صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

درس نمبر15

انسان کی فطرت میں تحقیق، جستجو اور ترقی کا داعیہ (Instinct) محض مادی خواہشات کی تسکین، معاشی اور معاشرتی فلاح و بہود کے لئے ہی موجود نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد آفاق و انفس سے متعلق ساری مخلوق کے ساتھ خالق کل کے سلوک کی اعلیٰ ترین صفات تصوف میں غور و فکر، تفکر اور تعقل کر کے اللہ سبحانہ و تعالی کی عظیم الشان مملکت میں اپنی اصلی حقیقت و حیثیت کی پہچان کے لئے بھی ہے اور رب العالمین کی بے پایاں عظمت اور شان و شوکت کا مسلسل مشاہدہ، مطالعہ اور عملی طور پر دنیا میں اپنے آپ کو اللہ سبحانہ و تعالی کی منشا کے مطابق عمل، سلوک اور تصوف کے لئے بھی ہے، انسان کے لئے اللہ سبحانہ کا فرمان بھی یہی ہے، کہ حقیقت کی تلاش کے لئے تفکر، تدبر اور تعقل کرو، اللہ سبحانہ کا یہ فرمان دین اسلام کے ماننے والوں کے لئے بالکل اسی طرح فرض کے درجہ میں ہے۔ جیسا کہ ارکان اسلام؛ شہادت، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج فرض ہیں۔

علماء فکر ونظر نے انسانیت کے ہر دور میں خالق کل عزوجل اور آفاق و انفس کی حقیقت کی تلاش کی جدوجہد کی، اہل دل افراد کے لئے فرمان الہی یہ رہا کہ بندے! میری حقیقت کی تلاش سے پہلے اپنے نفس کو پہچان (مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه) نفس کیا ہے؟ مختلف مکاتب فکر اور نکتہ ہائے نظر کے علماء نے اس کی کثیر تعریفات کی ہیں، بعض عرفاء معرفت نفس کی تفسیر میں یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ حقیقت کی تلاش کا وہ سفر ہے جس کے ذریعے خالق کائنات کی تخلیقات عجیبہ کا مشاہدہ و مطالعہ مقصود ہے، نفس ؛ سانس کا وہ جھونکا اور مہلت ہے کہ جس میں آفاق وانفس کے مشاہدہ سے خالق کل کی صفات سلوک وتصوف کا پتہ چلتا ہے کہتے ہیں۔ ’’اِعْمَلُوْا الخَيْرَ وَاَنْتُمْ فِی نَفْسِ الْبَقَاءِ‘‘ عمل خیر کرو، اس حال میں کہ تم کو زندگی میں مہلت نصیب ہو۔

