عالم ارواح کے میثاق اور عظمت مصطفیٰ (ص)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازھری

تیسرے میثاق کا ذکر سورۃ آل عمران میں کیا گیا ہے اور قرآن مجید کی ترتیب میں سب سے پہلے اسی میثاق کا ذکر آیا ہے۔ اس کے بعد سورۃ اعراف میں میثاق توحید کا ذکر آیا ہے۔ اور اس کے بعد آخر میں سورۃ احزاب میں میثاق نبوت کا ذکر آیا ہے۔ یہ وہ میثاق ہے جو اﷲ تبارک و تعالیٰ نے سب انبیاء و رسل سے تعظیم رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی نصرت کرنے، محبوب آخر الزماں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ڈنکا بھی اپنے اپنے زمانے میں اپنی امت کے سامنے بجانے، ہر امت کو اپنے زمانے میں یہ بتانے کہ ہم تو ابتدائی طور پر ماحول سازگار بنانے والے ہیں مگر اصل آنے والا جس کی خاطر پوری بزم کائنات سجائی گئی ہے اور جس کی خاطر ہمارے سروں پر نبوت و رسالت کا تاج رکھا گیا ہے اور جس کی خاطر ہمیں نعمت نبوت سے سرفراز کیا گیا ہے وہ آنے والا محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعد میں آ رہا ہے اگر کسی کو وہ زمانہ مل جائے تو ہر ایک کا فرض ہے کہ اسے مانے، تسلیم کرے اور ایمان لائے۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا :

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَO

(آل عمران، 3 : 81)

اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo

اس آیت مبارکہ کے آخری حصہ ثُمَّ جَآء کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ میں ایک اور اہم نکتہ کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ اس سے ختم نبوت کی بات بھی صراحتًا ثابت ہوگئی، کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اﷲ نے فرمایا کہ ’’(جب تم سب آ چکو گے تو) تمہارے بعد میرا رسول آئے گا جو تم سب کی تصدیق کر دے گا‘‘ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوگئی اور آپ نے تمام انبیاء و رسل جو پہلے آچکے تھے سب کی تصدیق فرما دی۔ تو اس کے بعد کسی اور نبی کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ لہذا اب جو مدعی نبوت ہوگا وہ جھوٹا ہوگا۔

اس Comparative study میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی کا سوال و جواب ہوا تو رب تعالیٰ نے اس پر فرشتوں کو کہا کہ تم گواہی دے دو۔ خود گواہ نہیں بنا۔

