صاحبزادہ مسکین فیض الرحمٰن درانی

ہمارا موضوع انسان کے نیک اور بد وہ افعال ہیں جو دنیاوی ماحول کی آلودگی کا سبب بنتے ہیں۔ ہم کو ان امور کا تعین بھی کرنا ہے جو عقل، فہم، شعور، ادراک اور وجدان کی تمامتر صفات عالیہ سے متصف ہونے کے باوجود انسان کو ایسے اعمال پر مجبور کر دیتے ہیں جو نہ صرف اس کے من کے اندرونی ماحول بلکہ اس کے گھر، محلے، شہر، ملک، معاشرہ، قوم اور اس کی جنت نشان دنیا کے مجموعی ماحولیاتی نظام کو تباہ کر رہے ہیں۔ وہ فضا، ہوا، خلا، سمندر، دریاؤں، چشموں، ندیوں، نالوں، نہروں، تالابوں، کنوؤں، جنگلوں، باغوں، کھیتوں، پودوں، درختوں، پھلوں، فصلوں، غرضیکہ ہر ذی شعور اور غیر ذی شعور حیات کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے وہ دانستہ اور نا دانستہ طور پر حیات انسانی کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ وہ مسلسل ایسے کام کر رہا ہے جس سے دنیا کا ماحولیاتی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ وہ اپنے اعمال کے نتائج کو خوب سمجھتا ہے، اس پر بات بھی کرتا ہے، سنتا بھی ہے، دوسروں کو نصیحت بھی کرتا ہے جانتا بھی ہے، لیکن اپنی نقصان دہ حرکتوں سے باز نہیں آتا، بلکہ اس میں مزید تیزی اور شدت پیدا کرتا چلا جا رہا ہے اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے دنیا میں بسنے والے جاندار بہت تیزی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن وہ اپنی دھن میں مست اس عظیم بربادی سے بے پرواہ بزعم خود اپنی مادی زندگی کو سنوار رہا ہے۔

کیا ایک باشعور انسان یہ سب کچھ کر سکتا ہے؟ کیا ایک عقلمند شخص اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو خود اپنے ہی ہاتھوں موت کے بھیانک جبڑوں میں ٹھونس سکتا ہے، کیا وہ انہیں خود خطرناک بیماریوں کے شکنجے میں جکڑ سکتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ کوئی باشعور، عقلمند اور سمجھ دار شخص ایسا نہیں کرسکتا اور جو کوئی بھی ایسا کر رہا ہے، وہ یقینا انسانی معاشرے کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس کا ذہن فساد سے بھرا ہوا ہے۔ وہ ذہنی مریض ہے اور شدید ذہنی پراگندگی کا شکارہے۔ ایسا شخص نہ صرف دوسروں پر بلکہ اپنے آپ پر بھی ظلم کر رہا ہے۔ وہ قانون قدرت کا انکاری اور عالمی انسانی معاشرے کا مجرم ہے۔ اس کا سازشی ذہن اس کو مسلسل بہکا رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے شیطانی منصوبوں، مکروہ چالوں، سیاست اور مکروفن سے اپنے آپ اور اپنی قوم کو دائمی تحفظ، اونچا مقام اور اقتدار اعلیٰ دلانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ سخت مغالطے کا شکار ہے۔ اللہ تعالی نے یہ دنیائے ارض ان جیسے چند افراد یا کسی مخصوص قوم یا نسل کی عیش و عشرت کے لئے نہیں بنائی ہے بلکہ یہ تمام مخلوقات الہیہ کے رہنے کی جگہ ہے اس دنیا میں تمام انسانوں اور جانداروں نے ایک جیسے ماحول میں زندگی بسر کرنی ہے۔ اگر سب انسان اور جاندار مل کرقانون فطرت کے عین مطابق یہاں زندگی بسر کریں تو زندگی آسودہ ہو گی لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ان کی بے اعتدالی، بے راہ روی اور ماحولیاتی آلودگی زندگی کو پوری نوع انسان کے لئے اجیرن بنا دے گی۔

