مسز عائشہ شبیر

مثبت اور منفی رویے
ہر کوئی منفی رویوں کے محدود دخول سے نکل کر مثبت رویوں کی فرحت بخش قوت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

صورتحال کتنی ہی تشویش ناک اورپریشان کن ہو، کوئی Event کتنا ہی خوفناک ہو، کسی کا Attitude کتنا ہی غیر مناسب ہو۔ ہر صورت حال، ہر Event اور ہر قسم کے Attitude پر رد عمل دو طرح کا ہوسکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت منفی رویوں کے محدود خول میں بند رہ کر زندگی گزارتی ہے۔ ایسے لوگ ان بند پنجروں سے باہر جھانکنے اور نکلنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے۔ وہ مثبت رویوں کی نشاط انگیز اور فرحت بخش قوت سے لطف اندوز ہونے سے زندگی بھر محروم رہتے ہیں۔ جو لوگ ہمیشہ مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ مثبت سوچ اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بار بار ملنا چاہتے ہیں، ان سے ہمیشہ مثبت توقعات رکھی جاتی ہیں اور اس کے برعکس جولوگ ہمیشہ منفی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ منفی سوچ اور شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں اور اپنے حلقہ احباب میں اچھی شہرت کے حامل نہیں رہتے۔

ہر شخص کو مثبت یا منفی رویہ اپنانے پر پورا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ مثبت یا منفی رویے کا مظاہرہ کرنا ایک عادت ہے جیسے سگریٹ نوشی اورجھوٹ بو لنا ایک عادت ہے۔ جس طرح عادت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح منفی رویوں کی جگہ مثبت رویوں کی عادت کو اپنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر روز رات کو سونے سے قبل دس منٹ کے لئے کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر یا چارپائی پر لیٹ کر مختلف قسم کی صورت حال، Events یا Attitudes کو اپنی Imagination میں متشکل کریں (یعنی فرضی طور پر وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھیں) اور اس پر ممکنہ منفی اور مثبت رد عمل دونوں کو اپنے تصور میں لائیں۔ یہ عمل کم از کم دو ماہ تک جاری رکھیں۔ دو ماہ کے بعد خود بخود مثبت رویے آپ کی عادت بن جائیں گے۔ کیونکہ اتنا عرصہ تک اگر ذہن کے Cells کو باقاعدگی سے روزانہ بار بار تحرک دیا جائے تو Cells کی Chemical State میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ جس سے پرانی ذہنی اور جسمانی کیفیات نئی کیفیات میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ Events اور ان پر ممکنہ مثبت اور منفی رد عمل پیش کئے جارہے ہیں۔

1۔ آپ گھر سے باہر کسی کام کی غرض سے گئی ہیں یا کسی دوسرے کمرے میں آپ کام میں مصروف ہیں مگر ڈرائینگ روم میں آپ کے بچے نے حشر بپا کیا ہوا ہے۔ صوفوں کی گدیاں نکال کر اوپر نیچے رکھ کر House بنا رہا ہے کچھ دوسری چیزیں بھی ساتھ رکھی ہوئی ہیں۔ جب اچانک آپ کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔ آپ کا بچہ بڑے شوق سے آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہے کہ ماما میں نے House بنایا ہے اور ۔۔۔ یہاں پر آپ کا رد عمل دو طرح کا ہوسکتا ہے ایک مثبت اور دوسرا منفی۔

منفی یہ ہے کہ غصے سے بچے کو تھپڑ لگا دیں اور چیخ چیخ کر بچے کو ڈانٹنا شروع کر دیں۔

جبکہ مثبت رویہ یہ ہے کہ چہرے پر خوشی کے تاثرات لاتے ہوئے یوں کہیں، Very Good ۔Excellent بہت خوب، میرے بیٹے نے کتنا اچھا House بنایا ہے۔ مزید کچھ تعریفی کلمات کہنے کے بعد اس کو بڑے پیار سے سمجھائیں کہ بیٹا آئندہ Clay یا Blocks سے House بنایا کریں۔

یہاں پر دونوں قسم کے Reactions پر آپ کا اختیار ہے اگر منفی رویے کا مظاہرہ کریں گی تو اپنی صحت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی کریں گی۔ آئندہ وہ بچہ آپ سے کبھی تعریف کی توقع نہیں کرے گا جبکہ مثبت رویے کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

2۔ آپ جا رہے ہیں راستے میں کسی نے دروازے سے خراب دودھ باہر پھینکا ہے اچانک گزرتے ہوئے آپ آگے آگئی ہیں۔ آپ کے کپڑے خراب ہوگئے ہیں۔ منفی رویہ ہے کہ

