عصر حاضر کی مسلمان عورت کیلئے سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے نقوشِ سیرت

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

گلستانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر پھول یوں تو اپنی جگہ نور ونگہت کا مصدر اور انوار و تجلیات کا جامع ہے، لیکن خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین، امہات المومنین رضی اللہ عنہن اور عترت و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ خوش قسمت ترین طبقات ہیں جوبہ توفیق ایزدی دن رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در انور سے وابستہ رہے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے فیض نبوت سے براہ راست انوار جذب کرنے کا نادر موقع عنایت فرمایا۔۔۔۔ لیکن ہمارا موضوع اس ہستی کا تذکرہ ہے جو نہ صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار صحبت سے اکتساب کرتی رہیں بلکہ رہتی دنیا تک اس حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوضات کی قاسم و مختار ہیں یعنی سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا، امام الانبیاء کی تصویر، مالک ردائے تطہیر، چمن زارِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہار، عفت و عصمت کا دُرِّ شہسوار ’’حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا‘‘۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ، احمد رحمۃ اللہ علیہ ، نسائی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک فرشتہ آسمان سے اترا اس نے اللہ کی اجازت سے مجھے سلام کیا اور بشارت دی کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ بے شمار احادیث، آثار اور اقوال ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کا قابل رشک ذکر ملتا ہے۔ لیکن یہاں مقصود، بیان فضائل نہیں بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی شخصیت مطہرہ اور سیرت طیبہ کا تذکرہ ہے۔ وہ شخصیت جس میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عکسِ جمیل پوری آب و تاب کے ساتھ جھلکتا ہے اور وہ سیرت جس کی پاکیزگی پر فردوس بریں کی حوریں ہزار بار قربان ہوں۔

خواتین اسلام کے لئے سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی ذات بابرکات اسی طرح اسوہ کامل ہے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ شاعر اسلام علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حضور بڑی خوبصورتی، عقیدت اور کمال محبت سے نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ مثلاً اس ایک شعر میں ان کی بلند مرتبہ شخصیت کا مکمل نقشہ کھینچتے ہوئے کہتے ہیں :

مزرع تسلیم را حاصل بتول (ر)
مادراں را اسوۂ کامل بتول (ر)

یعنی آپ تسلیم و رضا کی کھیتی کا حاصل اور مسلمان ماؤں کے لئے مکمل اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔

دختران اسلام ہر شعبہ زندگی میں اپنے آپ کو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات مقدسہ کے آئینے میں دیکھیں تو ایک مثالی بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کی خصوصیات درجہ کمال پر ملتی ہیں۔ شہزادی کونین اور شمع شبستان حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکیزہ سیرت اور حیات طیبہ ہر دور کی مسلمان خواتین کے لئے ہر لحاظ سے نمونہ کمال اور واجب الاتباع ہے لہذاآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حیات مقدسہ سے روشنی کشید کر کے موجودہ دور کی خواتین کو واضح نمونہ عمل دکھانا وقت کی اہم ترین دینی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ ہر خاتون اگر وہ معاشرے میں نیکی، بھلائی اور حسن عمل کے نقوش چھوڑنا چاہتی ہے تو اس کے لئے اپنی پوری زندگی کو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں پروان چڑھنے والے اسوہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں ڈھالے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ اس لئے ہم آئندہ سطور میں حسب ذیل تین پہلوؤں کے حوالے سے اسوہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطالعہ کریں گے۔

1۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نقوش سیرت بطور بیٹی

2۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نقوش سیرت بطور بیوی

3۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نقوش سیرت بطور ماں

نقوش سیرت بطور بیٹی

شہزادی کونین حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت پانچ سال کی تھیں۔ اس عمر میں بالعموم ہر بچہ خارجی حالات و واقعات کا شعور رکھتا ہے۔ گویا فاران کی چوٹیوں سے چمکنے والا آفتاب نبوت جس کی کرنوں نے پوری انسانیت کو یکسر بدل کر رکھ دیا اس کی پہلی جھلک سے مُستنیر ہونے والے چند خوش قسمت نفوس میں آپ (ر) بھی شامل تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غار حراء سے کئی کئی دنوں بعد لوٹتے ہوں گے تو یقینا ننھی سیدہ دوڑ کر دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتی ہوں گی اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لپک کر ان کو اپنے منور سینے سے لگاتے ہوں گے۔ یوں ابتدائے وحی اور اس کی جملہ کیفیات نہ صرف آپ نے ملاحظہ فرمائیں بلکہ تجلیات الہٰیہ کو بالواسطہ جذب کرنے کا موقع بھی ملتا رہا، نیز اسلام کی خاتون اول حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت نے بھی آپ کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کئے۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں ’’میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر روزمرہ زندگی کے معمولات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ کسی کو نہیں پایا۔ (ترمذی) مراد یہ ہے کہ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے اخلاق، ذات و صفات، عبادت و طاعت اور قول و فعل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ تھیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، آپ رضی اللہ عنہا بچپن سے لے کر تادمِ زیست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جتنی قریب رہی ہیں اس کا لازمی تقاضا بھی یہی تھا اور پھر آپ سے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مبارک آگے چلنا تھا۔ اس لئے قدرت نے آپ کو رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکمل پرتو بنادیا تھا۔ یہی حالت سیدنا امام حسن، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بقیہ ائمہ اہل بیت کی تھی جس کو بھی دیکھیں وہ قول وعمل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل شبیہ لگتا تھا۔