فرمایا : قَالَ ء اَقْرَرْتُمْ (آل عمران، 3 : 81) ’’کیا تم اس امر کا میرے سامنے اقرار کرتے ہو‘‘؟ اب کیا یہ بات رب تعالیٰ نے اپنی توحید کے میثاق کے وقت پوچھی تھی؟ نہیں بلکہ فقط انہوں نے کہا تھا : بلی جی ہاں۔ فرشتے گواہ ہو گئے مگر Repeatedly یہ نہیں پوچھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اسی بَلٰی کو اقرار سمجھ لیا گیا۔ اسی طرح انبیاء سے جب میثاق نبوت لیا تو کیا Further ان سے کوئی بات پوچھی؟ نہیں! ان کے میثاق کو میثاق سمجھ لیا اور کہا کہ ان کی امت کے اہل صدق قیامت کے دن گواہ ہوں گے۔ مگر جب میثاق رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئی تو چونکہ اس میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد، بعثت اور میلاد کی بات ہو رہی ہے۔ تو فرمایا : ئَ اَقْرَرْتُمْ ؟ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ میرے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان بھی لاؤ گے اور ان کی رسالت کے مشن کی مدد بھی کرو گے؟ کیا تم اس کو admit اور declare کرتے ہو؟ پوچھا : وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي کیا میرے ساتھ اس امر کا پختہ، موّکد اور شدید وعدہ کرتے ہو کہ اس پر قائم رہو گے؟ اب بتایئے کیا معاذ اﷲ، استغفر اﷲ! کسی کے پھر جانے کا ڈر تھا؟ میثاق انبیاء سے لیا جا رہا ہے، کسی عام نسل بنی آدم سے نہیں وہا۔ں تو پھرنے کا امکان ہی نہیں ہو سکتا۔ جب میثاق توحید کا وقت تھا تو رب کائنات خود گواہ نہیں بنا۔ انبیاء سے میثاق نبوت کا وقت تھا تو رب ذوالجلال نے خود اپنی گواہی نہ ڈالی مگر جب رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد و میثاق کا وقت آیا تو رب کائنات نے سب نبیوں کو بھی گواہ بنایا اور پھر خود اپنی ذات کو اس میثاق نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گواہ بنایا : فرمایا : وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهدِيْنَ ’’میں بھی تمہارے ساتھ گوا ہوں میں شریک ہوتا ہوں‘‘۔ پھر فرمایا : فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ جو کوئی اس عہد اور میثاق کے بعد پھر گیا فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ’’وہ فاسقوں میں سے ہوگا‘‘، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سارے تقاضے پورے ہوگئے تھے اور رب تعالیٰ خود بھی گواہ بن گیا تھا تو لافَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ کی کوئی ضرورت رہ جاتی ہے؟ جواب نہیں میں ہے تو پھر ایسا کیوں فرمایا؟ جو چیز میری سمجھ میں آئی ہے اور جو معنی و مفہوم اور مراد میں نے اخذ کیا ہے وہ کسی شک و شبہ کے بغیر سیاق و سباق قرآنی کے عین مطابق ہے۔ وہ یہ کہ اس آخری حصے کا اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ سن لو! تم نے جو رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کا وعدہ کیا ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایمان کے تصدق سے میں تمہیں نبی بنا رہا ہوں۔ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے وسیلے سے تمہیں رسول بنا رہا ہوں۔ اگر تم میرے محبوب کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا وعدہ نہ کرو تو میں تم میں سے جو وعدہ نہیں کرے گا اس کے سر پر نبوت کا تاج نہیں رکھوں گا۔ گویا سب انبیاء کی نبوتیں نبوتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ہیں۔ سب رسولوں کی رسالتیں رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ ہیں۔ کائنات میں یہ جو نظام نبوت و رسالت شروع ہوا، وہ بھی وسیلۂ و واسطہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس بات پر تاکید کے طور پر یہ کلمات ارشاد فرمائے اور سیدنا مولی علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت ہے فرماتے ہیں۔

مَا بَعَثَ اﷲُ نبيا مِنَ الأنبياءِ اِلَّا أخَذَ عَلَيْهِ الْمِيْثَاق. لَإنْ بَعَثَ مُحَمَّداً وَهُوَ حیٌّ لَيُوْمِنُنَّ بِه وَلَيَنْصُرَنَّه اَمَرَه اَنْ يَّاخُذ الْمِيْثَاقَ عَلٰی اُمَّتِه لَئِنْ بَعَثَ مُحَمَّدٌ وَهُمْ اَحْيَاءٌ لِيُوْمِنُنَّ بِه وَ لَيَنْصُرُنَّه.

(ابن کثير، تفسير قرآن العظيم، 1 : 379)

’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس نبی کو بھی دنیا میں مبعوث کیا، تو اُس کی بعثت سے پہلے اُس سے یہ عہد لیا کہ اگر آپ کی زندگی میں میرے نبی کی بعثت ہوگئی تو اُن پر ایمان لے آنا اور پھر اُن کے مشن کی مدد کرنا۔ اور حکم دیا کہ ہر نبی جب دنیا میں جائے تو اپنی امت سے بھی یہ عہد لے اور کہے! اگر تم لوگ زندہ ہوئے اور تمہارے زمانے میں وہ نبی آخر الزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے تو پھر (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہو جانا) اُن پر ایمان لے آنااور ان کے دین کی مدد کرنا‘‘۔

حافظ ابن کثیر نے استناداً اور استدلالاً تفسیر ابن کثیر میں اِس کو Quote کیا ہے اور امام عبد الرزاق نے یہ حدیث حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔

ایک نبی خود دوسرے نبی پر ایمان لے آئے تو اس سے مراد دوسرے نبی کا کلمہ پڑھ کر اس کا امتی ہوجانا ہے لہذا مذکورہ حدیث کے مطابق ہر نبی سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بن جانے کے لئے رضا مندی حاصل کررہا ہے اور انہیں باور کروا رہا ہے کہ تمہاری نبوتوں کے سارے دھارے نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سمندر میں ضم ہوجائیں گے۔

اسی طرح ایک حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے امام ابو یعلیٰ نے اپنی مسند میں اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے اپنی مسند میں اور امام دارمی نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

وَاﷲِ لَوْ کَانَ مُوْسٰی حيا بين اظهُرِکم ما حل له إلا أن يتبعني.

’’خدا کی عزت کی قسم! اگر آج (جب میں مبعوث ہوا ہوں) تمہارے اندر حضرت موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے، اُن کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہوتا سوائے میری اتباع کرنے کے‘‘۔

بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

لَوْ کَانَ مُوْسٰی وَ عِيْسٰی حَيَّيْن لَمَا وَسِعَهُمَا اِلَّا اتّباعی.

’’اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام دونوں آج زندہ ہوتے تو دونوں کے پاس سوائے میری اتباع کے اور کوئی راستہ نہ ہوتا‘‘۔

چونکہ عالمِ ارواح میں انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے سے پہلے انہیں اِس اقرار اور میثاق کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا مقرر کر دیا تھا اور ان سے نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کا اعلان کروا دیا گیا تھا۔ رب کائنات خود گواہ ہو گئے تھے۔ لہٰذا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام الانبیاء ہوئے۔ آپ صرف نبی الامت ہی نہیں بلکہ نبی الانبیاء اور نبی الامم بھی ہیں۔ آپ اپنی امت کے بھی نبی ہیں اور کائناتِ انسانی کی سب امتوں کے بھی نبی ہیں اور سب انبیاء اور رسولوں کے بھی نبی ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت سب نبوتوں کے اوپر حاوی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کل کائنات رسالت کے اوپر سائبان کی طرح حاوی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاO

(النساء، 4 : 41)

’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے‘‘۔

یعنی اے میرے محبوب! وہ قیامت کے دن کیسا منظر اور سماں ہوگا کہ ہر اُمت کے اوپر اُس امت کا نبی بطور گواہ لیا جائے گا اور سب انبیاء کی گواہیاں ہو چکی ہوں گی تو اُن انبیاء کی گواہیوں کی تصدیق کے لیے اے میرے محبوب کل انبیاء پر آپ کو سب سے بڑا گواہ لایا جائے گا۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام سب انبیاء کے گواہ ہیں۔ تمام انبیاء کے امام ہیں، سب انبیاء اور ان کی امتوں کے نبی ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کا ظہور دنیا میں بھی کردیا اور آخرت میں بھی۔

