قرآن اور ذکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : کوثر رشید

گذشتہ سے پیوستہ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’قرآن اور میری اہل بیت رضی اللہ عنہم کو اکٹھا تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے‘‘ (المستدرک، 3 : 118، رقم : 4577) اس پر قاضی ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں بڑی لطیف بات فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اب امت کی اصلاح اور رشد و ہدایت کا کام میری امت کے علماء سرانجام دیں گے اور علماء دو قسموں کے ہونگے۔ علماء ظاہر اور علماء باطن۔ ان کے ذریعے امر شریعت قائم ہوگا، امت کے لئے ہدایت کے راستے کھولے جائیں گے۔ ہر زمانہ میں دین کی تجدید ہوتی رہے گی، اسلام کا احیاء ہوتا رہے گا لیکن نبی کوئی نہیں آئے گا۔ بنی اسرائیل میں ہر نبی کے بعد دوسرا نبی آجاتا تھا مگر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اشارہ دے کر پہلا اعلان یہ کردیا کہ اَناَ مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُهَا (المستدرک، 3 : 137، رقم : 4638) ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہیں‘‘ اس حدیث مبارکہ کو امام بزار، امام طبرانی، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم اور دوسرے ائمہ نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت کے پہلے امام کا نام بتادیا کہ شہر علم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دروازہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر المظہری میں لکھتے ہیں کہ لوگو! ’’اگر تم اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق، گواہی اور شہادت چاہتے ہو تو تمام اولیاء اللہ کے سلاسل کو دیکھ لو۔ اولیاء اللہ کے سب سلسلے مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ پر ختم ہوتے ہیں۔ یہ تمام سلسلے اِلاَّالْمُوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی (بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، 3 : 1289، رقم : 3306) کا راز بتارہے ہیں کہ کُل ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ خود امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ، ان کے نو شیوخ اور نو اساتذہ کرام حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام محمد الباقر رضی اللہ عنہما کے شاگرد تھے۔ اسی طرح تمام ائمہ ظاہرو باطن کا مرجع اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم تھے۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ظاہر کے امام بھی کثرت سے اہل بیت رضی اللہ عنہم میں سے ہوئے اور ولایت کے امام، اولیاء، صوفیاء کثرت سے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم میں سے ہوئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ غوث کیوں کہتے ہو؟ اللہ کے سوا غوث کوئی نہیں ہوتا۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ یہ کل ٹائیٹل اور القاب محدثین کتابوں میں پڑھتے لکھتے چلے آئے ہیں۔ سلسلوں کے تمام امام، اکابر صلحاء اہل بیت و سادات میں سے ہوئے ہیں۔ احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ، غوث المغربی رحمۃ اللہ علیہ کثرت کے ساتھ تمام سلاسل اولیاء، علماء ظاہر، ائمہ اطہار میں سے تھے چونکہ اہل بیت میں سے کثرت کے ساتھ ہدایت کا سامان چلتا تھا اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے قیامت تک متوجہ کردیا کہ میری اہل بیت کو تھامے رکھنا۔ قیامت کے دن بھی میری اہل بیت رضی اللہ عنہم اور قرآن جڑے ہوئے حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان اور زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت رضی اللہ عنہم اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہونگے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے‘‘۔

چوتھا مقام : سورۃ آل عمران

یہ آیت مباہلہ ہے۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو اس میں ساٹھ یا اسیّ کی تعداد میں چوٹی کے عیسائی علماء تھے۔ وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں آئے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سوالات کرنے لگے۔ ان کے ارادے گستاخانہ تھے۔ آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے ان کے سوالات کے جواب دیئے۔ تمام جوابات سن کر انہوں نے کہا کہ کل ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا جواب دیں گے۔ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا ثابت کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مباہلہ کے لئے سوچا اور اگلے روز آکر کہا کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بددعا دینا چاہتے ہیں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذاللہ) آپ ہمیں بددعا دیں۔ جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہوجائے گا۔ وہ دراصل آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت و رسالت اور حقانیت و صداقت پر ایمان نہ رکھتے تھے اس لئے ان کو یہ بات سوجھی۔ آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے قبول کرلیا اور فرمایا مباہلہ کل ہوگا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَO

(آل عمران 3 : 61)

’’پس آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم (ملکر اپنے بیٹوں کو اور تمھارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمھاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلالیتے ہیں پھر ہم مباہلہ (یعنی گڑگڑا کر دعا) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جب وہ صبح کو مباہلہ کے لئے آئے تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت حسن، حضرت حسین، خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو بلوالیا اور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 33 تلاوت فرمائی۔

