جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

صاحبزادہ فیض الرحمن درانی

مضمون کا عنوان حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی بال جبریل کی ایک مشہور نظم کے پہلے مصرع سے ماخوذہے، پورا شعر یوں ہے : ۔

جب عشق سکھاتا ہے آداب خداوندی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

حضرت علامہ نے غلاموں پر شہنشاہی کے اسرار و رموز کے انکشاف کی شرط کو اس سے مشروط کیا ہے کہ عشق سے آداب خود آگاہی سیکھے جائیں یعنی آداب خودآگاہی کے ادراک کیلئے پہلے مکتب عشق میں داخلہ ضروری ہے، انسان کا اپنی مختصر زندگی میں اپنی پہچان کا شعور حاصل کرنا عقل کے ذریعے ممکن نہیں۔

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین وآسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

عشق اور آداب خود آگاہی پر بات کرنے سے پہلے اس منتہائے مقصود کا ذکر ضروری ہے، جہاں انسان پہنچنا چاہتا ہے ۔ انسان کا ایک منبع، مصدر اور اصل ہے جس سے وہ پیدا ہوا، اپنی اصل کی طرف واپس لوٹنا ہر شئے کی فطرت ہے، ( کل شيئی يرجع الی اصله) خالق کائنات کی مرضی ہوئی کہ اس کو پہچانا جائے تو اس نے انسان اور کائنات کو پیدا کیا ۔ (کنت کنزا مخفيا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق)

گویا یہی مقصد تخلیق انسان اور تخلیق کائنات تھا، اس حدیث قدسی سے انسان کی پیدائش کا مقصد واضح ہو جاتا ہے لیکن اس سے بھی عظیم تر مقصد تخلیق ایک اور حدیث قدسی میںمزید نکھر کر سامنے آتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے کہ ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو اس کائنات کو بھی پیدا نہ کرتا۔ (لولاک لماخلقت الافلاک)

دونوں احادیث قدسی پر اگر غور کیا جائے تو ان میں مطابقت یوں نظر آتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی معرفت اور پہچان کے لئے اصل اور مصدر انسان نبی محتشم سرکار ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا اور پھر اپنی پہلی مخلوق کی معرفت، پہچان اور منوانے کے لئے کائنات اور ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا، گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصود رب العالمین جل مجدہ بھی ہیں اور ممدوح عالم بھی، پروردگار عالم جل شانہ کی مراد بھی ہیں اور باعث تکوین روزگار بھی، حضرت ارباض بن ساریہ سے ایک حدیث مذکور ہے کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں اللہ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین مقرر ہوں جب آدم علیہ السلام اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ (سمعت النبی يقول انی عنداللّٰه کخاتم النبيين وان آدم لمنجدل فی طينة)

تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد ان کے اندر اپنے خالق کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو ہاتف غیبی سے آواز آئی۔ (من عرف نفسه فقد عرف ربه) ’’آدم ! جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔،،

چنانچہ اس وقت سے ہر انسان بساط بھر خودآگاہی کی جستجو میں ہے، نوری مخلوق بھی آداب خود آگاہی سے واقف تھی لیکن ایک خاص حد تک کہ ان میں روح کی تابانیاں تھیں، نہ نفس کی سرتابیاں، جسمانی کثافتیں تھیں اور نہ قلب کی لطافتیں، فقط تعمیل حکم ربانی کا فریضہ نبھانا تھا، یہی ان کی کل خود آگاہی تھی، نفس نہ تھا، تضادات نفس نہ تھے، شعور، لاشعور، تحت الشعور اور بے شعوری کی کیفیات نہ تھیں لہذا نہ ان میں فطرت بالقوہ اور نہ فطرۃ بالفعل کی خواہشات اور تمنیات تھیں، اس وجہ سے نہ ان کو محبت کا جذبہ ملا اور نہ ہی عشق کا ولولہ، اس کے برعکس انسان کو خاک سے پیدا کر کے اس میں روح کا جوہر ڈالا گیا، ناسوتی جسد کے اندر روشنی کا اہتمام قلب سے کیاگیا، انسان کے نفس کو گوناگوں جذبوں کی طاقت دی گئی، اس کو فطرت بالقوہ، فطرت بالفعل، لاشعور، شعور اور تحت الشعور سے مزین کیاگیا، پھر اسے عقل، فکر دے کر محبت اور عشق کی قوت اور توانائی دی گئی۔ دنیائے ارضی میں اس کی عمر بہت کم اور خلافت الہیہ کی نیابت کا کام بہت زیادہ تھا، اسی لئے اسے احسن تقویم بنایا، اور تمام مخلوقات پرمسخر کیا۔ انسان دنیائے ارضی میں اپنی تمام تر شوخیوں، طراریوں، بیقراریوں، سرتابیوں، عشوہ وغمزہ، سوزوساز، ندامت اور شرمساریوں کے جلو میں ظاہر ہوا اور من کی دنیا میں مستور بے تابیوں، عاجزی، دعویٰ خدائی، ناشکری، بے صبری اور انتہا ئی شکر و صبر، نفرتوں، محبتوں، انتقام وایثار اور فنا و بقا کے ان گنت تضادات کا حامل رہا، اس کی سیماب فطرتی، آرزو و بے نیازی، غلامی وآزادی، مظاہر فطرت کا خوف اور آسمان پر کمند بازی، تنگدلی ایسی کہ انسان نہ لگے اور وسعت قلبی ایسی کہ آسمان اس میں فقط ایک نقطہ ٹھہرے۔ خاکی اور وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل، مستور وآشکار، کبھی آفاق، کبھی پاتال، کبھی آبادی اور کبھی بربادی کا سامان، خاک کی چٹکی اور افلاک میں پرواز، چلو بھر پانی میں ڈوبنا اور مہیب طوفانوں کا رخ موڑنا، عزم بلند آور اور سوز جگر آور، کبھی قطرہ، کبھی سمندر، سلطانی و درویشی، محکومی اور حاکمیت اعلیٰ کا دعویٰ، کبھی سنگ کبھی موم، تقدیر کے آگے بے بس اور تدبیر سے تبدیلئ تقدیر، قضا و قدر اور اسی طرح کے مختلف النوع تضادات سے مرکب، قدسیان فلک زمین پر انسان کی غارتگری، سفاکی اور فساد بارے بارگاہ ایزدی میں شاکی ہوئے تو جواب ملا، جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔

