حجاب : قرآن و حدیث کی روشی میں

عائشہ قرۃ العین

اللہ سبحانہ و تعالی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے توسل سے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے امت مسلمہ کی خواتین کو ’’حجاب‘‘ کی صورت میں ایک ایسا انمول تحفہ عنایت فرمایا ہے جس کے ذریعے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ماں، ہر بیٹی اور ہر بہن اگر چاہے تو اپنی ذات کو ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا انمول تحفہ ہے کہ جس کو اگر Proper طریقے سے اپنا یا جائے تو اس سے جسمانی طہارت کے ساتھ ساتھ قلبی طہارت و تقویٰ، پاکیزگی اور شرم وحیاء جیسی اعلیٰ صفات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ قرآن مجید میں بے شمار آیات ہیں جن میں پردہ، شرم وحیاء اور دوسرے معاشرتی آداب کو اپنانے کا طریقہ وسلیقہ سکھا یا گیا ہے۔ سورۃ النور، سورۃ النساء اور سورۃ الاحزاب میں پردے اور حجاب کے Concept کو بڑی تفصیل سے Define کیا گیاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO

(الاحزاب،33 : 59)

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت مبارکہ میں حجاب اور پردہ کی ہیئت ’’يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ‘‘ میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ (وہ اپنے اوپر چادروں کے پلُّو لٹکالیں) عربی زبان میں ’’جلباب‘‘ اس بڑی چادر کو کہتے ہیں کہ جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور یدنین جس کا مادہ ’’اَدْنَائ‘‘ اور’’ اَدْنٰی‘‘ ہے ۔ جس کے معنی قریب کرلینے اور لپیٹ لینے کے ہیں یہ لفظ جب حرف جر ’’علی‘‘ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی محض لپیٹ لینا نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہم اپنی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد گھونگھٹ نکالنا یا پلُّو لٹکانا ہے۔ اس آیت کے اندر صرف چادر کو ڈال لینا مراد نہیں ہے بلکہ چادر سے پورے جسم اور چہرے کو لپیٹ لینا مراد ہے، کیونکہ جب پلُّو لٹکانے کی بات آتی ہے تو گھونگھٹ چہرے پر ہی لٹکایا جا سکتا ہے۔ اور پھر اس سے یہ بات بھی اخذ کی جا سکتی ہے کہ چہرے کو ڈھانپنے سے ہی چہرے کا گھونگھٹ ہوتا ہے اور اس سے ہی چہرے کو ڈھانپنے اور اس کا حجاب کرنے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ یہاں اس آیت میں ’’يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا معنی محض چادر کا لپیٹ لینا ہی نہیں بلکہ اسے جسم ولباس کے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ زینت وسنگھار وغیرہ بہت اچھے طریقے سے چھپ جائے۔

ابن سیرین طبری رحمۃاللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبیدہ سلمانی سے اس کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے چادر سے پورا سر پیشانی اور منہ ڈھانپ کر آنکھوں کو کھلا رکھا۔(تفسیر طبری)

اسی طرح کی روایات دوسری تفاسیر جیسے احکام القرآن، روح المعانی اور قرطبی میں بھی منقول ہیں۔

ابن جریر رحمۃاللہ علیہ اور ابن حبان رحمۃاللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ عورت جلباب یعنی حجاب (نقاب) کو ماتھے کے اوپر سے موڑتے ہوئے باندھے پھر اسے ناک کے اوپر لے جاتے ہوئے یوں بل دے کہ اگر اس کی آنکھیں کھلی رہ بھی جائیں تو منہ ڈھک جائے۔ (تفسیرطبری)

علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ، علامہ شوکانی رحمۃاللہ علیہ، علامہ نیشاپوری رحمۃاللہ علیہ اور علامہ فخر الدین رازی رحمۃاللہ علیہ نے بھی اس کی تفسیر اسی انداز میں کی ہے۔ تقریبا ً تمام مفسرین چہرے کو ڈھانپنے کی تاکید فرماتے ہیں اور چاروں فقہاء کرام بھی اسی پر اتفاق کرتے ہیں جبکہ ہر دور میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ قرآن مجید میں کہیں بھی چہرے کے نقاب کی فرضیت نہیں ملتی ۔ مگر چہرے کے پردے کے بارے میں تاریخ اسلام کے ہر دور کے مسلمانوں کا یہی طریق رہا ہے۔