پانچواں مقام : سورۃ الاحزاب

پانچواں مقام جہاں سیدہ فاطمۃ رضی اللہ عنہا کا قرآن میں ذکر ہوا ہے وہ سورۃ الاحزاب کی درج ذیل آیت کریمہ ہے۔

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO

(الاحزاب، 33 : 33)

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دور کردے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کردے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ آیت کریمہ پڑھنے کے بعد فرمایا : نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ میں اپنے بیٹوں کو بلاتا ہوں تم اپنے بیٹوں کو ساتھ لاؤ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ میں اپنی عورتوں کو بلاتا ہوں تم اپنی عورتوں کو ساتھ لاؤ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ہم اپنی جانوں کے ساتھ آتے ہیں تم بھی اپنی جانوں کے ساتھ آؤ اور اس طرح آمنے سامنے آ کر مباہلہ کرتے ہیں۔ پھر بددعا کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیرکے حوالے سے صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں۔

لَمَّا نَزَلَتْ هذِهِ الْاٰيَةِ عَلَی النَّبِی صلی الله عليه وآله وسلم فَدَعَافَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِکسَاءٍ وَعَلِیُّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اَللّٰهُمَّ هٰوُلَآءِ اَهْلُ بَيْتِيْ.

(ترمذی، السنن، 5 : 351، رقم : 3205، باب : من سورة الاحزاب)

’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (انما یرید۔ ۔ ۔ ) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلاکر ان پر چادر مبارک اوڑھادی۔ پھر عرض کیا اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے نجاست دور رکھ اور انہیں خوب پاک کردے‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آگے اور دائیں بائیں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کھڑے کیا اور اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا : ’’میں اپنے بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما لایا ہوں۔ یہاں پر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کی زبان میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو بیٹے کہا ہے نواسے نہیں کہا۔

سادات کیسے بنے؟

یہاں پر یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کا ہے کہ سادات کیسے بنے؟ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں تو سید کا تصور ہی نہیں تھا۔ اس دور میں ہاشمی، قریشی اور مطلبی خاندان تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان قریش تھا۔ امر الہٰی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو السید کا لقب ملا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بعض تابعین رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کے مطابق یَاسَیِّدُ لفظ یاسین کا ایک معنی ہے۔ تابعین کے اقوال ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : وَاَنَا سَيِّدُ وَلَدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ (المستدرک، 2 : 660، رقم : 4189)’’ میں کل اولاد آدم کا سید ہوں۔ اور مجھے اس پر فخر نہیں‘‘ اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو سید کہا۔ گویا اس کائنات میں پہلے سید تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ دوسری شخصیت جس کو سید کہا وہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَافَاطِمَةُ أَلَاتَرْضِيْنَ اَنَْتکُوْنِيْ سَيِّدَةِ نِسَاءِ الْمُوْمِنِيْنَ اَوْسَيِّدَةِ هٰذِهِ الْاُمَّةِ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الاستئذان، 5 : 2317، رقم : 5928)

’’اے فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کیا آپ اس پر راضی نہیں ہیں کہ آپ مومن عورتوں کی سردار ہوں یا اس امت کی سردار ہوں‘‘۔

السید کا تیسرا ٹائیٹل حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَلْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.

(صحيح ابن حبان، 15 : 411، رقم : 6959)

امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ یوں تین سید ہوئے۔ اب جو امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہونگے وہ بھی سید ہوگئے۔ یاد رکھ لیں سید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نسب نے نہیں بنایا بلکہ سید فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے بنایا۔ حضرت فاطمہ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اور شادیاں بھی ہوئیں، اولاد بھی ہوئی، حنفیہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے مگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بغیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جو اولاد ہوئی وہ سید نہیں بنی، اگر سید علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے نسب سے بنتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساری اولاد سید ہوتی۔ لہذا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے متعین کردیا تھا کہ سید حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نسب سے بنے گا وہ نسب پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نہیں بلکہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئے گا۔ لہذا امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سید ہوئی خواہ امام حسن سے یا امام حسین رضی اللہ عنہما سے۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب نجران کا وفد تیاری کرکے مباہلہ کے لئے آیا تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا جلال اور شہزادے حسن و حسین، سیدہ فاطمۃ الزہراء اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو دیکھ کر ان کے بڑے سربراہ نے اپنے عیسائیوں کے وفد کو روک لیا اور کہا اے گروہ انصار!