ہبوط آدم سے آج تک انسان اپنے شعور نفس، حقیقت آفاق اور اللہ سبحانہ و تعالی کی پہچان کی تلاش میں مصروف ہے، اس جستجو سے انسانی فکر و عمل کے مختلف طبقات وجود میں آگئے، ایک طبقہ ان نفوس قدسیہ پر مشتمل تھا، جو الوہی ہدایات کے تحت، اپنے خالق اور اس کی جملہ مخلوقات، آفاق وانفس، کائنات وانسان، نوری، ناری، آبی، ہوائی، جماداتی اور نباتاتی مخلوق سے واقف تھا، اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے پہلے پیغمبر ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام، کو علم الاسماء سے نواز ا تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو اللہ تعالی جل مجدہ کی شان خالقیت، ربوبیت، اس کے اقتدار اعلیٰ، جملہ مخلوقات کی پیدائش اور انسان کی روحانی اور جسمانی خلقت بارے، وقت اور انسانی فکر کی وسعت اور ضرورت کے مطابق علم وحکمت کی تعلیم فرماتے تھے، انسان اپنے اندر موجود فطرت بالقوہ (Potential Nature) کی وجہ سے، اقرار الوہیت، خودآگاہی (Self Conciousness) فجوروتقویٰ کے امتیاز اور آفاقی امانت کی ذمہ داری سے آگاہ تھا، حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کے لئے نمونہ کمال تھے، ان کی پیروی میں انسانوں کا یہ طبقہ مردان خود آگاہ پر مشتمل تھا۔

انسان کو ارادہ اور عمل کے اختیار کے ساتھ پیدا کیاگیا تھا، لہذا فطرت بالفعل، شعور اور لا شعور کے لوازمات اور تقاضوں کے تحت شہوانی خواہشات، نفسانی داعیات، اولاد اور خونی قرابتوں، مال وزر اور جاہ و منصب کی محبت بھی اس کے نفس (Soul) میں موجود تھی، وہ لو گ بھی تھے جو الوہی ہدایت اور صراط مستقیم سے بھٹک بھی جاتے تھے۔ انسان بھی مرور زمانہ کے ساتھ بدلتا گیا، انسانی حیات اور ماحولیاتی نظام میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں، اکثر لوگ پیغمبرانہ تعلیم و تربیت اور الوہی ہدایت سے دور ہوتے گئے، کم لوگ الوہی ہدایت کے ماتحت رہے، فطرت بالفعل کے تحت انسانی فکر و عمل کے دائرے وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں نئے مکاتب فکر پیدا ہوتے گئے، ان میں وہ بھی تھے کہ خدا و کائنات، مخلوقات الہی اور انسانی تشخص بارے فکر اور عمل کی نئی جہات کے حوالے سے ان کی عقل نارسا نے کچھ ایسے تخیلاتی تصورات بھی قائم کئے، جن سے ہزاروں لاکھوں دیو مالائی کہانیوں نے جنم لیا، ان طلسماتی اساطیر اور قصے کہانیوں کے خالقوں کا زیادہ تر تعلق مصر، یونان، چین اور ہندوستان سے تھا، یہ لوگ الوہی ہدایت اور پیغمبرانہ تعلیم وحکمت سے بے بہرہ محض عقل کے پجاری بن گئے، زمانہ کے ساتھ جیسے جیسے ان مکاتب فکر کا دائرہ اثر بڑھنے لگا ۔ یونانی مفکرین نے تغیرات اور فنا سے محفوظ ذرات کو اشیاء کی اصل قرار دیا، کائنات کی تشکیل کو ایک حادثہ سمجھا جانے لگا، انہوں نے روح انسانی کو بھی مادی ذرات کے مجموعہ سے عبارت سمجھا، مشہور یونانی فلاسفہ اخلاق وروحانیات ہیرا قلیطس، تامسطیوس اور ایرانی اسکندر فردوسی انہی خیالات و نظریات کے پرچارک تھے، انسانوں کے اس طبقہ خیال کے مفکرین اور علماء کانظریہ تھا کہ کائنات مادہ سے بنی ہے، لیکن اس تخلیق کے پیچھے کسی نادیدہ ہستی کا ہاتھ بھی ضرور ہے، انکے ذہن میں خدا اور روح کا ایک موہوم سا تصور تھا۔

