اداریہ : مغربی روشن خیالی کا ایجنڈا اور پاکستان

ٹی وی چینلز کی بڑھتی تعداد اور عام آدمی کی ان تک آسان رسائی نے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے آگہی کو بیک وقت کروڑوں انسانوں کیلئے ممکن بنا دیا ہے۔ لا تعداد ویب سائٹس نے بھی دنیا کو ایک گلوبل ویلیج میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہزاروں میل کی دوری کے باوجود مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے منسلک لوگ ایک دوسرے کے حالات سے ایسے با خبر رہتے ہیں جیسے کبھی ایک خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے مسائل کا ادراک رکھتے تھے۔ میڈیا ایک بڑی طاقت بن کر جہاں شعور کی سطح کو بلند کر رہا ہے۔ وہاں یہ فکری، معاشی اور سیاسی برتری کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ انڈیا اپنی ثقافت کی ترویج کیلئے فلم انڈسٹری کو انتہائی کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہا ہے۔ بھارتی فلموں کی عالمگیر ڈیمانڈ کے باعث دنیا کے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگ بھی اپنی روز مرہ زندگی میں ہندی زبان کے لفظوں کا استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے گلی محلے انڈین فلموں کی آسان ترین دستیابی کیلئے موجود ہیں اور ہندو ثقافت کے اثرات ہمارے شادی بیاہوں، گفتگو حتی کہ موبائل فون پر آنے والے پیغامات تک میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ انڈین اداکار اور اداکاراؤں کو اپنا آئیڈیل قرار دینے والے نوجوانوں کی بھی وطن عزیز میں کمی نہیں رہی۔ پاکستانی سینماؤں میں بھارتی فلموں کا قضیہ تو حل ہو چکا مگر کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے اور وہاں بدترین بربریت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہالی ووڈ نے پہلے ہی مغربی ثقافت کو اسلامی معاشروں میں اتنا داخل کر دیا ہے کہ گفتگو سے لے کر لباس تک کے انداز بھی بدل گئے۔ نوجوان لڑکے لمبے بالوں میں پونیاں باندھے اور کانوں میں بالیاں لٹکائے عام دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہیئر کٹ اور داڑھیوں کے نت نئے ڈیزائن بھی دلپسند بن چکے ہیں۔ لڑکیوں کے لباس بالعموم ایسے ہوچکے کہ شریف آدمی ان کی طرف نظر اٹھا کر گفتگو کرنے میں شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ قمیض کو سکیڑ دیا گیا اور مخصوص Aکٹ کے چاکوں نے شلواروں کے نیفے بھی عیاں کردیئے۔ دجالی فیشنوں نے عورت کی معصومیت اور عزت کو تماشا بنادیا، ہورڈنگ بورڈز اور ٹی وی چینلز پر آنے والے اشتہارات کی زینت بنا کر اسے ذلت و پستی میں گرانے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں اسلامی ثقافت کے نقوش دن بدن معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلامی دنیا کے حکمران و سائل کی فراوانی اور باصلاحیت افرادی قوت کے باوجود معاشی، سیاسی اور ثقافتی برتری کے لئے کوئی ایجنڈا نہیں رکھتے اور عیاشی میں مست دکھائی دیتے ہیں اور غیر اسلامی ثقافتوں کے فروغ میں ایسا کردار ادا کر رہے ہیں جو آنے والی نسلوں سے اپنے اسلاف کی عظمت، برتری اور ستھرے پن کا شعور بھی چھین سکتا ہے۔ یہ مجرمانہ خاموشی دیگر ثقافتوں کے غلبے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں دیگر مسلم ممالک کی نسبت اسلامی ثقافت کی جڑیں اب بھی قدرے مضبوط ہیں اس لئے اسلام دشمن طاقتوں نے اپنی ثقافت کے فروغ کے لئے اسے خاص توجہ کا مرکز بنا رکھا ہے اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر اسلامی ثقافت کے بتدریج خاتمے کے لئے طویل ایجنڈا دے رکھا ہے جوکامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اسلامی اقدار کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر موثر کاوش کی بہت زیادہ ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے روایتی مذہبی جماعتیں اس سلسلے میں جو کوشش کر رہی ہیں ان کے معاشرے میں منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ ان کا طریقہ کار غیر فطری اور حکمت سے عاری ہوتا ہے۔ مذہب کو خاص حلیئے اور وضع قطع میں بند کردینے والے جب مذہب کے ٹھیکیدار بن کر فیلڈ میں نکلتے ہیں تو ان کے عمل کو دیکھ کر لوگ مذہب سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور وہ مغربی ثقافتی یلغار کا آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔ مذہب کے نام پر دعوت کا کام کرنے والا دوسرا طبقہ وہ ہے جو تبلیغ کی آڑ میں بد عقیدگی پھیلا کر مسلمانوں کے عقائد پر حملہ آور ہے اور اس مقصد کے لئے ان کے نام نہاد سکالرز TV چینلز پر آ کر یزید ملعون کو امیرالمومنین اور امیرالمسلمین قرار دینے سے بھی نہیں چُوک رہے۔ مذہب کے ان ٹھیکیداروں کے باعث عام لوگ مذہب سے دور ہوکر نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے۔ موجودہ صدی میں امت مسلمہ جزوی نہیں کلی بگاڑ کا شکار ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ مختلف ثقافتی اثرات کی زد میں دکھائی دیتا ہے۔ مادیت کی دوڑ نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ تجدید و احیائے دین کی عالمگیر تحریک منہاج القرآن، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ولولہ انگیز قیادت میں امت مسلمہ کے کُلی بگاڑ کی اصلاح کے لئے ہمہ جہت جدوجہد کر رہی ہے اور اپنے تنظیمی نیٹ ورک کے اعتبار سے عالم اسلام کی سب سے بڑی تحریک ہے جو دنیا کے پانچ براعظموں میں اپنا موثر وجود رکھتی ہے۔ حضور شیخ الاسلام کے ہزاروں خطابات اس ہمہ جہتی بگاڑ کی اصلاح میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں اور پوری دنیا میں لاکھوں مسلمان اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں سے نہ صرف آگاہ ہو رہے ہیں بلکہ غیر اسلامی ثقافتی یلغار سے اپنی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لئے بھی موثر اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ عالم اسلام میں حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری واحد موثر شخصیت ہیں جن کی فکر ہمہ جہت ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں مسلمان اس سے استفادہ کر کے اپنے خاندانی ڈھانچے کو محفوظ بنارہے ہیں۔ اردو، عربی اور انگلش میں ہونے والے خطابات نے ان کی ذات کو پوری امت مسلمہ کے لئے ایک نعمت عظیم بنا دیا ہے۔ وہ عقائد صحیحہ پر ہونے والے حملوں سے لے کر زہریلی ثقافتی یلغار تک ہر محاذ پر سینہ سپر ہیں۔ ان کے قلم سے امت مسلمہ کو وہ نایاب علمی خزانہ میسر آ رہا ہے جو صدیوں تک حقیقی اسلامی فکر کو تحفظ فراہم کرتا رہے گا۔ اسلاف کی برتری اور عظمت کا وہ احساس جسے مٹانے کے لئے طاغوتی قوتیں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ حملہ آور ہیں شیخ الاسلام کے Research Work نے اس گہری سازش کے خلاف ایسا علمی خزانہ امت کو دے دیا ہے جس کے باعث اگلی کئی صدیوں تک اربوں مسلمان ہدایت اور رہنمائی لے کر ان سازشوں کا کامیابی سے مقابلہ کرتے رہیں گے۔ تحریک منہاج القرآن عالم اسلام کے افق پر چمکنے والا وہ سورج ہے جس کی تمازت سے ایسے تمام ثقافتی حملوں کا وجود بھسم ہو جائے گا اور یہ امت مسلمہ کے اربوں افراد کو شعور و آگہی اور بصیرت کا ایسا نور عطا کر جائے گا جو قیامت تک مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو روشن کرتا رہے گا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کا عالمگیر نیٹ ورک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر سے رہنمائی لے کر غیر اسلامی ثقافتی یلغار کے خلاف نبرد آزما ہے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے ماؤں کو وہ شعور عطا کر رہا ہے جس سے مستقبل میں وہ نسل تیار ہوگی جو علم کے اسلحہ سے لیس ہوگی اور ان کی توانائیاں عالم اسلام کو ایک ایسی سیاسی و معاشی قوت بنانے پر مرکوز ہوں گی جو نا قابل تسخیر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے لئے قابل تقلید بھی ہوگا۔