ہم انسان کے اس فسادی گروہ کے افعال و کردار پر جب نظر ڈالتے ہیں، جو دنیا کے ماحول میں فساد کا باعث بن رہے ہیں اور جن کی وجہ سے تمام بنی نوع انسان اور زمین پر بسنے والی ہر مخلوق ماحولیاتی آلودگی کے عفریت کے بھیانک جبڑوں میں دھکیلی جا رہی ہے۔ تو معلوم ہوتاہے کہ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں ان فرعون صفت انسانوں نے سب سے زیادہ گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ دوسری مخلوقات الہیہ کے مقابلے میں یہ انسان اللہ سبحانہ و تعالی کے احکامات سے بہت دور ہیں، یہ ہی خود غرض اور ناشکرگزار بھی ہیں اور یہ ہی ہمیشہ عدم تحفظ اور کمتری کے احساس کا شکار بھی رہتے ہیں۔ آج کے یہ فرعون صفت انسان احساس کمتری کے احساس سے چھٹکارا پانے کے لئے سب سے اوپر ہونا چاہتا ہے۔ اس پر ہر آن یہ دھن سوار ہے کہ کسی طرح اپنے وسائل و ذرائع کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھ میں جمع کر لے۔ لیکن اس طور پر کہ یہ اس کے سوا کسی دوسرے کے پاس نہ ہوں، یا نہ ہونے کے برابر ہوں۔ جب تک اس کی یہ خواہش انفرادی حد تک رہی، فساد اس کی ذات کے۔ لیکن جیسے جیسے اس کے اندر غیر فطری خواہشوں کی یلغار شدت اختیار کرتی گئی، وہ اپنے آپ سے باہر ہونے لگا، اس کے اندر جیسے جیسے دوسروں پر تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کا شوق بڑھتا گیا اور اس نے مخلوق کو اللہ کی بندگی سے نکال کر اپنی بندگی میں جکڑنا چاہا تو فساد مزید بڑھنے لگا۔ فساد سب سے پہلے اس کے ذہن میں پیدا ہوا، جس نے اس کے قلب ونظر کو بدلا، اور اس کے اعمال سے شر اور بدی کا ظہور ہونے لگا تاآنکہ اس کے اندر سے شدید فرعونیت ابھری، بندے کی حاکمیت اعلیٰ اور حکمرانی کایہ جذبہ انسانوں کے ماحول میں اس حد تک بڑھ گیا کہ جس کے نتیجے میں کائنات ارض کی ہیئت تک وہ نہ رہی جو بنی نوع انسان کیلئے جنت کے نعم البدل کے طور پر بنائی گئی تھی۔

اس سرکش، قوانین فطرت سے باغی اور اپنے آپ کو رب کا درجہ دینے والے انسانوں کے مخصوص ٹولے کے ذہن و فکر کی پراگندگی نے فطری قوانین میں ایسا زبردست تغیر و تبدل کیا کہ اس نے دنیا میں تمام جانداروں، بنی نوع انسان حتیٰ کہ خود اپنے آپ کو بھی اب ایسی سخت مشکل میں گرفتار کر دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کے لئے کوئی راستہ موجود نہیں ہے، یہ جارحیت پسند ٹولہ ہر وقت اور ہر دور میں موجود رہا ہے، پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ یہ ہر انسان کے اندر بھی ہے، باہر بھی ہے، گھروں میں ہے اور گلی کوچوں، شہروں، ملکوں اور براعظموں میں بھی ہے، اب وہ زمانہ آن پڑا ہے کہ یہ فرعون خود بھی حیران و پریشان یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اس نے تو اس دنیا کو اپنے لئے جنت اور دوسروں کے لئے عذاب کی بھٹی بنانا چاہا تھا مگر وہ اپنی اس جنت کے لئے کوئی علیحدہ آسمان، زمین، پانی، بارش، ہوا اور جنگلات پیدا نہیں کر سکا۔ اسے اس موجودہ ماحول میں اپنے لئے ایک محفوظ جنت کی تلاش تھی لیکن اسے اب جا کر معلوم ہوا کہ اس نے تو اللہ تعالی کی ہوا، خلا، زمین، پانی، بارش اور جنگلات کو اپنی چیرہ دستیوں سے اتنا تباہ کر ڈالا ہے کہ ماحول اب اس کے وجود کے لئے بھی سخت خطرناک ہو گیا ہے۔

