اولین و آخرین عورتوں کی سردار

محترمہ فاطمہ قرۃ العین

جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے مناقب سیرت

مرتبہ : کوثر رشید

بسم الله الرحمن الرحيم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَهَا اَغْضَبَنِیْ.

(البخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب قرابة رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3510)

’’فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا‘‘۔

آپ رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی فاطمہ ہے جس کا مطلب ہے روک لینا۔

عَنْ جَابِرْ بِنْ عَبْدِاللّٰه رضی الله عنها عَنْهُمَا قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم اِنَّمَا سَمَّيْتُ بِنْتِیْ فَاطِمَةَ لِاَنَّ اللّٰهَ فَطَمَهَا و فَطَمَ مُحِبِّيْهَا عَنِ النَّارِ.

(الفردوس بما ثور الخطاب، 1 : 346، رقم 1385)

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کر دیا ہے‘‘۔

میں اس کے نام سے کرتی ہوں ابتدائے سخن
ضمیر کُن سے اگاتا ہے جو زمین و زمن

جو بندگی کو ہدایت کا نور دیتا ہے
جو آگہی کو سکھاتا ہے مصطفی (ص) کا چلن

نوید خلد وہ بخشے کبھی بفیض رسول (ص)
کبھی بنام علی وہ مجھ کو رزق سخن

یہ سانس صدقہ زہراء میں دی اسی نے مجھے
وہ بتول کہ ہے لوح معرفت کا متن

وہ دے گا دل کو ابھی اور نعمتیں
بنام عکس جمال رخ حسین و حسن

آپ رضی اللہ عنہا کا لقب بتول ہے۔ بتل کا معنی قطع کرنا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا عبادت میں فنا فی اللہ، توجہ الی اللہ میں کامل اور توکل الی اللہ کے اس مقام پر تھیں کہ دنیا کی ہر خواہش اور ہر رغبت سے کٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگئی تھیں۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کا تعلق کاملاً اللہ کی طرف تھا۔ جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کا دل ہر چاہت اور محبت سے خالی ہوگیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کی اس شان استغناء اور شان روحانیت کے باعث آپ رضی اللہ عنہا کو لقب ’’بتول‘‘ عطا کیا گیا۔

آپ رضی اللہ عنہا کے نام کا تیسرا حصہ زہراء ہے جو پھول کو کہتے ہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باغ کا پھول ہیں۔ بلکہ حقیقت میں گلشن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے سب پھول اسی گلشن سے کِھلے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے درخت نبوت کی ٹہنی ہے اور ٹہنی پر لگے دو پھل حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ (الفردوس بما ثور الخطاب، 1 : 52، رقم : 135)

شجر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھل کا ذائقہ کسی نے چکھنا ہو تو وہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما میں چکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو فاطمہ کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے‘‘۔ (فضائل الصحابۃ، 2 : 755، رقم 1324) اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : ’’میرے سارے خانوادہ میں مجھے سب سے محبوب فاطمہ ہے‘‘۔ (ترمذی، الجامع الصحیح، 5 : 678، رقم : 3819)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کا دن ہوگا اہل محشر کا حساب و کتاب ہو رہا ہوگا۔ رب ذوالجلال کرسی عدل پر جلوہ افروز ہوگا۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرسی شفاعت اور مقام محمود پر جلوہ افروز ہوں گے۔ ساری دنیا نفسا نفسی کے عالم میں اپنے حساب و کتاب میں مصروف ہوگی کہ اچانک عرش کی گہرائیوں سے ایک آواز آئے گی جس آواز کو جملہ اہل عرش سنیں گے۔ فرشتہ، عرش کے پردوں کے پیچھے سے ندا دے گا کہ اے اہل محشر! اپنی آنکھیں، گردنیں اور سر جھکالو۔ ابھی فاطمہ بنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہونے والا ہے اور اس وقت تک آنکھیں جھکائے رکھو جب تک فاطمہ رضی اللہ عنہا محشر سے گزر کر جنت میں نہ چلی جائیں۔ پھر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا دو سبز چادریں اوڑھ کر محشر سے گزر جائیں گی‘‘۔ (حاکم، المستدرک، 3 : 75، رقم : 4757)

سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے بارے میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

سَيِّدَةُ نِّسَاءِ اَهْلِ الْجَنّةِ.

(ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 660، رقم : 3781)

’’فاطمہ اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہے‘‘ جن کی آمد پر محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم ہے خدا کی عزت کی قسم! وہ سیدۂ قیامت بھی ہیں وہ سیدۂ اہل محشر بھی ہیں۔

عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِب رضی الله عنها اَنَّ النَّبِیَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لِفَاطِمَةَ اَلاَ تَرْضِيْنَ اَنْ تَکُوْنِیْ سَيِّدَةَ لنِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَ اَبْنَاک سَيِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ.

(مجمع الزوائد، 9 : 201)

حضرت علی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس بات پر خوشی نہیں کہ اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہو اور تیرے دونوں بیٹے جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔

معروف روایت کے مطابق جب وحی کے نزول کا آغاز ہوا تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی گود مبارک میں پانچ سالہ شہزادی سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا تھیں۔ حالت سجدہ میں آقا علیہ السلام پر بدبخت مشرکین نے اونٹنی کی اوجھڑی ڈال دی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ابھی چھوٹی ہی تھیں کہ دوڑ کر آقا علیہ السلام کے ساتھ لپٹ گئیں اور اپنے ہاتھوں سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے اور جسم مبارک کو صاف کیا۔

آپ رضی اللہ عنہا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جس گھر سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج پر لے جایا گیا اس شب سیدہ عالم رضی اللہ عنہا بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک نو سال تھی۔ اس سے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوتے تو دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد فوراً اندر آتے مگر چونکہ اس شب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھیں اس لئے وہ باہر کھڑے رہے۔ سیدۂ کائنات علیہا السلام باہر تشریف لاتی ہیں تو جمال اور جلال کے پیکر جبرائیل امین علیہ السلام کو انسانی شکل میں دیکھتی ہیں اور پوچھتی ہیں مَاتُرِيْدُ آپ نے کس سے ملنا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں اُرِيْدُ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہا اندر تشریف لے جاتی ہیں اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلیہ بتاتی ہیں پھر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے جبرائیل علیہ السلام کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ یہ سیدہ عالم علیہا السلام کی شان ہے کہ شب معراج حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی اجازت لے کر اندر آتے ہیں۔

کتنی بلندیوں پہ ہے ایوان فاطمہ
روح الامیں ہے صورت دربان فاطمہ

حاصل کہاں دماغ کو عرفان فاطمہ
خلد بریں ہے نقشہ امکان فاطمہ

کیا سوچئے بہار گلستان فاطمہ
حسنین جب ہوں سنبل و ریحان فاطمہ

باب بہشت پر مجھے روکے گا کیوں کوئی
میں ہوں غلام غلامان فاطمہ

آپ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک دس سال تھی جب شعب ابی طالب کا واقعہ پیش آیا تین سال کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جمیع خاندان، اہل بیت رضی اللہ عنہم اور قریبی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ شعب ابی طالب میں قید ہوگئے۔ تین سال تک قید کی تکلیفیں جھیلنے والوں میں دس سالہ معصوم بچی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔

اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو کر کے سفر پر روانہ ہوتے وہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہی ہوتیں۔ (ابوداؤد، السنن، 4 / 84، الرقم : 7213)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادات و اطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، 5 : 700، رقم : 3872)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت اور پاک دامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد پر آگ حرام کر دی ہے‘‘۔ (الفردوس بما ثور الخطاب، 1 : 346، رقم : 1385)

