ماں اور اس کی ذمہ داریاں

مسز زرینہ خانزادہ

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

دستور زمانہ اور لافانی حقیقت ہے کہ دنیا کی سبھی قوموں کا قیمتی سرمایہ ’’بچے‘‘ ہوا کرتے ہیں اگر اس وقت وہ گود کا کھلونا ہیں تو آگے چل کر وہی مستقبل کے معمار بنیں گے۔ ماں کی گود بچے کی درسگاہ اول ہے۔ اسی عظیم درسگاہ سے وہ اخلاق حسنہ، اطاعت و فرمانبرداری اور دنیا میں زندگی گزارنے کے سلیقے، ڈھنگ اور طور طریقے لے کر معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ اس لئے ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرز پر کرے کہ ان کے رگ و ریشہ میں دین کی روح پھونک دے اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں از خود صفات کاملہ کی حامل ہو اس لئے کہ بچہ جیسے ماں کو دیکھے گا ویسا ہی بننے کی کوشش کرے گا۔ ماں تو کہتے ہی اسے ہیں جس میں ہمدردی، خیر خواہی، ایثار نصیحت و برداشت اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ ماں کو جتنی عظمت خداوند تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھی وہ انہی قربانیوں کے پیش نظر دی ہے۔ ماں اپنے اندر باپ سے کئی گنا زیادہ دلسوزی، درد مندی اور خیر خواہی کے جذبات رکھتی ہے اور تلخ کلامی اور سخت بیانی سے کوسوں دور رہتی ہے۔ ماں اپنی منزل کہکشاں سے ہوکر نہیں کانٹوں اور پتھروں سے گزر کر حاصل کرتی ہے۔ لہذا اسی اہمیت اور افادیت کے پیش مثالی ماں کے عنوان سے چند اصول و قوانین پر مشتمل مضمون قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔

1۔ بچوں کو سلام کرنے کی عادت ڈالنا

ماں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو سلام کرنا سکھائے کہ جب بچہ کسی سے ملاقات کرے یا کسی کا فون آئے تو بجائے ہیلو کے سب سے پہلے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا :

وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا

(النساء، 4 : 86)

’’اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت میں اللہ رب العزت نے سلام اور اس کے جواب کے آداب بتلائے ہیں۔ لہذا مسلمان مائیں اپنی اولاد کی تربیت کریں کہ وہ اس کلمہ کو رسمی طور پر عام لوگوں کی طرح ادا نہ کریں بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کریں اور سلام کو پھیلانا اپنی عادت بنالیں۔ کیونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

لَاتَدْخُلُوْنَ الْجَنَّة حَتّٰی تُوْمِنُوْا وَلَا تُوْمِنُوْا حَتّٰی تَجَابُّوْا، اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَئْیٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْهُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوْا السَّلَامَ بَيْنَکُمْ.

 (رواه مسلم و ترمذی)

’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہاری آپس میں محبت قائم ہوجائے گی۔ وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو (یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو)

2۔مامتا کی شفقت

ایک ماں اپنے خاندان کی روح رواں ہوتی ہے۔ اسی کے وجود سے گھر کا تمام نظام قائم رہتا ہے۔ اگر ماں باپ نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہو تو خواہ سب افراد خاندان مل کر رہیں، یا الگ الگ، اس خاندان کی ساکھ، بھرم اور نظم و ضبط کو قائم رکھا جاسکتا ہے ایسے خاندان کا ہر فرد برا وقت پڑنے پر یا کسی اور آزمائش کے وقت میں تندہی سے جم کر اس صورتحال کا سامنا کرتا ہے اور خاندان کی خصوصاً ’’ماں‘‘ کی بلند ہمتی کو ہر قیمت پر برقرار رکھتا ہے۔

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا، موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے

مامتا کی شفقت مثالی ہے اگر کسی ماں کو بچوں پر بہت غصہ آتا ہو اور وہ اپنے اندر شفقت کا جذبہ پیدا نہ کر پاتی ہو تو ایسی ماں کو چاہئے کہ دو رکعت صلوۃ الحاجت کی نیت سے پڑھ کر دعاما نگیں اے میرے مالک میرے اندر یہ جذبہ پیدا فرما دے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا محاسبہ کرے کہ اگر میں شفقت اور محبت سے ان کی تربیت کروں گی تو اس پر مجھے اللہ تعالیٰ بہت ہی زیادہ اجرعطا فرمائیں گے۔ میری موت کے بعد میرے بچے میرے لئے صدقہ جاریہ ہوں گے اور سب سے بڑی بات کہ اللہ رب العزت مجھ سے راضی ہوں گے۔