آج کے سائنسدان پر یہ تکلیف دہ حقیقت سوہان روح بن کر افشا ہو رہی ہے کہ اس نے اللہ کی زمین اور اس کے ماحول کو کس حد تک آلودہ کر دیا ہے، اس نے اپنی ذہنی پراگندگی اور آوارگی خیال کے باعث جن خطرناک سائنسی اقدامات کو اچھا خیال کیا تھا وہ تو بلائے جاں بن کر زندگی کے درپے ہو گئے ہیں۔ اس دنیا میں اب اس کی معلومات کے مطابق زندگی گزارنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

اللہ تعالی نے قوانین فطرت کے عین مطابق اس دنیا کی فضا میں اٹھتر فیصد نائٹروجن، اکیس فیصد آکسیجن، ایک فیصد اوزون اور ہزار کا تیسرا حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ رکھا ہے۔ اس کے علاوہ خفیف مقدار میں دیگر گیسیں اور آبی بخارات بھی ہوا میں موجود ہوتے ہیں۔ اس خاص توازن رکھنے والی ہوا ہی میں جاندار اپنی طبعی عمر پوری کر سکتے ہیں اور جب بھی ہوا میں گیسوں کا یہ تناسب بگڑ جاتا ہے تو وہ انسانی زندگی کے لئے مضر ہو جاتی ہے، نتیجۃً انسان اس میں اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ سے باغی انسان اپنے ساتھ یہی کچھ کر رہا ہے وہ ہزارہا ایٹم بموں، نائٹروجن اور ہائیڈروجن بموں، لاکھوں قسم کے مہلک ایٹمی ہتھیاروں، کارخانوں، بھٹیوں، خشت سازی، راکٹوں، جہازوں اور موٹر گاڑیوں کے گیسوں کی اتنی کثیر مقدار ہر روز فضا میں چھوڑ رہا ہے کہ قوانین فطرت کے تناسبات تیزی سے ملیامیٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی ایک عجب عالم تحیر میں یہ سوچ رہا ہے کہ وہ کس طرح اس موجودہ زہریلی ہوا میں جی رہا ہے۔ سائنس کے کلیات کے مطابق اس صورتحال میں اس وقت روئے زمین پر کسی جاندار کا زندہ رہنا بعید از قیاس ہے۔

فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پتھر کے دور کے مقابلے میں آج اس کی مقدار انتہائی زیاد ہ ہے، آج سے ایک صدی پہلے کے مقابلے میں بھی وہ کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1960ء میں اس کا اخراج ایک ارب ٹن تھا جو 1990ء میں چھ ارب ٹن تک پہنچ گیا اور اب یہ آٹھ ارب ٹن ہو گیا ہے۔ نباتات اور جنگلات کو جس قدر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت تھی وہ اسے مل جاتی تھی، لیکن دنیا میں جنگلات کے ذخیرے کو جس تیزی سے ٹمبر مافیا نے ضائع کیا ہے، اس کی وجہ سے باقی ماندہ جنگلات اب مکمل سیر ہو چکے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک کثیر مقدار فضا میں بغیر کھپت کے رہ جاتی ہے۔ انسان اپنی نمود و نمائش اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی خاطر جس مقدار میں زہریلی گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج فضا میں کر رہا ہے وہ زمین پر موجود نباتات و اشجار کی خوراک سے بہت زیادہ ہے لہذا اس کی کثیر مقدار فضا میں غیرمستعمل رہ جاتی ہے۔ جہاں ایک طرف زمین کی فضا میں اس گیس کی موجودگی جانداروں کے لئے انتہائی مضر ہے وہیں دوسری جانب یہ زمین کے اردگرد روزانہ اپنی تہہ کو کثیف سے کثیف تر بنا رہی ہے جس کی وجہ سے سورج کی وہ شعاعیں جو زمین سے ٹکرانے کے بعد عمل انعکاس کی وجہ سے منعکس ہو کر واپس چلی جاتی تھیں ان کے واپس جانے کا راستہ مسدود ہو گیا ہے اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ زمین کا اوسط درجہ حرارت پندرہ درجہ سنٹی گریڈ رہا ہے اس کے مقابلے میں سیارہ زہرہ کے گرد کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تہہ زیادہ کثیف ہے، جس کی وجہ سے زہرہ کا درجہ حرارت چار سو درجے سنٹی گریڈ ہے۔ آج کے سرکش اور بداعمال انسان نے اپنے آپ کو غیرمحسوس طور پر ایک سخت ترین حرارتی توانائی کی قید میں جکڑ دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2010ء میں زمین کا اوسط درجہ حرارت چار درجہ سنٹی گریڈ مزید بڑھ جائے گا جس کی وجہ سے بحر منجمد شمالی اور بحر منجمد جنوبی جو کہ اس وقت امریکہ کے ایٹمی دھماکوں اور معدنیات کے لئے کھدائی کے عمل کی وجہ سے تیزی سے اپنی برف پگھلا رہے ہیں، اس حد تک پانی کا اخراج کرنے لگیں گے کہ دنیا کے تمام سواحلی شہر آٹھ میٹر تک سمندر ی پانی میں غرق ہو جائیں گے۔ وہی اقوام عالم جو ساری دنیا کو اپنی مادی اور سائنسی قوت کے بل بوتے پر نیو ورلڈ آرڈر کے تحت لانا چاہتے ہیں خود اپنے ہاتھوں اپنی قبریں کھود رہے ہیں۔ اب نہ تو سٹار وار، نائٹروجن اور ہائیڈروجن بم ان کے کام آ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی سیٹلائٹ، راکٹ، کنکارڈ اور جمبوجیٹ ان کو بچا سکتے ہیں، البتہ ان کے سازشی ذہن اب ایک نئے منصوبے پر کام کر رہے ہیں کہ جتنا جلد ہو سکے وہ اور ان کے حواری کسی دوسرے سیارے پر جا کر آباد ہو جائیں۔

