قربانی کے احکام ومسائل

نازیہ عبدالستار

قربان ’’قرب‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی قریب ہوتا ہے، بہت زیادہ قریب ہونے کو قربان کہتے ہیں۔

اصطلاح میں قربانی سے مراد مخصوص جانور کو مخصوص ایام میں متعلقہ شرائط کے ساتھ قربِ الٰہی کے لئے ذبح کرنا ہے۔

عید قربان کا معنی ہے وہ عید جو اپنے اندر قربانی کی خاصیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی شخص 10 ذی الحج میں قربانی کرتا ہے تو اس عمل کی برکت بندے کو اللہ کے اتنا قریب کر دیتی ہے کہ کوئی اور عمل اتنا قرب عطا نہیں کرتا۔

قربانی کی فضیلت و اہمیت

امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قربانی کو ایک جلیل القدر عبادت قرار دیا گیا ہے۔

سورئہ انعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْيَایَ وَ مَمَاتِیِْﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo

(الانعام، 6 : 162)

’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘

درج ذیل احادیث مبارکہ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے قربانی کی اہمیت ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اپنی قربانیوں کے لئے عمدہ جانور تلاش کرو کیونکہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گے۔‘‘

(دیلمی، فردوس الاخبار، 1 : 119، رقم : 267)

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس چلی جاؤ اس کے گرنے والے خون کے پہلے قطرے کے ذریعے ہر صغیرہ گناہ سے بخشش مل جائے گی اس کے خون اور گوشت کو لایا جائے گا اور ستر گنا کر کے تیرے ترازو میں رکھ دیا جائے گا۔‘‘ (یہ سن کر) ابو سعید نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا یہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خاص ہے وہ اس نیکی کے ساتھ مخصوص ہونے کے لائق ہیں یا کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص اور مسلمانوں کے لئے عام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بالخصوص ہے اور باقی مسلمانوں کے لئے بالعموم ہے۔‘‘

(بیہقی، السنن الکبری، کتاب الضحایا، باب ما یستحب للمرء من ان یتولی ذبح نسکہ، 9 : 476، رقم : 19141)

قبولیتِ قربانی کا معیار

قربانی کی قبولیت میں جو چیز کار فرما ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں حسنِ نیت اور صدق و اخلاص ہے عمل اگر صدق و اخلاص کی بنا پر ہو تو وہ قلیل تر ہی کیوں نہ ہو انسان کا درجہ بلند تر کر دیتا ہے جبکہ وہی عمل اگر صدق و اخلاص، نیک نیتی اور للّہیت سے خالی ہو تو خواہ وہ پہاڑوں کی طرح کیوں نہ ہو خدا کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ اگر ایک مسلمان دیکھاوے کی نیت سے بہت بڑے اور کثرت سے جانورخریدے تاکہ لوگ متاثر ہوں اور وہ یہ کہیں کہ وہ بہت بڑا آدمی ہے۔ لوگوں کی نظروں میں بہت بڑا ہونا تو دکھایا جا سکتا ہے لیکن خدا کے ہاں ایسا شخص بڑا نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ خدا کے ہاں پھٹی صف پر بیٹھا ہوا وہ آدمی بڑا ہو جس میں قربانی کرنے کی سکت بھی نہ ہو لیکن اس کا دل چاہ رہا ہو کہ میرے پاس دولت ہوتی تو میں خدا کی رضا کے لئے قربانی کرتا۔ وہ قربانی نہ کر سکے لیکن اس کو اللہ کی بارگاہ میں وہ اجر مل جائے جو ریا کاری کی قربانی کرنے والے کو کبھی نہ میسر ہو۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے والد گرامی شاہ عبد الرحیم رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ صدقہ و خیرات کرتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد شریف کے دن کثرت سے صدقہ کرتے لیکن ایک سال ایسا آیا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں صدقہ کر سکتے بالآخر مجبور ہو کر انہوں نے تھوڑے سے چنے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں تقسیم کر دیئے لیکن دل میں بوجھ رہا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت کے موقع پر یہ ادنیٰ سا صدقہ ہے۔ خدا جانے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قبول ہوا ہوگا یا نہیں۔ بس! اتنا عمل کرنے کی دیر تھی۔ اسی رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ان کے صدقہ کئے ہوئے چنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرما رہے ہیں : بیٹا عبد الرحیم! ہم تھوڑے یا زیادہ کی طرف نہیں جاتے ہم تو اپنی اولاد کی حسن نیت کو دیکھا کرتے ہیں اور بس! جس نیت سے تو نے خوشی کی اسی حسن نیت اور تقویٰ کی اللہ کی بارگاہ میں قبولیت ہے۔