امام عبدالرزاق رحمۃاللہ علیہ، حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد انصار کی خواتین اس وقار سے اپنے گھروں سے نکلتی تھیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں اور اپنے آپ کو چھپانے کے لئے بڑی بڑی سیاہ چادریں اوڑھ لیا کرتی تھیں جن سے نہ صرف لباس بلکہ ان کے چہرے بھی چھپ جایا کرتے تھے۔

ہر دور میں حجاب کی ضرورت واہمیت واضح رہی ہے جب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حجاب کی ضرورت پڑی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کچھ اوباش لڑکے خواتین کو گزرتے ہوئے تنگ کیا کرتے تھے، مدینہ منورہ کے صحابہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہماری ازواج کو مدینہ منورہ کے اوباش لڑکے پریشان کرتے ہیں اور وہ یہودی لڑکے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہچان نہیں ہوتی کہ یہ یہودی خواتین ہیں یا مومنات ! تو یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرق اس طرح واضح فرما دیجئے کہ مومنات کی انفرادیت واضح ہو جائے اور وہ محفوظ ہو جائیں‘‘۔ جس پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں۔ پھر اس کے بعد ان آیات پر سختی سے عمل اس طرح کیا گیا کہ تمام مسلم خواتین جب بھی گھروں سے باہر نکلتی تھیں تو وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے ہوتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ النور میں حکم فرمایا :

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO

(النور،24 : 31)

’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤo‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اسی طرح حجاب کی اہمیت اور اس کی فضیلت اور حکمت کا اندازہ اس آیت پاک سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ نے فرمایا!

وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ

(الاحزاب : 33،53)

’’اور جب تم ان (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پس پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

یہاں امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے کوئی بھی چیز پردے کی اوٹ میں مانگنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن ہر طرح کی ناپاکی سے پاک ہیں تو پھر عام خواتین کے لئے کس قدر پردہ ضروری ہے اور اگر اس کی ضرورت کو بھی دیکھا جائے کہ آج کل کے دور میں عورتوں کی مختلف اداروں، دفاتر، کالجز وغیرہ میں مردوں کے ساتھ عام ڈیلنگ ہوتی ہے تو ہمیں اس آیت کی حکمت واہمیت کا اندازہ ہو جائے گا کہ ہمیں وہ سلیقہ سکھایا جا رہا ہے جسے اگر ہم اپنائیں تو یہ ہر طرح کے شر و فساد سے محفوظ رہ سکیں گے اور معاشرے میں سکون و عافیت رہے گی اور ہماری شرم و حیاء، تقویٰ و طہارت اور پاکیزگی بدستور قائم رہے گی۔

جب بھی بات کریں تو دھیمے انداز سے اور آہستہ کریں لیکن جب کسی مرد سے بات کریں تو سخت انداز اختیار کریں، کسی بھی اجتماع میں ہوں تو ہماری آنکھیں غض بصر کے حکم کے مطابق جھکی ہوئی ہوں، ہماری زینت و آرائش اس نہج پر ہو جو ہمارے پردوں میں چھپ جائیں اور ہمارا پردہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ہو حضرت اسماء کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ کرنے کا حکم فرمایا ۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ کسی صحابیہ رضی اللہ عنہ کا باریک دوپٹہ اتروا کر انہیں موٹی چادر عنایت فرمائی۔

غزوات میں بھی صحابیات رضی اللہ عنہن جب بیماروں کی مرہم پٹی اور تیمارداری کرتیں تو باقاعدہ Proper پردے میں ہوتیں اور اسی طرح جو بھی درس وتدریس یا دوسرے معاملات نبٹاتی تھیں تو مکمل پردے کا اہتمام کرتی تھیں۔ جب حجاب ترقی کی راہ میں اس وقت رکاوٹ نہ بن سکا جب شر و فساد کا اتنا خدشہ نہ تھا تو آج حجاب کی اشد ضرورت ہے جب ہر طرف سے مغربی طاغوتی قوتوں کی یلغار ہر طرف سے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھیرے ہوئے ہے اور دوسری طرف عورت کا گھروں سے باہر نکلنا، تعلیم حاصل کرنا، مذہبی جماعتوں کے ساتھ منسلک رہنا اور دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام کرنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گیا ہے اور یہ تصور غلط ہے کہ یہ عورتوں کے لئے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اسی لئے میں سمجھتی ہوں کہ عورتیں پردے میں رہ کر بھی فلاحی واصلاحی کاموں کا فریضہ بطور احسن سرانجام دے سکتی ہیں۔