یقینا آفاق وانفس کے مشاہدہ، مطالعہ اور سمجھنے کے بعد ہی خالق حقیقی کی صفات تخلیق اور امر کُنْ فَيَکُوْنُ سے قدرے آگہی نصیب ہوتی ہے، فَيَکُوْنُکا سلوک تو آفاق وانفس میں اس لئے جاری وساری ہے کہ اس کا تعلق عالم خلق سے ہے، جس کا سمجھنا محال ہے، کیونکہ امر دینے والا حقیقت الحقائق ہے، اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے دست قدرت سے پیدا ہونے والی کائنات کو بے پناہ طاقت (Extreme Centrifugal Force) سے پھر کی (لٹو) کی طرح مکان کی لامتناہی وسعتوں میں اچھا لا، یہ عالم امر کا سلوک ’’کن‘‘ تھا، ’’فيکون‘‘ نے سرتسلیم خم کیا اور تعمیل وسلوک کے سفر پر روانہ ہوا، یہ سب کیسے ہوا؟ سورہ یاسین کی آیہ کریمہ (82) إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُO (اس کے یہاں تو بس ارادہ کی دیر ہے) اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا ارادہ فرماتا ہے، اس سے کہتا ہے کہ ہو جا، بس ہو جاتی ہے، (وہاں تو ایک لمحہ کی دیر کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا) اور سورہ الذاریات کی آیہ کریمہ (47) وَالسَّمَاءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَO (اور ہم نے آسمان (کائنات) کو دست قدرت کے بل سے پیدا کیا اور یقینا ہم اسے مسلسل پھیلانے والے ہیں) کی تفسیر اور تشریح مصنّف عبدالرّزاق میں منقول حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث نور کے نام سے بھی مشہور ہے، بخوبی سمجھ میں آتی ہے، حضور پر نور باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے جابر! اللہ سبحانہ و تعالی نے سب سے پہلے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا، پھر اس میں ہر خیر کو پیدا کیا، اور ہر شئے کو اس کے بعد پیدا کیا، اور جب اس نور کو پیدا کیا تو اسے اپنے سامنے مقام قرب میں بارہ ہزار سال قائم کیا، پھر اسے چار قسمیں بنایا، تو ایک قسم سے عرش و کرسی کو پیدا کیا، ایک قسم سے عرش کے حاملین اور کرسی کے خازنوں کو پیدا کیا۔ چوتھی قسم کو مقام محبت میں بارہ ہزار سال رکھا۔ پھر اسے چار حصے کیا۔ ایک قسم سے قلم کو، ایک سے لوح کو اور ایک قسم سے جنت کو پیدا کیا، ایک حصے سے فرشتوں کو، ایک سے سورج کو اور ایک حصے سے چاند اور ستاروں کو پیدا کیا، پھر چوتھے حصے کو مقام رجاء میں بارہ ہزار سال رکھا، پھر اسے چار حصے کیا، ایک سے عقل، ایک سے علم وحکمت اور عصمت و توفیق کو پیدا کیا، چوتھے جزء کو بارہ ہزار سال مقام حیاء میں قائم کیا، پھر اللہ تعالی نے اس کی طرف نظر فرمائی تو اس نور کو پسینہ آ گیا اور اس سے نور کے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے۔ اللہ تعالی نے ہر قطرے سے کسی نبی یا رسول کی روح کو پیدا فرمایا۔ پھر انبیاء کرام کی روحوں نے سانس لیا تو اللہ تعالی نے ان کے سانسوں سے قیامت تک ہونے والے اولیاء، شہداء، ارباب سعادت اور اصحاب اطاعت کو پیدا فرمایا۔

پس عرش اور کرسی، کرّوبیاں، فرشتے اور اصحاب روحانیت میرے نور سے پیدا ہوئے، علی ہذا القیاس، جنت اور اس کی نعمتیں، ساتوں آسمانوں کے فرشتے، سورج، چاند اور ستارے، عقل اور توفیق، رسولوں اور انبیاء کی روحیں اور شہدائ، سعداء اورصالحین میرے نور سے پیدا ہوئے۔

پھر اللہ تعالی نے بارہ ہزار پردے پیدا فرمائے اور میرے نور یعنی چوتھے جزء کو ہر پردے میں ایک ہزار سال رکھا، یہ عبودیت، سکینہ، صبر، صدق اور یقین کے مقامات تھے، چنانچہ اللہ تعالی نے اس نور کو ہر پردے میں ایک ہزار سال غوطہ دیا، اور جب اللہ تعالی نے اس نور کو ان پردوں سے نکالا تو اسے زمین پر اتار دیا، تو جس طرح اندھیری رات میں چراغ سے روشنی ہوتی ہے، اس طرح اس نور سے مشرق سے لے کر مغرب تک کی فضا منور ہو گئی۔

پھر اللہ تعالی نے زمین سے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، تو وہ نور ان کی پیشانی میں رکھ دیا، ان سے وہ نور حضرت شیث علیہ السلام کی طرف منتقل ہوا، پھر وہ نورپشت درپشت طاہر سے طیب کی طرف اور طیب سے طاہر کی طرف منتقل ہوتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اسے حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی پشت تک پہنچا دیا اور وہاں سے ہماری والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بنت وہب کے رحم کی طرف منتقل کیا، پھر اسے اس دنیا میں جلوہ گر کیا اور ہمیں رسولوں کا سردار، انبیاء کا خاتم، تمام جہانوں کے لئے رحمت مجسم اور روشن اعضاء وضو والوں کا قائد بنایا، اے جابر! اس طرح تیرے نبی کی ابتدا تھی۔