ماہرین ماحولیات کا خیال ہے کہ مادیت پرست انسان جس مقدار میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کر رہا ہے، آئندہ ساٹھ برسوں میں اس کی وجہ سے دنیا کا اوسط درجہ حرارت اکیس درجے سنٹی گریڈ ہو جائے گا۔ درجہ حرارت کی اس حد تک بلندی زمین پر انتہائی دور رس نتائج مرتب کرے گی۔ سواحلی شہروں میں رہنے والی آبادی کا کثیر حصہ زمین کے بالائی حصوں پر نقل مکانی کرے گا، جو کہ وسائل پر بہت بڑا بوجھ ہو گا اور جس سے انسانی مسائل اور مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری زہریلی گیسوں کے بے پناہ اخراج نے فضا میں سب سے زیادہ نقصان اوزون کے اس غلاف کو پہنچایا ہے جو باری تعالی نے زمینی ماحول کو سورج اور دوسرے شمسی عناصر کی تابکار شعاعوں کے مہلک اثرات سے بچانے کے لئے زمین کے اردگرد لپیٹا ہے۔ زمین پر وقت کے فرعونوں نے اپنے اقتدار، غلبہ اور تسلط کو قائم رکھنے اور عیش کوشیوں کی خاطر اپنی ایجادات کے ذریعے اللہ تعالی کا عطاکرہ وہ اوزونی غلاف پھاڑ دیا ہے، اس نے دنیا میں بھی اپنے آپ کو بے ستر اور انسانیت کو بے لباس کر دیا ہے اور اجرام فلکی کے سامنے بھی اپنے آپ کو ننگا کر دیا ہے۔ چونکہ زمین پر بسنے والے وقت کے یہ فرعون سخت جاہل، ظالم اور جلد باز ہیں لہذا ان کی جلد بازی اور کوتاہ اندیشی اب انہیں ایک ایسے موڑ پر لے آئی ہے کہ مخلوقات سماوی کے مقابلے میں اب انہیں اپنا آپ بہت ہی کمزور بے بس اور بے بضاعت نظر آ رہا ہے۔ اس دنیا میں ساٹھ ستر برس جینے کے لئے انہوں نے ہزاروں برس کا سامان کیا، جو اب ان کے کسی کام نہیں آ رہا۔ وہ انسانی علوم و فنون اور عقل و دانش کے ذریعے زمین پر نوع انسان اور بقائے انسانیت کے لئے چپے چپے پر زراعت کھتی باڑی اور باغبانی کر سکتے تھے خواہ انسانی شرح آبادی کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جاتی، اللہ تعالی کی بنائی ہوئی یہ زمین جملہ نوع انسان کے لئے خوراک، لباس اور رہائش کے وسائل فراہم کر سکتی تھی۔ ہماری دنیا میں اتنی شادابی، آبادی اور زندگی کی رونقیں ہوتیں کہ یہ کرہ ارض جنت سماوی کی نظیر ہوتا اور ہر طرف ماحول کی آسودگی جلوہ افروز ہوتی، کہیں بھی نفرتوں، رقابتوں، عداوتوں اور حسد و کینہ کی آگ نہ ہوتی بلکہ ہر انسان دوسرے کا سنگی اور ساتھی ہوتا، نہ کوئی دشمن اور نہ عدوہوتا، اللہ تعالی کے بخشے گئے علوم و فنون سے انسان آئے دن ترقی کرتا اور زہریلی دھویں کی کثیف تہوں کی بجائے ہمارے اردگرد خوبصورت درختوں اورپھلوں کی بہار ہوتی، ہر طرف عطر بیز ہوائیں منڈلاتیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں نے اپنے علوم و فنون اور عقل و دانش کا بہت غلط استعمال کیا۔ اللہ تعالی جل مجدہ نے کرہ فضائی میں اوزون کا صرف دس لاکھواں حصہ رکھا ہے جو کہ ایک بہت ہی لطیف فضائی غلاف میں کرہ ارض کو ملفوف کئے ہوئے ہے۔ سطح زمین سے اٹھارہ کلومیٹر سے لے کر پچاس کلومیٹر تک پھیلی ہوئی اس لطیف تہہ میں اوزون کی کل مقدار پانچ ارب ٹن ہے۔ اس ساری اوزون کو اگر سمندر پر بچھا دیا جائے تو اس پر اس کی تین ملی میٹر موٹی تہہ بن جائے۔ فضائی کرہ میں پھیلی ہوئی اوزون کی یہ باریک تہہ بالائی بنفشی شعاعوں کو جذب کرتی ہے اور انہیں زمین پر پہنچنے نہیں دیتی کیونکہ یہ تابکار شعاعیں اس پر بسنے والے حیوانات اور نباتات کے لئے سخت مہلک و مضر ہوتی ہیں۔