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور، تیرا سب گھرانہ نور کا

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پوری حیات مقدسہ بناوٹ، تکلف اور زیب و زینت سے پاک تھی۔ حتیٰ کہ عمدہ کھانے یا زرق برق لباس پہننے کی بھی کبھی تمنا نہ ہوئی۔ اس سلسلے میں بعض کتب سیر میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک بار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کسی تقریب میں جانا تھا۔ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے نیا لباس یا دیگر سامان زیب و زینت نہ تھا۔ دل میں خیال آیا کہ مکہ کی رئیسہ اور بنو ہاشم کے چشم و چراغ کی اہلیہ ہوں، فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی ہم عمر سہیلیوں کو آراستہ و پیراستہ دیکھ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہوجائے، یہ سوچ کر تقریب میں جانے کا پروگرام ملتوی کردیا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا ’’امی جان آپ کیوں نہیں جاتیں؟‘‘ فرمایا ’’بیٹی! میں تمہیں اس حالت میں کیسے لے کر جاؤں؟ عرض کرنے لگیں میرے سامنے اس سامان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ مجھے اپنے والد بزرگوار نے فرمایا ہوا ہے کہ ’’مسلمان بیٹی کا زیور تقویٰ اور پرہیزگاری ہے‘‘۔

٭ عورت کتنی بھی نیک اور خوش خصال کیوں نہ ہو، دوسری عورت کی عیب جوئی کرنا بالعموم اپنا حق سمجھتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دو صحابیات کو روزہ رکھوا کر ان کے سامنے پیالہ رکھا اور جب قے کروائی تو خون اور گوشت کے لوتھڑے دکھائی دیئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’تم نے غیبت کر کے گویا اپنے مسلمان بہن بھائیوں کا گوشت کھایا ہے‘‘۔ قرآن نے بھی غیبت کو زندہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے لیکن حضرت سیدہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بچپن سے ہی غیبت اور عیب جوئی سے نفرت کرتی تھیں۔ ایک بار کچھ عورتیں اکٹھی ہوئیں اور حسب عادت دوسری عورتوں کی غبیت کرنا شروع کردی، آپ فوراً اٹھ کر چلی گئیں، سبب پوچھنے پر فرمایا۔ ’’میرے والد گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیبت کرنے اور سننے سے منع فرمایا ہے‘‘۔

٭ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مبداء فیض صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیوضات ظاہری و باطنی کے علاوہ ذہانت کا وافر حصہ پایا تھا۔ اس لئے ہر ذہین بچے کی طرح آپ بھی مظاہر قدرت کو دیکھ کر اس کے خالق کا سراغ لگاتی تھیں۔ ایک روایت میں آپ کے اسی قسم کے واقعہ کا ذکر ملتا ہے کہ ایک دن معصومہ کائنات نے والدہ ماجدہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا ’’امی جان! جس اللہ جل مجدہ نے ہمیں اور اس پوری کائنات کو پیدا کیا ہے کیا ہم اسے بھی دیکھ سکتے ہیں؟ اس پر حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حکمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی اور اس کی معرفت کے حصول کے طریقے بتائے اور فرمایا کہ اس کے برگزیدہ بندے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جلوؤں کا نظارہ کرتے ہی ہیں، آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دیدار سے ضرور مشرف فرمائے گا۔ اس طرح سرور کائنات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سارا دن دعوت حق کے کٹھن فریضے کی انجام دہی کے بعد گھر واپس آتے تو ازراہ شفقت حضرت سیدہ رضی اللہ عنہا کو معرفت دین پر مبنی باتیں بتاتے جنہیں وہ خداداد ذہانت کے سبب مِنّ و عَن یاد کرلیتیں اور والدہ محترمہ کے پوچھنے پر انہیں سنا بھی دیتیں۔ یوں آپ نے آغوشِ نبوت میں علوم و معارف کے دریا اپنے اندر جذب کئے اور فیوض نبوت کی وارث اور مخزن قرار پائیں۔