مصنّف کے نسخے میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر سے کچھ الفاظ ساقط ہو گئے ہیں ۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث ان ہی الفاظ کے ساتھ اپنی کتاب ’’تلقيح الفهوم‘‘ (خ ل 128 ا) میں نقل کی، خرگوشی نے ’’شرف المصطفیٰ‘‘ (1 / 703) میں اسے حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ سے بالمعنی روایت کیاہے، عجلونی نے ’’کشف الخفاء‘‘ (1 / 311) میں اس کا ذکر کیا اور بتایا کہ اسے عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، اسی طرح امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب اللدنیہ (1 / 71) میں عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کیا، عبدالملک بن زیادۃ اللہ طبنی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فوائد‘‘ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں روایت کیا کہ اے عمر! جانتے ہو ہم کون ہیں؟ ہم وہ ہیں جن کا نور اللہ تعالی نے ہر شئے سے پہلے پیدا کیا، اس نور نے سجدہ کیا تو وہ سات سو سال تک سجدے ہی میں رہا، پس اے عمر! ہر شئے سے پہلے ہمارے نور نے سجدہ کیا اور یہ بات بطور فخر نہیں کہی گئی، اے عمر! جانتے ہو ہم کون ہیں؟ ہم وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے عرش ہمارے نور سے پیدا کیا، کرسی ہمارے نور سے پیدا کی، لوح و قلم ہمارے نور سے پیدا کئے، شمس و قمر ہمارے نور سے پیدا کئے، آنکھوں کا نور ہمارے نور سے پیدا کیا، مخلوقات کے سروں میں پائی جانے والی عقل ہمارے نور سے پیدا کی، مومنوں کے دلوں میں معرفت کا نور ہمارے نور سے پیدا کیا اور یہ بطور فخر بیان نہیں کیا، اس روایت کا تذکرہ سید محمد جعفرکتانی نے اپنی کتاب ’’العلم النبوی‘‘ ( ل خ 2 / 133) میں کیا۔

نور اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے مرحلہ اولی یعنی خلقت نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عظیم الشان توانائی (Extreme Energy) سے معمور یہ نور دیدار ذات رب محمد جل شانہ میں بے حد و شمار عرصہ تک حالت سجدہ میں رہا (اس ضمن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جبرائیل علیہ السلام کا ذکر عالی شان، راحت قلوب العاشقین، ہم ابتدائی دروس سلوک و تصوف میں کر چکے ہیں) اس کے بعد نور اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قدرت الہیہ نے جہاں چاہا سیر کرائی اور یہ سیر ازل تا ابد جملہ مخلوقات میں صرف نور اول کا خاصہ تھا اور اسے اللہ سبحانہ و تعالی نے براہ راست اپنے نور کے پر تو سے خود بنایا، اور یہی اس کا وہ ’’خلق‘‘تھا جس کی خلقت کا مقصد اولیٰ ’’کَنْزًا مَخْفِياً‘‘ کی معرفت تھی، پس اس ’’پوشیدہ خزانے‘‘ نے اپنی خاص اور واحد مخلوق پر اپنی حقیقت کا اظہار فرمایا۔ پھراس خاص الخاص شاہکار حقیقی کا اظہار مقصود ہوا، خالق واحد ہے اور تخلیق بھی واحد ہے، ’’فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ‘‘ تخلیق فقط ایک خلق کی ہوئی جو شاہکار قدرت ہے، مصور حقیقی کی خواہش ہوئی کہ اس کی بنائی ہوئی بے مثل تصویر کی نمائش ہو جائے، عالم نمائش گاہ بنے، دیکھنے والے ہوں، جو مصور حقیقی کے کمال سلوک وتصوف کو دیکھیں اور دنگ رہ جائیں، وہ لازوال تصویر کو دیکھیں لیکن اس کو سمجھ نہ سکیں، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ جب مصور کی حقیقت کو کوئی سمجھ نہ پائے تو اس کی بنائی ہوئی تصویر کو کوئی کیوں کر سمجھ پائے ۔ حضور پر نور سرکار ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیق خاص حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے خود اپنی حقیقت کے متعلق فرمایا :

يٰا اَبَابَکْرٍ! وَالَّذِیْ بَعَثَنِی بِالْحَقِّ لَمْ يَعْلِمْنِیْ حَقِيْقَةَ غَيْرَ رَبِّی

(فاسی، مطالع المسرات : 129)

’’اے ابوبکر! قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ میری بعثت فرمائی۔ میری حقیقت کا شناسا میرے رب کے سوا کوئی نہیں‘‘