قربانی کا قبول ہونا اس بنیاد پر منحصر ہے کہ قربانی کس نیت سے دی جا رہی ہے۔

قربانی کس پر واجب ہے

قربانی اس شخص پر واجب ہے جو مسلمان ہو، آزاد ہو، غلام نہ ہو، مقیم ہو، مسافر نہ ہو، اگر حالت سفر میں نفلی طور پر قربانی کی جائے تو ثواب ہو گا اگر کوئی بھیڑ، بکری قربانی کے ارادے سے خریدی مگر قربانی کا دن آنے سے پہلے سفر در پیش آ جائے تو اسے بیچا جا سکتا ہے۔ جو شخص استطاعت رکھتا ہو یعنی اتنی آمدنی ہو کہ معمولی گزر بسر کے بعد بقدر نصاب بچ جائے۔ یہ بھی ایک رائے ہے کہ اس کاروبار سے اتنی آمدنی ہو کہ ایک مہینے کا خرچ، خوراک نکل آئے اگرچہ سامانِ خانہ وقف کا ہو تو بھی قربانی واجب ہے۔

مذکورہ بالا شرائط میں مرد اور عورت کے لئے یکساں حکم ہے۔

قربانی کرنے والے کی شرائط

1۔ قربانی کی نیت کرنا : نیت کے بغیر قربانی جائز نہیں ہوتی کیونکہ بعض اوقات گوشت کے لئے بھی جانور ذبح کیا جاتا ہے اور بعض اوقات رضائے خداوندی کے حصول کے لئے۔ قربانی کے لئے دل سے نیت کرنا کافی ہے اور زبان سے کچھ کہنا ضروری نہیں ہے۔

2۔ حصہ داروں کا تعین : جس قربانی میں حصہ داروں کی گنجائش ہو وہاں کوئی ایسا شخص حصہ دار نہ بنایا جائے۔ جو سرے سے ہی رضائے خداوندی کی نیت نہ رکھتا ہو۔ یہی حکم قربانی کے علاوہ باقی ثواب کے کاموں کا ہے۔ ’’اگر قربانی کرنے والے کے ساتھ باقی چھ میں کوئی نصرانی گوشت کے ارادے سے شریک ہو تو کسی کی قربانی صحیح نہ ہو گی۔‘‘

3۔ وقت ذبح اجازت دینا : قربانی کرتے وقت ذبح کنندہ کوئی اور ہو تو جب تک ذبح کرنے والے کی جانب سے اجازت نہ ہو تو قربانی جائز نہ ہو گی۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بکری کے بارے میں دریافت کیا گیا جسے ایک عورت نے اس کی مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کر دیا تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع کیا لیکن فرمایا اسے قیدیوں کو کھلا دو۔ (شوکانی، نیل الاوطار، ابواب الصید، باب مایجوز فیہ اقتناء الکلب، 9 : 18)

قربانی کے لئے کس قسم کا جانور ہونا ضروری ہے

1۔ قربانی کے جانور کا واضح عیب سے پاک ہونا ضروری ہے اندھا، کانا، لنگڑا، اتنا کمزور جانور جس میں گوشت برائے نام ہو یا جڑ سے کٹے ہوئے کان یا دم کٹے وغیرہ کی قربانی کرنا جائز نہیں۔

2۔ جس جانور کے دانت نہ ہوں اگر وہ چارا کھا لیتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔

3۔ جو جانور مجنون ہوگیا ہو تو اگر وہ چارہ کھا سکتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں خارش زدہ جانور اگر فربہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

4۔ جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو اور وہ چارہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے ورنہ نہیں۔

