رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات

ناصر رضا گوندل

اسلام دشمن طاقتوں نے عرصہ دراز کے غوروخوض کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلمانوں کے ایمان کی جان اور روح کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ محبت و ادب کا رشتہ ہے اگر اس ذات بابرکات کے ساتھ محبت و ادب کے رشتے کو پہلے کمزور اور بعد ازاں کاٹ دیا جائے تو پھر یہ نام کے مسلمان رہ جائیں گے۔ ان کے اندر ایمان کی حرارت ختم ہوجائے گی، ان کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی، یہ فرقوں میں بٹ جائیں گے پھر Devide rule کے تحت ان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا، ان پر حکومت کرنا اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا اور بڑی سوچ بچار کے بعد اس کے لئے یہ حکمت عملی تیار کی گئی کہ ایسا فکر Develope کرو کہ مسلمانوں کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقلی، ذہنی، فکری اور اعتقادی رشتہ تو برقرار رہے لیکن اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دل، روح اورعشق و محبت کا رشتہ کٹ جائے۔ مہلک گھناؤنی سازش کا انکشاف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کیا ہے کہ

وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد (ص) اس کے بدن سے نکال دو

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

اس سازش کی ابتدا مسلمانوں کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ پر حملے کی صورت میں جھگڑوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردو اور دین کا ایسا خشک تصور پیش کرو جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے عمل پر زور تو ہو لیکن ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و ادب کا رشتہ کمزور ہوجائے بلکہ کلیۃً کٹ جائے۔ انہوں نے اس فکر کو آگے بڑھایا کہ یوں نہ کہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ مانو بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کو تقسیم کردو اور یہ سوچ دی کہ اصل دین تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل ہے۔ مغربی استعمار نے سوچا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے تعلق عقلوں کے مطابق رہ جائے گا تو تعلیمات پر عمل خودبخود دھوکہ، منافقت اور ریا کاری بن جائے گا اور وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگا۔

جب جسم سے روح نکل جاتی ہے تو جسم میں کوئی کمی نہیں آتی۔ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک جسم جوں کا توں رہتا ہے۔ صرف جسم سے روح نکلنے سے اس کا نام بدل جاتا ہے پھر لوگ اسے مردہ کہنے لگتے ہیں یوں کیفیت، حیثیت بلکہ اہمیت بھی بدل جاتی ہے۔ اس طرح ایمان کا ایک جسم ہے اور ایک روح ہے جسم تعلیمات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور روح ختم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

برطانوی سامراج نے غور و خوض کیا کہ جسم کا کوئی حصہ کاٹا تو پتہ چل جائے گا۔ لہذا sugar coated قسم کی کوئی گولی کھلاؤ اور جسم کے اندر سے روح نکال دو تاکہ امت مسلمہ کو اس ناپاک پیچیدہ سازش کا پتہ بھی نہ چل سکے۔

تحریک منہاج القرآن کا مقصد وحید

جہاں تحریک منہاج القرآن کے کئی اور بھی مقاصد ہیں وہاں اس تحریک کا اصل مقصد ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حُبّی، قلبی اور والہانہ تعلق کے احیاء کے لئے ماحول سازگار بنانا بھی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کو اس سازش کا بھرپور ادراک ہے کہ جب امت مسلمہ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے حُبّی و عشقی تعلق ختم ہوجائے گا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام سن کر دل اور روح میں حرارت اور تپش محسوس نہ ہوگی تو پھر یہ مردہ امت غلامی کے شکنجے میں جکڑ دی جائے گی۔

اس امت کو عروج پر لانے اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کا فقط ایک ہی حل یہ ہے کہ اس امت کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منقطع تعلق کو پھر سے بحال کیا جائے۔ یہ امت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر دل و جاں نثار کرنے والی باوقار امت بن جائے اوراس کے لئے ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر بحث و مناظرے ختم کرنے کا رواج ڈالا جائے۔ نوروبشر کے جھگڑے ختم کئے جائیں، حاضر وناظر کی بحثوں کو روکا جائے، سیرت ومیلاد پر مناظرے بند کئے جائیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کو ماپنے کے پیمانے توڑ دیئے جائیں۔