جواہر البحار میں امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور مکالمہ جو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا تھا، یوں درج کیا ہے۔ ’’تم دونوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صرف سایہ دیکھا، دونوں نے پوچھا : کیا ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں دیکھا؟ کہا : ہاں ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ نے بھی نہیں دیکھا۔ پس ہو سکتا ہے کہ آپ معارف کے سمندر میں غوط زن ہوئے ہوں، تاکہ عین حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مطلع ہو سکیں، تو انہیں کہا گیا کہ یہ ایک ایسا مشکل کام ہے، جس سے اکابر رسل اور انبیاء کرام بھی عاجز آ گئے اور حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادراک نہ کر سکے، چہ جائیکہ کسی اور کو نصیب ہو۔‘‘

اکابر اولیا ء نے بھی ؛ کہ جن کو اسرار معارف کی آگہی اور تلاش حقیقت کا ذوق عطا کیاگیا تھا، حقیقت محمدیہ کو سمجھنے کی کوشش بسیار کی، لیکن ناکام رہے، حضرت امام نبھانی رحمۃ اللہ علیہ نے جواہر البحار میں حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے، آپ نے فرمایا۔ ’’میں نے معارف کے سمندر میں غوطہ لگایا تاکہ عین حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پا سکوں، تو اچانک میرے اور اس حقیقت کے مابین نور کے ایک ہزار پردے حائل ہو گئے، اگر میں ان میں سے سب سے پہلے پردہ کے قریب بھی جاتا تو وہ مجھے اس طرح جلا دیتا، جس طرح آگ ایک بال کو جلا ڈالتی ہے۔‘‘

اللہ سبحانہ و تعالی نے نور حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق اپنے نور کے پرتو سے کی اور اسے اپنی ’’رحمت‘‘ قرار دیا۔

ارشاد باری ہوا ۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

(الانبياء، 21 : 107)

اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کرo

اور یوں بھی ارشاد ہوا ۔

وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَيْئٍ

(الاعراف، 156)

’’اور میری رحمت ہر شئے پر وسعت رکھتی ہے۔‘‘

شیخ الاسلام مفسر قرآن ڈاکٹر محمدطاہر القادری مدظلہ نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر یوں کی، وہ فرماتے ہیں :۔

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر شئے کو محیط ہے۔ کوئی شئے ایسی نہیں جو میرے دامن رحمت میں موجود نہ ہو، دیکھنا یہ ہے کہ شئے کسے کہتے ہیں انسان ایک شئے ہے اور سب انسانوں کی یکجائی سے عالم انس وجود میں آیا اسی طرح جن ایک شئے ہے سب جنات ملے تو عالم جنات وجود میں آیا فرشتہ ایک شئے ہے سب فرشتوں سے عالم ملائکہ بن گیا۔ زمین ایک شئے ہے ساری زمینیں مل کر عالم ارضی بن گیا، آسمان ایک شئے ہے تمام آسمان ملے تو عالم سماوات بن گیا، مادہ ایک شئے ہے اس سے عالم مادیات بنا۔ روح ایک شئے ہے، تمام روحیں ملیں تو عالم ارواح معرض وجود میں آیا۔ جسم ایک شئے ہے سب جسم ملے تو عالم اجسام بنا۔ پتھر ایک شئے ہے یہ سب ملے تو عالم نباتات بنا۔ حیوان ایک شئے ہے دنیا کے سب حیوان ملے تو عالم حیوانات بنا۔ زمین وآسمان مل کر ایک شئے ہے اس سے عالم مکان بنا جہاں عالم مکاں ختم ہوا تو پھر عرش و کرسی، لوح و قلم یہ سب ملے تو عالم لا مکاں بنا۔ اسی طرح اس مادی کائنات کا عالم ناسوت بنا، اس سے اوپر گئے تو عالم ملکوت بنا، اس سے ماوراء گئے تو عالم جبروت وجود میں آیا جہاں سب عالم ختم ہو گئے تو پھر عالم لاھوت بنا۔ اس سے ماوراء کوئی عالم نہ رہا۔ اللہ تعالی نے اربوں کھربوں اشیاء پیدا کیں جتنی جنس اور انواع کی اشیاء پیدا کیں اتنے ہی عالم بنتے گئے۔ ہر شئے سے ایک عالم بنا اور کل شیئ تمام اشیاء سے کل عالم بن گئے، اس طرح لا تعداد عالم وجود میں آ گئے۔