5۔ جس جانور کی چار ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔

6۔ شریعت کا یہ قاعدہ ہے جو عیب کسی فائدہ کو بالکل ختم کردے یا خوبصورتی کو ضائع کر دے اس کی قربانی جائز نہیں اور جو عیب اس سے کم درجہ کا ہو اس کی وجہ سے قربانی ممنوع نہیں۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : ’’چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، بیمار جس کا مرض ظاہر ہو، لنگڑا ہونا ظاہر ہو اور بوڑھا جس کی ہڈیوں میں گودھا نہ ہو۔‘‘

(ابوداؤد، السنن، کتاب، الضحایا، باب مایکرہ من الضحایا،3 : 9، رقم : 2802)

ذبح کا مسنون طریقہ

ذبح حیوان ایسے معمولی امور میں سے نہیں ہے کہ انسان اپنی آسانی کے لیے جس طرح چاہے انجام دے اور وہ کسی اصول قوانین کا پابند نہ ہو بلکہ ان امور کے لیے قرآن و سنت میں بیان کردہ احکام کی پابندی کرنا ایک مسلمان کے لیے لازم ولابدی قرار دیا ہے۔ آداب ذبح یہ ہیں کہ جانور کو آسانی سے بائیں کروٹ لٹائے ذبح کرنے والے اور جانور کا چہرہ قبلہ رخ ہو فقط تین پاؤں باندھے دائیں ہاتھ سے ذبح کرے چھری کو پہلے تیز کر لے اور چھری چلانے میں نہایت جلدی کرے۔ گردن کو اس کی ابتدا سے لے کر سینے کی ابتدا تک کسی جگہ اس طرح کاٹا جائے کہ گردن کی چار رگیں کٹ جائیں۔ دو شہ رگیں تیسرے نرخرہ اور چوتھی خوراک کی نالی۔ ان چاروں میں سے تین رگیں کٹ جائیں تو بھی جانور حلال ہو جاتا ہے۔ یہ چار رگیں مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ حلقوم : یہ وہ رگ ہے جس سے سانس آتی ہے اسے نرخرہ بھی کہتے ہیں۔

2۔ مری : جس سے خوراک نیچے اترتی ہے۔

3،4۔ دوجین : حلقوم اور مری کے دونوں طرف ایک ایک رگ ہے جنہیں شہ رگ بھی کہتے ہیں۔ ان دونوں رگوں میں خون گردش کرتا ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، 8 : 433)

جانور کو ذبح کرنے کا مقام سینے کے اوپر والے حصے سے دونوں جبڑوں تک ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’دو جبڑوں اور سینہ کے بالائی حصہ کے درمیانی جگہ کو کاٹنا ذبح ہے۔‘‘ اگر اونٹ، گائے یا بکری کی گردن یہاں تک کاٹی کہ اس کو علیحدہ کر دیا اگر ایسا کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا اس پر حلق کی جانب سے وار کیا تو ذبیحہ کھایا جائے گا لیکن ایسا طریقہ ذبح اختیار کرنا غلط ہے۔

(الدرایۃ في تخریج احادیث الھدیۃ، 2 : 207، رقم : 903)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شیطانی طریقے سے جانور ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے۔ زاد بن عیسیٰ رضی اللہ عنہ اپنی حدیث میں فرماتے ہیں : کہ شیطانی طریقے سے ذبح کرنا یہ ہے کہ کھال تو کاٹ دی جائے اور رگوں کو نہ کاٹا جائے پھر اسے (تکلیف میں) تڑپتا چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔

(ابن ابوداؤد، السنن، کتاب الضحایا، باب فی المبالغۃ فی الذبح، 3، 18، رقم : 2826۔)

ذبح کے وقت کی دعا

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید کے دن دو مینڈھے قربان کیے اور انہیں قبلہ رخ کر کے یہ دعا فرمائی :

إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيْفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ، إِنَّ صَلَاتِی وَ نُسْکِیْ وَ مَحْيَایَ وَمَمَاتِی ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، لَا شَرِيْکَ لَهُ وَبِذًلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ، اللَّهُمَّ مِنْکَ.