لیکن فرعون صفت انسانوں نے اللہ تعالی کے بنائے ہوئے اس حفاظتی غلاف کو ایٹمی دھماکوں، راکٹوں، جہازوں، موٹرگاڑیوں اور کارخانوں کے زہریلے دھوئیں سے جگہ جگہ سے پھاڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں بالائی بنفشی شعاعیں اوزون کی تہہ میں پیدا ہونے والے سوراخوں سے رس رس کر زمین پر پہنچ رہی ہیں اور حیاتیاتی نظام کو سخت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ کرہ زمین کی آب وہوا کو تبدیل کر رہی ہیں۔ یہ نباتات، جمادات اور حیوانات کے خلیوں کے اندر گھس کر انہیں تباہ کر رہی ہیں اور ان سے وہ بیماریاں معرض وجود میں آ رہی ہیں جن کی حقیقت تک آج میڈیکل سائنس بھی پہنچنے سے عاجز ہے۔

قرآن حکیم جگہ جگہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی نے زمین پر انسان اور خوراک کو مہلک اور مضر جراثیم سے بچانے کے لئے بے شمار خوردبینی جانداروں کا ایک وسیع نظام تخلیق کیا ہے، لیکن انسانی بد اعمالیوں کی وجہ سے، بالائی بنفشی شعاعوں کے زمین پر پہنچنے کی وجہ سے وہ خوردبینی جاندار بری طرح ہلاک ہو رہے ہیں، کیونکہ ان کی خفیف مقدار بھی ان کے لئے ہلاکت خیز ہے۔ انسانی خوراک، اسی وجہ سے ناقص ہو رہی ہے، اس کے وہ اجزا جو انسانی جسم کی نشوونما کے لئے انتہائی مفید اور ضروری ہیں، ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انسانی جسم رو زبروز اپنی قوت مدافعت کھوتا چلا جا رہا ہے اور کمزور ہو رہا ہے۔ نت نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں اور بہت جلد انسان اپنے آپ کو اپنی سرکشی اور ذہنی پراگندگی کی وجہ سے اس نقطہ انجام پر پائے گا کہ کوئی بھی دوا اسے ان مہلک امراض سے بچانے کے لئے کارگرنہیں ہو گی۔