فیثا غورث یونانی نے خدا اور روح کو مساوی درجہ دیا، وہ سورج (اپالو) کو خدا مانتا تھا ۔ ارواح بارے وہ عمل تناسخ کا قائل تھا، افلاطون بھی فیثا غورث کے نظریات پر یقین رکھتا تھا، مشہور یونانی مفکر سقراط، افلاطون کا شاگرد تھا، وہ روح کی لافانیت کو مانتا تھا اور مادہ کو ابدی سمجھتا تھا، ارسطو جو ایک مشہور یونانی مفکر تھا، وہ کائنات کو ازلی اور ابدی سمجھتا تھا، اس کا خیال تھا کہ ہوا، پانی، مٹی اور ایتھر سے کائنات کی ہر شئے خود بخود بنتی چلی جاتی ہے، یہ سب مفکرین مادہ، روح اور خدا کو برابر کا درجہ دیتے تھے، لیکن خالق کائنات کی توحید اور ربوبیت اعلیٰ سے ناآشنا تھے، اپنے بارے بھی وہ حقیقی خودآگاہی سے تہی دامن رہے، انسانی تخلیق بارے اس حقیقت سے ناآشنا تھے کہ وہ کیسے بنا، اس کا خالق کون ہے؟ اس نے اس دنیا میں آ کر کیا کرنا ہے، کس لئے کرنا ہے، کس کی رضا اور خوشنودی کے لئے کرنا ہے، کیسے اور کس طرح جینا ہے، اس دنیا میں زندگی گزارنے کے بعد اس نے کہاں جانا ہے، کیا اس دنیا کے بعد کوئی حیات ہے یا فقط موت، زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ان کے قلب و ذہن اور لاشعور میں اس نوع کے خیالات و سوالات ہلچل پیدا کر رہے تھے، لیکن مجموعی طور پر انسان بے شعور رہا اور اس وجہ سے مختلف اقسام کے خوف کا شکار ہوا، لیکن چند خوف اس شدید نوعیت کے تھے، جس نے ان کی خودی، خودآگاہی، شعور ذات، شعور نفس، احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کے شعور کو پاش پاش کر دیا تھا، ان کے ذہن میں خالق کائنات و ارض و سموات کی خالقیت، حاکمیت اور مالکیت کا تصور نہ تھا، ان میں اپنی شان بندگی، خودی اور احسن تقویم ہونے کا احساس نہ تھا، اس لئے وہ اکثر مخلوقات الہی سے، جو اللہ نے اشرف المخلوقات انسان کی خدمت اور فلاح کے لئے مسخر کئے تھے، خود کو کم تر، کم درجہ اور کم رتبہ سمجھا اور ان سے ڈرنے لگا، کبھی اس نے دہکتی آگ، برستے پانی، آندھی، طوفان اور بجلی کو سجدہ کیا اور کبھی سورج، چاند، ستاروں کے آگے سر بسجود ہوا، کبھی پہاڑوں اور پتھروں سے خود تراشیدہ بتوں کے سامنے جبین نیاز جھکائی، انسان عزت نفس کھو چکا تھا اور احساس کمتری کا اس حد تک شکار تھا کہ پوجا کے لئے تبرکاً جانوروں کا پیشاب پینے لگا، انسانی ذہن کی اس حد تک بے حسی اور خودی کی اس درجہ بیخودی سے انسانی فکر کے ایک طبقہ نے خوب فائدہ اٹھایا، اس نے ناخود آگاہ اور خودی سے محروم انسان کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے اپنے خدا ہونے کا یقین دلایا۔

