قائد محترم کے خطابات سن کر خواتین نے اسلامی کلچر کو اپنایا ہے

شیخ زاہد فیاض

شیخ زاہد فیاض مرکزی نائب ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن سے ایک انٹرویو

گذشتہ سے پیوستہ

انٹرویو پینل : محمد حسین آزاد الازہری، کوثر رشید

پینل : قائد تحریک کی کس چیز سے آپ سب سے زیادہ متاثر ہوئے؟

نائب ناظم اعلیٰ : یوں تو حضور شیخ الاسلام کی شخصیت کے بہت سے گوشے ہیں جہاں انہیں پوری امت مسلمہ کا درد ہے۔ تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصلاح احوال امت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق مصطفی کو عالمی سطح پر فروغ دے رہے ہیں۔ اعلیٰ علمی مقام و مرتبہ کے حامل ہیں۔ عالمی سطح پر تبلیغ اسلام اور تجدیدی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ چھ ہزار سے زائد موضوعات پر خطابات کے علاوہ تین سو سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ یہاں ایک ایسا پہلو جو میں نے قریب سے ہوکر دیکھا جس نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ 1996ء میں جب قائد محترم، صاحبزادہ حسین محی الدین قادری صاحب کے علاج کے سلسلے میں فرانس میں دو ماہ تک مقیم رہے۔ اس دوران میں نے اپنے عظیم قائد کو حسن اعمال، حسن احوال اور حسن اخلاق کا ایک چمکتا ستارہ پایا۔ میں نے دیکھا کہ آپ حسن اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اس طرح کا اخلاق حسنہ میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا اکثر دینی قیادتیں دوسروں کو عمل کی دعوت تو دیتے ہیں مگر اکثر و بیشتر اپنے گھروں میں اس کی جھلک نہیں ملتی جبکہ حضور شیخ الاسلام کا عملی کردار یہ ہے کہ آپ کے اہل خانہ، صاحبزادیاں اور صاحبزادگان سب اپنے عظیم والد گرامی کی عملی تصویر اور اخلاق حسنہ کے پیکر ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جب میں یہ سنتا اور پڑھتا ہوں کہ ولایت اور تصوف کا منبع اور سرچشمہ حسن اخلاق ہے تو میری توجہ فوری طور پر حضور شیخ الاسلام اور انکی فیملی کی طرف مبذول ہوجاتی ہے جس پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے اس عظیم قائد کا سپاہی بننے کا شرف عطا کیا۔

پینل : آپ نے فرانس میں کافی عرصہ گزارا۔ پاکستان اور یورپ کے دونوں معاشروں کو دیکھا۔ ان دونوں میں اسلام کے حوالہ سے کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

نائب ناظم اعلیٰ : اسلام جس طرح کے معاشرتی نظام کا درس دیتا ہے اس کی عملی صورت بیرون ممالک اور بالخصوص غیر مسلم ممالک میں نظر آتی ہے۔ وہاں پیسے کی بنیاد پر کسی کی عزت نہیں کی جاتی، کسی کا حق غصب نہیں کیا جاتا بلکہ لوگوں میں حسن اخلاق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ پاکستان کے معاشرتی نظام سے وہاں کا نظام بہت بہتر ہے۔ وہاں لوگوں کے قول و فعل میں تضاد نہیں۔ انہوں نے دین اسلام کا مطالعہ کرکے ہر وہ اچھا عمل جو ایک انسان کامل کا ہوتا ہے اپنایا ہوا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہمارے ہاں لوگوں کے اخلاق بہت پست ہیں، وعدہ پورا نہیں کیا جاتا، ہمارے 80 فیصد مسائل تعلیمات قرآن و سنت پر عمل نہ کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ فیملی کے اندر Tension ہے۔ ماحول پرسکون نہیں۔ حلال و حرام کی تمیز نہیں کی جاتی۔ ایک دوسرے کا حق کھایا جاتا ہے اور یہ سب مسلمانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔ ہر کوئی دوسرے کے معاملات پر نظر رکھتا ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے کچھ اچھائیاں ہمارے معاشرے میں اب بھی ہیں جو وہاں نہیں مثلاً شرم و حیاء ہے، بزرگوں کا احترام ہے، عورت کی عزت ہے، فحاشی عریانی نہیں ہے مگر ان کا معاشرہ ان چیزوں سے محروم ہے۔