دنیا میں اس طرح کے بہت سے انبیاء ایسے گزرے جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ہونے اور آپ کے دیدار کی آرزو کرتے رہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد اور جملہ تفصیلات کا ذکر تورات، انجیل اور زبور میں بھی موجود تھا جن میں آپ کی ولادت کا تذکرہ، شہر مکہ کا تذکرہ، آپ کی ہجرت مدینہ کا تذکرہ، شہر مدینہ کا تذکرہ، مدینہ میں آپ کی قبر انور کا تذکرہ، مکہ میں آپ کے جوان ہونے کا تذکرہ، پھر آپ کے اوصاف، آپ کے کمالات، آپ کے معجزات، آپ کی سنتیں، آپ کی سیرت، آپ کے خصائل حمیدہ، آپ کے اخلاق، آپ کے طور طریقے، آقا کی ساری صفتیں اور نعمتیں یہ سارے تذکرے، توراۃ، انجیل سمیت ہر نبی کی کتاب میں موجود تھے اور تمام انبیاء آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے پڑھ پڑھ کے اپنی امتوں کو بتاتے تھے۔ یہی تذکرے یہودیوں کو یاد تھے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کراتے تھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بنی اسرائیل سے آئیں گے چونکہ سب انبیاء حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل سے آر ہے تھے۔ لہٰذا ایک گروہ تو انبیاء کا ایسا تھا جو دنیا کے ہر خطے سے ہزارہا میل کا سفر کرکے دیدار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شوق میں مکہ آگیا تھا۔ انہوں نے عمریں مکہ میں گزار دی تھیں۔ کہ کبھی رب کے محبوب کے حسن کے طلوع کا وقت آئے گا اور ہمیں دیدار کا موقع نصیب ہوگا۔ ہم ان کا زمانہ پائیں گے۔ سینکڑوں ہزاروں انبیاء علیہم السلام تا دمِ وصال مکہ میں رہے جن میں سے تین یا سات سو انبیاء علیہم السلام کی وفات بھی مکہ میں ہوئی اور ان کے مزارات صحن کعبہ کے اندر مطاف میں ہیں۔ کل مخلوق اور امت جب کعبے کا حج کرنے جاتی ہے تو ایک طرف حج ہوتا ہے اور دوسری طرف سینکڑوں انبیاء کے مزارات کی زیارت ہوتی ہے۔ ان کا صحن کعبہ میں دفن ہونے کا مدعا اور مقصود یہ تھا چلو اگر ہماری زندگی میں مبعوث نہ بھی ہوئے تو جب بھی آئیں گے اور اس کعبے کا طواف کریں گے تو ہم ان کے قدموں کے نیچے ہونگے اور ان کے تلووں کے بوسے لیتے رہیں گے۔ 70 کے قریب یا اُس سے زیادہ انبیاء علیہم السلام تو منٰی میں مدفون ہیں۔ ’’مسجد الخیف‘‘ میں سات سو انبیاء ہیں جہاں تین دن حاجی قیام کرتے ہیں۔ یہ سارے راستے ہیں ان کو خبر تھی کہ یہ حج کے راستے ہونگے اس محبوبِ مکرم کے یہ ٹھکانے ہونگے۔ یہ عرفات ہوگا، یہ مزدلفہ ہوگا، یہ منی ہوگا، یہ شہر مکہ ہوگا۔ تو جو جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے راستے تھے انہیں راستوں پہ وہ ٹھکانے کرتے گئے اور وہیں ان کے مزارات بنتے گئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے چاہا کہ محبوبِ مکرم کو چونکہ تمام انبیاء کا امام بنایا ہے لہٰذا اس کا ظہور بھی عملاً دنیا میں ہونا چاہیے اور آخرت میں بھی ہونا demonstration ہونا چاہیے۔ اس لیئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے معراج کی رات مسجد اقصیٰ لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کو صف در صف حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اقتداء میں کھڑا کیا گیا۔ اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمیع انبیاء و رسل کی امامت کرائی۔ شبِ معراج جب سب انبیاء آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے تو سب کی خواہش دیدار پوری کردی۔ ہر نبی جو حضور کے ڈنکے بجاتا رہا تھا، حضور کی آمد کے تذکرے کرتا تھا، حضور کے اوصاف کے گن گاتا تھا، اپنی اپنی امت کو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی کی دعوتیں دیتا تھا، اور اپنے اپنے زمانے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نغمے الاپتا تھا، ہر نبی ہر رسول منتظر تھا کہ جس کے تذکرے کرتے کرتے عمر بیت گئی کبھی ان کا دیدار بھی ہوگا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا اے ارواحِ انبیاء! تم نے عمر بھر میرے مصطفی سے وفاداری کی ہے۔ آج میں تمہاری دیرینہ خواہش کو پوری کرنے کے لیے محبوب کو ادھر لا رہا ہوں۔ جمع ہوجاؤ! مسجد اقصیٰ میں صف در صف کل انبیاء جمع ہوگئے۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا : آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سارے کے سارے انبیاء ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ڈنکا بجاتے رہے ہیں، کائناتِ انسانی میں آج ان کو امامت کر اکے اپنا مقتدی بنالیں۔ ان کی آرزو تھی کہ حضور کے امتی ہوجائیں۔ تو آقا علیہ السلام نے انہیں اپنی اقتداء میں لے لیا۔ شبِ معراج سب انبیاء کو حضور کی اقتداء میں دے دیا گیا۔ اب ملائکہ بولے : باری تعالیٰ! تمام انبیاء کو تونے اپنے محبوب کی اقتداء اور دیدار بھی عطا کردیا ہمارا کیا بنے گا؟ کبھی ہمیں بھی دیدار نصیب ہوجائے تو فرمایا میرے محبوب اس بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے بعد اب معراج کا دوسرا سفر آسمانی کائنات میں ہوگا اور عرش پر جا کے سدرۃ المنتہی تک اس معراج کے سفر کا دوسرا حصہ ہوگا۔ اور تمام ملائکہ سے کہا اے کل آسمانی کائنات کے فرشتو! سدرۃ المنتہیٰ پہ جمع ہوجاؤ جیسے کل انبیاء مسجد اقصی میں جمع ہوگئے تھے اور میرے محبوب کے دیدار سے بہرہ یاب ہوگئے تھے۔ تمام ملائکہ سدرۃ المنتہیٰ پہ جمع ہوگئے، اور حکم دیا کہ میرے محبوب نے یہاں سے گزرنا ہے میں تھوڑی دیر روک لوں گا کیونکہ سواری براق نے یہیں رہ جانا ہے آگے براق نہیں جاسکتا کہ عالم لا مکان جو اللہ رب العزت کے انوار و تجلیاتِ ذاتی کی آماجگاہ ہے براق کا نور اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ تو جبریل امین نے بھی یہیں رہ جانا ہے۔ لہذا وقت لگے گا، تم سدرۃ المنتہیٰ پر بیٹھ جاؤ جتنی دیر میرے مصطفی یہاں قیام کریں تم جی بھر کے دیدار کرلینا۔ اور سورۃ النجم میں کہا اِذْ يَغْشَی السِّدْرَة مَا يَغْشٰی (النجم، 53 : 16) اور ’’جب سدرۃ المنتہیٰ کے درخت کو ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا‘‘ کل کائنات کے ملائکہ اُس رات سدرۃ المنتہیٰ پہ جمع ہوگئے تھے۔ انبیاء کو دیدار مسجد اقصی میں کروا دیا ملائکہ کو دیدار سدرۃ المنتہیٰ پہ کرا دیا۔ اُس کے بعد تیسرا مرحلہ معراج مصطفی کا شروع ہوا پھر ان کی ایک اور آرزو بھی تھی کہ عمر بھر حضور کی امت دیدار بھی کرتی رہے گی اور مدینہ پاک بھی جاتی رہے گی، اور صلاۃ والسلام بھی بھیجتی رہے گی۔ ہم کیوں محروم رہیں؟ ایک کعبۃ اللہ زمین پر ہے اور exactly اس کے اوپر آسمانوں پر بیت المعمور ہے۔ ملائکہ وہاں طواف کرتے ہیں بیت المعمور کہتے ہی اس لیے ہیں کہ ملائکہ سے معمور اور بھرا رہتا ہے۔ جیسے کعبۃ اللہ انسانوں سے بھرا رہتا ہے تو بیت المعمور ملائکہ سے بھرا رہتا ہے۔ باری تعالیٰ تو نے آسمانی کعبہ وہاں رکھا مگر کعبے کا کعبہ زمین پہ رکھا جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در اقدس ہے۔ فرشتوں کے لئے اللہ پاک نے سبیل پیدا کردی کہ 70 ہزار فرشتے اب ہر روز صبح حاضر ہوکر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کو اپنے پروں سے مس کرتے ہیں اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح 70 ہزار ملائکہ شام کو حاضر ہوتے ہیں۔ ہر روز دستہ تبدیل ہوتا ہے اور 70 ہزار کا ایک گروہ جو ایک بار آتا ہے قیامت تک اس کی دوبارہ باری نہیں آئے گی۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ جس دن قیامت بپا ہوگی یومِ قیامت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قبر انور سے باہر تشریف لائیں گے تو اس دن بھی 70 ہزار ملائکہ کے جھرمٹ میں حضور باہر نکلیں گے۔ اب بات سمجھ آتی ہے کہ وہ 70 ہزار ملائکہ جن کے جھرمٹ میں آپ نکلیں گے وہ وہی خوش نصیب ہوں گے جن کی اس دن ڈیوٹی ہوگی۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر جتنے انبیاء بھی آج تک ہوئے ’’تَحْتَ لِوَائِی‘‘ وہ قیامت کے دن سارے میرے جھنڈے کے نیچے ہونگے۔ اور قیامت کے دن میں ان کا خطیب ہوں گا۔ قیامت کے دن میں سب انبیاء و رسل کا امام ہونگا۔ میں ان کا قائد ہونگا۔ اور میں ان کا نمائندہ بن کر اللہ کی بارگاہ میں التجا کرنے والا ہونگا اور قیامت کے دن جب حساب و کتاب شروع نہیں ہوا ہوگا۔ ہر امت پریشان ہوگی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ تمام امتیں مل کر حضرت آدم علیہ السلام، پھر حضرت نوح علیہ السلام، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گی یہ سب انبیاء کرام فرمائیں گے۔ اِذْهبُوْا اِلیَ غَيْرِیْ آج کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت عیسیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کل امتیں آئیں گی تو اس وقت وہ فرمائیں گے ’’اِذْهَبُوْا الٰی مُحَمَّد‘‘ تم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در دولت پر جاؤ (آج ان کا دن ہے)۔ ان کے سوا کوئی اس وقت لب نہیں کھول سکتا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات آدم علیہ السلام نے شروع میں کیوں نہ کہہ دی؟ تاکہ وہ سارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آجاتے۔ درمیان میں مختلف انبیاء کرام علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک کی طرف کیوں بھیجا گیا؟ اس میں حکمت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ تمام امتوں کو قیامت کے دن خود ایک ایک دروازے پر بھیج رہا ہے۔ تاکہ ہر امت اپنے نبی کے دروازے پر سائل بن کے جائے ہر دروازے سے جواب ملے۔ نہیں آگے جاؤ، آگے جاؤ۔ گھومتے گھومتے سب کو خبر ہو جائے اور پورے محشر میں اعلان ہوجائے کہ اصل دروازۂ شفاعت، دروازۂ مصطفی ہے جب وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں گے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے ’’انا لها انا لها‘‘ ہاں اس شفاعت کے لیے میں ہی ہوں۔ (یعنی شفاعت کبریٰ اور شفاعتِ عظمیٰ کے لیے)۔ یہی وہ مقام محمود ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عرش کے اوپر اپنی کرسی پر جو اللہ رب العزت کے لیے خاص ہوگی، اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا اور حکم دے گا فرشتو! عرش پر میری کرسی کے دائیں جانب میرے مصطفی کی کرسی رکھو معلوم ہوا قیامت کے دن عرش الٰہی پر دو کرسیاں رکھی جائیں گی۔ ایک کرسی پر رب کائنات (صدر اور بادشاہ یوم قیامت) ہوگا اور دوسری کرسی اس دن کے مہمان خصوصی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام عرش کے دائیں جانب تشریف فرما ہونگے۔ یہاں پھر demonstration ہوگا جیسے ابتداء میں تمام انبیاء کو حضور کی متابعت میں دیا گیا تھا اب یہاں انتہاء میں بھی ساری کائنات، ساری مخلوقات اور سب انبیاء کی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر سایہ ہوگی۔ اسی لیے ہر پیغمبر کو یہ تلاش تھی اور ہر پیغمبر نے اپنی ہر امت کو بتا دیا تھا کہ آنے والے جن کی خاطر بزم کائنات سجی ہے وہ آرہے ہیں اور تم ان پر ایمان لانا۔ ہر نبی نے اپنی امت میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش کی پیاس پیدا کردی تھی۔