اس نے اپنی طاقت اور قوت سے کمزور، بے بس، توہمات کے شکار اور خوف و غم میں مبتلا انسان کو مغلوب کیا، اس کے اموال و املاک پر قبضہ کیا اس کو غلام بنایا، یہ فرعون، نمرود، شداد، شہنشاہ، ملوک اور حکمران تھے، کہ جنہوں نے انا ربکم الاعلیٰ کا نعرہ بلند کیا، خود کو خدا سمجھا اور دوسروں سے بزور کہلوایا، انہوں نے مغلوب انسانوں سے کہا کہ انہیں روٹی، کپڑا اور سرچھپانے کے لئے مکان چاہئے تو اپنے سروں کو ان کے سامنے جھکا دے، اگر وہ دنیا میں جینا چاہتے ہیں تو غلام بن کر جئیں، ہر دور کے انسانوں کے مختلف طبقات فکر میں یہ طبقہ سب سے زیادہ ظالم وخونخوار تھا، بے بس انسان ہو کر اس نے انسان پر خدائی کی، انسانی غلامی کی سب سے مکروہ اور بھیانک شکل ذہنی اور فکری غلامی ہوتی ہے، انسان کو ہر قسم کی غلامی میں مبتلا کرنے والے آمروں کا سب سے زیادہ ظالم، جابر اور قاہر طبقہ تاریخ میں رومیوں اور یونانیوں کا رہا ہے، یہ غلاموں سے انتہائی بہیمانہ سلوک روا رکھتے تھے، اسیران جنگ کو غلام بنانے کے بعد ان کو یا تو قتل کیا جاتا تھا، یا ہمیشہ کے لئے غلامی اور بے بسی کی زندگی گزرانے پر مجبور کیا جاتا تھا، روم کے تماشہ گاہوں اور اکھاڑوں میں جنگی قیدیوں کو زندہ جلایا جاتا یا سخت ترین عقوبتیں دے کر قتل کیا جاتا تھا۔ انہیں بھوکے شیروں کا نوالہ بنایا جاتا تھا، بسا اوقات پومپیائی کے اکھاڑوں میں ایک ایک دن میں ہزاروں غلاموں کو تہ تیغ کیاجاتا ۔عصر حاضر میں دنیا کے بزعم خود ترقی یافتہ اور مہذب اقوام میں بطور وراثت یہ بہیمانہ خصلتیں اب بھی موجود ہیں یہ لوگ طاقت کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے پجاری ہیں۔ اس طبقہ فکر کی خودآگاہی، انا پرستی، خودپرستی، خودمختاری، خودسری، خود غرضی، غرور، تکبر اور قوت تک محدود ہے، یہ نہ خدا کو جانتے ہیں اور نہ قوانین فطرت کو، ان کی نظر میں یہ دنیا کے سب سے اعلیٰ لوگ ہیں۔

قوت فرمانبروا معبود او
در زیان دین وایمان سود او

انسانوں کے مختلف طبقات فکر میں ایک طبقہ فکر وہ بھی ہے کہ جس کو نہ اپنی پہچان ہے اور نہ اپنی خودی کی، انہیں دوسرے انسانوں کی پہچان سے کوئی غرض ہے، نہ کائنات میں رہنے والے انسانوں اور دیگر مخلوقات، نباتات، جمادات، حیوانات اور اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت، اس کے خیال میں کائنات، دنیا اور اس پر رہنے والی مخلوق ازل سے اسی طرح خود بخود پیدا ہوتی اور مر جاتی ہے، یہ دنیا کس نے بنائی، انسان کو کیوں پیدا کیاگیا، انسان کو احسن تقویم اور اشرف المخلوقات کیوں بنایا گیا، کیا انسان صرف اتنا ہی کچھ ہے جتنا وہ نظر آتا ہے، جانداروں، نباتات، جمادات اور ماحولیات کے ساتھ ایک انسان کا انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی تعلق کیا ہے، ان سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں، کماتے ہیں، خرچ کرتے ہیں اور مر جاتے ہیں، ان کی خودآگاہی کا کل معیار اس حد تک ہے۔