پینل : یورپ میں مسلم خواتین خصوصاً ویمن لیگ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اور وہ ان مشکلات میںکیسے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتی ہیں؟

نائب ناظم اعلیٰ : اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ میں بھی منہاج القرآن ویمن لیگ مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہے۔ اس وقت ہالینڈ، ناروے، سپین، فرانس، اٹلی، ڈنمارک، UK، جرمنی میں منہاج القرآن ویمن لیگ دعوت دین کے لئے اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اور ان کی شبانہ روز کاوشوں سے خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی آرہی ہے۔ قائد محترم کے خطابات کے ذریعے خواتین اور نوجوان بچیوں نے شرم و حیا کا لباس زیب تن کرلیا ہے۔ اس کے لئے انہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا بالخصوص یورپ میں کئی مسائل پیدا ہوئے۔ سکارف کا مسئلہ کھڑا ہوا لیکن انہوں نے سکارف اوڑھنا برقرار رکھا۔ علاوہ ازیں انہیں دیگر کئی اس طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے لیکن وہ انہیں اپنی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتیں اور تسلسل کے ساتھ مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔

پینل : آپ اپنے ذاتی فیصلہ جات میں مشن کو کس حد تک مدنظر رکھتے ہیں؟

نائب ناظم اعلیٰ : جب ہم اپنی ذات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وقف کردیں تو پھر ذات کی نفی ہوجانی چاہئے اور مشن ہی سب کچھ ہونا چاہئے۔ ہمارا مشن عین اسلامی طرز پر ہے اس لئے ہمیں بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ قائد محترم نے جب مجھے پاکستان آنے کا حکم فرمایا تو پہلے مجھ سے پوچھا کہ بچوں کی کفالت کون کرے گا؟ جب میں نے انہیں مکمل طور پر مطمئن کیا تب انہوں نے مجھے پاکستان آنے کی اجازت دی۔ یہ حق ہے کہ ہم مشن کا جو عظیم کام کررہے ہیں وہ جہاد ہے۔ مشن کے لئے ہمارا ایک قدم اٹھانا کئی سو سال کی نفلی عبادت سے افضل ہے۔ جہاد کا مطلب کوشش کرنا ہے اور ہم بھی دن رات دعوت دین کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ مشن فرسٹ یہ ہمارا نعرہ ہونا چاہئے اور باقی تمام چیزوں یعنی اپنا آرام اور ذاتی معاملات کو دوسری ترجیح پر رکھنا چاہئے۔ منہاج القرآن کسی فرد کا محتاج نہیں بلکہ ہم سب اس کے محتاج ہیں۔ لیکن مشن کے ساتھ اپنے گھریلو فرائض کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں توازن رکھنا چاہئے۔

پینل : آپ کی زندگی کا کوئی دلچسپ اور خوشگوار واقعہ جو اب بھی آپ کے لئے یادگار ہو۔

نائب ناظم اعلیٰ : جب جولائی 2003ء میں قائد محترم فرانس کے دورے پر تشریف لے گئے اس وقت صاحبزادہ حسین محی الدین قادری زیر علاج تھے۔ اسی دوران جب ان کی ٹانگ کا آپریشن کامیاب ہوا تو اس خوشی میں حضور شیخ الاسلام نے صحت افزاء مقام پر جانے کا ارادہ فرمایا جو اٹلی اور سویٹزر لینڈ کے سنگم میں خطرناک پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہ ایک خوبصورت وادی ہے۔ اس سفر میں ہم آٹھ لوگ آپ کے ہمراہ تھے۔ سفر کے دوران ایک برفانی چوٹی پر جانے کا فیصلہ کیا جو کہ 2 خطرناک لفٹوں کے ذریعے ممکن تھا۔ برفانی چوٹی پر نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ قائد محترم نے اس خطرناک مقام پر نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا تو میں نے عرض کیا : حضور! اگر آپ اجازت فرمائیں تو ہم نیچے جاکر نماز ادا کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو کسی کی نماز جنازہ بھی پڑھانی پڑ جائے۔ میرے اس فقرے سے آپ بہت محظوظ ہوئے لیکن ہم نے وہیں نماز ادا کی۔ قائد محترم کے ساتھ یہ میری زندگی کا یادگار سفر تھا جو مجھے اب بھی فرحت بخشتا ہے۔