فرمان خداوندی ہے کہ میری رحمت ہر شئے پر حاوی ہے جس کا معنی ہے کہ کائنات کے کسی بھی عالم کی کوئی شئے بھی اللہ کی رحمت سے خارج نہیں اور یہ رحمت لاتعداد عالموں پر حاوی ہے۔

بندہ عرض کرتا ہے، مولا! ہمیں کل شیئ کا معنی تو سمجھ میں آ گیا، مگر تیری رحمت سے کیا مراد ہے جس کا سایہ ہر شئے پر محیط ہے؟ ہم اس رحمت کو کہاں تلاش کریں جو تمام عوالم پر وسیع ہے؟ ارشاد ہوا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

(الانبياء، 21 : 107)

اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کرo

میری رحمت جو ہر شئے پر وسیع ہے، اگر اس کا پیکر محسوس دیکھنا چاہتے ہو تو وہ میرا حبیب ہے جس کی رحمت کا سایہ کل عالم پر ہے۔ اس رحمت کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس کا لقب رحمۃ للعالمین ہے۔

بندہ پھر عرض کرتا ہے : باری تعالی! تیرا محبوب تیری رحمت ہے جو تمام جہانوں کے لئے ہے۔ جہانوں کا بھی کچھ اندازہ ہو جائے کہ وہ کتنے جہانوں کے لئے رحمت ہے اور کتنے جہانوں کے لئے نہیں۔ اس کے جواب میں رب کائنات اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرماتا ہے :

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ

(الفاتحه، 1 : 1)

’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔‘‘

جس جس عالم کا میں رب ہوں اس اس عالم کے لئے میرا محبوب رحمت ہے۔ اگر کوئی عالم میری ربوبیت کے دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا تو کوئی عالم میرے محبوب کی رحمت سے خارج نہیں ہو سکتا۔ اگر میری ربوبیت کے دائرے سے عالمین کی کوئی شئے خارج نہیں تو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے دائرے سے بھی عالمین کی کوئی شئے خارج نہیں۔ حقیقت بھی ایک ہے، حکم بھی ایک ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میں رب العالمین ہوں اور میرا محبوب رحمۃ للعالمین ہے ۔ وہ جو میری شان ربوبیت سارے جہانوں کو وجود دے رہی ہے اسی شان ربوبیت کا کمال رحمت میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جلوہ گر ہے۔

امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ شیخ عبدالکریم الجیلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں :

اِنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم هُوَ الْوَاسِعُ لِکُلِّ مَا يُطْلَقُ عَلَيْهِ اِسْمُ الشِيْئِيَّةِ مِنَ الْاُمُوْرِ الْحَقِيَّةِ وَاْلاُمُوْرِ الْخُلْقِيَّةِ

(جواهر البحار،1 : 346)

جس شئے پر بھی شئے کا اطلاق ہوتا ہے اس پر ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا بھی اطلاق ہوتا ہے۔ فرمایا : میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ہر شئے پر محیط ہے اور اس وقت سے محیط ہے جب سے وہ شئے شروع ہوئی۔ رحمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر ہر شئے کے سر پر تب سے تنی ہے جب سے وہ شئے بنی ہے۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر غور کریں تو رحمت کے کئی درجے کائنات کی تخلیق اور اس کی بقا میں کارفرما نظر آتے ہیں۔

کسی بھی چیز کے لئے پہلی رحمت اس کا عدم سے وجود میں لایا جانا ہے، جس طرح وجود میں آنا رحمت ہے اسی طرح اس کا باقی رہنا اور بتدریج درجہ کمال تک پہنچنا بھی رحمت ہے۔ جملہ رحمتیں جو کسی بھی وجود پر متشکل ہوتی ہیں وہ سب اس کے ہونے پر منحصر ہیں۔ اگر کوئی چیز وجود ہی میںنہ آئے تو رحمت کیسے ہو، لہذا سب سے پہلی رحمت تو کسی شئے کو اس عالم میں خلعت وجود دینا ہے۔

اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا :

هُوَ الَّذِیْ يُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَيْفَ يَشَاءُ

(آل عمران، 3 : 6)

’’وہی ہے جو (ماؤں کے) رحموں میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔‘‘

اس ذات کا سب سے پہلا کرم تو یہ ہے کہ وہ ہمیں شکل و صورت اور وجود عطا کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان کو وہ وقت یاد کرنا چاہئے جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے رب نے اسے نیست سے ہست کر دیا :

هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَکُنْ شَيْئًا مَّذْکُوْرًاo

(الدهر، 76 : 1)

’’بے شک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے، جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔‘‘

قرآن نے انسان کو بار بار ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی وہ حالت یاد کرے اللہ کا شکر بجالائے جب وہ عالم وجود میں نہیں تھا اسے اس کے رب ہی نے تخلیقی مراحل سے گزار کر موجودہ حالت تک پہنچایا اور خلعت وجود سے آراستہ کیا۔

ارشاد فرمایا گیا۔

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَO فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَO

( الانفطار، 82 : 6 تا 8)

’’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیاo جس نے (رحم مادر کے اندر ایک نطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اس نے تجھے (اعضا سازی کے لئے ابتداءً) درست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایاo جس صورت میں بھی چاہا اس نے تجھے ترکیب دے دیاo‘‘

مندرجہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہوا کہ کائنات ہست وبود کی ہر شئے کو وجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے تصدق سے ملا ہے۔ اگر مرحلہ تخلیق وجود پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت شامل حال نہ ہو تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں رہتے کیونکہ رحمت کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے جب کسی شئے کو وجود ملتا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق فرمایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری کائنات کے لئے مطلقاً رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے نقطئہ آغاز سے انجام تک ہر مرحلہ وجودکے لئے رحمت ہیں۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنے وجود، اپنی بقاء اور حصول و کمال کے ہر مرحلے اور درجے میں رحمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محتاج ہے۔ اب یہ قانون فطرت اور اٹل حقیقت ہے کہ محتاج شئے اپنے محتاج الیہ کے بعد آتی ہے یعنی جو چیز محتاج ہو گی وہ اس سے پہلے نہیں آ سکتی جس سے اسے احتیاج ہے، مثال کے طور پر

1۔ ہماری دنیوی زندگی اپنے وجود اور اس کی بقاء کے لئے ہوا کی محتاج ہے اگر ہوا پہلے سے موجود نہ ہوتی تو ہم کبھی بھی وجود میں نہ آسکتے۔ لہذا اللہ تعالی نے ہوا کو پہلے پیدا فرمایا اور ہمیں زندگی بعد میں عطا کی۔

2۔ اسی طرح زندگی پانی کی محتاج تھی کیونکہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو پانی سے پیدا فرمایا ۔ اس لئے پانی کو پہلے پیدا کیا اور جو چیز پانی کی محتاج تھی اس کو پانی کے بعد تخلیق کیا۔

3۔ اسی طرح اولا د اپنے وجود اور پیدائش و پرورش میں اپنے والدین کی محتاج ہے والدین نہ ہوں تو اولاد از خود وجود میں نہیں آ سکتی۔ لہذا اولاد اس وقت وجود میں آتی ہے جب والدین پہلے سے موجود ہوں۔

ان مثالوں سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ محتاج بعد میں آیا کرتا ہے اور جس کی احتیاج ہو اس کا پہلے ہونا ضروری ہے۔

ہر شئے کسی عالم کا حصہ ہوتی ہے اور تمام عالم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت میں ہیں لہذا ہر شئے کے لئے رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واسطہ اور وسیلہ بنی۔ ہر شئے کا وجود میں آنا رحمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب سے ہوا۔ اگر رحمت پہلے نہ ہو تو شئے وجود میں نہیں آ سکتی۔ جو شئے بغیر سبب کے وجود میں آ گئی وہ رحمت کی محتاج نہ رہی، رحمت اس پر وسیع نہ رہی کیونکہ واسطہ پہلے ہوتا ہے شئے بعد میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے جب شئے کا ارادہ کیا تو کن فرمانے سے وہ شئے ہو گئی جب وہ پہلی شئے وجود میں آ گئی تو ضروری تھا کہ وہ رحمت اس پہلی شئے سے پہلے موجود ہو۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے تو لازم آتا ہے کہ رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کن سے بھی پہلے تھی حالانکہ کن سے پہلے تو کچھ بھی نہ تھا، صرف خدا تھا، تو اس سے کہا جائے گا کہ نہیں، کن سے پہلے ایک خدا تھا اور اس کی چاہت کا مرکز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ اگر رحمت اس شئے کے بعد آئی تو وہ شئے رحمت کی محتاج نہ رہی جبکہ اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ میری رحمت ہر شئے پر محیط ہے ۔ کوئی شئے واسطہ رحمت کے بغیر نہ آئی تو لازم ہوا کہ اس شئے سے بھی پہلے رحمت ہو اور اس رحمت خداوندی ہی کا نام حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

