کا اہم پہلو یہ ہے کہ جب بھی علم کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد ائمہ اربعہ، ائمہ تفسیر، ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ و عقائد مراد لئے جاتے ہیں اور علم کے باب میں انہی کے ناموں کو حجت سمجھا جاتا ہے مگر ائمہ سلوک و تصوف کو سند اور حجت تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انہیں صرف اصحاب تقویٰ اور اصحاب اخلاص جانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ صرف کرامات، ریاضات، مشاہدات اور مکاشفات والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر جتنی کتب لکھی گئیں ان کے اقوال، کرامات اور حالات زندگی پر لکھی گئیں۔ آج تک اس پر کسی نے کام نہیں کیا کہ یہ ائمہ معرفت و ولایت صرف صاحبان کشف و کرامت ہی نہ تھے بلکہ علم تفسیر و حدیث اور شریعت و فقہ میں بھی بلند مقام کے حامل تھے۔ چونکہ ان کے مکانتہم فی علم الحدیث والفقہ پر کام نہیں ہوا جس کا بہت نقصان ہوا کہ جو منکر تصوف تھے ان کو بہانہ مل گیا کہ جب بھی کسی امام تصوف کی سند پیش کی جاتی تو وہ یہ کہہ کر رد کردیتے کہ یہ تو صوفیاء ہیں آپ علماء اور ائمہ کی بات کریں جو علم میں سند ہیں۔ کسی نے اگر حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کیا تو ان کے بارے میں کہہ دیا گیا کہ وہ تو ننگے پاؤں پھرنے والا مجذوب تھا ہمارے لئے حجت نہیں۔ ہاں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بات حجت ہے حالانکہ یہی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں گھنٹوں بیٹھ کر استفادہ کرتے۔ کیا وہ امام زمانہ نعوذباللہ کسی جاہل کی مجلس میں بیٹھتے تھے؟

اسی طرح ابو عبدالرحمن السلمی کو دنیا صوفی کہتی تھی اور زمرۂ محدثین میں شامل نہیں کرتے تھے جبکہ میں نے ابو عبدالرحمن السلمی کی اپنی متصل سند کے ساتھ صحیح احادیث مرفوعاً جمع کرکے اپنی کتاب میں جمع کردی ہیں۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ بھی امام السلمی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ساری عمر ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا جن سے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن الکبریٰ میں کئی احادیث روایت کی ہیں۔ اسی طرح امام حاکم، امام سلمی کے کلاس فیلو ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے شاگرد بھی ہیں۔ بنیادی طور پر دو قسم کے علماء گزرے ہیں ایک کثیر العلم والے تھے اور دوسرے کثیر الاطلاع والے تھے۔ محدثین کا طبقہ کثیر الروایۃ تھا جبکہ اولیاء و صوفیاء کا طبقہ کثیر الاطلاع تھا جن کو روایت سے زیادہ شغف نہیں تھا کیونکہ جس کو حال مل جاتا ہے وہ قال کم کردیتا ہے۔ صاحبان حال نظر کے ذریعے اور صاحبان قال قلم اور زبان کے ذریعے اصلاح کرتے رہے۔ لہذا قلیل الاطلاع لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کو اطلاع نہیں کہ کثرت روایت نہیں حالانکہ ان کو اطلاع بہت تھی مگر بیان کم تھا۔ زیادہ چپ رہتے تھے مگر ان کا فتویٰ مبنی بر شریعت اور حجت تھا۔ جو لوگ صوفیاء کا انکار کرتے ہیں وہ اپنی کم علمی کی بناء پر ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