زمین پر ان شعاعوں کے پہنچنے کی وجہ سے، لڑکپن اور جوانی کے مرحلے انتہائی سرعت سے بڑھاپے میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ چوبیس پچیس برس کا جوان، اب ربع صدی پہلے کا ساٹھ سالہ بوڑھا نظر آتا ہے۔ کرہ زمین پر بسنے والے جانداروں میں زبردست جنیاتی تبدیلیوں (Mutation) کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ انسانی اجسام پر سرطان اور ایڈز جیسی بیماریاں حملہ آور ہو رہی ہیں، جن کا کوئی معقول علاج میسر نہیں ہے۔ دل کی بیماریاں اب معمول کی بیماریاں شمار ہونے لگی ہیں۔ عضلاتی عصباتی بے کیفیتی کا دور دورہ ہے۔

گلے میں سوزش اور آنکھوں میں جلن عام ہو گئی ہے۔ انسانی ذہن اضمحلال، پسماندگی (Depression) اور اعصابی تناؤ کا شکار ہو رہا ہے۔ احساس درد زیادہ اور احساس زیاں کم ہو گیا ہے، اسی ذہنی پراگندگی کی وجہ سے انسان ماحول کو مزید آلودہ بنا رہا ہے۔ آئے دن اللہ کا خوف نہ رکھنے والا انسان اپنی حرکتوں کی وجہ سے کئی قسم کی فضائی، ہوائی، سمندری، آبی، صنعتی، آبادیاتی، تعمیراتی، طبقاتی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور ماحولیاتی آلودگیوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اور اپنی زندگی کو مشکل سے مشکل تر اور زیادہ اذیت ناک بنا رہا ہے۔ انسان نے اپنے اردگرد اتنا شور پیدا کر دیا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، وہ ہر بات پر شور کر رہا ہے۔ چیخ رہا ہے، پاگل ہو رہا ہے اور مختلف آلودگیوں کی وجہ سے دباؤ اور سخت تناؤ کاشکار ہو کر جارحانہ انداز میں ایک دوسرے پر جھپٹ رہا ہے۔ وہ نہ تو کسی کی بات سنتا ہے اور نہ ہی اس میں برداشت کا مادہ ہے۔ ذہن کی اس پراگندگی کی وجہ سے ہر انسان کسی نہ کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہو گیا ہے، وہ چاہتا ہے کہ چاہے اس میں کسی خاص کام کرنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو وہ اس کام کو سر انجام ضرور دے، اسے تعلیم کی سب سے اعلیٰ ڈگری درکار ہے لیکن وہ اس کے لئے طالب علم بننا پسند نہیں کرتا، وہ کسی محنت و مشقت کا متحمل نہیں، وہ بہت بڑا افسر، بہت بڑا صنعت کار بہت بڑا بزنس مین بننا چاہتا ہے، لیکن محنت اور عدل وانصاف سے نہیں، چور دروازہ سے، اسے بہت بڑا عالیشان بنگلہ اور نئے ماڈل کی کار چاہئے، لیکن بغیر اصول اور ضابطوں کے، وہ بہت بڑا سیاستدان، ایم پی اے، ایم این اے، وزیر اعظم اور صدر بننا چاہتا ہے لیکن اسے ان ضوابط و قوانین اور علوم کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہو رہی، جن کی بدولت ایک فرد قیادت وسیادت کا اہل قرار پاتا ہے۔ وہ عجلت پسند ہو گیا ہے، و ہ اپنی زندگی کے تھوڑے دنوں میں وہ سب کچھ حاصل کرناچاہتا ہے جو وہ خود کسی دوسرے کو دینے یا حاصل کرتا دیکھنے کا روادار نہیں۔