٭ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوق کے مقابلے میں اضافی خصائص سے نوازا ہے ان میں جذبہ ایثار و قربانی بھی ایک اہم صفت ہے۔ یہ ایمان کی علامت، تقویٰ کا معیار اور انسانیت کا شرف ہے۔ حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں یہ جذبہ کیوں نہ ہوتا ان کے والد، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ایثار کے پیکر اور قربانی کا عنوان تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے متعلق زیادہ واقعات تو محفوظ نہیں تاہم یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ نے معصوم عمر میں مصائب و آلام کی جتنی کٹھن گھاٹیاں اہل خاندان کے ساتھ عبور کیں ان میں قدم قدم آپ کی صبرو استقامت اور ایثار و قربانی کا جذبہ کارفرما تھا۔ بعض کتب میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ فاطمہ نامی ایک عورت جو شام کے کسی رئیس کی لڑکی تھی، تورات، زبور اور انجیل کی عالمہ تھی۔ وہ ایک مرتبہ شام سے مکہ میں آئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر بہت سے تحائف لے کر آئی یہ تحائف اس نے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں پیش کئے۔ آپ نے خاتون کا استقبال کیا، اس کی خاطر تواضع کی، پھر فرمایا کہ اگر آپ اجازت دیں تو یہ تحائف اہل اسلام میں تقسیم کردوں؟ اس نے بخوشی اجازت دے دی اور آپ نے سب تحائف تقسیم کے لئے بھیج دیئے۔ اس عمر میں ایثار کی یہ شان اور دنیا کے مال و اسباب سے بے رغبتی کی کیفیت دیکھ کر وہ اجنبی عورت ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ شہزادی کون و مکاں کی بارگاہ میں بیٹھی تھی جو خدا کی نعمتوں کے قاسم کی حقیقی وارث تھیں۔ جہاں صبح و شام دنیا و آخرت کے خزانے بٹتے تھے اور قیامت تک فیض کا یہ دریا پوری جولانیوں کے ساتھ اسی طرح جاری رہے گا۔

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء طاہرہ رضی اللہ عنہا کے بچپن کی سیرت کا تذکرہ ادھور ا رہے گا اگر والدین کے ساتھ آپ کی کیفیت محبت و اطاعت کی جھلک نہ دکھائی جائے، واقعہ یہ ہے کہ سید دو عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نور نظر اور لخت جگر ہونے کے ناطے جملہ صفات قدرتی طور پر آپ کی شخصیت مطہرہ کا جزوِ لاینفک تھیں۔ اس لئے والدین کی اطاعت جیسی طبعی، فطری صفت اور اس تعلق محبت کی کیفیت کا اندازہ لگانا ہمارے فہم و ادراک سے ماوراء ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فیض نظر نے جس طرح حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو کمسنی میں آداب فرزندی سکھادیئے اور وہ پدر بزرگوار کے ایک اشارے پر اپنا سرتن سے جدا کروانے کے لئے تیار ہوگئے تو محبوب خدا، سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان نظر نے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو کس قدر اعلیٰ اور پاکیزہ آداب سے آراستہ کیا ہوگا؟ اس اطاعت و محبت کی گہرائیوں تک ہمارے تصورات کی رسائی کیسے ممکن ہے کہ اسے ہم الفاظ کا جامہ پہنا سکیں؟

اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو حضرت سیدنا امام حسن و حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما کی سیرت و کردار اور دین کی خاطر ان کی قربانیوں کا انداز دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اسی فیضان نظر کے کرشمے تھے کہ کربلا کے ریگزاروں سے لے کر اطراف و اکناف عالم میں آج تک حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسبی فرزندوں کی قربانیوں کا لازوال سلسلہ جاری و ساری ہے۔

اتباع فاطمہ رضی اللہ عنہا میں مسلمان بیٹیوں کے فرائض

مندرجہ بالا نقوش سیرت سے حاصل ہونے والے نکات جو ایک مسلمان بیٹی کے لئے راہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں، خلاصۃًحسب ذیل ہیں۔

* بیٹی پر فرض ہے کہ وہ والدین کی خدمت و اطاعت دل و جان سے کرے۔ جدید نسل اور بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ اپنے والدین کی عزت و توقیر نہیں کرتا۔ خاص طور پر مذہبی اور دینی نصیحت کو نفرت کی حد تک رد کرتا ہے، ایسی اولاد دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہے۔

* بیٹی والدین کی جائز خواہشات پر مرمٹنے کے لئے تیار رہے، ان کی عزت وناموس کا خیال رکھے، اپنی عفت و حیاء کو داغدار ہونے سے حتی الوسع بچائے رکھے۔