مذکورہ صدر آیہ کریمہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالی جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے ۔ کن ’’ہو جا‘‘ پس وہ شئے ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا شئے کے وجود میں آنے سے پہلے کن تھا اور کن سے پہلے صرف خدا ہی نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ اس کا ارادہ بھی تھا۔ ارادہ کا معنی ہے چاہنا اور جو چاہا گیا تھا خدا نہیں بلکہ اس کی رحمت تھی، حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ اللہ تعالی نے اپنے ارادے کو حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تبدیل فرمایا دیا۔ حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے سامنے تھی اور وہ جس چیز کو چاہتا گیا حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیدا کرتا گیا۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوری کائنات وجود میں آ گئی۔ خود اللہ تعالی کی ذات تو حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو نہیں سکتی۔ اللہ تعالی کا ارادہ بصورت رحمت حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا اور یہی رحمت للعالمین ہے اور یہی رحمت جو ہر شئے پر وسیع ہے ارادہ الہی سے وجود پذیر ہوئی، یہ رحمت حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں جاری ہوئی، اسی سے ہر شئے بنتی ہے۔

امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ عبدالکریم الجیلی رحمۃ اللہ علیہ کے جواہر میں سے نقل کرتے ہیں :

’’اور عام رحمت سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقت ہے اور اسی کے سبب اللہ جل مجدہ تمام اشیاء کے حقائق پر رحمت فرماتا ہے پھر ہر ایک شئے اپنے مرتبہ وجود میں جلوہ نما ہوتی ہے اور اسی رحمت کے سبب موجودات میں قبول فیض کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ اسی لئے اللہ رب العزت نے سب سے پہلے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح منور کو پیدا فرمایا، جیساکہ حدیث جابر رضی اللہ عنہ میں منقول ہے : تاکہ اللہ جل مجدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل موجودات ممکنہ پر رحمت فرمائے۔ پس اللہ جل مجدہ موجودات کونیہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجموعہ پر پیدا فرماتا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی عرش و کرسی اور تمام عوالم علوی و سفلی پیدا فرمائے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے رحمت کے مستحق ہو جائیں، کیونکہ وہ سب کے سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہی نسخہ عظیمہ کے نمونہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ماہیت کریمہ سے پیدا ہوئے۔‘‘

اللہ سبحانہ و تعالی کے نور کی تجلی سے پیدا ہونے والی انتہائی ارفع واعلیٰ توانائی (Extremely High Energy) والے نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی عزوجل نے صرف اپنے لئے تخلیق فرمایا، تاکہ ان پر اپنی حقیقت کا اظہار فرمائیں۔ عظیم واعلیٰ سبحانہ وتعالی نے نور اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قرب میں رکھا، خالق نور نے اپنی مخلوق نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثال توانائی، قوت اور طاقت سے سرفراز فرمایا کہ وہ حقیقت الحقائق کی تجلیات کو بخوبی برداشت کر سکے، پھر اللہ سبحانہ و تعالی کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے مثال نور کے اظہار کے لئے رب محمد جل شانہ نے عالمین بنانے کا ارادہ فرمایا، تو’’عالمین‘‘ کو نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برداشت کرنے کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی طاقتور ترین نور پرنگاہ رحمت ڈالی تو وہ نور ایسا نور رحمت بن گیا کہ جس کی توانائی (Energy) کو کل کائنات اور مخلوقات ’’رحمۃ للعالمینی‘‘ کے پر تو تلے برداشت کر سکیں، پھر اس نور رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے حد وشمار اربوں کھربوں کائناتی مخلوقات میں تبدیل کیا، حضور نبی پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں، کہ میرے نور کے ایک معمولی حصے سے ساری کائنات (COSMOS) بنی اور مسلسل بن رہی ہے۔ اسی نور سے زمین و آسمان بنے اور پھر اللہ سبحانہ و تعالی کی جملہ مخلوقات کا ظہور ہوا۔ ازل سے لے کر آج تک کوئی بھی حقیقت محمدی کے راز کو حل نہ کر سکا۔ (جاری ہے)