سید عرب و عجم، صاحبِ جود و کرم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ اس لئے انہیں اَبَدُالْاَبَاد تک ’’امہات المومنین‘‘ کے منفرد خطاب سے نوازا گیا۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں اعلیٰ و ارفع اور قابل رشک مقام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شخصیت میں جمالیاتی اور اخلاقی محاسن کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ وہ حسنِ صورت اور حسنِ سیرت کا عظیم مرقع تھیں۔ معاصر صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین میں طبعی ذہانت و فطانت، فراست و متانت اور وسعت علمی کے اعتبار سے ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ کم و بیش آٹھ ہزار صحابہ و صحابیات سلام اللہ علیہم اجمعین کا شمار ان کے تلامذہ میں ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو تاریخ و ادب، شاعری، مروجہ قوانین اور طب جیسے شعبہ جات کے بارے میں حیرت انگیز آگاہی حاصل تھی، فقہی امور پر کامل دسترس تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا قرآن مجید کی حافظہ تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بصیرت اور معاملہ فہمی اپنی مثال آپ تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عبادت گزاری، تقویٰ اور زہد و ورع میں بلند مقام رکھتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمانے لگے۔ عائشہ جب تو خوش ہوتی ہے تو مجھے پتہ چل جاتا ہے اور جب ناراض ہوتی ہے تب بھی تمہاری ناراضگی مجھ پر کھل جاتی ہے کیونکہ جب خوش ہوتی ہے تو دعا کرتے ہوئے رب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر پکارتی ہے اور ناراضگی کے وقت میرا نام نہیں لیتی بلکہ رب ابراہیم کہہ کر ہمکلام ہوتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا زاہدہ اور عابدہ ہونے کے علاوہ سخی اور فیاض بھی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا وہ عظیم المرتبت خاتون تھیں جنہیں دوسری خواتین کے لئے بطور نمونہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی جانے والی احادیث کی تعداد 2210 ہے۔ رشک عرش بریں بھی ہے کہ زمین کا ٹکڑا جسے آرام گاہ حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے کا شرف حاصل ہوا وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک ہی تو تھا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’یہ جبرائیل ہے جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ رب العزت نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے تمہاری شادی کر دی ہے اور تمہارے نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیا اور شجر ہائے طوبیٰ سے فرمایا ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو پھر دلکش آنکھوں والی حوریں ان موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیتے رہیں گے‘‘۔

حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے یہ عظیم اوصاف و خصائل ہی تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب کسی نے حضرت علی رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حسن معاشرت کیسا تھا تو وہ آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا۔ فاطمہ جنت کا ایک خوشبودار پھول تھی جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی بھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام ایک دن تشریف فرما تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہا موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے میرے اللہ! بے شک تو جانتا ہے کہ یہی میرے اہل بیت ہیں لوگوں میں سب سے زیادہ باعزت ہیں، سب سے زیادہ قابل احترام ہیں۔ اے میرے اللہ! جو ان سے محبت کرے تو ان سے محبت فرما اور جو ان سے دشمنی رکھے تو ان سے دشمنی رکھ، جو ان کی مدد کرے تو ان کی مدد فرما۔ ان کو ہر قسم کے رجس سے پاکیزہ رکھ، ہر گناہ سے محفوظ فرما اور روح القدس کے ساتھ ان کی تصدیق و تائید فرما‘‘، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ! ’’یہ فاطمہ میرے بدن کا حصہ ہے۔ میری آنکھوں کا نور ہے، میرے دل کی ٹھنڈک ہے، جسے یہ ناپسند کریں وہ مجھے ناپسند ہے۔ جس سے وہ خوش ہے میں اس سے خوش ہوں‘‘۔

پھر فرمایا : ’’جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو وہ میرے حقیقی بھائی ہیں، میرے بعد میرے امور کے وارث، دنیا و آخرت میں میرے علمبردار، حوض کوثر اور میری شفاعت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلمان اور ہر مومن کے مولا، سردار اور ہر متقی کے قائد ہیں۔ ان سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے۔ ان سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں میرے بعد میری امت ان پر ظلم کرے گی۔ اسی طرح حالات چلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے سر اقدس کو تلوار کی ضرب سے زخمی کردیں گے‘‘۔