* والدین کے لئے راحت و سکون کا باعث ہو نہ یہ کہ شرم و عار کا سبب بنے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تو اس وقت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھارس تھیں جب اپنوں اور بیگانوں نے تلواریں نیام سے باہر نکال رکھی تھیں اور سب آپ کے جانی دشمن ہوچکے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے لئے یہ دور کھیل کود میں مگن رہنے کا تھا لیکن قربان جائیں اس تقدس مآب شہزادی کی عظمتوں پر کہ اس کم سنی میں بھی سراپا اطاعت اور مونس و غمخوار رہیں۔

* اگر والدین معاشی اعتبار سے تنگ دست ہوں، تو کفایت شعاری اپنائے۔ بلاوجہ فرمائشیں، اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو نازو نعم میں پلنے والی تھیں مگرشعب ابی طالب میں اہل خاندان کے ہمراہ تین سال درختوں کے پتے اور ٹہنیاں کھاکر گزارہ کیا لیکن زبان پر حرف شکایت نہ لایا۔

اس شکم کی قناعت پر لاکھوں سلام

* تعلیم و تربیت کے حصول میں محنت، لگن اور دلچسپی ضروری ہے۔ والدین یا اساتذہ کی اچھی باتوں کو پلے باندھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہی اس کے سیکھنے اور علم کو عمل میں ڈھالنے کا سنہری دور ہے۔

* اگر سوتیلی ماں کے ساتھ رہنا پڑے تو صبر و استقامت اور اطاعت و محبت کا ویسا ہی مظاہرہ کرے جیسا کہ اپنی حقیقی ماں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور گھر میں آپ کے ساتھ رہتی تھیں مگر کبھی کسی کو آپ سے شکایت نہ ہوئی بلکہ سب کی سب امہات المومنین رضی اللہ عنہن آپ کے محاسن و اخلاق کی دل و جان سے معترف تھیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کے فضائل و محاسن پر مبنی اکثر احادیث حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہیں۔

* خویش و اقارب بہن بھائیوں اور عزیزوں سے حسن سلوک بھی سیدہ کی سیرت کا تابناک پہلو ہے۔

نقوش سیرت بطور بیوی

ذیل میں ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ازدواجی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہوئے مسلمان بیوی کے لئے اسوہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روشنی کشید کریں گے۔

٭ گھر، معاشرتی زندگی میں امن وسکون اور اعتدال و توازن قائم رکھنے کے لئے بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اس اہم ترین محاذ کو اسلام نے بہت سنجیدگی سے لیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایک صالح، مسلمان خاتون کی صالحیت، قابلیت اور وقار کا دارومدار اس کی گھریلو ذمہ داریوں میں عہدہ برائی سے مشروط کردیا گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ دوسرے معنوں میں گھر اسلامی معاشرے کا وہ اہم مورچہ ہے جہاں بیٹھ کر عورت اپنا اصل جہاد کرتی ہے اور مرد کے شانہ بشانہ جہاد زندگانی میں بھرپور حصہ لیتی ہے۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کا مرحلہ ہو یا اولاد کی پرورش و تربیت کا مسئلہ سب جگہ خاتون خانہ کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور یہ کردار گھر کی پرامن چاردیواری میں ہی ادا ہو سکتا ہے۔

سیدۃ نساء العالمین سے بڑھ کر ان گھریلو ذمہ داریوں سے کون زیادہ واقف تھا۔ عین جوانی (27 یا 28سال) کی عمر میں وفات کی وجہ سے اگرچہ آپ کی ازدواجی زندگی پر مشتمل حصہ بہت مختصر ہے لیکن آپ کی اس کم و بیش دس سالہ گھریلو ازدواجی عرصہ زندگی میں اسلامی خواتین کے لئے بھرپور نمونہ عمل موجود ہے۔

٭ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے آپس میں باہمی رضا مندی سے گھریلو امور اور ذمہ داریوں کی تقسیم کچھ اس طرح کر رکھی تھی کہ باہر کے سارے امور اور ضروریات زندگی کی فراہمی حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذمے تھی اور گھر کے سارے کام، چکی پیسنا، جھاڑو دینا، بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر گھریلو امور کی انجام دہی حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے سپرد تھی۔ ان امور میں آپ کی خوشدامن حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا بھی معاون تھیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارج النبوہ میں یہ روایت درج کی ہے کہ یہ تقسیم خود تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ اس طرح ان کی زندگی میں تنگ دستی کے باوجود خوشگوار تعاون اور حسن و سکون پیدا ہوگیا تھا۔