(ابن ماجه، السنن، کتاب الأضاحی، باب أضاحی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 3 : 530، رقم : 3121)

’’میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف پھیرا جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ اس حال میں کہ میں حنیف ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ تعالٰی کے لئے ہے۔ جو رب العالمین ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں مسلمانوں میں سے پہلا ہوں۔ اے اللہ! میں تیرے نام سے شروع کرتا ہوں۔‘‘

ذبح کے وقت یہ جملہ کہنا مکروہ ہے ’’اے اﷲ اسے فلاں کی جانب سے قبول فرما‘‘ یہ جملہ ذبح سے قبل یا فراغت کے بعد کہنا چاہیے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’دو موقعوں پر میرا ذکر نہ کیا جائے۔ چھینک کے وقت اور ذبح کے وقت۔‘‘ (ابن قدامہ، المغنی، کتاب الصید والذبائح، 8 : 541)

ذبح کرنے کے بعد کی دعا

قربانی کرنے کے بعد درج ذیل دعا پڑھیئے :

اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَلَّتَ مِنْ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلِکَ وَمُحَمَّدُ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ عليهما السلام

’’اے اللہ! تو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی قبول فرمائی۔ دونوں پر درود و سلام ہو۔‘‘

قربانی کے جانور میں حصہ داری کے احکام

1۔ قربانی کا جانور اگر بھیڑ یا بکری ہو تو اسے قربانی میں صرف ایک شخص کی جانب سے پیش کیا جا سکتا ہے خواہ وہ جانور دیکھنے میں دو بکروں جیسا موٹا تازہ کیوں نہ ہو جبکہ ایک گائے یا اونٹ سات آدمیوں کے لئے کفایت کرتا ہے وہ اس سے زیادہ کی طرف سے جائز نہیں ہے۔

2۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس ارشادِ نبوی سے فائدہ حاصل کرتے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے اور اونٹ ذبح کرتے تو سات افراد اس قربانی میں شریک ہو جاتے۔‘‘

(ابو داؤد، السنن، کتاب الضحایا، باب البقر والجزور عن کم تجزیئ؟، 3 : 11، رقم : 2807)

3۔ ’’اگر کسی شخص نے اپنی قربانی کے لئے گائے خریدی پھر اس میں چھ آدمیوں کو شریک کر لیا تو ان سب کی طرف سے قربانی تو ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے اگر خریدنے سے پہلے ہی شرکت کر لی جائے تو یہ سب سے بہتر ہے۔‘‘ (درمختار، کتاب الاضحیۃ، 4 : 202)

4۔ ’’سات آدمیوں نے قربانی کے لئے گائے خریدی تھی ان میں سے ایک کا انتقال ہوگیا اگر اس کے ورثاء نے شرکاء سے یہ کہہ دیا کہ تم اس گائے کو اپنی طرف سے اور اس کی طرف سے قربانی کرو اور انہوں نے کر لی تو سب کی قربانیاں جائز ہیں لیکن اگر بغیر اجازتِ ورثاء ان شرکاء نے قربانی کی تو کسی کی طرف سے نہ ہوئی۔‘‘

(مرغینانی، الہدایۃ، کتاب الاضحیہ،4 : 226)

5۔ ’’گائے کو چھ، پانچ یا چار اشخاص کی طرف سے بھی قربان کیا جا سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ سب شرکاء کے حصے برابر ہوں جبکہ یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔‘‘

(ہسکفی، در مختار، کتاب الاضحیۃ، 4 : 201)

قرض دار کے لئے قربانی کا حکم

کسی شخص پر واجب الادا قرض ہے اس کی ملکیت سے قرض کی مقدار ادا کر دی جائے جس کے بعد وہ صاحب نصاب نہیں رہتا تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔ اگر کسی شخص کے پاس مال موجود نہیں اور قربانی کے دن گزر جانے کے بعد اسے مال وصول ہو گیا تو اس شخص پر قربانی واجب نہیں۔ ’’اگر اس قدر قرضہ ہو کہ اگر مال موجود قرضہ میں صرف کیا جائے تو نصاب پورا نہ رہے کم ہو جائے تو اس پر قربانی واجب نہ ہوگی اسی طرح اگر اس کا مال ہو مگر اس کے پاس نہ ہو غائب ہو کہ ایام قربانی میں اس کو نہ ملے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔‘‘