جہاں تک میری بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا تعلق ہے تو وہ اولین و آخرین عورتوں کی سردار، وہ میری آنکھوں کا نور، میری روح ہیں جو میرے بدن میں موجود ہے۔ وہ انسانی صورت میں حور ہیں۔ جب نماز کے لئے اپنے رب کے حضور کھڑی ہوتی ہیں تو ان کا نور آسمانی فرشتوں کے لئے اس طرح روشن دکھائی دیتا ہے جس طرح اہل زمین کے لئے تاروں کا نور چمکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے اے میرے فرشتو! میری کنیز خاص کو دیکھو جو میری تمام کنیزوں کی سردار ہے۔ میرے حضور کھڑے ہوکر میرے خوف سے کس طرح اس کا بدن کانپ رہا ہے۔ جو دل کی گہرائیوں سے میرے حضور حاضر ہے۔ گواہ رہنا میں نے ان کے محبت کرنے والوں کو جہنم سے امان دے دی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں وہ میرے بعد لگاتار غمزدہ اور دکھی رہیں گی۔ وہ ایک مرتبہ اپنے گھر سے سلسلہ وحی کے منقطع ہونے پر روئے گی تو دوسری دفعہ میرے فراق اور جدائی کو یاد کر کے روئیں گی اور جب رات چھا جائے گی تو رات کی تاریکی میں میری تلاوت قرآن اور تہجد کی آواز کو سننے کی وجہ سے خوفزدہ ہوجائیں گی۔ اپنے آپ کو میرے بعد انتہائی پریشان حال خیال کریں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے فاطمہ رضی اللہ عنہا! اپنے پروردگار کے لئے قنوت کرو، سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو پھر وہ بیمار ہو کر بستر بیماری پر آجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ حضرت مریم علیہ السلام  بنت عمران کو ان کی تیمارداری اور حالت مرض میں انس و ہمدردی کے لئے بھیجے گا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہل بیت میں سے وہ سب سے پہلی فرد ہوں گی جو مجھ سے آملیں گی‘‘۔

جہاں تک (حضرت امام) حسن رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو سچ یہ ہے کہ وہ میرا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا، میری آنکھوں کی روشنی، میرے دل کا نور اور میرے قلب کا ثمر ہے۔ یہ وہی ہے جو جوانان جنت کا سردار ہے۔ اس کا فعل میرا فعل ہے۔ اس کی بات میری بات ہے۔ جو کوئی اس کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت ہوگی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد ان پر مسلسل ظلم ہوتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ زہر ظلم سے شہید کر دیئے جائیں گے۔ اس وقت سات آسمانوں اور سات زمینوں کے فرشتے، فضاؤں میں پرندے، سمندر کی گہرائیوں میں مچھلیاں تک روئیں گی۔

جہاں تک (حضرت امام) حسین رضی اللہ عنہا کا تعلق ہے تو یقینا وہ مجھ سے ہے میں اس سے ہوں وہ میرا بیٹا اور فرزند ہے۔ اپنے بھائی کے بعد پوری مخلوق میں سب سے افضل، مسلمانوں کے پیشوا، مومنین کے مولا و آقا، مصیبت زدوں کے فریاد رس، پناہ کے متلاشیوں کی آخری پناہ گاہ اور تمام تر مخلوقات پر حجت خدا ہیں۔ یہ وہی ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں۔ میری امت کے لئے باب نجات ہیں۔ ان کی اطاعت، میری اطاعت ہے، جس نے مجھ سے محبت اور عشق کرنا ہے وہ پہلے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت اور عشق کرے کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ میری چاہت اور محبت ہیں، میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد ان پر ظلم کئے جائیں گے اور میں اس کے ساتھ وہاں پر ہوں، میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ میرے حرم اور میری قبر میں پناہ لینا چاہتے ہیں لیکن ان کو کوئی پناہ لینے نہیں دیتا۔ میں عالم خواب میں ان کو اپنی آغوش میں لے کر ان کو اس دار ہجرت سے اپنے پاس بلالوں گا اور ان کو شہادت کی خوشخبری دوں گا۔ وہ یہاں سے سر زمین شہادت اور صحرائے قتل و فنا اور کرب و بلا کی طرف کوچ کریں گے، میں ان کو دیکھ رہا ہوں کہ ان کے بدن پر تیر مارے جا رہے ہیں، گھوڑے سے زمین پر گر پڑتے ہیں تو انہیں شہید کر دیا جاتا ہے۔