٭ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھیں کہ بیوی کا مزاج شوہر کے مزاج اور فکرو عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اسے سعادت مندی کی مسند پر بٹھادے اور چاہے تو بدبختی کے گڑھے میں دھکیل دے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد میدان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدنی زندگی میں جتنے معرکہ ہائے حق و باطل بپا ہوئے، ان میں علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کاری ضربیں تاریخ شجاعت کا تابناک باب ہیں۔ آپ (ر) فاتح خیبر، غازی بدر و احد و حنین اور خندق کے صف اول کے مجاہد تھے۔ ایسے ہمہ جہت مرد مجاہد اور عظیم سپہ سالار کی خدمت کے لئے حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی خیر خواہ محب و مخلص اور بہادر زوجہ، قدرت کا اپنا انتخاب تھا۔ حضرت سیدہ زہراء رضی اللہ عنہا نے شوہر نامدار کی جہادی زندگی میں بھرپور معاونت فرمائی۔ انہیں گھریلو کاموں سے فراغت اور بے فکری مہیا کی۔ سارا دن تیغ و تُفنگ سے تھکے ماندے حضرت علی رضی اللہ عنہ جب واپس گھر آتے تو سیدہ رضی اللہ عنہا سو جان سے ان کی خدمت بجا لاتیں۔ ان سے جنگ کے واقعات سن کر ایمان تازہ کرتیں اور ان کی شجاعت کی داد بھی دیتیں۔ زخموں کی مرہم پٹی کرتیں، خون آلود تلوار اور لباس کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتیں، یوں یہ پیکر جرات و شجاعت تازہ دم ہوکر اگلے معرکے کے لئے کمر بستہ ہوجاتے۔

ہاں! یہی جذبہ مسلمان بیوی کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ شوہر کی صلاحیت، وقت اور اس کی جان ومال کو اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت سمجھتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کو دین کی سربلندی میں صرف کر دینے پر اسے ابھارتی ہے۔ بلاشبہ ایسی خواتین قیامت کے دن مجاہدین کی صف میں کھڑی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی مستحق ٹھہریں گی۔ آج بھی مسلمان خواتین اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس صفت کو اپنے کردار کا حصہ بنالیں تو ایسے گھرانوں میں تربیت پانے والی اولاد سیدنا امام حسن و سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما اور حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکل میں تاریخ دعوت و عزیمت کا قابل فخر سرمایہ کیوں نہیں بنے گی اور آئندہ مؤرخ ان گھرانوں کو کیسے خراج تحسین پیش نہیں کرے گا۔

٭ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی سورہ الفتح میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صفات بیان فرمائی ہیں کہ وہ

(1) اہل کفر کے لئے شدت پسند ہیں (2) اہل ایمان کے لئے پیکر رحمت و شفقت ہیں (3) ان کی پیشانیوں میں سجدوں کی کثرت کی واضح علامت ہے۔ (4) ان کے شب و روز حالت رکوع و سجود میں رضائے الہٰی کی طلب میں گزرتے ہیں۔

صاف ظاہر ہے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و منصب اس بات کا متقاضی تھاکہ وہ ان صفات عالیہ میں عام صحابہ کرام رضی اللہ عہنم سے بڑھ چڑھ کر اپنی قربت اور خصوصیت کا ثبوت فراہم کرتے۔ تاریخ گواہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عملاً ایسا کرکے دکھایا آپ بچپن سے فیضان نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے براہ راست امین تھے۔ عارف کامل اور زاہد شب زندہ دار تھے۔ ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی تھی۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شخصیت مطہرہ پر بھی یہی صفات غالب تھیں۔ دونوں نے مَہْبِطِ وحی میں پرورش پائی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات دونوں کے پیش نظر تھے اس لئے دونوں ہستیوں کا اوڑھنا بچھونا اسلام کی خدمت اور عبادت و ریاضت تھا۔ اس کا اعتراف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ازدواجی زندگی کے ابتدائی دنوں میں کرلیا جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا، ’’سناؤ علی! شریکہ حیات کیسی ملی ہے؟‘‘ عرض کیا ’’نعم العون علی العبادۃ‘‘ میری شریکہ حیات فاطمہ میری عبادت گزاری میں بہترین معاون ہیں۔

٭ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کل کائنات یہ گھر اور آپ کا سب سرمایہ علم تھا جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا : اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں‘‘ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نعمت عظمٰی پر ہمیشہ فخرکرتے تھے۔ آپ (ر) کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہوکر طالبان علم کو بہت بڑا شرف بخش گیا ہے۔

رضِينا قِسمة الجبّار فِينا لنا علمٌ ولِلجُهّال مالٌ

یعنی ہم خالق ارض و سماوات کی اس تقسیم پر خوش ہیں جس کے تحت اس نے ہمارے مقدر میں علم کی سعادت اور جہلاء کے لئے مال و دولت رکھ دیا۔