پینل : QTV اور ARY پر شیخ الاسلام کے خطاب سن کر تحریک میں لوگوں کی شمولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔ ان نئے لوگوں کو رفیق اور کارکن بنانے کے لئے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟

نائب ناظم اعلیٰ : QTV پر خطابات چلنے کے بعد پورے ملک بلکہ پوری دنیا میں قائد تحریک کے حوالے سے لوگوں کے دلوں میں محبت و عقیدت کی ایک نئی لہر چلی ہے جسے کیش کرانے کی ضرورت ہے۔ تنظیمات اس پر محنت کررہی ہیں مگر ابھی مزید محنت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں مسلسل ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔

پینل : بے مقصد زندگی کو کیونکر بامقصد بنایا جاسکتا ہے؟

نائب ناظم اعلیٰ : زندگی کو بامقصد بنانے کے لئے سب سے پہلے آپ کے اندر یہ احساس اجاگر ہونا ضروری ہے کہ آپ کو دوسروں کے لئے جینا ہے۔ ہمیں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ زندگی خدمت خلق کا نام ہے بقول شاعر

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

قرآن حکیم کا مطالعہ کریں تو اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسروں کے ساتھ بھلائی کے لئے پیدا کیا ہے۔ دوسروں کے لئے جینا اور اللہ سے تعلق جوڑنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ جو عمل انسان خود کرتا ہے اس کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ آیا کہ وہ درست ہے یا نہیں، یہ عمل جنت میں لے جارہا ہے یا جہنم میں ڈال رہا ہے لیکن جو عمل دوسروں کی بھلائی کے لئے کیا جاتا ہے وہ کبھی رد نہیں ہوتا۔ جب انسان کو یہ احساس ہوجائے کہ میں نے دوسروں کے لئے زندہ رہنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر اسے ایک ایسی جماعت کو اختیار کرنا چاہئے جو دوسروں کی بھلائی اور فلاح کے لئے سرگرم عمل ہو تاکہ وہ اس کے ساتھ مل کر اپنی منزل کو جلد پاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کا مطالعہ کثرت سے کرے۔ احادیث مبارکہ کو پڑھے اور قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش میں لگا رہے۔ اس کے لئے بہترین ذریعہ قائد محترم کے خطابات کو ریگولر سننا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ پہلے اپنی اصلاح کرے اور پھر پورے معاشرے کی۔ پورے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا تنہا انسان نہیں اٹھا سکتا جب تک وہ کسی تحریک یا جماعت کے ساتھ منسلک نہ ہوجائے یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہئے۔

پینل : آپ کی کوئی دلی خواہش جس کے پورا ہونے کا آپ کو شدت سے انتظار ہو؟

نائب ناظم اعلیٰ : میری زندگی کی پہلی اور آخری خواہش یہ ہے کہ میرے قائد کی حیات میں مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہو اور اس قوم کا مقدر بدل جائے۔

پینل : رفیق یا کارکن بنانے کے لئے Motivation کا بہترین اور کامیاب طریقہ کونسا ہے؟

نائب ناظم اعلیٰ : ہمارا نعرہ یہ ہے کہ ’’کیسٹ سنیں گے سنائیں گے گھر گھر تک پہنچائیں گے‘‘ کیونکہ انقلاب بذریعہ دعوت اور دعوت بذریعہ کیسٹ دو ہی چیزیں ہیں کسی کو رفیق بنانے کے لئے پہلا قائد محترم کا خطاب، دوسرا آپ کا اپنا کردار۔ آپ کا اپنا کردار قائد محترم کے فرمان کے مطابق ہونا چاہئے اور قائد محترم کے خطابات مسلسل سناتے رہیں پھر مشن میں شمولیت کی دعوت دیں۔ جب کوئی رفیق بن جائے تو پھر عملی طور پر کسی ذمہ داری میں لائیں وہ خود بخود کارکن بن جائے گا۔

پینل : آپ کی زندگی کا کوئی خوشگوار لمحہ جو اب آپ کے لئے سرمایہ حیات بن چکا ہو؟

نائب ناظم اعلیٰ : عملی طور پر جس دن تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اپنا آپ قائد کے سپرد کیا وہ لمحہ میری زندگی کا سرمایہ حیات بن گیا ہے۔

پینل : بیوی، بچے، فیملی اور عزیز و اقارب کو وقت دینا، پھر ملک بھر کے دورے، تقریباً چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی ان سب کے لئے وقت کو کیسے تقسیم کرتے ہیں؟

