ہے خودی کے عارفوں کا مقام پادشاہی

مسز فرح فاطمہ

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر

شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال جو درحقیقت ’’شاعر اسلام‘‘ ہیں، مسلمانان ہند کے لئے ایک عظیم رحمت ربانی ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے ولولہ انگیز اشعار کے ذریعے اس امت کے تن مردہ میں ایک نئی روح پھونکی۔

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ جو دراصل ایک فلسفی شاعر ہیں، انہوں نے اپنی شاعری میں ’’خودی‘‘ کے تصور کو کمال خوبی سے اجاگر کیا۔ خودی کیا ہے؟ اس کے بارے میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے متعدد اشعار رہنمائی کرتے ہیں۔

پروفیسر ہارون الرشید تبسم علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تصور خداوندی اور خودی کو یوں واضح کرتے ہیں :

لفظِ ’’خدا‘‘ فارسی زبان کا مذکر صیغہ ہے۔ جس کے معنی ہیں خود ہی آنے والا اور موجود ہونے والا۔ خودی بھی فارسی کا لفظ ہے لیکن مونث ہے جس کے معنی انسانیت، خود شناسی اور معرفت نفس ہے۔ (اقبال جو اقبال ہے۔ ص : 81)

گویا علامہ اقبال کا تصور خود دراصل ’’خدا‘‘ سے جڑا ہوا ہے۔ عقیدہ توحید کا اقرار کرلینے کے بعد جب انسان کے قلب میں یہ احساس اجاگر ہو جاتا ہے کہ میرا خالق و مالک اللہ واحد رب العزت ہے۔ میں اس کا ادنیٰ سا بندہ ہوں اور صرف اس کے حکم کے تابع ہوں، غلام ہوں، وہ میرا حاکم ہے تو گویا انسان اپنی ذات کی حقیقت کو پالیتا ہے اور یہی معرفت نفس یعنی خودی اسے اس معرفت حق سے ملادیتی ہے۔ صوفیاء کرام سے منسوب درج ذیل قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ.

(ابونعیم، حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، 10 : 208)

گویا خودی اصل میں معرفت حق کا زینہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے کہ جس کے ہر قدم کو طے کرتے کرتے انسان اپنے آپ کواللہ کی مرضی کے اس قدر تابع کرلیتا ہے کہ وہ تخلقوا باخلاق اللہ کا عکس بن جاتا ہے اور صبغۃ اللہ کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے۔ اسی تصور کو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک شعر میں یوں واضح کیا ہے۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

جباری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فلسفہ خودی کی مزید وضاحت ایک موقع پر یوں فرمائی :

’’خودی سے میرا مطلب کچھ اور ہے۔ اسرار خودی میں میں نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ ہر مسلمان بہ حیثیت ایک فرد اپنی اصلاح کرے یعنی قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کا مظہر بن جائے اور بعد ازاں جب یہ منزل نصیب ہوجائے تو اپنے تئیں ایک امیر المومنین کے سپرد کردے جو انہی خواص کا مظہر ہو اور رموز بے خودی کا نکتہ یہی ہے۔ اس میں دنیا کی خیر ہے۔ (سعید راشد، مکالمات اقبال، ص : 181)

گویا انسان اپنے نفس کی حقیقت جان کر اپنے قلب و ذہن کی اصلاح میں مگن ہوجائے۔ خود کو ان تمام خلاف شرع امور سے بچائے جو اسے شرف انسانیت سے نیچے گرانے کا باعث بنتی ہیں اور اللہ کی فرمانبرداری میں ایک عاجز و مسکین غلام بن جائے تو تبھی وہ خودی کا حاصل بن جاتا ہے۔

خودی ایک گنج گراں مایہ ہے۔ اس کی حفاظت کرنے میں ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اس کا ضائع کرنا گویا موت کے مترادف ہے اور یہ اس صورت میں ہی باقی رہ سکتی ہے کہ جب انسان کے سامنے اعلیٰ و ارفع مقاصد ہوں۔ ایک مسلمان کے لئے یہ دنیا مطمح نگاہ نہ ہو بلکہ بلند نظری اس کا وطیرہ ہو۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس تصور کو یوں واضح کرتے ہیں۔

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردراہ ہوں وہ کارواں تو ہے

(طلوع اسلام، بانگ درا، ص : 306)

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دین اسلام کی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا۔ ان کی شاعری میں قرآن اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ غالب نظر آتا ہے تصور خودی بھی انہی ہر دو سے متصل ہے۔

خودی عشق و محبت سے مضبوط ہوتی ہے اور سوال یا دوسروں کی دست نگری سے ضعیف ہوجاتی ہے۔ عشق کسی ایسی ہستی کے ساتھ ہو اور ایسی ہستی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہستی ہے جو ہزاروں جہانوں کے لئے سرمایۂ رحمت اور دوست و دشمن کے لئے مرجع و ماوی ہیں۔ خودی جب سچے عشق و محبت سے لبریز ہوجائے تو دنیا کی ظاہری و باطنی قوتیں انسان کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے اور فقیر بے مایہ کے سامنے بڑے بڑے دبدبے والے سلاطین کانپ جاتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے کہ ان کے زمانے میں فارس، روم، شام، مصر، فلسطین تسخیر ہوئے تو اس کی وجہ کیا تھی۔

(ڈاکٹر محمد معزالدین، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ممتاز حسن کی نظر میں۔ ص : 117)

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلیمانی

(طلوع اسلام، بانگ درا، ص : 270)

المختصر انسان عرفان نفس کی جدید منازل طے کرلیتا ہے تو صرف خدا کی ذات کا خوف اسے دامن گیر رہتا ہے۔ خشیت الہٰی کا یہ جذبہ اسے دیگر مادی قوتوں کے خوف سے بے نیاز کردیتا ہے۔ فلک بوس پہاڑ اس کے سامنے رائی بن جاتے ہیں۔ اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کا سامنا کرنے کا حوصلہ اس میں موجزن ہو جاتا ہے کیونکہ وہ توکل علی اللہ کی رسی کے سہارے قائم دائم ہوتا ہے۔

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا اور دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اس جذبہ خودی کو پہچانیں تاکہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا وقار اور عالی مرتبہ پھر سے حاصل کرسکیں، خودی انسان کو روز روز مرنے کے ڈر سے نکال کر حیات جاودانی کا راستہ دکھاتی ہے اور آگ میں بھی گل و گلزار کا سماں پیدا کرسکتی ہے۔

آج بھی ہو اگر براہین کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

(بانگ درا۔ ص : 205)