مراد یہ کہ دنیوی مال و اسباب علم کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انسان کی عظمت علم سے وابستہ ہے نہ کہ مال و دولت سے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت علم سے مالا مال تھے لیکن سیم و زر سے آپ کا دامن ہمیشہ خالی رہا اس لئے حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی ساری زندگی فقر و فاقہ اور تنگ دستی میں گزری۔ کونین کے مالک کی لاڈلی دو دو اور تین تین دن کچھ کھائے پئے بغیر گزار دیتیں لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لاتیں۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دینی فرائض سے فرصت پاکر محنت مزدوری کرتے جو ملتا وہ لاکر سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں دے دیتے اور آپ اسے صبر و شکر کے ساتھ قبول فرمالیتیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ فقرو تنگ دستی آپ دونوں کے خوشگوار تعلقات پر اثر انداز ہوئی ہو۔

تنگ دستی پر صبر و ضبط کرلینا شاید آسان ہو لیکن اس حالت پر راضی اور خوش ہوکر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا اور چہرے پر کبھی ناگواری کے آثار تک نہ لانا بہت بڑے حوصلے اور پختہ کردار کی علامت ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ ’’الفقر فخری‘‘ کہنے والے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت یافتہ عظیم بیٹی ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سیدہ کونین رضی اللہ عنہا کو دو تین دنوں کے فاقہ کے بعد کچھ ملا۔ اپنے شہزادوں اور شوہر کو کھلانے کے بعد اس کا کچھ حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! ’’میری بیٹی تمہارا باپ یہ لقمہ چار دن کے بعد کھارہا ہے‘‘ ہاں! یہ وہی گھرانہ ہے جہاں سے مخلوق کو دونوں جہانوں کے خزانے تقسیم کئے جاتے تھے اور اب تک کئے جارہے ہیں لیکن فقر اختیاری تھا کہ اپنی ذات پر ہمیشہ دوسروں کو ترجیح دی۔

کل جہاں مِلک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

٭ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیشہ توازن برقرار رکھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عبادت و ریاضت میں محو ہوکر شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش میں کمی آئی ہو، یا بچوں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں عبادت و ریاضت کے معمولات متاثر ہوئے ہوں۔اللہ کی عبادت اورشوہر کی اطاعت میں یہی حسنِ توازن ہے جو خاتونِ جنت کی کامیاب ترین اور مثالی حیاتِ مقدسہ کا طرہ امتیاز ہے۔ورنہ عام طور پر ان دونوں محاذوں پر خواتین و حضرات انصاف نہیں کر پاتے خصوصاً خواتین کے لئے یہ توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’فاطمہ رضی اللہ عنہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کو فریضہ سمجھتی تھی اسی طرح میری اطاعت بھی کرتی تھی۔ عبادت و ریاضت کے انتہائی سخت معمولات میں اس نے میری خدمت میں ذرہ بھر فرق نہ آنے دیا۔ وہ ہمیشہ گھر کی صفائی کرتی، چکی پر گردو غبار نہ پڑنے دیتی، صبح کی نماز سے پہلے بچھونہ تہہ کرکے رکھ دیتی گھر کے برتن صاف ستھرے ہوتے۔ ان کی چادر میں پیوند ضرور تھے مگر وہ کبھی میلی نہیں ہوتی تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھر میں سامان خوردو نوش موجود ہو اور انہوں نے کھانا تیار کرنے میں دیر کی ہو، خود کبھی پہلے نہ کھاتی، زیور اور ریشمی کپڑوں کی کبھی فرمائش نہ کی، طبیعت میں بے نیازی رہی، جو ملتا اس پر صبر شکر کرتی، میری کبھی نافرمانی نہیں کی، اس لئے میں جب بھی فاطم رضی اللہ عنہا کو دیکھتا تو میرے تمام غم غلط ہوجاتے‘‘۔

حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی یہی پاکیزہ ادائیں تھیں جن پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دل و جان سے فدا تھے۔ ان کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔ کسی نے وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ’’سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیسی تھیں؟‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نم دیدہ ہوکر کہنے لگے۔ ’’فاطمہ رضی اللہ عنہ دنیا کی بہترین عورت تھی، وہ جنت کا ایسا پھول تھا جس کے مرجھا جانے کے بعد بھی مشام جان معطر ہے۔ جب تک زندہ رہی مجھے ان سے کوئی شکایت نہ ہوئی‘‘۔

٭ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا گہوارہ صبر و رضا کی پروردہ تھیں۔ آپ کے ہاتھ تو چکی چلانے میں مصروف رہتے لیکن زباں پر قرآن پاک کی تلاوت جاری رہتی۔

٭ نوری اور ناری مخلوق آپ (ر) کی مطیع اور فرمانبردار تھی لیکن اس سے بے نیاز ہوکر آپ (ر) نے اپنی رضا کو شوہر کی رضا میں گم کر رکھا تھا۔