غصے سے سیخ پا ہو کر گھر والوں سے لڑنا شروع کر دیں بات ہاتھا پائی تک پہنچ سکتی ہے اور مثبت رویہ یہ ہے کہ

اس کی حماقت پر مسکرائیں اور اسے کہیں میڈم اپنا کام تو آپ نے کر ہی دیا ہے۔ اب کوئی خشک کپڑا دیں۔ اس کے گھر چلی جائیں۔ اچھی طرح کپڑے صاف کریں یا متاثرہ حصے دھولیں۔ کچھ دیر گپ شپ لگائیں اور بعد میں ہنستے مسکراتے اللہ حافظ کہہ کر چلی جائیں۔

3۔ آپ نے بچے کو ایک صفحہ سبق یاد کرنے کے لئے دیا ہے، جب سنا تو اس نے صرف دو لائنیں سنائیں۔

منفی رویہ میں آپ یہ کہیں گے آپ نے صرف دو لائنیں سنائی ہیں۔ پورا صفحہ یاد نہیں کیا۔ آپ بہت نالائق ہیں۔ آپ کبھی پڑھ نہیں سکتے اور ساتھ ایک تھپڑ بھی رسید کر دیں جبکہ

مثبت رویہ یہ ہے کہ آپ سبق کا جو حصہ اس نے نہیں سنایا اسے Ignore کرتے ہوئے اپنی نظر ان دولائنوں پر رکھیں جو اس نے سنائی ہیں اس کی بنیاد پر بچے کو Appriciate کریں۔ مثبت جملے بولیں، Very Good ۔Good Try، اور کوشش کرو۔ آئندہ آپ نے اس سے بھی زیادہ سنانا ہے وغیرہ جملے کہیں۔

4۔ بچے کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ گیا ہے۔ آپ کا رد عمل دو طرح کا ہوسکتا ہے۔

ایک منفی اور دوسرا مثبت منفی یہ ہے کہ آپ بچے کو تھپڑ رسید کر دیں اورچیخ چیخ کر ڈانٹنا شروع کر دیں۔

مثبت رد عمل یہ ہوگا کہ آپ کہیں کوئی بات نہیں بیٹا آئندہ گلاس ذرا مضبوطی سے پکڑا کرو۔ یاد رکھیں گلاس آپ کے بچے کے دل سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ اس پر بچے کا کوئی اختیار نہیں۔ اگر کوئی نقصان ہونے پر آپ کی بچوں کو ڈانٹنے کی عادت ہے۔ آپ یہ محسوس کریں گے کہ گلاس ٹوٹنے پر بچے کا رنگ پیلا پڑ جائے گا۔ وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوجائے گا۔ بھاگنے کی کوشش کرے گا، جھوٹ بولے گا۔ بچے کی اسی حالت پر اگر آپ اسے ڈانٹ دیں گی تو اس طرح بچے کی شخصیت میں منفی رحجانات جنم لیں گے کیونکہ گلاس کبھی نہیں جڑ سکتا مگر آپ کے ایک تھپڑ سے جو نقصان بچے اور آپکی صحت کو ہوگا وہ لاکھوں گلاس بھی مل کر پورا نہیں کرسکتے۔

5۔ آپ کسی عزیز کے گھر جانے کے لئے گھر سے باہر اپنے بچوں کے ساتھ رکشے میں سوار ہونے لگتی ہیں بچے شرارتیں کر رہے ہیں۔ گھر کو تالا لگا دیا ہے۔ مگر آپ کے سارے پیسے بیگ میں ہیں اور بیگ اندر رہ گیا ہے بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ چابیاں بھی بیگ میں رہ گئی ہیں۔ رد عمل دو طرح کا ہوسکتا ہے منفی یہ کہ

انتہائی پریشانی کے عالم میں سر پکڑ کر بیٹھ جائیں یا انتہائی غصے کے عالم میں سب بچوں کو مارنا پیٹنا شروع کردیں۔ آپ چیخ چیخ کر بول رہی ہوں اور بچے بھی رو رہے ہوں۔ گلی میں ایک تماشا لگا ہو اورلوگ گھروں سے باہر جھانکنا شروع کر دیں جبکہ اس کے برعکس مثبت رویہ یہ ہے کہ آپ تحمل سے اس کے تمام ممکنہ حل سوچنا شروع کردیں اور حل تلاش کریں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ خوبصورت قول دہرائیں کہ ’’مصیبت میں گھبراہٹ ایک اور مصیبت ہے‘‘

حل نمبر1۔ ہمسائیوں کے کسی بچے کو اوپر سے اندر بھیجیں کہ وہ بیگ باہر لے آئے۔

حل نمبر2۔ کسی ہمسائے سے درخواست کریں کہ وہ کسی لاک ماسٹر کو بلا لائیں تاکہ تالا توڑا جا سکے۔