حجاب کی شرعی، معاشرتی اور سماجی حکمت اس بات میں پوشیدہ ہے کہ جس طرح جسم کو ڈھانپنا توہم ضروری سمجھ لیتے ہیں، باپردہ لباس پہننے کی بھی کوشش کرتے ہیں مگر جب ہم چہرے کے نقاب کی بات کرتے ہیں تو مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے سوالوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے، سوالات وجوابات کی نشستیں شروع ہو جاتی ہیں۔ حجاب کو کبھی مستحب میں ٹٹولا جاتا ہے تو کبھی اس کے واجب ہونے اور فرض ہونے کی دلیل مانگی جاتی ہے کہ اس کے پیچھے حکمت کیا ہے؟ چہرہ کا نقاب ضروری کیوں ہے؟ اگر ضروری ہے تومعاشرہ ایک باپردہ عورت کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ اور اس کی حکمت کیا ہے؟۔۔۔ دیکھا جائے تو چہرہ ہی اصل چیز ہے، حسن پرست لوگوں کی پہلی نگاہ چہرہ پرہی پڑتی ہے اور چہرے سے ہی بناؤ سنگھار شروع ہوتا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو بعض چہرے ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر انسان کی نگاہ پڑ بھی جائے تو اس سے فرق نہیں پڑتا جیسے عمر رسیدہ بوڑھی خاتون لیکن نوجوان بچیوں اور خواتین کے لئے چہرے کا نقاب بہت ضروری ہے۔ اسی لئے فقہاء کے نزدیک عصر حاضر میں نوجوان بچیوں کے لئے چہرے کا نقاب ہے کیونکہ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔

اسلام کا ہر حکم مبنی برمصلحت ہوتا ہے اور مصلحت دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جو فائدہ پہنچاتی ہے اور دوسری وہ جو کسی کو نقصان پہنچانے سے روکتی ہے یا یوں سمجھ لیں کہ ایک ایجابی پہلو ہوتا ہے اور ایک سلبی۔ ایجابی پہلو میں حکم کے ذریعے انسان کو فائدہ پہنچانا مطلوب ہوتا ہے اور سلبی پہلو میں کسی کو نقصان سے بچانا مقصود ہوتا ہے ۔ بہت سارے احکام ایسے ہوتے ہیں جس میں فی نفسہ کوئی خرابی نہیں ہوتی مگر وہ خرابی کا باعث ہوتے ہیں چونکہ وہ خرابی کا ذریعہ بن رہے ہوتے ہیں اس لئے اسلام اس عمل کو بھی روک دینے کا حکم دیتا ہے۔ اصطلاح فقہ میں اسے سد ذرائع کہتے ہیں۔ مثلاً مرد اور عورت کے اختلاط میں فی نفسہ کوئی خرابی یا فساد تو نہیں مگر یہی اختلاط اکثر اوقات خاص خرابی کا باعث بن جاتا ہے اس لئے اسلام نے اسے منع کر دیا تاکہ خرابی کی نوبت ہی نہ آئے۔ اسی طرح نوجوان خواتین کا اپنے چہرے کو کھلا رکھنا، اس میں ظاہری طور پر کوئی نقصان نظر نہیں آتا مگر بعض اوقات چہرے پر غلط سوچ رکھنے والی نگاہ پڑ سکتی ہے جو ایک سنگین صورتحال پیدا کر سکتی ہے، اسی لئے یہ ایک ایسا حقیقی امر ہے کہ جس کا انکار بہت سے حقائق کو رد کر دینے کے مترادف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا : ’’میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں۔ اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور دیگر مومنات رضی اللہ عنہن کو حکم دیں کہ وہ حجاب کیا کریں کیونکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی مجلس میں کچھ ایسے بیمار ذہن کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مومن نہیں ہوتے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس گزارش سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ آج کل کی عورتوں کو بھی ضروریات زندگی کے حصول کے لئے گھروں سے باہر جانا پڑتا ہے کئی قسم کے لوگوں سے رابطہ ہوتا ہے اور ہر شخص کا دامن نیکی کی طرف مائل نہیں ہوتا، اسی لئے مسلمان عورت کے لئے حجاب ایک معاشرتی اور سماجی ضروت بن گئی ہے۔ تاکہ عورت فتنہ و فساد سے محفوظ رہے۔ لہذا مکمل پردہ کرنا یہ احتیاطی تدابیر میں سے ایک اہم تدبیر ہے۔