تصوف میں غوث سب سے اونچا درجہ ہے اسی طرح علم الحدیث میں امیرالمومنین سب سے اونچا درجہ ہے جو دو امیرالمومنین فی الحدیث گزرے ہیں حضرت امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، دونوں صوفی تھے۔ تصوف کی کتب پر صحاح ستہ سے بھی پہلے کام ہوا جن میں اجل اولیاء اور صلحاء کے احوال و واقعات کا ذکر ملتا ہے جن میں حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کشف المحجوب، حضرت فریدالدین عطار رحمۃ اللہ علیہ کی تذکرۃ الاولیاء وغیرہ شامل ہیں۔ اولیاء و صوفیاء کے احوال پر مبنی جو کتب ہیں ان میں طبقات السلمی کا درجہ اور مقام ایسا ہی ہے جیسے حدیث کے باب میں بخاری شریف کا درجہ اور مقام ہے۔ اس کتاب کا پہلا باب حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ پر مشتمل ہے جن کا پورا نام الفضیل بن عیاض بن مسعود بن بشرالتمیمی الخراسانی تھا۔ اصلاً صوبہ خراساں (ایران) سے تعلق تھا۔

حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ نہ صرف اولیاء اللہ میں سے تھے بلکہ جلیل القدر عالم الحدیث بھی تھے۔ لوگوں نے آپ کو صرف صوفی جانا جبکہ آپ صحاح ستہ کی کتابوں کے رجال میں سے ہیں اور آپ کی سند حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک متصل ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے امام منصور المعتمد السلمی سے وہ سیدنا ابراہیم النخعی سے وہ حضرت علقمہ بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے اور وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

يَقُوْلُ اللّٰهُ تَعَالیٰ لِلدُّنْيَا يٰا دُنْيَا! مُرِّیْ عَلٰی اَوْلِيَائِیْ وَلَا تَحْلَوْلِ لَهُمْ وَ تَفْتَنِيْهِمْ.

(مسند الشهاب ج 2، ص 325، رقم 1453)

’’اللہ تعالیٰ دنیا سے فرماتا ہے اے دنیا! میرے اولیاء کے لئے کڑوی بن جا اور ان کے لئے زیادہ میٹھی نہ بن کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تیرے فتنے میں مبتلا ہوجائیں‘‘۔

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ میرے بن کر رہیں اور میں ان کا بن کر رہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دل میں دو خوف اور غم اکٹھے نہیں ہوسکتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا :

اِنَّ اَوْلِيآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْن.

(يونس 10 : 62)

’’بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔

جس طرح ایک گھر میں دو سوکنیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں اسی طرح ایک دل میں دو محبتیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔ اس میں دنیا چھوڑنے کی نہیں بلکہ حُبِّ دنیا کو دل سے نکالنے کی بات کی جارہی ہے یعنی آپ دنیا میں رہیں مگر دنیا آپ میں نہ رہے۔ اسی طرح دو غم ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے ایک غم مولا، دوسرا غم دنیا۔ اگر دنیا کی محبت، طمع اور رغبت دل میں پیدا ہوگئی تو پھر اللہ کی محبت دل میں رچ بس نہیں سکتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء سے خوف و غم کو دور کردیا کیونکہ اولیاء اللہ خالی اللہ کے محب نہیں بلکہ محبوب بھی ہوتے ہیں۔ اس میں اہم نکتہ یہ کارفرما ہے کہ بندہ اللہ کا محبوب پہلے اور محب بعد میں بنتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے لئے چن لیتا ہے وہ محبوب ہوجاتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

مَنْ اَحَبَّ لِقَاء اللّٰه اَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَ ه وَمَنْ کَرهَ لِقَاءَ اللّٰه کَره اللّٰهُ لِقَاءَ ه.

(بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، باب من احب لقاء الله احب الله لقاءه، 5 / 2386، الرقم : 6142)

’’جو اللہ سے ملاقات چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات چاہتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات نہیں چاہتا۔ اللہ بھی اس کی ملاقات نہیں چاہتا‘‘۔

ایک اور حدیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

عَنْ اَبِیْ هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِیّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ اذا احبّ اللّٰه العبدَ نادیٰ جبريلَ اَنَّ اللّٰه يُحِبُّ فلانًا فَاَحْبِبْهُ فَيُحِبُّه جبريلَ فَيُنادی جبريل فی اهل السماء اَنَّ اللّٰهُ يُحِبُّ فلاناً فاحبوه فَيُحِبُّه اَهْلَ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوْضَعُ لَهُ القبول فی الارض.

(بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة، 3 / 1175، الرقم : 3037)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ، حضرت جبریل امین علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ فلاں بندے کو جانتے ہو اِنِّی اُحِبُّ فُلاَنًا مجھے فلاں بندے سے محبت ہوگئی ہے۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام عرض کرتے ہیں باری تعالیٰ میرے لئے کیا حکم ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے جبریل (علیہ السلام) تو بھی اس سے محبت کر۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام کہتے ہیں باری تعالیٰ میں نے بھی تیرے بندے سے محبت کرلی۔ رب تعالیٰ پھر فرماتا ہے اب ساری کائنات کے فرشتوں میں میرا راز محبت افشاء کردے کہ اے آسمان والو تم بھی اس سے محبت کرو۔ محبت کی کہانی زمینی اور مکانی نہیں بلکہ عرشی اور لامکانی ہے جو وہاں سے شروع ہوتی ہے اس لئے اسے زوال نہیں اگر زمین سے شروع ہوتی تو ختم ہوجاتی حدیث پاک میں ہے ثم یوضع لہ القبول فی الارض پھر فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ زمین پر اتر کر میری اس محبت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھاد و۔ یہاں یہ نکتہ کارفرما ہے کہ اللہ رب العزت نے اولیاء کے ساتھ اپنی محبت کو زمین میں اتارنے کے لئے فرمایا ہر دل میں ڈالنے کے لئے نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ جو دل اس قابل اور لائق ہوں گے کہ وہ اللہ کی محبت کا مسکن بن سکیں تو انہیں دلوں کو اللہ کی محبت کے لئے چن لیا جاتا ہے باقی دلوں کو رد کردیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب وہ اپنے محبوب بندوں کی محبت کو ہر دل میں نہیں رکھتا تو پھر وہ اپنی محبت کو ہر دل میں کیسے رکھ دے گا؟ لہذا جس طرح غم دنیا اور غم آخرت ایک دل میں جمع نہیں ہوتے اسی طرح خوف اہل دنیا اور خوف الہٰی ایک دل میں نہیں سماسکتے۔

حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ کی طبقات السلمی سے دوسری روایت میں ہے کہ جن لوگوں کو معرفت قرآن کا نور عطا ہوجائے اسے زیب نہیں دیتا کہ وہ مخلوق کی طرف اپنی حاجتیں لیکر جائے بلکہ چاہئے یہ کہ ساری مخلوق اپنی حاجتیں لیکر ان کے دروازے پر آئے جن کے دل کو اللہ نے قرآن کے فیض سے مستنیر کردیا ہے۔ اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’بدترین عالم وہ ہے جو امراء کے دروازے پر پایا جائے اور بہترین حاکم اور امیر وہ ہے جو علماء کے دروازے پر کھڑا پایا جائے‘‘۔ اس لئے کہ علماء حامل قرآن ہیں اور کائنات میں کوئی چیز ایسی نہیں جو من و عن اور حرف بہ حرف اس شکل میں موجود ہو جیسے زبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادا ہوئی وہ قرآن اور حدیث ہے۔ قرآن حکیم کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی اور حدیث کی حفاظت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے محدثین کے سپرد فرمائی۔ عاشق لوگ اس قرآن کو اس کے محبوب کی طرف لکھے گئے خطوط سمجھتے ہیں جو رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کے نام اپنی امت کے لئے پیغام بھیجے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے قیامت تک ان پیغامات اور کلمات کو امت کے لئے لکھوا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے یہ مکتوبات، رسائل اور پیغامات من و عن وہی ہیں جو اس نے پہلے لوح محفوظ پھر بیت العزت اور پھر تدریجاً 23 سال کے عرصہ میں لوح قلب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہونے کا وظیفہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام جیسا عمل میں کمربستہ کوئی نہ تھا وہ قائم اللیل اور صائم الدہر تھے ان میں چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے والے بھی تھے۔ بقول شاعر