حل نمبر3۔ یا رکشے پر بیٹھ کر اپنے عزیز کے گھر چلی جائیں اور وہاں پہنچ کر عزیز سے پیسے لے کر رکشے والے کو ادا کردیں اور اپنے عزیز سے کہیں کہ وہ تالا توڑ دے۔

6۔ آپ کا خاوند رات کو کام سے لیٹ ہوگیا اور موبائل بھی بند ہے۔

منفی رویے میں آپ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی ہوں کہ وہ اور کہیں نہ چلا گیا ہو۔ اس سے ملنے والی مختلف لڑکیوں کے چہرے ذہن میں لاکر آپ سیخ پا ہوتی رہیں۔ جبکہ مثبت رویہ میں آپ یہ سوچیں گی کہ ممکن ہے گاڑی خراب ہوگئی ہو۔ ممکن ہے کسی میٹنگ میں مشغول ہوں اس لئے موبائل بند رکھا ہو یا ممکن ہے چارج ختم ہوگیا ہو، مجھے یقین ہے وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ اگر لیٹ آنا معمول بن جائے تو پھر بھی لڑنے یا تلخ بولنے کی بجائے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرکے حقیقت جاننے کی کوشش کریں۔ اگر واقعتاً وہ غلط رہ پر چل نکلا ہے تو بھی آپ کے حسن ظن اور اعتماد کی وجہ سے وہ خود بخود راہ راست پر آسکتا ہے۔

یاد رکھیں مثبت رویے اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کو بطور تحفہ اس کی جبلت میں و دیعت کر دیئے گئے ہیں او رمنفی رویے انسان خود اپنی شخصیت میں پروان چڑھاتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ صرف مثبت رویوں کا حامل ہوتا ہے۔ منفی رویوں سے وہ آشنا تک نہیں ہوتا۔ حالات اور غلط تعلیم و تربیت کی وجہ سے منفی رویے اس کی شخصیت کا حصہ بنتے جاتے ہیں اور مثبت رویے Inactive ہوتے جاتے ہیں۔ ان کو Active کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے آپ کو یہ عمل کرنا پڑے گا۔ دائیں ہاتھ کی مٹھی پوری قوت سے بند کرتے ہوئے ہاتھ کو جھٹکا دیں اور مندرجہ ذیل جملے باری باری دہرائے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے آپ کے ارادہ کو تقویت ملتی ہے۔ اور اعصاب بھی مثبت رویوں کو Active کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ عمل کم از کم 3 ماہ تک جاری رکھیں۔ روزانہ کسی مناسب وقت میں ایک مرتبہ دہرایا کریں۔ اس دوران یا بعد میں اگر کسی منفی رویے کا سامنا ہو تو متعلقہ جملہ اسی طرح تین چار مرتبہ دہرائیں۔ اس سے مثبت رویہ Active ہوجائے گا اور منفی رویہ دب جائے گا۔

  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر محبت کی قوت رکھی ہے میں کیوں کسی سے نفرت کروں۔
  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر امید کی قوت رکھی ہے میں ناامید کیوں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر صبر کی قوت رکھی ہے میں بے صبر کیوں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر دوسروں کی تعریف کرنے کی صلاحیت رکھی ہے میں کسی کی برائی بیان کیوں کروں۔
  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر رشک کرنے کی صلاحیت رکھی ہے میں کسی سے حسد کیوں کروں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے حسن ظن رکھنے کی صلاحیت دی ہے میں کسی پر شک یا بدگمانی کیوں کروں۔
  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر ہمیشہ خوش رہنے کی صلاحیت رکھی ہے میں افسردہ یا غمزدہ کیوں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے سیدھی راہ پر چلنے کی پوری قوت سے نوازا ہے۔ میں برے کام کیوں کروں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت دی ہے میں خوفزدہ کیوں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے معاف کرنے کی صلاحیت دی ہے میں کسی سے انتقام کیوں لوں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے جوش و جذبہ سے نوازا ہے میں پژمردہ کیوں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے مسلسل کام کرنے کی صلاحیت دی ہے میں سستی و غفلت کا مظاہرہ کیوں کروں۔
  • اللہ تعالٰی نے میری اندر جرات کی قوت رکھی ہے میں بزدل کیوں ہوں۔
  • اللہ تعالٰی نے میرے اندر دوستی کرنے کی صلاحیت رکھی ہے میں کسی سے دشمنی کیوں رکھوں۔
  • اللہ تعالٰی نے مجھے اطمینان کی قوت سے نوازا ہے میں بے چین کیوں ہوں۔