اس سلسلے میں ہم بعض ان اعتراضات کا جائزہ لیں گے جو حجاب کی اہمیت و فرضیت پر کئے گئے مثلاً یہ کہ حجاب خواتین کی آزادی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے اور یہ کہ حیاء تونگاہ اور قلب و ذہن میں ہونی چاہئے اس لئے حجاب کی ضرورت نہیں اور یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ حجاب خواتین کی تعلیم و ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی میں عرض کر چکی ہوں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ، صحابیات رضی اللہ عنہ اور دیگر مجاہدات کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ وہ مرہم پٹی، درس و تدریس اور طب کا کام کرتی رہی ہیں اور آج بھی کچھ خواتین ایسی ہیں جو بڑی بڑی تنظیمات سے منسلک ہیں جن میں سرفہرست تحریک منہاج القرآن کی ویمن لیگ ہے جن کی کارکنان، مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشن کے لئے کوشاں ہیں۔ عرفان القرآن کے دروس کی انجام دہی، تنظیمی دورہ جات، ویلفیئر کے حوالے سے اور الیکشن میں Door to Door کام کرنے والی یہ ایسی باپردہ خواتین ہیں جو حجاب میں رہ کر کام کرتی ہیں اور یہ حجاب ان کے لئے رکاوٹ نہیں بلکہ ان کی عزت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عظمت وتکریم کا باعث بنتا ہے۔ معترضین کی یہ بات کہ حیاء تو دل و نگاہ میں ہونی چاہئے، برحق ہے کہ شرم و حیاء نگاہ میں ہونی چاہئے اسی لئے تو اللہ پاک نے غضّ بصر (آنکھوں کا جھکانا) کا حکم فرمایا لیکن حجاب ایسی چیز ہے جو 75 فیصد شر، فتنے اور برائی کے امکانات کو ختم کرتی ہے، جب آپ کا چہرہ اور مکمل جسم سنت کے عین مطابق چھپ جاتا ہے اور اس حالت میں جب عورت مکمل Cover ہو کر گھر سے نکلتی ہے تو شر کے مواقع نہ صرف کم بلکہ کسی حد تک ختم ہو جاتے ہیں۔ باقی دلی اور ذہنی تقویٰ کا تعلق توآپ کے گھریلو ماحول و تربیت اور صحبت کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مناسب تربیت نہ ہونے اور غلط صحبت کے نتیجے میں جب گھروں کا ماحول خراب ہوجاتا ہے تو ان حالات میں بعض خواتین پردے کا ناجائز استعمال کر کے کرپٹ کاموں میں Involve ہوجاتی ہیں۔ اس کا سراسر الزام حجاب نہیں کیونکہ حجاب تو ایک احتیاطی تدبیر ہے جو شر اور فتنہ وفساد کے امکانات کو کم کرتی اور بچاتی ہے جبکہ دوسرے پہلوؤں کو جب تک ہم سنواریں گے نہیں اس وقت تک ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ حجاب مکمل طور پر عورت کے کردار کو ٹھیک اور بہتر بنا سکتا ہے۔ حجاب عورت کو Protection دیتا ہے مگر جب عورت خود محفوظ ہونا نہیں چاہتی تو ہم حجاب کرنے کو اعتراض کی بنیاد کیسے بنا سکتے ہیں؟ حجاب کے اور بھی بڑے محرکات ہیں جو تقویٰ میں آتے ہیں مثلا آنکھوں کا سنگھار نہ کرنا، ہاتھوں اور پیروں کا میک اپ نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، جب ہم ہر چیز کو اعتدال پر پرکھیں گے تو پھر ہر شر سے محفوظ رہ سکیں گے اور اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و برکت بھی شامل حال ہو گی اور ہمارے قائد جن کی ہم بیٹیاں اور دست و بازو ہیں اور جنہیں ہم Represent کرتے ہیں، ان کے لئے باعث فخر بھی بن سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی امہات المومنین رضی اللہ عنہ، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور بالخصوص سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ عنہا کی چادر تطہیر کے تصدق سے ہمیں باحیاء آنکھیں اور باپردہ دل عطا فرمائے اور ہمارے قلوب و اذہان کو وسعت دے کہ ہم حجاب اور اس کی اہمیت و برکات کو سمجھ کر عمل پیرا ہو سکیں۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)