’’آج میں وہ چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اپنی زبان سے یہ کہہ دیں کہ اے اللہ یہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹادے تو پہاڑ ہٹ جائیں گے۔ اے میرے عیسائی بھائیو! خدا کے لئے آگے نہ بڑھو اگر اس مباہلہ میں انہوں نے بددعا کردی اور ان کے منہ سے اٰمین نکل گیا تو خدا کی قسم قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی نہیں رہے گا، عیسائیوں کی نسلیں ختم ہوجائیں گی۔ یہ سوچ کر نصاریٰ کا وہ وفد وہیں سے واپس پلٹ گیا اور انہوں نے توبہ کرلی اور کہنے لگے کہ ہم مباہلہ سے تائب ہوکر اپنا چیلنج واپس لیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مذہب پر رہیں اور ہم اپنے مذہب پر رہتے ہیں‘‘۔ (التفسیر المظہری، 1، 2 : 61)

آیت مباہلہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ میں عورتوں کا ذکر ہوا ہے لیکن مباہلہ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو بلایا کسی اور کو نہیں۔ مقصود یہ تھا کہ قیامت تک میری نسل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چلنی ہے سیدہ فاطمہ نہر کوثر اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آیت کریمہ میں وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ اپنی جانوں اور تمہاری جانوں کا ذکر آیا لیکن مباہلہ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان میں شامل کیا۔ اس لئے دوسرے مقام پر فرمایا : عَلِیُّ مِنِّيْ وَاَنَامِنْهُ. علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ (ابن ماجه، السنن، باب فی فضائل أصحاب رسول صلی الله عليه وآله وسلم، 1 : 44، رقم : 118) دوسرے مقام پر فرمایا : اَنْتَ مِنِّيْ وَاَنَا مِنْکَ ’’ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں‘‘۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الصلح، 2 : 960، رقم : 2552)

اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو اپنا نفس قرار دیا۔ گویا سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نسبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تعلق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عطاء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرکز و محور ہیں۔ ان سے جتنی محبت و ادب استوار کریں گے اتنا ہی ایمان پختہ ہوگا اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت بھی پختہ ہوگی۔

آخری کلمہ نصیحت

آخری کلمہ نصیحت جس سے محبت اور قربت نصیب ہوتی ہے وہ سیرت زہراء رضی اللہ عنہا پر عمل پیرا ہونا ہے۔ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا جہاں پیکر عظمت ہیں وہاں پیکر شرم و عصمت و عفت بھی ہیں۔ شرم و حیا کا پیکر فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا جیسا کائنات میں کوئی نہیں ہوا۔ لہذا آپ بھی اپنی زندگیوں میں عصمت وعفت اور شرم و حیاء اتنا بڑھائیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی قربت پالیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خود بھوکی رہ کر یتیموں مسکینوں، اسیروں کو کھلادیتی تھیں لہذا آپ کو تھوڑا ملے یا زیادہ، سخاوت کیا کریں۔ جتنا آپ کا ہاتھ اور دل وسیع ہوگا اتنا آپ جنت کے قریب ہونگیں۔ غریبوں، مسکینوں، رشتہ داروں، ناداروں پر مال خرچ کرنا یہ بھی سخاوت میں سے ہے۔ رشتہ دار، اعزاہ و اقارب، دوست، دشمن ہر ایک کو دینا اور معاف کرتے رہنا، ہر ایک سے بھلائی کرنا، دل کی سخاوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’میری امت کے بڑے بڑے ابدال، اولیاء جنت میں عبادت کی کثرت، نماز، قیام، روزے اور نوافل کی وجہ سے نہیں بلکہ دلوں کی سخاوت کی وجہ سے جائیں گے۔ انہیں جنت میں بڑے درجے دلوں کی سخاوت سے ملیں گے۔ جن کے دل سخی ہوتے ہیں وہ چغلی نہیں کرتے، وہ کسی کے لئے دل تنگ نہیں کرتے، ساس، بہن، بھاوج، رشتہ دار یا غیر رشتہ دار میں سے کوئی اچھائی کرے یا برائی انہیں خاطر میں نہیں لاتے بلکہ اللہ کی رضا کے لئے ہر ایک کو معاف کردیتے ہیں اور ہر ایک سے نیکی و بھلائی کرتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بھی اس کردار کو اپنالیں تو وہ وقت دور نہیں کہ آپ بھی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے قریب ہوجائیں گی۔ کثرت عبادت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا شیوہ تھا۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ خدا کی قسم میں نے اپنی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کسی کو عبادت گذار نہیں دیکھا، رات شروع ہوتی تو میں انہیں مصلے پر محراب میں دیکھتا، سحرہوتی تو میں انہیں سجدے میں دیکھتا، وہ ساری رات عبادت کرتیں‘‘ گویا کثرتِ عبادت کا نام حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہے۔ کثرت شرم و حیا اور عصمت و عفت کا نام حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہے اور کثرت جودو سخا کا نام حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کوثر کے قریب کردے جو کوثر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی رحمت فرمائے اور دعا کرتا ہوں کہ آپ کی مجلس قبول ہو اور اس کے اثرات برکت کے ساتھ دور تک پھیلیں۔ (ناقل۔ حافظ حکیم محمد یونس مجددی)