3۔ بے جا لاڈ پیار بچے کے لئے نقصان دہ

سب مائیں یقینا اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں یہی پیار و محبت بعض بچوں کو مستقبل میں برا آدمی بنا دیتا ہے جس کی وجہ موقع محل کی پہچان اور عدم پہچان ہے کہ بچے شرارتیں کرتے ہیں ان کو پیار اور محبت سے بات سمجھائی جائے جیسے کھانا اگر بچہ ضائع کر رہا ہے تو اس کو سمجھانا چاہئے کہ اس طرح اللہ پاک کی ناشکری ہوگی اور اگر اللہ پاک ہم سے ناراض ہوگئے تو پھر جتنی چیزیں ہمیں دی ہیں وہ واپس لے لیں گے۔ لہذا آپ ایسی حرکت آئندہ نہ کرنا۔ اگر بچہ کی بے جا شرارتوں اور غلط حرکات کو بروقت حکمت کے ساتھ سدھارا نہیں گیا تو بچے کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔

4۔ بچوں کی ضد

ضد اور ہٹ دھرمی کی عادت بہت بری ہے ماں باپ اگر بچوں کی خیر خواہی اور بھلائی چاہتے ہوں تو ان کی یہ ذمہ داری اور فرض ہے کہ بچے میں ضد کی خصلت پیدا ہوتے ہی اس کو دبا دیں اگر ایسا نہ کریں گے تو بچہ بھی ہاتھ سے جائے گا اور خود بھی مصیبت میں پھنس جائیں گے مثلاً اگر بچہ نقصان دہ چیز مانگنے کی ضد کر رہا ہے تو اس کا نقصان اس کو سمجھائیں اور کسی دوسرے کام میں مشغول کر دیں۔ اگر دو چار مرتبہ اس کی بے جا ضد پوری نہ کی گئی تو وہ سمجھ جائے گا کہ رونے دھونے اور ضد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا اور پھر وہ اپنی عادت ان شاء اللہ چھوڑ دے گا۔

5۔ بچوں کی نفسیات کا مطالعہ

ماں بچے کی حرکات و سکنات اور اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اس طرح ماں کو معلوم ہوگا کہ بچے کا قد اور وزن پچھلے ماہ کے مقابلے میں کتنا بڑھا ہے۔ سکول کے مختلف مضامین میں اس کی پراگرس کیا ہے۔ وہ کون سا کھیل پسند کرتا ہے؟ دوستوں کے ساتھ اس کے مراسم کیسے ہیں؟ پسندیدہ مضمون کونسا ہے؟ فارغ وقت میں کیا کرتا ہے؟ ماں کے ساتھ اس کا دوستانہ تعلق ہونا چاہئے۔ بہترین تربیت کے حوالے سے بچے کی عمر کے لحاظ سے والدین کو باہم مشاورت ضرور کرنی چاہئے۔

6۔ بچوں کی خود مختاری

ہر بچے کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ لوگوں میں اس کی حیثیت ممتاز ہو اور وہ اپنے گھر میں نمایاں مقام رکھتا ہو۔ اس تقاضا کے تحت وہ مشکل سے مشکل کام بھی سر انجام دے لیتا ہے بچہ جیسے جیسے شعوری پختگی اختیار کرتا جاتا ہے اس میں عزت نفس اور خودداری کا احساس تقویت پاتا ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس لئے ہر بچہ اپنی انفرادیت کا خواہاں ہوتا ہے۔ بچے کی خودمختاری اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متوازن اور مناسب رویہ اختیار کریں نہ اس قدر آزادی دیں کہ بچہ شرم و حیاء اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرے اور نہ ہی اتنا دبایا جائے کہ دیواریں پھلانگنے پر مجبور ہوجائے۔

7۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت و دعا

عقل مند اور تجربہ کار عورتیں اپنی اولاد کی تربیت پر نظر رکھتی ہیں ان کو انسان بنانے کی کوشش کرتی ہیں حسنِ خوبی اور سلیقہ سے، پیار و محبت سے تربیت کرتی ہیں۔ آمدنی تھوڑی ہونے کے باوجود حسن انتظام سے گھر چلاتی ہیں۔ بچوں کی تربیت کا مرحلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی ابتدا ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے جس قسم کے خیالات و نظریات اور رجحانات ماں کے ہوں گے وہی خیالات لیکر بچہ دنیا میں آتا ہے۔ بہر حال یہ بات ضرور ہے کہ بچوں کے پیدا ہونے کے بعد ان کی اصلاح ماں کے اختیار میں ہے۔

بچپن سے ماں کو چاہئے بچوں کے لئے دعا مانگنے کا اہتمام کرے۔ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے بھی دعا مانگے۔ ان کے اچھے رشتے، ان کی روزی میں برکت اور زندگی میں صحت و عافیت کی بھی دعا مانگیں۔

8۔ بچوں کو خوش رکھنے کی فضیلت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ان فی الجنة داريقال لها دارالفرح لايدخلها الا من فرح الاطفال.

