ازہر درانی

آتا ہے سکوں دل کو میسر ترے گھر میں سب اعلیٰ و ادنیٰ ہیں برابر ترے گھر میں رہتی نہیں غربت کی شکایت اسے ہر گز ہو جاتا ہے آباد، جو بے گھر، ترے گھر میں لیتے ہیں اسے تھام وہیں بڑھ کے فرشتے کھاتا ہے جو معمولی سی ٹھوکر ترے گھر میں رکھتے ہیں جو پہچان بقا اور فنا کی چمکاتے ہیں وہ آکے مقدر ترے گھر میں کچھ دیر تو شیطان کی چالوں سے بچیں گے یہ سوچ کے آجاتے ہیں اکثر ترے گھر میں صدیوں سے اسے چومنے آتا ہے زمانہ ہے قابلِ صد رشک جو پتھر ترے گھر میں