رحمت و عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

قرۃ العین فاطمہ

منہاج القرآن ویمن لیگ لاہور کے زیراہتمام محفل میلاد میں
دختر قائد محترمہ قرۃ العین فاطمہ کا پُرمغز خطاب

مرتبہ : کوثر رشید، خالدہ رحمن

بسم الله الرحمن الرحيم

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

 (الانبياء 21 : 107)

’’اور (اے رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت مبارکہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ میری رحمت جو ہر شے پر وسیع ہے اگر اس کا پیکر دیکھنا چاہتے ہو تو وہ میرا حبیب ہے جسکی رحمت کا سایہ کل عالم پر ہے۔ اس کی رحمت کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس کا لقب رحمۃ اللعالمین ہے۔ بندہ پھر عرض کرتا ہے باری تعالیٰ! تیرا محبوب تیری رحمت ہے جو تمام جہانوں کے لئے ہے۔ لیکن کچھ اس کا بھی اندازہ ہوجائے کہ وہ کتنے جہانوں کے لئے رحمت ہے۔ اور کتنے کے لئے نہیں۔ اس کے جواب میں رب کائنات اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرماتا ہے:

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO

(الفاتحه 1 : 1)

’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

مقصود یہ ہے کہ جس جس عالم کا میں رب ہوں اس اس عالم کے لئے میرا محبوب رحمت ہے۔ اگر کوئی عالَم میری ربوبیت کے دائرے سے خارج نہیں ہوسکتا تو کوئی عالم میرے محبوب کی رحمت سے بھی خارج نہیں ہوسکتا۔ دونوں آیات میں حقیقت بھی ایک ہے اور حکم بھی ایک۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنا ذکر رب العالمین اور اپنے محبوب کا رحمۃ اللعالمین کہہ کر کرتا ہے۔ رب کی شان ربوبیت تو سارے جہانوں کو وجود دے رہی ہے۔ مگر اس شان ربوبیت کا کمال رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لہذا رحمۃ اللعالمین، سیدالاولین والآخرین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کی سعادت مل جانا ایک امتی کی سب سے بڑی خوش بختی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باعث کائنات، ابتدائے کائنات، منتہائے کائنات اور مقصود کائنات ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت کا مقام اول کائنات میں حمد تھا اور آخر کائنات میں محمود ہوگا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت ہوئی تو حمد تھے اور جب عالم نورانیت و روحانیت میں آئے تو احمد کہلائے، عالم بشریت و انسانیت میں آئے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہلائے اور عالم آخرت میں جلوہ گر ہوں گے تو محمود ہوں گے اور یہ بات بھی ہے کہ جب وحدت تھی تو اس کا عنوان خدا تھا اور جب وحدت نے کثرت پیدا فرمائی تو عنوان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا۔ وحدت میں خدا کا حسن ہے اور کثرت میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن ہے۔ لہذا اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَO

( الکوثر 108 : 1)

’’بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خیروفضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کثرت نہیں فرمایا بلکہ کوثر فرمایا کیونکہ کثرت کم و بیش ہوتی رہتی ہے اور کوثر کا معنی ہے کثرت کی انتہا یعنی کثرت کی جہاں انتہا ہوجائے وہاں کثرت ختم ہوگئی اور پلٹ کر وحدت آگئی۔ کثرت سے پہلے وحدت نظام خدا تھا اور جب کثرت کا آغاز ہوا تو کثرت مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں منتقل ہوگئی۔ گویا فرمایا : اے محبوب! کثرت سے پہلے جو وحدت ہے وہ میرا حسن ہے اور جہاں کثرت ختم ہوجائے اور پھر وحدت آجائے تو وہ تیرا حسن ہے۔ جس نے میرے رب العالمین ہونے کے جلوے دیکھنے ہوں وہ میرے محبوب کو رحمۃ اللعالمین کے جلوے میں دیکھ لے گا چونکہ سب کثرتیں تجھ سے نکلیں اس کے لئے کثرت کا اول و آخر بھی تو ہے اور ابتداء و انتہا بھی تو ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

 نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر بھی ہیں اورنور بھی اور دونوں سے ماوراء مستور بھی ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض بشر کہنے والے بیت المقدس کی مسافتوں میں گم ہوگئے اور محض نور کہنے والے عرش کی وسعتوں میں گم ہوگئے۔ بشریت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس پر نیچے رہ گئی اور نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشریت کو دنیا میں چھوڑ کر بیت المقدس سے اوپر چلی گئی جبکہ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورانیت کی سرحدیں عبور کرکے عرش سے بھی آگے نکل گئی اور یہ وہ مقام تھا جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور اول ہوا تھا۔ اس ظہور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سوائے خالق کے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

لمحۂ ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ تاریخ انسانی کا عظیم انقلاب

ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک منفرد نورانی ولادت تھی جس میں انوار و تجلیات کے ساتھ حسین و جمیل بہشتی خواتین کا بھی ظہور ہوا جنہیں حور عین کہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ حضرت آسیہ اور حضرت مریم علیہما السلام بھی تشریف لائیں اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو باور کرایا گیا کہ وہ ایک بہت ہی عظیم و بے مثال ہستی کی ماں بننے کا شرف حاصل کرنے والی ہیں۔ اس ساعت سعید میں سارا گھر بقعہ نور بن گیا۔ انوار و تجلیات نے نہ صرف اس مکان کو بلکہ کائنات کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیا، ہر چیز چاندنی میں نہاگئی، ہر شے رقصاں تھی اور ہر طرف دھوم مچی ہوئی تھی کہ اس نور کا ظہور ہونے والا ہے جو ظلمتوں کو اجالے اور تاریکیوں کو روشنیاں عطا کرے گا۔

انسانی دنیا ظلم و جہالت کے بھیانک بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ کفرو شرک، باطل افکار و نظریات، غیر اخلاقی سماجی بندھن اور طاغوتی و استعماری طاقتوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کررکھا تھا، عورت شرف نسواں سے محروم تھی بلکہ بنیادی حقوق اور انسانی حیثیت کو بھی ترس گئی تھی۔ ان ہولناک حالات میں لمحہ ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کے عظیم انقلاب کا آغاز تھا جس نے باطل نفسانی اور شیطانی قوتوں میں کھلبلی مچادی۔ بت اوندھے منہ گرگئے، شیاطین پر آسمان کی راہیں مسدود ہوگئیں، جابر حکمرانوں کے تخت الٹ گئے اور کسریٰ (ایران) کے محل میں زلزلہ آگیا۔ یہی مصطفوی انقلاب کی صبح درخشاں تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے یوم کامل میں بدل گئی اور اس عظیم دن کے طلوع کے بعد زبان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان ہوا کہ اب میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور دور نہیں آئے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لباس بشریت میں اس لئے بھیجا گیا تاکہ ہر انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت اور اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر جملہ معاملاتِ حیات میں راہنمائی لے سکے۔

یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمۃ اللعالمینی کا تقاضا ہے کہ نام مبارک سے آثار رحمت کا اظہار ہو۔ چنانچہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودھویں کا چاند بن کر طلوع ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی سے تمام چاندوں کی روشنیاں ماند پڑگئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جمال جہاں آراء دیکھ کر دل و نظر کو سرور حاصل ہوتا ہے۔

بارہ ربیع الاول کو وہ آیا در یتیم
ماہ نبوت، مہر رسالت صاحب خلق عظیم

حامد و محمود اور محمد دو جگ کا سردار
جان سے پیارا راج دلارا رحمت کی سرکار

یٰسیں و طٰہٰ کملی والا قرآن کی تفسیر
حاضر و ناظر، شاہد و قاسم آیا سراج منیر

اول و آخر سب کچھ جانے دیکھے بعید و قریب
غیب کی خبریں دینے والا اللہ کا پیارا حبیب

پیاری صورت ہنستا چہرہ منہ سے جھڑتے پھول
نور کا پیکر چاند سا مکھڑا حق کا پیارا رسول (ص)

کفرو شرک کی کالی گھٹائیں ہوگئیں ساری دور
مشرق و مغرب و دنیا اندر ہوگیا نور ہی نور

قرآن حکیم۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر جمیل کا مجموعہ

نزول قرآن کا سبب ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، قرآن مجید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلکش اداؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات و خصائل کے ذکر جمیل کا مجموعہ ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو قرآن ہوتا نہ شب قدر ہوتی اور نہ کوئی اور رات ہوتی۔ یہ ساری فضیلتیں میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہیں۔ شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے کیونکہ ہزاروں مہینوں سے افضل کہہ کر باری تعالیٰ نے شب قدر کی فضیلت کی حد مقرر فرمادی جبکہ شب میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہے شب قدر کی فضیلت نزول قرآن کی وجہ سے ہے اور نزول قرآن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہوا۔

جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ کے اس اہتمام و انصرام پر قربان جائیں کہ اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے لئے جو موسم منتخب فرمایا وہ بھی بہار کا تھا۔ ربیع عربی میں بہار کے موسم کو کہتے ہیں۔ فطرت کا یہ کتنا حسین امتزاج تھا کہ جہانِ آب و گل میںجب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی تو خزاں اپنی بساط لپیٹ کر رخصت ہوچکی تھی، مشاطۂ بہار عروس چمن کو آراستہ و پیراستہ کرنے میں محو تھی اور بے رنگ خانہ دہر میں قدرت کی رنگینیاں بھری جارہی تھیں، آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دیئے گئے، رب کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشی میں پورا سال بیٹیوں کی پیدائش کو موقوف کرکے بیٹے عطا کئے اور اللہ نے خود جشن منایا، بزم کون و مکاں کی آرائش و زیبائش کی گئی۔ گویا یہ عمل اللہ رب العزت اور ملائکہ کی سنت ہے اور وہ ہمہ وقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے رہتے ہیں اور اہل ایمان کو بھی صلوۃ و سلام بھیجنے کا حکم خداوندی ہے۔ صلوۃ و سلام ایک منفرد اور بے مثل عبادت اور شاندار و مقبول عمل ہونے کی بناء پر قرب خداوندی اور قرب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر مبارک میں یہ اثر رکھ دیا گیا ہے کہ وہ غم و اندوہ کو دفع کردیتا ہے۔

نعمتوں کے شکرانے پر جشن اور عید منانا خود انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کو بطور خوشی اور جشن منانا بھی ایک بدیہی حقیقت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پاک کو باقاعدہ جشن کی صورت میں منانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لہذا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا مہینہ آئے تو ایک سچے مسلمان کی قلبی کیفیت اس طرح ہونی چاہئے کہ خوشیاں منانے کے لئے اسکا دل بیقرار، طبیعت بے چین ہوجائے اور اسے یوں لگے کہ اس کے لئے کائنات کی ساری خوشیاں ہیچ ہیں اور میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی ہی حقیقی خوشی ہے۔ لہذا میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرحتیں اور خوشیاں منایا کرو، جو دیوانہ اور مجنوں ہوکر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کا جشن مناتا ہے خدا کی عزت کی قسم رب کائنات اس کو بخشش کا پروانہ عطا کرتا ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت جوڑ لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں غرق ہوجاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں جیو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں مرو کیونکہ قبر میں مدارِ مغفرت ایک سوال پر ہے۔ جب تم قبر میں رکھ دیئے جاؤ گے تو یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ ہستی کون ہیں؟ بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ ان کے بارے میں تو کیا کہا کرتا تھا؟ یعنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے تمہارا عقیدہ کیا ہے؟

 آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
کل نہ مانیں گے قیامت کو اگر مان گیا

حقیقت محمدیہ ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں، ایسی منزل ہے جس کی انتہا نہیں۔ ایسا راز ہے جسے پانا ممکن نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہی ایک ایسی شخصیت ہے جن کے لئے اوج و کمال کی ہر طرح کی Limitations کو ختم کردیا گیا۔ قرآن مجید میں ہر نبی کو ان کے نام سے پکارا گیا یعنی یا آدم، یا نوح، یا ذکریا، یا یحییٰ، یا موسیٰ، یا عیسیٰ (علیہم السلام) کہہ کر پکارا گیا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مختلف پیار بھرے القابات یعنی َياَيُّهَا الْمُزَمِّلُ، يَاَ يُهَاالْمُدَثِّرُ، ياَيُّهَا النَّبِیُّ، يٰسين، طٰه سے کر پکارا گیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا نمونۂ کامل