(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الاضحیۃ، 4 : 445)

عورت کے لئے قربانی کا حکم

صاحب نصاب عورت پر قربانی اسی طرح واجب ہے جس طرح صاحبِ نصاب مرد پر واجب ہے۔ کسی عورت کو مہر سے حاصل شدہ مال کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں مانا جائے گا لیکن اگر عورت کے پاس مہر کے علاوہ بقدر نصاب مال موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔

بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کا حکم

اگر کسی شخص نے بالغ بیٹوں یا بیوی کی اجازت کے بغیر قربانی کر دی تو ان کی طرف سے قربانی نہیں ہوگی اسی طرح اگرچہ نابالغ کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہے مگر کر دینا بہتر ہے۔ ’’کسی شخص پر لازم نہیں کہ اپنی بالغ اولاد کی طرف سے یا اپنی جوروں کی طرف سے قربانی کرے لیکن اگر ان میں سے کسی نے اس کو اذن دیا ہو تو قربانی کردے ایسا کرنا جائز ہے۔ نابالغ فرزند کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں مستحب ہے۔‘‘

(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الاضحیۃ، 4 : 447)

قربانی کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت

قربانی کرنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ عید کے دن قربانی سے پہلے کچھ نہ کھائے بلکہ قربانی ہی کے گوشت میں سے کھانے کا اہتمام کرے مگر یہ روزہ نہیں ہوگا نہ ہی اس دن روزہ کی نیت کرنا جائز ہے کیونکہ عید کے تین دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ البتہ پہلی سے نویں تک کے روزے بہت افضل ہیں اور سب نفلی روزوں میں بہتر روزہ عرفہ (نویں ذوالحج) کے دن کا روزہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جن دنوں میں رب کی عبادت کی جاتی ہے ان میں سے کوئی دن عشرہ ذی الحجہ سے زیادہ پسندیدہ نہیں ان میں سے ہر دن کا روزہ سال کے روزوں اور ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔‘‘

(ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ماجاء في الْعَملِ اَیَّامِ الْعَشْرِ، 122، رقم : 758)

قربانی کا گوشت کھانے کے احکام

جمہور فقہاء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ قربانی کے گوشت کو جمع کرنا اور تین دن کے بعد اس کو کھانا جائز ہے۔ بعض احادیث میں جو ممانعت ہے وہ دوسری احادیث صریحہ سے منسوخ کر دی گئی جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ فسخ نہیں ہے بلکہ پہلے تین دن سے زیادہ گوشت رکھنے کی ممانعت ایک علت کی بناء پر کی گئی تھی پھر جب وہ علت باقی نہ رہی تو وہ ممانعت بھی منسوخ ہو گئی لیکن اگر وہ علت آج بھی پیدا ہو جائے اور لوگوں میں فقر و فاقہ اور غربت کی وجہ سے گوشت کی ضرورت زیادہ ہو تو اب بھی گوشت کو جمع کرنے کا حکم ساقط متصور ہو گا لیکن معمول کے حالات میں گوشت جمع کرکے رکھ لینا بھی جائز ہے اور تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانا بھی جائز ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن واقد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا، عبد اﷲ بن ابی بکر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمرہ سے اس بات کا ذکر کیا، عمرہ نے کہا انہوں نے سچ کہا، میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں عید الاضحی کے موقع پر دیہات سے کچھ لوگ آئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم تین دن تک گوشت جمع کرو اس کے بعد جو باقی بچے اس کو صدقہ کر دو، اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگ اپنی قربانی (کی کھالوں) سے مشکیں بناتے تھے اور اس (قربانی) کی چربی رکھتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اب کیا ہوا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے تم کو ان محتاجوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آئے تھے۔ اب قربانیوں کو کھاؤ، جمع کرو اور صدقہ کرو۔‘‘

(مسلم، الصحیح، کتاب الاضاحی، بیان ما کان من النہی عن اکل نحوم الاضاحی بعد ثلاث فی اول الاسلام، 3 : 1561، رقم : 1971)