ہر نقش پا میں جذب ہے فتح مبیں کی مہر
دیکھے مباہلہ میں کوئی شان فاطمہ

ختم رسل کی گود ہے عصمت کی جائے نماز
چہرہ علی ولی کا ہے قرآن فاطمہ

مفہوم مَاتَشَا کی قسم کائنات میں
فرمان کردگار ہے فرمان فاطمہ

وہ کل بھی پنجتن میں صدارت مقام تھی
کیسے کروں تمیز حسن اور حسین میں

اک روح فاطمہ ہے تو اک جان فاطمہ
اور پھر یہاں کیوں نہ ذکر ہو حسنین کریمین کا

آج کی رات جس طرف دیکھو
ہے محیط حیات حسن حسین

لخت خیرالبشر (ص) امام مبیں
نور عین علی امیر زمن

ثمرہ قلب فاطمہ  زہراء
شجرہ طیبہ سفیر عدن

آنکھ میں عکس جلوہ وحدت
آئینے میں ہے چاند کا درپن

حرف دستور خامشی کی لکیر
پرچم امن، تار پیراہن

پرچم امن بن کے لہرایا
سایہ دست مہربان حسن

تازہ دم راحتیں ہمیں ہوں عطا
بڑھ چلی حد سے زندگی کی تھکن

حشر میں بھی نوازنا ہم کو
ہمارے مرشد ہمارے امام حسن

حسین غربت میں سدا دولت ثقلین اساس، حسین فرمان یقین، حسین نگہدار قیاس حسین قرآن بہ لب، حسین ہے تفسیر شناس، حسین نبیوں کی قبا، حسین امامت کا لباس، حسین منہ زور ہواؤں کی ہتھیلی پہ چراغ، حسین مہتاب کے سینے میں دمکتا ہوا داغ، حسین کلیوں کا تکلم کبھی خوشبو کا دماغ، حسین الہام کی منزل کبھی آیت کا وقار، حسین حکمت کا خزانہ کبھی بخشش کا حصار، وہ حسین ابن علی رضی اللہ عنہما وقت کی تہذیب کاناز، حسین کا ہر زخم ہے سرمایہ تقدیر حجاز، جس نے تیروں کے مصلے پہ ادا کی ہے نماز، گرم جھونکوں سے جو احوال صبا پوچھتا ہے، زیر خنجر بھی جو خالق کی رضا پوچھتا ہے۔

محبت اہل بیت ایک ایسی حقیقت ہے جو قرآن حکیم سے بھی ثابت ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ، خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلوایا اور سورۃ الاحزاب کی یہ تلاوت فرمائی :

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاO

(الاحزاب، 33 : 33)

بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دےo

اہل بیت کی پیروی کرنے والا دنیا میں گمراہی سے محفوظ رہے گا اور آخرت میں بھی جہنم سے دور رہے گا۔ ’’جو شخص ہے مداح آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وہ ہے بارگاہ خدا میں قبول‘‘ خود اللہ رب العزت نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی عظمت، قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے۔ کہیں اہل بیت کی عظمت و طہارت و پاکیزگی کا ذکر ہے۔ کہیں اہل بیت کی محبت طلب فرمائی، کہیں اہل بیت کو خیر کثیر اور کوثر فرمایا۔ حضرت سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، جب زمین پر تشریف لائیں تو آپ رضی اللہ عنہا کا نور مبارک درخشاں ہوگیا چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا کے نور نے مکہ معظمہ کے مکانوں کو گھیر لیا۔ گلستان احمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقبال کا شجر ثمر بار ہوگیا۔ چمن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غنچۂ دل پسند سے آراستہ ہوگیا۔ گلشن عصمت کا پھول تقدس و طہارت کے باغ میں نسیم جمال اور شمیم کمال سے پیراستہ ہوگیا، آپ رضی اللہ عنہا شمع شبستان دل سرور کونین ہیں روشنی انجمن سید ثقلین ہیں، امن کی قندیل ہیں، سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوابوں کا چمن ہیں، آپ رضی اللہ عنہا کی سوچ کا انداز دنیا سے نرالا ہے۔

حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا قلب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سکون و چین ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا محسنہ اسلام ہیں، جن کے گھر کی چار دیواری کے اندر اسلام پروان چڑھا۔ آپ رضی اللہ عنہا عظمت کا وہ مینار ہیں جس کے اردگرد نبوت و امامت کا حصار ہے اور ان کو ملانے والی آپ رضی اللہ عنہا عظیم کڑی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا پوری کائنات کی خواتین کے لئے آسمانی تعلیمات کا وہ عظیم مدرسہ تھیں جن کی وجہ سے آج تک دنیا میں عورت کی عزت و ناموس اور غیرت و حمیت جیسی قدریں زندہ ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے پہلے تخلیق کیا گیا۔ آپ کا طعام تسبیح و تقدیس، تحلیل و تمحید، سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ اور الحمدللہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے اتنا زیادہ علم اور معرفت عطا کی سوائے ان کے والد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے شوہر امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کسی کو عطا نہیں ہوئی۔ ایک روایت میں ہے ’’حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ مبارک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر رکھا ہوا تھا اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ انور پر رکھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چشمان مبارک کو کھول کر دونوں کی طرف نگاہ لطف و شفقت سے دیکھ رہے تھے اور ان کو چومتے تھے۔ اسی حال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ وصیت فرمائی کہ میرے بیٹوں کا اکرام کرنا۔ میرے بیٹوں کا احترام کرنا، میرے بیٹوں کی تعظیم کرنا، میرے بیٹوں سے مؤدت رکھنا، میرے بیٹوں سے دوستی رکھنا‘‘۔

اہل بیت کی محبت جزو ایمان اور رکن عرفان ہے۔ لہذا ہمیں ذریت اہل بیت کے بارے میں خوش اعتقادی رکھنی چاہئے۔ یعنی اہل بیت کے ساتھ ادب اور محبت سے پیش آنا چاہئے۔ اہل بیت کے متعلق اعتقاد درست رکھنا چاہئے۔ اہل سنت کا شعار رہا ہے کہ اہل بیت کی تعظیم کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم خیال کرتے ہیں۔

آیات کے جھرمٹ میں ترے نام کی مسند
لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے

اک بار ترا نقش قدم چوم لیا تھا
سو بار فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے

یٰسین ترے اسم گرامی کا ضمیمہ
ہے نون تری مدح قلم تیری ثنا ہے

واللّیل ترے سایہ گیسو کا تراشہ
والعصر تری نیم نگاہی کی ادا ہے

زم زم ترے آئین سخاوت کی گواہی
کوثر ترا سرنامہ دستور عطا ہے

یہ اس وجہ سے ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات منبع نور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب گھر والے نور ہیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ تو عین نور ہے۔ اسی لئے اس سر چشمہ نور سے تعلق رکھنے والے اہل بیت بھی نور ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کسی کے دل میں نقب نہیں لگاتی فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے رکھو اور اپنے دلوں کو خود ٹٹولو، اپنا محاسبہ خود کرو، اپنی منزل کا تعین خود کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت ایک معیار ہے اور یہ معیار خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے۔ اپنے دلوں کی کیفیت اس معیار پر وزن کرو۔ اہل بیت کی محبت میں مرنے کا مطلب ہے ان کی محبت میں فنا ہونا۔ یہی وہ گھر ہے جہاں سے پروانہ نجات ملے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی محبت واجب کر دی گئی ہے، یہی وہ لوگ ہیں جن کی پاکیزگی اور طہارت پر قرآن مجید نے مہر لگا دی ہے ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو غرق ہوجاؤ گے۔ خاندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی ہی غلاموں کا سب کچھ ہے جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے در کا دربان بن گیا وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام بن گیا۔

وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقش قدم

حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور آپ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آپ کی پہچان بن گیا ہے۔ حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ نور کو وہی پہچانے گا جس کی آنکھوں پر بغض کی پٹی نہ ہو۔ نور کو وہی دیکھے گا جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا غلام ہوگا۔ غیروں نے آپ کی مخالفت کی ہے تو اسی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے اور پھر محبت کا تو تقاضا یہی ہوتا ہے کہ محبوب سے منسوب ہر شے سے محبت کی جاتی ہے۔ آپ نے آقا کی ازدواج مطہرات کا بھی احترام کیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی احترام کیا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا بھی احترام کیا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے گلی کوچوں کا بھی احترام کیا ہے۔ یہی احترام آپ کو سب سے ممتاز کرتا ہے اور عشق جب راہنمائی کرتا ہے تو پھر ساری منزلیں طے ہوجاتی ہیں۔