٭ آپ سحر خیزی اور گریہ شب کی وجہ سے سرہانے اور بستر کے آرام اور تکلف سے بے نیاز تھیں۔ نماز کے وقت آپ کے اشک گہر بار اتنی کثرت سے جاری رہتے کہ جبرائیل امین علیہ السلام ان اشک کے موتیوں کو زمین سے چن کر عرش بریں پر شبنم کی طرح گراتے تھے۔

مندرجہ بالا چند سطور میں ہم نے بطور بیوی حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کے چند نقوش کی نشاندہی کی ہے۔ آج اگر مسلمان عورت یہ نقوش حرز جاں بنالے تو تاریخ کے اس نازک ترین دور میں بھی اسلام کی برکت سے ہمارا ماحول رشک جنت بن سکتا ہے۔ تباہی کے کنارے کھڑی انسانیت کو آج بھی رحمۃ للعالمین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کی سیرت، فوزو فلاح کاپیغام دے رہی ہے۔ اب یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ شرف انسانیت کا عنوان بنتی ہے یا تخریب اخلاق و کردار کے ذریعے تباہی کا ہتھیار۔

نقوش سیرتبطور ماں

ماں اولاد کے لئے وہ نعمت عظمیٰ اور انعام خداوندی ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال ہے نہ بدل۔ ماں دنیا میں اولاد کے لئے جنت فردوس کا شجر سایہ دار ہے۔ مختصراً یوں کہ ایثار و خلوص کی انتہائی بلندیوں اور مہر و وفا کی اتھاہ گہرائیوں کا نام ’’ماں‘‘ ہے۔ ماں کی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ماں ہی وہ واحد ہستی ہے جو اولاد سے اپنے ایثار کا بدلہ، مہربانیوں کا صلہ اور اپنی وفاؤں کا معاوضہ لینے کے تصور سے بالکل پاک ہوتی ہے۔ اسی لئے ماں کی گود اقوام کی پہلی تربیت گاہ ہے۔ معاشرے کی سرگرم رکن ہونے کی حیثیت سے بھی عورت کا سب سے اہم کردار ماں کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہے۔

ماں اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسے کردار کی مالکہ ہوگی تو پھر سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا جیسی مجاہد اور بہادر اولاد پیدا ہوگی جو وقت کی پکار پر طاغوتی سازشوں اور یزیدیوں کے مقابلے میں اپنے خون کا ہدیہ دے کر دین کے شجر کو سرسبز و شاداب رکھے گی۔ یہی آغوش مادر تھی جس کے پروردہ جگر گوشے امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والا صرف علم سے آشنا ہوتا ہے جبکہ آغوش مادر کا کردار یہ ہے کہ یہاں سے فارغ ہونے والا علم کے ساتھ ساتھ عملی اور تربیتی پہلوؤں سے مزین ہوتا ہے۔

حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی ماں نے اولاد کی تربیت کا جو سبق دیا ہے کون دے گا؟ جہاں فقر اور زہد و عبادت کی انتہا ہو جاتی ہے وہاں اس مامتا کی تربیت کے پروردہ سادات کی ابتداء ہوتی ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری والدہ ماجدہ پوری رات عبادت میں گزار دیتیں اور دعا مانگتے ہوئے اپنا نام بھی نہ لیتیں۔ یہ ہے خود غرضی سے پاک خالص رضائے الہٰی کی خاطر عبادت کی عملی تربیت۔

اولاد کی سیرت و کردار والدین کی تربیت کا پر تو ہوتی ہے۔ بالخصوص ان کے اندر صدق و اخلاص جیسی خوبیاں ماں کی تربیت سے ہی پیدا ہوا کرتی ہیں۔ اس لئے اولاد کی بہتر پرورش کے لئے بچے کے جسم و روح کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک و صاف رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس امانت کو صحیح حالت میں قوم کے سپرد کرنے کے لئے وہ قدرت کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شب و روز بسر کرے۔ اس لئے کہ وہی موتی سب سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں جو اصداف کے پردوں میں رہے ہوں۔ گوہر کی قیمت صدف میں رہے بغیر نہیں بن سکتی۔ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ عورت کا پردہ کیا ہے؟ تو آپ (ر) نے فرمایا کہ ’’نہ کوئی نامحرم مرد، اسے دیکھ سکے اور نہ وہ کسی غیر محرم کو دیکھے‘‘۔ لہذا عورت وہی کہلائے گی جو حیا کے پردے میں مستور ہوگی۔ سب سے اہم ذمہ داری ماں کی یہ ہے کہ وہ معاشرے کو باکردار اور صالح افراد مہیا کرے۔ گھریلو ماحول میں صداقت، شرافت، دیانت، ایفائے عہد، حسن خلق جیسے عملی ماحول میں اولاد کی پرورش کرے اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق اولاد کی سیرت کی تعمیر کرے۔ بچوں کی تربیت اور پرورش اپنے ہاتھوں سے کرے۔ لہذا مسلمان خواتین کو چاہئے کہ خاتونِ جنت کے طریقہ پرورش اور انداز تربیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس دور میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہوں۔