آج کا انسان سخت لالچی اور خود غرض ہو گیا ہے وہ اپنے مہلک ایٹمی ہتھیاروں اور کارخانوں کے فاضل زہریلے مواد کو سمندروں میں پھینک کر سمندری مخلوق کو ہلاک کر رہا ہے۔ وہ اپنے صنعتی اداروں کے فضلات کو نالیوں اور بدروں کے ذریعے نہروں اور دریاؤں میں ڈال رہا ہے۔ وہ فضلات کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھر کر محلے میں دوسروں کے گھروں کے سامنے ڈال دیتا ہے۔ جہاں وہ ہفتوں مہینے پڑا رہتا ہے، خوش قسمتی سے محلے کی صفائی پر اگر کوئی شریف خاکروب مقرر ہو تو وہ اسے جھاڑو کے ذریعے دوسری غلاظتوں کے ساتھ نالی میں پھینک دیتا ہے۔ چھوٹی نالیاں اسے بڑے نالوںمیں پہنچاتی ہیں۔ یہ استعمال شدہ فاضل مواد، وہاں مدتوں جمع رہنے اور مختلف کیمیائی عوامل سے گزرنے کے بعد زہریلی گیسوں کی صورت فضا کو آلودہ کرتا ہے کوڑا کرکٹ جو مدتوں گلیوں اور سڑکوں پر پڑتاہے، ہوا اور پاس سے گزرنے والی موٹرگاڑیوں کے پہیوں کے ساتھ فضا میں گرد وغبار اور دھول کے مرغولے بناتا ہوا اڑتا، انسان کی بے بسی پر ہنستا رہتا ہے۔

سرکش اور اللہ کے باغی انسانوں کی فرعونیت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ مکانوں کی تعمیر کا ملبہ سڑک پر ڈھیر کرتا ہے اور مدتوں اسے ہٹانے کا نام نہیں لیتا۔ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر محلوں اور بازاروں میں سڑتی رہتی ہیں۔ نہ تواسے ہٹانے کے لئے شہری کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی میونسپل اداروں کے اہل کار، سال میں ہفتہ صفائی بھی منایا جاتا ہے، لیکن اخبارات میں اشتہارات کی حد تک، شہر اور چھاؤنی کی سب سے کشادہ اور خوبصورت سڑکوں پر عوامی انجمنیں اور غیر سرکاری ادارے (NGOs) اپنا "واک" بھی صاف ستھری فضا میں کرتے ہیں۔ انسان کے ماحول کی حالت، دفتر جانے والے اس خوش پوش بابو کی سی ہو گئی ہے جس کی قمیض اوپر سے صاف ستھری لیکن اس کے نیچے پہنی ہوئی بنیان اور موزے گندے اور بدبو دار ہوتے ہیں۔

موٹر گاڑیوں، بسوں اور رکشاؤں کے بد مست مالکان اور ڈرائیوروں کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ جب ان کی گاڑی کالا یا نیلا دھواں چھوڑتی ہے، سائلنسر شور مچاتا ہے تو پٹرول، ڈیزل اور انجن آئیل کا خرچ زیادہ ہو گا، انجن کو نقصان پہنچے گا، گاڑی سے نکلی ہوئی مہلک گیسیں ماحولیاتی آلودگی پھیلائے گی، جس سے اس کا بھی نقصان ہو گا، قوم کا بھی، دنیا کا بھی اور یہ سب کچھ ایک سنگین معاشی اور معاشرتی جرم ہے، لیکن وہ بے پرواہ ہے، وہ اپنی گاڑی کو اس وقت تلک درست اور انجن کو اوور ہال نہیں کرتا، جب تک کہ وہ پوری طرح ناکارہ نہ ہو جائے۔ پولیس والے اس سخت ترین معاشرتی اور قانونی جرم پر اس کے خلاف کاروائی کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ پولیس کا کام مدد کرنا اور لینا ہے اور دونوں اس کام میں ایک دوسرے کی پوری پوری مدد کرتے ہیں۔ موٹر گاڑیوں کے یہی نقائص ماحولیاتی آلودگی میں تیس فیصد اضافے کی باعث ہیں۔ ان سے کئی اقسام کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، یہ اعصابی بیماریاں انسان کو وحشی اور خونخوار بناتی ہیں۔ سٹرکوں پر مہلک حادثات کی بہت بڑی وجہ ڈرائیوروں کی بے ہنگم تیز رفتاری اورذہنی جارحیت (Aggression) ہوتی ہے۔ کارخانہ دار، صنعت کار اور اینٹوں کے بھٹوں کے مالکان خوب جانتے ہیں کہ ان کی چمنیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا مواد اور متعفن پانی ماحول کو کس خطرناک حد تک آلودہ بنا رہے ہیں۔ لیکن ان کو یہ توفیق نہیں ہے کہ ملکی اور انٹرنیشنل قوانین کے تحت وہ اپنے انجینئروں اور سائنس دانوں کو اس مہلک دھویں اور زہریلے پانی کے تخلیصی معالجے پر لگا دیں اور ایسے پلانٹس لگائیں جس سے ان عناصر اور مواد کو بے ضرر بنایا جا سکے۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی صنعت کار کو اس وقت تک کارخانہ لگانے کا لائسنس نہ دے جب تک کہ اس کے منصوبہ میں تخلیصی پلانٹ لگانے کا الگ پراجیکٹ نہ ہو، لیکن بے حسی اور بدنصیبی کی انتہاء ہے کہ یہی کارخانہ دار، جاگیردار اور وڈیرے ہی ہوتے ہیں کہ جو اپنی دولت کے بل بوتے سے انتخابات لڑتے ہیں اور جیت کر اعلیٰ حکومتی مناصب پر قابض ہو جاتے ہیں جہاں ان کا کام پیسہ کمانا اور اسے عیاشی اور بدقماشی میں اڑانا ہوتا ہے۔