نائب ناظم اعلیٰ : میری فیملی تو فرانس میں ہوتی ہے اس لئے سارا وقت مشن کے لئے ہی ہوتا ہے۔ میرے کام کا آغاز صبح 30 : 9 بجے سے ہوتا ہے اور رات 00 : 1 یا 00 : 2 بجے تک جاری رہتا ہے۔ جس رات میں اور ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی 10 یا 11 بجے گھر چلے جائیں وہ دن ہمیں عجیب سا لگتا ہے کہ شاید آج کوئی مشن کا کام رہ گیا ہے۔ مرکز اور فیلڈ میں متحرک کارکنان کا بھی تقریباً یہی شیڈول ہوتا ہے۔

پینل : آپ اپنے پیچھے کیسی قیادت چھوڑ رہے ہیں؟ ایک کارکن کے اندر قائدانہ صلاحیتیں کیسے پیدا ہوسکتی ہیں؟

نائب ناظم اعلیٰ : سب سے پہلی چیز اعتماد ہے۔ جو تحریک کے ساتھ مخلص ہے اس کو حضور شیخ الاسلام کا فیض ملتا ہے۔ اس کو کام کرنے کے طریقے بھی وہ خود ہی سکھا دیتے ہیں۔ اس وقت جو موجودہ قیادت ہے وہ اپنی انتھک محنت سے سامنے آئی ہے۔ ان کے اندر اخلاص ہے۔ اخلاص ڈاکٹر صاحب کے خطاب سننے اور عمل کرنے سے آتا ہے۔ سب سے بڑا ذریعہ قائد محترم کے خطابات ہیں۔ اخبارات اور عالمی حالات کا مطالعہ کرتے رہیں۔ اپنے آپ کو Up date رکھیں۔ پبلک کو Face کریں۔ اپنے علم میں اضافہ کریں۔ مطالعہ کی عادت بنائیں۔ عالمی حالات کو دیکھتے رہیں۔ تنظیمی لٹریچر کے بارے میں معلومات رکھیں۔ یہ تمام چیزیں قائدانہ صلاحیتوں کو جنم دیتی ہیں۔ اپنے قائد اور مشن کے کارکنان سے محبت کریں جو کارکنان سے محبت نہیں کرتا اس میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا نہیں ہوسکتیں۔

پینل : کیا آپ موجودہ تنظیمی صورتحال سے مطمئن ہیں؟

نائب ناظم اعلیٰ : تحریک کے مقاصد کو دیکھتا ہوں تو فیلڈ کے کام سے مطمئن نہیں ہوں کیونکہ ہماری تحریک ابھی تحصیل لیول تک پہنچی ہے یونین کونسلز میں پہنچنا شروع ہوئی ہے ابھی اسے نیچے یونٹ لیول تک لیکر جانا ہے پھر کروڑہا انسانوں تک ابھی قائد محترم کی آواز و پیغام پہنچانا ہے۔ اس پر مرکز سے لیکر نیچے تک سب محنت کررہے ہیں مگر بہت سا کام ابھی باقی ہے لیکن بہت حد تک مطمئن بھی ہوں کہ نئے لوگ تحریک میں شامل ہورہے ہیں۔ تنظیمات بڑھ رہی ہیں۔ ہر ہر شعبے میں تحریک ترقی کر رہی ہے۔ قائد محترم ملک سے باہر ہیں مگر کارکنان مشن کے کام میں سست نہیں پڑے۔

پینل : آخر میں آپ دختران اسلام کے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

نائب ناظم اعلیٰ : دختران اسلام کے قارئین کے لئے یہی پیغام ہے کہ وہ اس مجلے کا تسلسل سے مطالعہ کریں اور ہر ماہ کم از کم کسی ایک مضمون کو پڑھ کر ممکنہ حد تک اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں قائد محترم کا خطاب دینی و قومی ایام کی مناسبت سے جو تحریریں یا مستقل سلسلے شائع کئے جاتے ہیں ان کا مطالعہ اور پھر ان پر عمل کو اپنی عادت بنالیں۔ اپنا تعلق اپنے قائد کی ذات کے ساتھ مضبوط رکھیں۔ ان کی فیملی کے ساتھ مضبوط رکھیں اور قائد کے کارکنان کے ساتھ پیار و محبت سے اس مشن کی استقامت کے ساتھ خدمت کرتے چلے جائیں اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