تحریک منہاج القرآن یہ چاہتی ہے کہ نعت سنیں تو ادھر آنسوؤں کی برسات ہو، اُدھر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہو، ادھر ان کے دیدار کی خواہش مچل مچل اٹھے، اُدھر زلف عنبریں کا ذکرہو، ادھر چہرہ والضحٰی کی زیارت کی تڑپ پیدا ہونے لگے، اُدھر گنبد خضریٰ کی ہریالیوں کی بات ہو۔

ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر تا پا رسالت ہے

قرآن مجید نے ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک شخصیت کی بجائے سراسر پیکر نبوت و رسالت کے روپ میں متعارف کروایا ہے تاکہ ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف محض ایک انسانی و بشری شخصیت کی حیثیت سے نہیں بلکہ صاحب نبوت کی حیثیت سے منسوب ہو۔ فرمان عالیشان ہے مَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. (آل عمران 3 - 144) ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (سرتاپا) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن) لفظ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اطلاق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے جس گوشے اور پہلو پر ہوتا ہے۔ وصفِ رسالت بھی اسی گوشے اور پہلو پر محیط ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، رسالت سے جدا ہے نہ ہی رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے علیحدہ۔

ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدم، تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موخر

قرآن حکیم مذکورہ آیت میں ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پہلے اور تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بعد میں کررہا ہے۔ گویا ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے اور تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعد میں مانو۔ اگر ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیار ہوگا تو تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل بھی بارگاہ ایزدی میں قبول ہوگا کیونکہ تعلیمات کا صدور اسی ذات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہورہا ہے۔ کچھ باتیں ذات سے منسلک ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں تعلیمات سے تعلق رکھتی ہیں۔ میلاد، نور و بشر، حاضر و ناظر، علم غیب، معجزات، درود و سلام، نعت، شفاعت اور محبت و ادب یہ سب مسئلے ذات سے متعلق ہیں۔

ہم لوگ جشن نزول قرآن تو دھوم دھام سے مناتے ہیں لیکن جونہی جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ ہو تو ہم بدعت کے فتوے گھڑنا شروع کردیتے ہیں۔ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت ہمارے دلوں پر دستک اور ہمارے ذہنوں کے لئے لائق فکر ہے، اگر ذات کو نہ مان کر فقط تعلیمات کا پرچار کیا تو یہ اسلام کے ایک جزو کو ماننے اور دوسرے کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ جزئیت پسندی اور فرقہ واریت کا یہ طرز عمل خطرناک ہے اور قرآنی تعلیمات سے انحراف بدعت سیۂّ ہے۔ جس نے بدعت کا آغاز کیا تو گویا اس کے معتقدین کا عذاب بھی اس کے بانی کے سر ہوگا۔ ہمارا یہ عمل أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ. (البقرہ، 2 : 8) کے زمرے میں آئے گا۔ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کے اثرات کا ظہور اس وقت نظر آئے گا جب ذات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمال درجہ کی محبت و ادب کے تقاضے پورے ہوں گے کیونکہ ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور ناقص رہ جانے سے تعلیمات کا تصور کامل نہ ہوسکے گا۔

ذات و تعلیمات بارے قرآنی ترتیب

اگر ہمارے ذہنوں میں یہ خیال فاسد آئے کہ ذات کو تعلیمات پر مقدم کرنے کا تصور محض غلو کرنے والوں کا تصور ہے اور اسلام تو صرف اور صرف تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجموعہ ہے تو آیئے اس فاسد خیال کو بھی ذہن سے نکالنے کے لئے اس کی سند بھی قرآن مجید سے لیتے ہیں۔

فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ.