زمانہ اپنے آخری دور میں داخل ہوا تو مہذب دنیا کی مجموعی صورتحال اس حد تک ابتر ہو چکی تھی کہ اس کا پورا سیاسی، معاشی اور تمدنی اور اخلاقی ڈھانچہ آلود ہو چکا تھا، عیش و عشرت، فحاشی اور عریانی کو فن لطیف کا درجہ حاصل ہوگیا، بے حیائی کو آرٹ اور اخلاق باختہ پیشہ ور عورتوں کو معزز فنکارائیں سمجھا جانے لگا، قوم کی لڑکیاں بے حیائی کو رفعت اور اخلاق باختگی کو عزت کا پیمانہ سمجھ اسی راہ پر چل پڑتیں، بادشاہ بے رحم، سفاک اور ظالم اور امراء، روسا اور حکومتی عمال عیش و عشرت میں ڈوب چکے، دوسری طرف غریب اور مفلوک الحال طبقات مصیبتوں اور محرومیوں کا شکار زندگی کو لعنت اور عذاب سمجھتے، تہذیب و تمدن سے متنفر کشمکش زندگی سے فرار چاہتے، اس فکری انحطاط میں افلاطون کے فلسفے، ہندو مت کے نظریات اور بدھ مت کی تعلیمات کا ہاتھ سب سے زیادہ تھا، انہی ایام میں دنیا میں نو افلاطونی نظام فکر کی جڑیں پھیلتی گئیں، اس نے انسانی نظام ذہن کو بری طرح قابو میں لے لیا، حتیّٰ کہ عیسائیت پر بھی اس کا رنگ چڑھ گیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیغمبرانہ تعلیمات کی جگہ، جس کی بنیاد اللہ کی وحدانیت پر قائم تھی، رہبانیت نے لے لی تھی، بڑے بڑے مفکر اور دانشور بھی اس سے متاثر ہوتے چلے گئے، نو افلاطونی فلسفہ، دنیا اور انسان کی حقیقت سے منکر تھا، اس کے نزدیک حقیقت کا علم عقل سے نہیں بلکہ کشف اور مراقبہ سے ممکن تھا، اس نے پیغمبرانہ ہدایت کے برعکس ترک دنیا کے مجہول طریقے اپنا لئے، جس کے باعث ضعیف العقیدہ افراد نے کشمکش اور انقلاب کی راہ ترک کی اور خلوت گزینی کے ذریعے خود آگاہی اور خدا شناسی کا طریقہ اختیار کیا، انہوں نے فطری اصول کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کشف کے ذریعے ایک ہی جست میں خدا تک پہنچنے کا دعویٰ کیا، نو افلاطونی فلسفہ فکر نے اعلیٰ اخلاقی تصورات، نیکی، عدل اور حسن خلق بارے یہ نظریہ دیا کہ ان جواہر اعمال کا دنیا کی مادی، معاشی اور معاشرتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور معاشرے میں اصلاح احوال کا واحد ذریعہ مراقبہ، کشف اور بیخودی ہے۔

دنیا کے یہ حالات ظہور اسلام سے پہلے تھے، انسانی خون کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی، انسانیت اور اخلاقی اقدار کا شیرازہ بکھر چکا تھا، حرص و طمع لالچ، ہواہوس کا بازار گرم تھا، کفر کی یلغار تھی، شرک کی یورش، زمین پر بسنے والے انسان خدا کی رحمت اور تصور نجات سے بہت دور نکل چکے تھے، دنیائے ارضی میں نہ اس کا کوئی شیدائی رہا تھا اور نہ اس سے کوئی محبت اور عشق کرنے والا، کسی کو خودشناسی کی فکر تھی اور نہ خداشناسی کی لو تھی دنیا خدا اور اس کی خدائی سے یکسر لاتعلق ہو چکی تھی ۔ حقیقت ازلی کی تلاش سے انسان منہ موڑ کر عقل کے ذریعے اللہ کی تلاش میں مصروف ہو گیا، جبکہ اللہ کی تلاش توصرف عشق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ عشق را ناممکن ما، ممکن است

انسان کی اس عالم بیگانگی سردمہری اور ناآشنائی میں ناگاہ سرزمین مکہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کی محبت وعشق میں دھڑکنے والے ایک حق آشنا دل بیتاب سے آواز بلند ہوئی۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّهَ

(آل عمران، 3 : 64)

’’اے اہل کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ، جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔،، (عرفان القرآن)

یہ آواز اللہ سبحانہ و تعالی کے اصل انسان حضرت محمد مصطفی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، یہ صوت سرمدی، دنیا میں بسنے والی ہر مظلوم اور بے چین نوع انسانی کے لئے پیام نجات اور نوید امن تھی، انسانوں میں محبت کی تڑپ رکھنے والے جس فرد نے یہ آواز سنی، وہ اس صدائے محبت پر ایمان لاکر اللہ سبحانہ وتعالی پر بن دیکھے ایمان لایا۔ بنی نوع انسان کے لئے آداب خود آگاہی کا وہ الوہی درس شروع ہوا کہ جس کا محرک اللہ سبحانہ وتعالی سے شدید محبت اور عشق تھا ۔ (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ)

