عشرہ ذی الحج : فضیلت یومِ عرفہ

مرتّبہ : شازیہ شاہین

ذوالحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے احادیثِ مبارکہ میں ماہِ ذوالحجہ کی بہت زیادہ عظمت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’سال کے دنوں میں سے کوئی زمانہ جس میں بے انتہا عمل صالح یعنی نیکیاں و بھلائیاں کی گئی ہوں وہ ماہ ذوالحجہ کے عشرہ سے زیادہ اللہ کومحبوب نہیں ہے۔ لوگوں نے عرض کیا! یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی مساوی درجہ نہیں رکھتا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! ’’جہاد فی سبیل اللہ بھی اللہ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب نہیں‘‘ راوی کا بیان ہے کہ تین مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تینوں مرتبہ یہی جواب عنایت فرمایا : پھر فرمایا البتہ وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کیلئے گیا اور وہیں میدان جہاد میں شہید ہو گیا۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصیام، 5 : 410 رقم : 376)

خصوصاً ذوالحج کے پہلے عشرہ کی افضلیت اس لئے ہے کہ اس میں عرفہ کا دن واقع ہے۔ یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے جس میں حاجی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ اسی میدان میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخی خطبہ حجۃ الوداع بھی فرمایا۔ میدان عرفات کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضرت آدم و حوا علیہماالسلام روئے زمین میں سب سے پہلے اسی مقام پر ملے تھے۔ جس کی وجہ سے اس کو "عرفات" کا نام دیا گیا۔ عرفات ’’عرفہ‘‘ سے مشتق ہے جس کا مطلب پہچاننا ہے یعنی وہ جگہ جہاں بچھڑے ہوئے ایک دوسرے کی پہچان کرلیتے ہیں۔

قرآن حکیم میں اللہ ربّ العزت فرماتا ہے۔

وَلَيَالٍ عَشْرٍO وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِO

( الفجر، 89، 2 - 3)

’’اور دس مبارک راتوں کی قسم اور جفت کی قسم اور طاق کی قسم‘‘۔ (ترجمہ : عرفان القرآن)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ترجمہ عرفان القرآن میں اس کی تشریح بیان کرتے ہیں کہ یہاں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے ان سے مرادعشرہ ذوالحجہ کی راتیں ہیں، "والشفع" سے مراد یوم نحر اور۔ "وتر" سے مراد یوم عرفہ ہے۔ جفت جوڑے کو کہتے ہیں چونکہ یوم نحر 10 ذوالحجہ کو ہوتا ہے اس لئے یہاں الشفع سے یوم نحر (قربانی کا دن) مراد ہے۔ جبکہ الوتر میں یوم عرفہ (9 ذوالحجہ) کی قسم کھائی گئی ہے۔

فضیلت یومِ عرفہ

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "کوئی دن ایسا نہیں کہ جس دن یوم عرفہ سے زیادہ لوگوں کو دوزخ سے نجات دی جاتی ہو"۔ (صحیح مسلم)

ابن حبان حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یوم عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن بھی اللہ کے نزدیک افضل نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دن آسمانِ دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور آسمان والوں کے سامنے زمین والوں پر فخر فرماتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے میرے بندوں کو دیکھو کہ کیسے غبار میں اٹے ہوئے، بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ، دھوپ میں چلتے ہوئے دور دراز سے آئے ہیں۔ میری رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ انہوں نے میرے عذاب کو نہیں دیکھا۔ پس یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن بھی دوزخیوں کو آزاد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ (صحیح ابن حبان)

یومِ عرفہ کے روزے

ذوالحجہ کی یکم تاریخ سے نو تاریخ تک روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے، ان ایام میں سے سب زیادہ فضیلت ساتویں، آٹھویں ذوالحجہ(یوم التراویہ)نویں ذوالحجہ(یوم عرفہ) اور دسویں ذوالحجہ ( یوم نحر) کے روزے رکھنے کی ہے۔

جامع ترمذی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے یوم التراویہ (آٹھویں ذوالحجہ) کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال کے پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف کردے گا‘‘۔ (ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصیام، 5 : 407، رقم : 728)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : ’’ان دس ایام میں اللہ تعالیٰ کو جس قدر یہ بات پسند ہے کہ محنت و کوشش کرکے اس کے عبادت گزار (بندے) بنیں اس سے بڑھ کر اور دنوں میں پسند نہیں۔ ان دس ایام میں سے ہر یوم کا روزہ ایک برس کے روزوں کے برابر ہے۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الصیام، 5 : 411، رقم : 737)

ذیل میں ان چند اوراد و وظائف کا ذکر کیا جاتا ہے جو صوفیاء کرام کے معمولات تھے۔

یوم عرفہ کے وظائف

عرفہ کے دن کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی ایک وظائف مروی ہیں اس کے علاوہ علماء ومشائخ بھی اپنے سلاسل میں درود و وظائف کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہم یہاں چند وظائف نقل کررہے ہیں جو سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی کتاب غنیۃ الطالبین (1، 28۔ 32) سے لئے گئے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام عرفات میں قبلہ رو ہوکر دعا کرنے والے کی طرح دست مبارک پھیلا کر تین مرتبہ لبیک فرماتے پھر ایک سو مرتبہ یہ فرماتے۔

لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه وَحْدَه لَاشَرِيْکَ لَه وَلَه الْمُلْکُ وَلَه الْحَمْدُ يُحْيِیْ وَيُمِيْتُ بِيَدهِ الْخَيْر وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَئْیٍ قَدِيْرٌ.

پھر ایک سو مرتبہ یہ مبارک کلمات ارشاد فرماتے :

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِيْمِ اَشْهَدُ اَنَّ اللّٰهَ عَلَی کُلِّ شَئْیٍ قَدِيْرٍ وَاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَئْیٍ عِلْمًا. (ترمذی)

اس کے بعد تین مرتبہ فرمائے :

اِنَّ اللّٰهَ هُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْم.

پھر تین مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھتے۔ ہر مرتبہ بسم اللہ سے شروع فرماتے اور آمین پر ختم فرماتے : اس کے بعد سو مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ یہ پڑھتے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی النَّبِیْ الْاُمِّیْ وَرَحْمَتُهُ وَبَرَکَاتُهُ.

پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو چاہتے دعا فرماتے اور فرماتے جو شخص اس طرح دعا کرتا ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں سے فرماتا ہے۔ میرے بندے کو دیکھو! اس نے میرے گھر کی طرف رخ کیا، میری بندگی بیان کی، تسبیح و تہلیل میں مشغول ہوا اور جو سورۃ (اخلاص) مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی وہی پڑھی اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک بھیجا۔ میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کے عمل کو قبول کیا اس پر اجر کو واجب کردیا، اس کے گناہ

بخش دیئے اور اس نے جو کچھ مانگا میں نے اس کی سفارش قبول کی۔