حضور شیخ الاسلام کے حریم دل پر ہر وقت عشق بے نیاز کا پہرا کھڑا رہتا ہے۔ عشق و ایمان کی روح آپ کے وجود کی رگ رگ میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اپنے محبوب کی شوکت جہاں کے لئے آپ ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔ نقش و نگار جاناں کے لئے آپ کے قلمدان کی روشنائی کبھی نہیں سوکھتی اور سن لو آپ اپنے خون کے پیاسوں کو تو معاف کر سکتے ہیں لیکن محبوب کی حرمت سے کھیلنے والوں کے لئے آپ کے ہاں صلح و درگزر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اہل عرفان کی دنیا بیک زبان آپ کو مجدد دوراں کہتی ہے۔ آپ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گدائی پر دونوں جہاں کا اعزاز نثار کرچکے ہیں جب ہمارے درمیان اتنی عظیم المرتبت ہستی موجود ہیں تو کیا یہ ہماری قسمتوں کی معراج نہیں ہے پھر اگر ہم آپ کے لئے اپنے دلوں کا فرش بچھا دیں تو اس سے بڑھ کر جذبہ شوق و جنوں کا اظہار اور کیا ہو سکتا ہے۔

ذکر قائد کس طرح سے ہو بیاں
فکر ناپختہ ہے نا محکم زباں

مست دید گنبد خضری ہے وہ
اور غریق عشق شاہ (ص) دو جہاں

وہ گدائے کوچہ خیرالانام
بے نیاز داد شاہان جہاں

وہ مفسر، وہ مفکر وہ فقیہ
وہ مجدد وہ حکیم نکتہ داں

منزلوں سے آشنا، دانائے رہ
کون ہے اس جیسا میر کارواں

ڈھونڈتی رہ جائیں گی صدیاں اسے
گردش شام و سحر کے درمیاں

منہاج القرآن ویمن لیگ ہر سال سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا و سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کانفرنس کا اہتمام اسی جذبے اور پیغام کے تحت کرتی ہے کہ عصر حاضر کی خواتین کو حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کی پیروی میں زندگی کی شاہراہ پر گامزن کیا جائے۔ حضور شیخ الاسلام قائد انقلاب کی بیٹیو! آپ کو اپنی سادگی، شرافت اور اسلام پسندی سے آئندہ چل کر ایک شاندار پاکستان کو تخلیق کرنا ہے۔ اس کو ترتیب دینا ہے، مصطفوی انقلاب کا پرچم لہرانا ہے اور اس کے لئے آپ کو مغرب کی غلامانہ روایات کو ٹھوکر مارنا ہوگی۔ دختران ملت سنو اب غور سے!

زینب و کلثوم کا اسوہ بھلا بیٹھی ہو تم
دل طرحداری مغرب سے لگا بیٹھی ہو تم

یوں تو کہلاتی ہو تم زہراء کے در کی لونڈیاں
اس کی سیرت کا نہیں تم میں مگر کوئی نشاں

وہ شریعت پہ فدا تم حامل رسم و رواج
درس دیتا تھا انہیں قرآن اور تم کو سماج

تم میں کچھ اہل حرم کی شان ہونی چاہئے
آنکھ میں شرم و حیا کی آن ہونی چاہئے

عفت و عصمت کی تم میں جان ہونی چاہئے
کفر اور اسلام میں پہچان ہونی چاہئے

تم میں ہونی چاہئے وہ عظمت و شان بتول
جس سے تم دنیا میں کہلاؤ کنیزان بتول

جس نے تسلیم و رضا ترکہ میں پائی وہ بتول
خوش دلی سے جس نے ہر زحمت اٹھائی وہ بتول

جس نے اپنے ہاتھ سے چکی چلائی وہ بتول
جو شفیع المرسلین کی تھی کمائی وہ بتول

وہ پیغمبر کی نشانی وہ نبی (ص) زادی بتول
جس کا دل بحرِ سخا تھا شاہ بطحا کی طرح

پیٹ پر پتھر بندھے رہتے تھے بابا کی طرح
حضرت خیرالوریٰ (ص) کے ناز کی پالی بتول

سینہ توحید پر وہ کھیلنے والی بتول
ختم جس پر کر گیا عظمت خدا تقدیس کی

ابتدا تقدیس کی اور انتہا تقدیس کی
تم میں ہونی چاہئے وہ عظمت و شان بتول

جس سے تم دنیا میں کہلاؤ کنیزان بتول