ہادی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سبحانہ و تعالی کی عظمت و جلالت بیان کی، کائنات اور انسان کی تخلیق کی حقیقت اور جمیع مخلوقات کے مابین عبودیت اور بندگی کے تعلق کو قرآن مبین نے بھی کھول کھول کر بیان کیا ۔ قرآن حکیم نے آفاق و انفس کے اندر اللہ سبحانہ و تعالی کی حیرت انگیز نشانیوں سے انسان کو آگاہ کیا، اس ابدی حقیقت کو انسان کی فطرۃ بالقوہ کے اندر موجودہ بصیرت نفس (Inbuilt Self Consiousness) نے قبول کیا عالم امر سے تعلق رکھنے کی بنا پر روح تو ویسے بھی یوم الست سے ہی حقیقت الحقائق سے آشنا تھی اسی طرح انسان کا نفس، جس کا تعلق عالم خلق سے تھا اس کے اندر بھی فطرۃ بالقوہ کی وجہ سے اقرار الوہیت اور خیر و شر کے درمیان فرق کرنے کا داعیہ (Instinct) اور زمین پر اللہ کی نیابت و خلافت کا احساس موجود تھا لہذا اللہ سبحانہ کی بارگاہ اقدس میں سرجھکانے والے ان نفوس قدسیہ کو اپنی حقیقی خودی بارے جلد ہی آگہی حاصل ہوئی، اپنے خالق سے شدید محبت اور عشق نے ان کو اپنی خودی بارے مزید جاننے پر آمادہ کیا، خود آگہی نے اسے وہ آداب سکھائے کہ جس نے اس کی فطرت بالفعل کے جملہ لوازمات، شعور اور لاشعور کے تقاضوں کو تابع ومغلوب کر کے اپنے محبوب خالق کے فرمان اور خوشنودی کے مطابق اس دنیائے فانی میں زندگی بسر کرنے کے راستوں کا تعین کیا۔ خودآگاہی یا خودی کیا ہے؟ اس کے متعلق دنیا کے سب سے عظیم انقلاب کے داعی حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے افراد کے سامنے اللہ سبحانہ و تعالی کی آیات کی تلاوت فرمائی، ان کا تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کیا اورخود آگہی بارے علم وحکمت کی تعلیم عطا فرمائی ۔ قرآن مبین کے مطالعہ سے انسان نے دیکھا کہ وہ روح، نفس، قلب اور جسم کے حسین امتزاج سے مرکب ہے، اس کا وجود بنیادی طور پر مادہ کے مختلف مظاہر، مٹی، نمکیات، لوہا، پانی اور ہوا وغیرہ کے اربوں، کھربوں خلیوں (Cells) سے بنایا گیا ہے، لیکن ایک متوازن اور مربوط نظام کے تحت ان سب کو حرکت میں لانے کی ذمہ داری روح کی ہے، جو مجرد اور منفرد ہے اور جس کی پیدائش انسانی جسم کے خلیات سے کھربوں سال پہلے ہو گئی تھی۔ انسان اس حقیقت سے آگاہ ہوا کہ روح کی بیداری کو خودی کہتے ہیں، خودی ایک لازوال حقیقت ہے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فطرت بالقوہ کے تحت انسان کو بصیرت نفس کا احساس و دیعت فرمایا ہے ۔ (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِه بَصِيْرَة)نفس کے اندر پنہاں اس احساس سے انسان کو اپنی ذات کا شعور و معرفت حاصل ہوتا ہے، جس سے اس کی تکمیل ذات ہوتی ہے، اسی بصیرت (Insight) کی روشنی میں انسان اپنی ذات سے آشنا ہوتا ہے، پھر خود شناسی کے بعد اسے خدا شناسی حاصل ہوتی ہے۔ (من عرف نفسه فقد عرف ربه)اپنی ذات کے تعین اور عرفان کے بعد جب وہ مخلوقات الہیہ بارے تجسس، تفکر، تعقل اور تدبر کو بروئے کار لا کر ماہیت خلق کو سمجھتا ہے تو یہی تجسس اسے اس کے خالق کے بارے میں بتاتا ہے، یہ سارا عمل انسان کی خودی یا خود آگہی کہلاتا ہے، خالق کے مقابلے میں انسان جب اپنی اور دیگر مخلوقات کی تخلیق بارے کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے، تو اسے اپنی حیثیت اور خالق کی حیثیت کا الگ الگ پتہ چلتا ہے، اور اس کا سرخالق کے سامنے جھک جاتاہے ۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

جب اسے دیگر مخلوقات خدا کی صحیح حقیقت کا پتہ چل جاتا ہے، پھر اس کا سر ان کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا، اسے اپنی زندگی کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے، اس کو خود آگاہی کی طرف مائل کرنے والا عنصر درحقیقت جستجوئے خالق کی وہ شدید محبت ہوتی ہے جسے اقبال عشق کا نام دیتا ہے، (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبَّالِلّٰهِ) عشق میں سرشاری کی کیفیت جنوں کے مترادف ہوتی ہے، جب اسے خالق کی دیگر تخلیقات اور اپنے آپ میں ایک واضح فرق دکھائی دیتا ہے، ان کے سلوک و اعمال اور ذمہ داریوں اور اپنے اعمال، سلوک، تصوف اور ذمہ داریوں کے درمیان فرق کا علم ہو جاتا ہے، اس کو زمین پر اللہ کے نائب ہونے کا احساس ہوتا ہے، تو پھر (اِنِّی جَاعِلٌ فِی الاَرْضِ خَلِيْفَةً) (البقرہ، 2 : 30) (وَهُوَالَّذِی جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ فِی الْاَرْضِ) (الانعام، 8 : 168) کی روح پرور ارشادات ربانی کی قوت اور توانائی سے اس کے اندر ذوق تسخیر سر اٹھاتا ہے، وہ ان مخلوقات میں انسانی فطرت بالفعل کے تحت جدت اور ندرت پیدا کرتا ہے، اسے اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا پورا یقین ہو جاتا ہے، اور وہ خالق کی منشاء کے عین مطابق مطالعہ و مشاہدہ کر کے خودی کی طاقت سے تسخیر کائنات کی نت نئی راہوں کی تلاش کرتا ہے۔

سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ

(لقمان، 31 : 20)

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ

(حج، 22 : 65)

وَالْنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالْنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِِ

(النحل، 16 : 12)

پپھر وہ یہ جان لیتا ہے کہ مظاہر فطرت اور دیگر مخلوقات الٰہی سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ وہ خود مقصود کائنات ہے، کسی مخلوق کے آگے سرجھکانا، کسی کے سامنے جبین نیاز رکھ دینا منشائے فطرت کے خلاف ہے، یہ منصب خلافت کی تذلیل اور انسانیت کی توہین اور خود اس خالق کی معرفت سے ناواقفیت کی دلیل ہے کہ جس کی نیابت اور خلافت کا فریضہ اس عالم میں اس پر فرض ہے ۔ جب انسان کے قلب میں نور معرفت کا چراغ روشن ہوتا ہے اور اس کا ذہن اور جسم روحانیت کے نور سے مستنیر ہوتا ہے، اس کی بصیرت نفس پوری طرح جاگ جاتی ہے، تو اس کی بصارت کا دائرہ ساری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس کیفیت خود آگاہی کی عکاسی اس طرح کی ہے۔

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے۔

اسی کیفیت کو اقبال مردان خود آگاہ کا مذہب بھی قرار دیتا ہے، ایسا آفاقی مذہب کہ جس کی نماز کے قیام کی اذاں افلاک کی وسعتوں میں گونجتی ہے۔ انفرادی، ملی اور بین الاقوامی زندگی میں خود آگاہی کی الگ الگ کیفیات ہوتی ہیں، لیکن سب کا محور و مرکز اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کا حصول ہوتا ہے چونکہ اللہ تعالی جل مجدہ کی خوشنودی اور رضاکا حصول نفس پر بھاری ہوتا ہے، وہ عقل کے ذریعے اسے مشکل سے مشکل تر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے، نفس امارہ کا سب سے بڑا فریب یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کے ذہن میں یہ تصور قائم کرتا ہے کہ وہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ کی نظر میں اس درجہ معتوب اور مقہور ہو چکا ہے کہ اس کی توبہ قبول ہو گی اور نہ ہی اسے معافی ملے گی، نفس کی اس چال سے بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ ان سے ہمیشہ کے لئے ناراض ہو گیا ہے، اب ان پر توبہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور ہمیشہ کے لئے اللہ سبحانہ و تعالی کی خوشنودی اور رضا سے محروم، لہذا وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں ۔

اس موقع پر مردان خود آگاہ کے قلوب میں اللہ تعالی کی شدید محبت اور عشق بیدار ہو کر انہیں اللہ تعالی کی صفات غفوری، کریمی اور رحیمی کی طرف متوجہ کرتا ہے، انہیں تو بۃ النصوع کی توفیق ملتی ہے، حتی کہ وہ صدق دل سے توبہ کر کے مکمل تائب ہو جاتے ہیں۔ اس لئے مردان خود آگاہ زندگی کے ہر مرحلے میں اللہ تعالی کی رضا کے حصول کے لئے عشق کو لازم قرار دیتے ہیں، کہ عشق کی آگ ہی نفس امارہ کی مکاری، چالبازی اور مکر و فریب کے باریک جال کوجلا دیتی ہے، جو جنگل میں اگنے والی ان خود رو جڑی بوٹیوں اور بیلوں کی طرح ہوتی ہے کہ جو سارے جنگل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ جنگل کو بیلوں کو صاف کرنے کے لئے بہت زیادہ عرصہ درکار ہوتا ہے، اور اس میں ساری عمر کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے، آسان کام یہ ہو گا، کہ جنگل کو آگ لگا دی جائے وہ آگ نہ صرف جنگلی پودوں، بیلوں اور جڑی بوٹیوں کا صفایا کر ے گی بلکہ بڑے بڑے درختوں کو بھی جلا کر جنگل کو صاف کر دے گی، عقل کے مقابلے میں عشق آگ والا کردار ادا کرتی ہے کہ وہ من اور قلب کے اندر کی آالائشوں اور اللہ کی نافرمانی کرنے والے جذبوں کو چشم زدن میں جلا کر سالک کے لئے منزل تک رسائی ممکن کر دیتی ہے ۔

العشق نار فی القلوب يحرق ما سوی المحوب ’’عشق دلوں میں ایک آگ ہے جو محبوب کے سوا ہر غیر کو جلاد یتی ہے۔،،