قربانی کا جانور مر جانے کی صورت میں حکم

اس صورت میں اس کی مثال یوں ہے کہ چار آدمیوں نے چار بکریاں قربانی کے لئے خریدیں یعنی ہر ایک نے ایک ایک بکری خریدی جن کا رنگ اور حلیہ یکساں تھا پھر انہوں نے ان کو ایک جگہ بند کر دیا پھر صبح اٹھ کر دیکھا تو ان میں ایک بکری مر گئی تھی۔ یکساں مشابہت کی وجہ سے انہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کی بکری مرگئی۔ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ تمام بکریاں فروخت کر دی جائیں اور وصول شدہ رقم سے دوبارہ چار بکریاں خریدی جائیں پھر ہر شخص رضامندی سے دوسرے کو ذبح کرنے کی اجازت دے۔

(فتاویٰ عالمگیری کتاب الاضحیہ، 6، 476)

’’قربانی کے لئے خریدا ہوا جانور مرگیا، خریدار اگر خوشحال ہو تو اس پر دوسری قربانی واجب ہے جبکہ فقیر پر کچھ واجب نہیں ہے۔ اور اگر جانور گم یا چوری ہو جائے تو دوسرا جانور خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو تو خرید کر قربانی کرے اور اگر قربانی کے ایام میں پہلا جانور مل جائے تو خوشحال شخص دونوں کی قربانی کرے جبکہ تونگر کو اختیار ہے کہ وہ دوسرے جانور کو فروخت کر دے۔ (مرعینانی، الھدایۃ، 4 : 223)

قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والے کے لیے حکم

جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنے بال کٹوائے اورناخن ترشوائے تو اسے قربانی کے عمل کا ثواب ملے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : ’’ایک شخص عرض گزار ہوا کہ اگر مجھے کچھ میسر نہ آئے تو سوائے اس اونٹنی یا بکری وغیرہ کے جو دودھ پینے کے لیے عاریتاً یا کرائے پر ملی ہو تو کیا اسی کی قربانی پیش کردوں؟ فرمایا نہیں لیکن تم اپنے بال کتراؤ، ناخن کاٹو، مونچھیں پست کرو اور موئے زیر ناف صاف کرو اللہ کے نزدیک بس یہی تمہاری قربانی ہے۔‘‘

(ابو داؤد، السنن، کتاب الضحایا، باب ماجاء فی ایجاب الأضاحي، 3، 3، رقم : 2789)

گوشت کی تقسیم کے مسائل

قربانی کا گوشت ایک طرح کا صدقہ ہے جس طرح لوگ قربانی کے علاوہ جانور ذبح کرتے ہیں جس سے وہ غریبوں اور اپنے اعزہ و اقارب کی ضیافت و دعوت کرتے ہیں، گھر میں پکاتے ہیں اگر قربانی کا گوشت خالصتاً صدقہ ہوتا تو پھر سارے کا سارا غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم آتا مگر قربانی کی تقسیم کا مسنون طریقہ اس طرح ہے۔

1۔ ایک حصہ غریبوں میں بانٹا جائے۔ 2۔ دوسرا حصہ اعزّہ و اقارب میں دیا جائے۔

3۔تیسرا حصہ اپنے گھر میں رکھا جائے۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع، 5 : 191)

عید الاضحی کا دن قربانیوں کے گوشت کی بناء پر اللہ تعالٰی کی طرف سے ضیافت اور مہمان نوازی کا دن ہے لہٰذا اس دن بلا تفریق سب کو اس میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ ان ایام میں امراء و غرباء دونوں طبقے اللہ تعالٰی کے مہمان ہوتے ہیں۔

بصورت دیگر اگر خاندان کے افراد زیادہ ہوں تو ایک حصہ غریبوں اور محتاجوں کو دینے کے بعد دو حصے بھی گھر رکھے جا سکتے ہیں لیکن اگر کنبہ بہت بڑا ہے تو سارے کا سارا گوشت بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ قربانی کا مقصود صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ تقرب الٰہی کے لئے خون بہانا ہے۔ گائے کی قربانی میں حصہ داری کی صورت میں گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے۔ محض اندازے سے تقسیم نہ کیا جائے ہو سکتا ہے کہ کسی کو زائد یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے۔