(اعراف 7 : 157)

’’پس جو لوگ اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کی ذات) پر ایمان لائے اور ان کی (ذات کا)کمال درجہ ادب کیا اور ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے دین) کی مدد کی اور ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اتارے گئے نور کی پیروی کی‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

مذکورہ بالا آیت میں تعلق کی ترتیب کو ملاحظہ فرمائیں۔ ایمان اور تعظیم کا تعلق کیونکہ ذات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اس لئے قرآن حکیم نے ان کو پہلے بیان کیا جبکہ آخری دو باتوں نصرت و اتباع کا تعلق تعلیمات سے ہے قرآن حکیم نے ان کا ذکر موخر کیا۔ اب صرف اور صرف تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین کل سمجھ لیا جائے اور ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی وابستگی، حُبّی تعلق اور تعظیم وتکریم کی نسبت کو اصل دین میں اہمیت نہ دی جائے تو فی الحقیقت یہ اصل دین سے فرار ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے امتیازی مقام کی وجہ

قرآن حکیم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے حُبّی تعلق کو بھی اجاگر کیا ہے۔ فرمان الہٰی ہے۔ وَالَّذِينَ مَعَهُ۔ (فتح 48 : 29) یعنی وہ صحابہ رضی اللہ عنہم جن کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے گرد پروانوں کی طرح رہتے ہیں ان کی یہ معیت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے تعلق ہی تو تھا جو تعلیماتی تعلق پر فائق تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے محبت و ادب کا رشتہ، جزئیت پر مبنی خودساختہ، نام نہاد تحقیق سے زیادہ عزیز تھا لہذا آج تعلیماتی تعلق پر عمل کرکے غوث، قطب، ابدال، امام، مجتہد، مجدد، عالم، مفسر، محدث اور مفتی تو کہلوایا جاسکتا ہے لیکن صحابی نہیں بنا جاسکتا۔ صحابی وہی بنا جس نے حیات ظاہری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ذاتی تعلق کو مضبوط کیا اور یہاں ایک احتیاط بھی ملاحظہ رہے کہ جس نے ادب و محبت (ذاتی تعلق) سے صرف نظر کیا اس کی نصرت و اتباع (تعلیماتی تعلق) کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہے گی کیونکہ جڑ اور تنے کے بغیر پھل، پھول اور پات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے علماء کرام کا کردار

نسبت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ربط ذات مقدم اور ربط تعلیمات موخر ہے۔ وہ علماء کرام جو تعلیمات کو تو اہمیت دیتے ہیں لیکن تاجدار انبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ان کے نزدیک دین و ایمان کی اساس ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط تعلیماتی تعلق ہے حُبّی و ذاتی تعلق نہیں۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے قلبی محبت، وجدانی تعلق اور روحانی عشق کی نسبت پیدا کرنے کو تکمیل ایمان و عرفاں اور ادائیگی تقاضائے دین کے لئے ضروری نہیں گردانتے بلکہ ان امور پر زور دینے کو شخصیت پرستی کے ذیل میں تصور کرنے لگتے ہیں اور بارگاہ نبوت کے ساتھ اس عشقی و ادبی تعلق کے تقاضوں کو اپنے خودساختہ تصور توحید کی خالصیت کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان علماء حضرات نے ایک عام آدمی کو بھی اسی وہم میں مبتلا کردیا ہے۔

نتیجتاً ایسی تمام احادیث اور روایات جن کے ذریعے بنیادی طور پر ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی عظمت، عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت و اہمیت اور ادب و تکریم رسالت کے مضامین ثابت ہوں اور تقویت پائیں ان پر ان کی تنقید کا نشتر دانستہ طور پر زیادہ شدت سے چلتا ہے کیونکہ یہ احادیث و روایات ان کے اپنے وضع کردہ خشک تصور دین سے مطابقت نہیں رکھتیں اس لئے اس طرح کا سارا مواد جو فضائل نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی گئی قدیم اور مستند کتب سے ملتا ہے جن کے مصنفین ومولفین عام اخباری مورخ اور خشک ذہن سیرت نگار نہیں بلکہ بلند پایہ محقق، محدث، مفسر اور فقہیہ ہیں اور ان کا شمار اکابر ائمہ دین میں ہوتا ہے۔ دور جدید کے اکثر سطحی سیرت نگار اسے رطب ویابس اور موضوع باطل قرار دے کر رفتہ رفتہ نئی کتب سیرت میں نکالتے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ نام نہاد کوشش ایمان کے خلاف ایک خطرناک فکری سازش ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ کو اپنے لٹریچر کے ذریعے خدا کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ محبت و ادب کو پہلے کمزور کرنے اور بعد ازاں کاٹنے کا مقصد پورا کیا جارہا ہے۔ یہ سازش بنیادی طور پر مغربی سامراج نے مسلمانوں کے اندر اعتقادی فتنہ اور دینی تفریق پیدا کرنے کے لئے تیار کی تھی اور یہی سامراجی طاقتوں کا ہدف تھا اور ہے جس کا شکار لاشعوری طور پر کئی مسلمان علماء بھی ہوگئے پس یہ وہی ’’دینی فکر‘‘ ہے جس کا خمیر سر زمین حجاز میں نہیں بلکہ سر زمین مغرب میں اٹھایا گیا تھا۔