سب عظمتیں اور رعنائیاں جو کسی بشر میں ہوسکتی ہیں ان کے در کی خیرات ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم بیٹی اگر بچوں کی تربیت کی خاطر خود تکلیف اٹھاسکتی ہیں، انہیں اپنا دودھ پلاسکتی ہیں تو آج کی مسلمان عورت اس ذمہ داری سے کیونکر راہ فرار تلاش کرسکتی ہے۔ بچوں کی پرورش و نگہداشت ان کی صفائی، ستھرائی، لباس اور خوراک کا خیال رکھنا اور گھریلو امور کی پاسبانی ہی عورت کا افضل جہاد اور سب سے بڑی قربانی ہے۔ عورت کے اسی کردار کی آج سخت ضرورت ہے تاکہ اس کی گود سے مجاہدین اسلام اور علماء ربّانی پروان چڑھیں اور ایک بار پھر عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہوسکے۔

آج کے ترقی یافتہ معاشرے کی غیر محفوظ عورت اگر اپنا وقار، عزت و مرتبہ اور حقیقی مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چادر زہرہ رضی اللہ عنہا کے سائبان کے نیچے آنا ہوگا اور ان کی کی راہ پر چلنا ہوگا۔ حضرات شبّر رضی اللہ عنہ و شبیر رضی اللہ عنہ جیسے جسور و غیور فرزندان اسلام سے اپنی آغوش کو بھرنا ہوگا اور پھر تہذیب مغرب کے حیاء سوز طوفان اور تباہ کن آندھیوں سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ دین اسلام عورت کے لئے سراسر امن، سکون، رعنائی اور محبت و شفقت لے کر آیا ہے لیکن ابلیسیت کو مسلمان عورتوں کا یہ تقدس نامنظور ہے اس لئے اس نے عورت کو برابری کا جھانسہ دے کر ورغلاتے ہوئے اس کے فطری مقام سے اٹھا کر مرد کی صف میں لاکھڑا کیا تاکہ وہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تلخی حیات کے گھونٹ بھی بھرتی رہے۔ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیرت طیبہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لئے خوبصورت نمونہ عمل ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ دور حاضر کی مکاریوں سے باخبر رہتے ہوئے خود کو بھی اور دوسری بہنوں کو بھی بے پردگی کی آگ کے شعلوں سے محفوظ رکھیں۔ بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کا ثبوت دیں اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کریں۔

سالانہ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا کانفرنس

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی انہی خدمات اور مثالی سیرت کو عام کرنے کے لئے منہاج القرآن ویمن لیگ ہر سال ’’سیدہ کائنات(ر) کانفرنس‘‘ منعقد کرتی ہے۔ اب تک اس سلسلے کے تین شاندار کل پاکستان پروگرام ہوچکے ہیں۔ یہ اجتماع عام طور پر رمضان المبارک کے پہلے عشرۂ رحمت میں منعقد ہوتا ہے کیونکہ 3 رمضان المبارک آپ کا یوم وصال ہے۔ بلاشبہ یہ تحریک منہاج القرآن کا اعزاز و افتخار ہے کہ جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن میلاد کی دھوم گلی کوچوں سے نکل کر قومی اور عالمی سطح پر پہنچادی گئی ہے اس طرح آپ کی صاحبزادی کی عظمتوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے شایانِ شان ایک عظیم الشان تقریب کا اہتمام ہوتا ہے۔ ملک بھر میں سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے حوالے سے تشہیری بینرز اور پمفلٹ شائع کئے جاتے ہیں۔ اس ہمہ گیر سرگرمی کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں رہنے والے اور بیرون ملک آباد مسلمان شہزادیٔ کونین کے حوالے سے باخبر ہو جائیں ان کے نقوش، دل و دماغ میں اچھی طرح بیٹھ جائیں چنانچہ اس مرکزی پروگرام میں ملک بھر سے خواتین اور بچیاں پوری عقیدت و احترام اور ذوق و شوق سے حاضر ہوتی ہیں۔ فاضل خواتین و حضرات اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب اس موقع پر خصوصی خطاب فرماتے ہیں جسے سننے کے لئے دور و نزدیک سے خواتین و حضرات تشریف لاتے ہیں۔ احقر کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس نے دور طالب علمی میں حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ پر ایک مختصر سی کتاب تحریر کی تھی۔ اس وقت شدت سے یہ خواہش تھی کہ کاش کوئی ملک یا تحریک سال میں سے کوئی ایک دن حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے لئے وقف کرے چنانچہ ویمن لیگ کی بہنوں نے اس نورانی سلسلے کا آغاز کیا جس پر وہ خصوصی مبارکباد کی مستحق ہیں۔