عطار ہو، رومی ہو یا رازی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی

احکام شریعت کی پابندی عین تصوف ہے کیونکہ شریعت پر عمل کے بغیر کوئی صوفی اور ولی نہیں بن سکتا۔ یہ ان کی زندگیوں کا جز لاینفک تھا مگر ان چیزوں نے انہیں ابدال اور قطب نہیں بنایا۔ یہ اعمال ضرور مددگار ہونگے مگر اصل سبب تین چیزیں تھیں۔

  1. سخاء النفوس (نفوس کی سخاوت)
  2. سلامۃ الصدور (سینوں کی سلامتی)
  3. النصح للامۃ (امت کے لئے خیر خواہی)

نیکی اور بھلائی کرکے بھول جانا سخاوت نفس ہے۔ اس طرح مصائب و آلام پر صابر و شاکر رہنا، دل میں کدورت کا نہ آنا، اپنے پرائے سب سے بھلائی کرنا، کچھ نہ بھی ملے تو غم نہ کرنا بھی سخاوت نفس ہے۔ بخیل شخص کبھی بھی خدا کا ولی نہیں ہوسکتا۔ کسی کو دینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھنا، احسان نہ جتانا، خانوادہ اہل بیت کی طرح تین دن کے روزے کی افطاری کا سامان مسکین، یتیم اور قیدی کو دیکر خود پانی سے روزہ افطار کرنا سخاء نفس کی اعلیٰ ترین مثال ہے اور پھر اس سخاء نفس پر قرآن کا نزول ہونا اور اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ کی گواہی اور لَانُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَاءَ وَّلَا شُکُوْرًا جیسی بے نیازی سخاء نفس کی اہمیت و ضرورت پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ اس میں اہم نکتہ یہ بھی کارفرما ہے کہ اہل بیت کی تین دن کی روٹیوں کے بدلے جنت عطا ہونے کی خوشخبری سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے اہل بیت میری جنت تو تین دن کی روٹیوں کا صلہ ہے۔ اب عمر بھر کے عمل کا صلہ یہ ہے کہ جس کو چاہو جنت میں داخل کردو۔

اسی طرح کسی کے خلاف دلوں میں بغض، عناد بڑائی، تکبر، رعونت نہ رکھنا، اپنے اندر کی میں کو مارنا، محفل میں اونچی نیچی جگہ بیٹھنے سے دل تنگ نہ ہونا سلامۃ الصدور یعنی سینوں کی سلامتی کی نشانیاں ہیں اور النصح للامہ یہ ہے کہ امت کو خیر اور بھلائی کی طرف دعوت دینا، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی اقامت اور ابلاغ کے لئے سفر کرنا، سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا، لوگوں کے ماتھے کے شکن برداشت کرنا، صبر کرنا، دنیا جو بھی برا بھلا کہے دل کو مستغنی رکھنا، دین کی خاطر مصائب و آلام جھیلنا یہ انبیاء کرام کی سنت ہے جنہیں شہید کیا گیا، وطن سے نکالا گیا مگر انہوں نے دین کی دعوت کو نہیں چھوڑا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو مدینہ میں سواری پر بٹھا کر پھرایا گیا اور کوڑے مارے گئے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو جیل بھیجا گیا، کوڑے مارے گئے مگر دین اسلام پر ثابت قدم رہے پھر انہیں وہ مقام ملا کہ رب تعالیٰ نے پردہ ہٹا کر شرف دیدار سے نوازا اور جنت کا دربان مقرر کر دیا۔