اللہ جل شانہ کی تمام صفاتی شانیں بندے کے سامنے آ جاتی ہیں’ اسے اللہ کے سوا دوسری کوئی شئے نظر ہی نہیں آتی، ہر شئے اور ہر طرف اللہ ہی اللہ نظر آتا، عشق کا یہ جذبہ سارے منفی جذبوں کو ختم کر دیتا ہے، قلب سلیم میں کسی دوسرے خیال کا گزر ہی ممکن نہیں رہتا، ظہوری نے اس مقام کی کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔

شد است سینہ ظہوری پر از محبت یار
برائے کینہ اغیار در دلم جانیست

صوفیائے باصفا کٹھن ریاضتوں اور مجاہدات کے ذریعے عشق کی اسی آتش افروزی کے عمل سے اپنے باطن کا تزکیہ و تصفیہ کرتے اور مخلوق خدا کے خلاف پیدا ہونے والے منفی جذبوں کو جلاتے ہیں ۔ اقبال بھی دیگر صوفیاء کی طرح نفس کی معرفت اور خودی کے استحکام کے لئے عشق اور محبت کو لازم قرار دیتے ہیں۔

از محبت می شود پائندہ تر
زندہ تر سو زندہ تر پائندہ تر

وہ مومن کے ایمان وایقان کی تکمیل اور تہذیب حیات انسانی کے لئے عشق کو بنیاد سمجھتے ہیں۔

مومن از عشق است وعشق از مومن است
عشق را ناممکن ما ممکن است

زندگی را شرح وآئین است عشق
اصل تہذیب است دین، دین است عشق

آداب خودآگاہی سیکھنے کے لئے اقبال نے عشق کے مکتب میں داخلہ کو لازم قرار دیا ہے، کہ عشق کو استاد مانے بغیر نہ خود آگاہی کے آداب سمجھے جا سکتے ہیں اور نہ ہی اسرار و رموز شہنشاہی منکشف ہوتے ہیں، عقل کے مکتب سے ان آداب اور اسرار و رموز کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے صدیوں کا عرصہ بھی کم پڑے، جبکہ انسان کی طبعی عمر کا عرصہ بہت ہی قلیل واقع ہوا ہے۔

معرفت کا کمال یہی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اللہ کو پہچان لیا، یعنی جو اپنی حقیقت (روح، قلب، نفس اور جسم) سے واقف ہوا، اس نے ہر جزو کو اللہ کے حکم کے مطابق، اس کی رضا کے حصول کے لئے تیار کیا، اور جب اجزائے انسانی پر اس کو دوام نصیب ہوا، تو وہ حق تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے قابل ہوا، جب انسان کے نفس کو اللہ تعالی جل شانہ کی حاکمیت اعلیٰ اور ہر شئے کے مالک ہونے کا یقین کامل ہو جاتا ہے ۔ فطرۃ بالفعل اور شعور کے تقاضے، فطرۃ بالقوہ اور لاشعور کے تقاضوں کے تحت منضبط ہو جاتے ہیں تو انسان عقل کے پورے کمال کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالی سے واصل ہو جاتاہے، عقل عشق کے راز کو پالیتی ہے اور اسے اپنا استاد تسلیم کر لیتی ہے۔

استاد تو عشق است چوں آ نجا برسی
او خود بزبان خود بگوید راز

عشق آں شعلہ ست کہ چوں برفروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

عشق ایک ایسا شعلہ ہے کہ جب یہ روشن ہو جائے، تو معشوق کے سوا باقی تمام چیزوں کو جلا کر خاکستر بنا دیتا ہے، جب تک معشوق کی ذات کے اندر فنائیت نہ ہو، معشوق کے اندر عشاق کے لئے کشش کا جذبہ نہیں ابھرتا اور عشق کی ہر کوشش منزل تک رسائی میں ناکام رہتی ہے۔

اگر از جانب معشوق نبا شد کششے
کوشش عاشق بے چارہ بجائے نرسد

انسان جب عشق کے ذریعے درجہ احسان (اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ المُحْسِنِيْنَ) تک پہنچ جاتا ہے، تو اللہ سبحانہ وتعالی اس کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے۔ (يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَه) عشق کی کیفیات میں اضطراب واضطرار، بے قراری، بے چارگی، والہانہ پن اور بے خودی کی وجہ سے صوفیاء نے اس کا اطلاق اپنے اوپر کیا، کہ اس کا مقتضی بھی یہی ہے کہ بندہ اللہ سبحانہ سے عشق کرے کیونکہ یہ عقل نہیں جذبہ ہے، محبت میں ذات وصفات کا عرفان یعنی عقل شامل ہے تو اللہ بندوں سے محبت کرتا ہے، فنا فی اللہ بندے اللہ سبحانہ سے عشق کرتے ہیں۔ جب انسان خود شناسی کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالی جل شانہ اس پر اسرار شہنشاہی کے رموز کا دریچہ وا کر دیتا ہے اور وہ نیابت الٰہی کے فریضے کی ادائیگی میں مصروف کار ہوجاتا ہے۔