قرآن اور ذکر ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرآن پاک پڑھتے ہوئے اہل ادب، اہل محبت اور اہل نظر کو حرف حرف، سطر سطر، ختم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا ذکر نظر آئے گا فرمان الہٰی ہے :

وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ.

(الانفال 8 : 33)

’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیب مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں‘‘۔(ترجمہ عرفان القرآن)

یہاں بھی اَنْتَ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے تعلق نہ بنانے والوں کو منافق قرار دیا۔

یہاں منافقین کا قرآن (تعلیمات) کی طرف آنے سے انکار کا ذکر نہیں۔ قرآن (تعلیمات) کی طرف تو بھاگ بھاگ کر آتے ہیں مگر ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (صاحب قرآن) کی طرف سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن (تعلیمات) سے ایسے تعلق کو نفاق کہا اور ایسا تعلق بنانے والوں کو منافق قرار دیا ہے۔ منافقین کا وجود روز اول سے آج تک اسلام کے روشن ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ قرآن (تعلیمات) اور صاحب قرآن (ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں سے بیک وقت تعلق ناگزیر ہے۔ کسی ایک کو چھوڑ کر دوسرے سے تعلق جوڑنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ قرآن (تعلیمات) کو چھوڑ کر صاحب قرآن کی معرفت نصیب نہ ہوگی اور صاحب قرآن کو چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع، خود قرآن نے منافقت ٹھہرادی ہے۔ دونوں سے تعلق لازم وملزوم ہے۔ یاد رہے ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و ادب اور نصرت و اتباع کی نسبت جوڑنا ہی قرآن فہمی ہے۔ ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنے سے ہی رجوع الی القرآن عملاً متحقق ہوتا ہے ورنہ

ایں خیال است و محال است وجنوں

پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ میری ذات کو اپنے والدین، اولاد اور دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ بنالے‘‘۔ (بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، 1 : 14، رقم : 15)

صرف ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او ر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت ہی ہے جس کے ساتھ ایمانی تعلق و اطاعت ہمیں کو ایمان سے بہرہ ور کرسکتی ہے اور ان کا انکار کفر پر منتج ہوتا ہے۔ لہذا نسبت ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دراصل اسلام ہے اور کفر کے درمیان حد فاصل اور حق و باطل کے مابین خط امتیاز نسبت ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے مُحَمَّدُ فَرَّقَ بَيْنَ النَّاسِ.  (بخاری) کہ خود ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں (حق و باطل) میں خط امتیاز قائم فرما دیا ہے۔

یہ بات اپنے دل ودماغ میں بٹھالینی چاہئے کہ اسلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و تعلیمات کے مجموعے کا نام ہے۔ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کو جوکہ سراسر پیکر رسالت ہے عین دین سے الگ تصور کرلیا جائے تو اہل اسلام کے پاس نہ وجود باری تعالیٰ کی کوئی یقینی تحقیق، نہ توحید و الوہیت کی ناطق تصدیق، نہ قرآن کے وحی الہٰی ہونے کی کوئی حتمی سند اور نہ ہی اسلام کی صحت و حقانیت کی کوئی قطعی دلیل باقی رہ جاتی ہے۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و تعلیمات کو یکجا کرکے ذہن میں رکھنا حقانیت اسلام کے ادراک اور حق و باطل میں تمیز کے لئے ناگزیر ہے۔