جنگلات کے ٹھیکہ داروں، بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا ٹمبر مافیا اور ڈرگ مافیا انسانی صحت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ یہ وڈیرے اسمبلیوں کے ممبروں اور اعلیٰ افسروں سے مل کر جہاں حکومتوں کو بناتے بگاڑتے ہیں وہیں دوسری طرف روئے زمین سے جنگلات کا نام ونشان مٹا رہے ہیں۔ جنگلات کی بیدریغ غیر قانونی کٹائی روزمرہ انسانی زندگی کی ہلاکت کا سامان پیدا کرتی ہے۔ نشئہ اقتدار میں بدمست یہ خاص طبقہ کسی بھی فطرتی اور دنیاوی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ان کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے درختوں کا وہ بہت بڑا حصہ، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن کا اخراج کرتا تھا، کٹ کر ختم ہو گیا ہے اور جو باقی ہے وہ اپنے فطرتی عمل انضمام کو مزید ادا کرنے سے قاصر ہے۔

انیسویں اور بیسویں صدی کی بے پناہ سائنسی اور صنعتی ترقی نے دنیائے ارض کو کیا دیا ہے؟ انسان نے انفرادی فرعونیت سے نکل کر اجتماعی فرعونیت کا تصور اپنایا جس میں چند طاقتور با اثر افراد مل کر فرعون نو کا کردار ادا کرتے ہیں، اور کرہ زمین کو انسان اور دیگر مخلوقات کے لئے جہنم بناتے ہیں۔ دنیا میں امن و سکون ناپید ہو گیا ہے، اطمینان اور خوشی باقی نہیں رہی، ہر شخص قلبی اور ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے۔ دنیا کے ننانوے فیصد لوگ وقت کے فرعونوں اور بدسلوک انسانوں کے تابع ہیں اور ان کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں، فرعونی حاکمیت کو دن بدن مزید استحکام مل رہا ہے۔ ہر طرف نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کے لئے جنت کا نعم البدل ایک قطعہ ارضی بنایا تھا تاکہ وہ اس میں خوشگوار ماحول پا سکے اور اپنی نیک عملی سے اسے خوشگوار تر بنائے، جنت نشان کرے تاکہ حقیقی جنت میں داخل ہونے کی تربیت حاصل کر سکے۔ لیکن بنی نوع انسان اور دیگر جاندار اب دنیائے ارض کے جہنم کی آگ، حرارت، گرمی اور دھوئیں میں بھسم ہو رہے ہیں۔ یہ اندوہ ناک کیفیت اس وقت تک رہے گی جب تک انسان انسان نہ بن جائے، جب تک انسان اپنی ذہنی غلاظتوں، نفرتوں، عداوتوں، منافقتوں، جھوٹ، دغا، فریب، حسد، بغض، کینہ اور انتقام کے جذبوں کو سرد نہیں کرے گا۔ اپنے آپ میں لگی جہالت کی آگ سے نجات نہیں پائے گا، اسے آسودگی نصیب نہیں ہو گی، ماحول کی آسودگی صرف اور صرف محبت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔ محبت ہی اصل مقصد زندگی اور منشور حیات ہے، اس منشور کے تحت سب انسانوں کے حقوق زندگی برابر ہوتے ہیں۔ محبت ہی فاتح عالم ہے۔