 (کنزل العمال)

’’جنت میں ایک گھر ہے جسے دارالفرح (خوشیوں کا گھر) کہا جاتاہے اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اپنے بچوں کو خوش رکھتے ہیں‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کو خوش رکھنا اللہ کی رضا مندی کا سبب بھی ہے۔  بچوں کو خوش رکھنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً بچوں کے ساتھ کبھی کبھار ان کے کھیل میں شریک ہونا۔ ان کی جائز و ننھی خواہشات کا پورا کرنا، ان کے ساتھ اچھے اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آنا کبھی کبھار کوئی ایسا لطیفہ سنانا جس سے وہ خوش ہوکر بے اختیار ہنس پڑیں لیکن مزاح میں بھی جھوٹ کا دخل نہ ہو۔ اس کا سبق بھی ہمیں سیرت پاک سے ملتا ہے کہ آقا علیہ السلام سے ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نے کہا کہ میرے لئے دعا فرما دیں کہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت میں تو بوڑھوں کا داخلہ نہیں ہوگا اس پر وہ رونے لگی آپ مسکرا پڑے اور فرمایا جنت میں سب مرد و عورت جوان ہوکر داخل ہونگے۔ اگر اس طرح کا مزاح ہو جس میں نہ کسی کی دل آزاری ہو نہ جھوٹ کا دخل ہو تو بچے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے خوش اخلاقی اور خندہ روی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

یاد رکھئے بچوں کی تعلیم محض بڑے سکولوں میں داخلہ دلوادینا یا محض اچھا نصاب پڑھا دینا نہیں ہے۔ تعلیم محبت، ہمدردی، سچائی، خدمت خلق اور تہذیب و ادب سکھانے کا نام ہے۔

9۔ بچوں کو نصیحت کرنا

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس باتوں کی وصیت فرمائی اس میں سے آخری دو یہ ہیں۔

وَلَا تَرْفَعُ عَنْهمْ عَصَاکَ اَدْبًا وَاَخْفِهِمْ فِی اللّٰه.

 (احمد والطبرانی)

’’تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا اور اللہ رب العزت سے ان کو ڈراتے رہنا‘‘۔

اس حدیث کی شرح کچھ یوں ہے کہ لکڑی نہ ہٹانے سے مراد ہے کہ اس سے بے فکر نہ ہوں کہ انہیں حدود شرعیہ کے تحت میں کبھی کبھار مارنے کی ضرورت بھی پیش آئے تو تنبیہ و نصیحت کے واسطے ہوسکتا ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو۔ حضرت لقمان حکیم کا ارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لئے ایسی ہے جیسا کہ کھیتی کے لئے پانی۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے یہ ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے اور ایک صاع تقریباً ساڑھے تین کلو غلہ کا ہوتا ہے۔

10۔ بچوں کی تربیت کا مسنون طریقہ

کتب احادیث میں آقا علیہ السلام کا بچوں کو تربیت دینے کا ایک واقعہ لکھا ہے۔

حضرت رافع ابن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا (ایک دن) انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا لڑکے تو کھجوروں کے درخت پر پتھر کیوں پھینکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کھجوریں کھاتا ہوں (یعنی کھجوریں کھانے کے لئے ان کے درختوں پر پتھر مارتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹے! پتھر نہ پھینکا کر بلکہ وہاں جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں ان کو کھا لیا کر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا! اے اللہ تو اسے سیر فرما۔ آقا علیہ السلام نے ہمیں اپنی سنت کے ذریعے بات سمجھا دی اور سب سے پہلے اس کی وجہ پوچھی جائے۔

پھر نہایت شفقت کے ساتھ نصیحت فرمائی دیکھئے بچے کی کھجوریں کھانے کی خواہش بھی پوری ہوگئی اور جو لوگوں کو تکلیف تھی کہ ان کے درختوں پر پتھر پڑتے تھے جس سے اور کھجوریں بھی خراب ہوتی تھیں وہ بھی دور ہوگئی۔

11۔ بچوں کیلئے نیک صحبت کا انتخاب

آقا علیہ السلام نے فرمایا :  انسان اپنے دوست کے طریقہ پر ہوتا ہے۔ اس لئے تم میں سے ہر شخص یہ دیکھ لے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ جب انکے بچے سن شعور میں قدم رکھیں تو ان کے لئے ایسے نیک صالح اور سمجھدار ساتھیوں کا انتخاب کرے جو انہیں اسلام کی حقیقت سمجھائیں اور ایسی بنیادی باتیں سکھائیں جو ہر چیز پر محیط ہیں۔

بالغ بچوں کو شرعی مسائل کی تعلیم

ہمارے پاکستانی معاشرے میں بچوں کو شرعی مسائل کی تعلیم کے حوالے سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ماں اور باپ اپنے بچوں سے شرم و حجاب میں ان کو ضروری شرعی مسائل تک سے نا واقف رکھتے ہیں لہذا ہونا یوں چاہئے کہ جیسے ہی والدین محسوس کریں کہ اولاد بالغ ہونے کے قریب ہے اور ان میں دینی و شرعی مسائل سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے تو وہ انہیں نہایت حکمت سے کچھ ضروری باتیں سمجھا دیں۔