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو جن خوبیوں سے نوازا گیا تھا وہ روئے کائنات پر کسی بھی شخص کو عطا نہیں کی گئیں۔ خدا، محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مہربان تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری خدائی پر مہربان تھے۔ اس مہربانی میں امن کا درس تھا، جبر کے نظام سے ٹکر لینے کی ہدایت تھی، ظلم کی اندھی چکیوں میں پسنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی نصیحت تھی۔ طاغوتی اور استحصالی طاقتوں کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کے آرڈرز تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی و ریاستی پالیسیوں پر نظر دوڑائیں اتنے مختصر عرصے میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں انہیں دیکھ کر انسانی عقل پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی ایک بستی میں اسلامی ریاست قائم کی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ دستور ریاست تیار کیا۔ یوں ایک بستی سے شروع ہونے والی ریاست اس وقت کی دو بڑی Supper Powers یعنی روم اور ایران سے ٹکرانے کے قابل ہوگئی۔ یوں مقابلے میں آنے سے اسلام بھی Supper Power بن گیا۔ پرانے نظام سیاست کی جگہ نیا نظام متعارف کروایا گیا۔ مواخات اور میثاق مدینہ نے ریاست کو نہ صرف سیاسی و اقتصادی استحکام کی بنیاد فراہم کی بلکہ تمام طبقات کو پرامن بقائے باہمی کے اصول میں پرو دیا۔ امور داخلہ کا نظام موثر طور پر نافذ العمل کردیا گیا۔ نظام مشاورت و سفارت کا باضابطہ قیام عمل میں لایا گیا۔ حکومتی عہدیداران کے لئے ضابطے مقرر کردیئے گئے۔ احتساب کے نظام کی داغ بیل ڈالی گئی۔ پولیس کے نظام کی ابتدائی صورت وضع کی گئی اور دوسری ریاستوں سے تعلقات متعین کرنے کے لئے خارجہ پالیسی معرض وجود میں آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتظامی عدل اور قیام امن کے جو اصول وضع فرمائے وہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی سب سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی نظام کو مستحکم کرنے کے لئے دولت کے ارتکاز کو ختم کردیا۔ تقسیم وراثت، وصیت، حرمت سود، حکم انفاق، ناجائز ذرائع کی ممانعت اور سرمایہ و دولت پر زکوۃ و عشر کے محصولات کے ذریعے دولت کو جمع کرنے کے تمام معاشی نظامات خصوصاً جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کا قلع قمع کردیا۔ نتیجتاً معاشرے کے غرباء، مساکین، مزدور، غلام، یتیم، بیوگان اور دیگر مستحقین اجتماعی دولت میں حصہ دار بن گئے۔ پورے معاشرے کو مختلف اکائیوں اور اداروں کی شکل میں منظم کیا گیا۔ خاندان کے افراد سے لے کر حاکم وقت تک کے حقوق و فرائض وضع کردیئے گئے۔ تعلیم اور خواندگی کی مہم زور و شور سے شروع ہوگئی۔ تہذیب و تمدن کے لئے اقدامات اٹھائے جانے لگے۔ اقتصادی، سماجی اور سیاسی اصول و قوانین نافذ کئے گئے۔ عوامی مشاورت اور رعایا کی شرکتِ اقتدار کا اعلیٰ جمہوری نظام وضع کردیا گیا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق (Fundamental Human Rights) عطا کئے گئے۔ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی قانونی و ریاستی ضمانت مہیا کی گئی۔ آزادی رائے اور اختلاف رائے کی اجازت دی گئی۔ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم کرکے انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔

عائلی و ازدواجی قوانین (Matrimonial Laws) فوجداری قوانین (Penal Laws)، عدالتی و ضابطہ جاتی قوانین (Procedural Laws)، تجارتی و اقتصادی قوانین (Trade and Commercial Laws)، فوجی و دفاعی قوانین (Military Laws)، جنگ و امن کے قوانین (War and Peace Laws)، اقوام و قبائل سے معاہدات کے قوانین (Treaty Laws)، بین الاقوامی قوانین (International Laws)۔ حتی کہ شہری کے نجی و انفرادی حقوق و فرائض سے لے کر اقوام عالم کے معاملات تک قانون سازی ہوئی۔ عرب کا جاہل معاشرہ دنیا کا مہذب ترین معاشرہ بن گیا۔ پوری قوم کے ہر فرد کو سپاہی بنایا گیا تاکہ اجتماعی طور پر جہاد کا شعور برقرار رہے اور دفاعی اور اقدامی دونوں طرح کی جنگوں میں یہی افرادی قومیت کام آئے۔ سماجی و عمرانی ڈھانچہ (Cultural and social structure) عطا فرمایا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا وہ کارنامہ ہے جس کی کوئی نظیر اقوام عالم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ (جاری ہے)