تحریر : قرۃ العین

پریشانی سے نڈھال اور غم سے چور بادشاہ کو کسی پل آرام نہیں آرہا تھا۔ بیٹے کی شکست کا غم اسے کھائے جا رہا تھا۔ اضطراب اور مایوسی کے عالم میں وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ اس کا بیٹا میدان جنگ سے شکست کھا کر لوٹ رہا ہے اور اس کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے۔ ملکہ نے بڑے اطمینان سے کہا ’’شاہ عالم! آپ کو ملنے والی خبر غلط ہے‘‘۔ ملکہ کی یہ بات سن کر بادشاہ بڑا حیران ہوا۔ اس نے یقین دلانے کی لاکھ کوشش کی مگر بے سود ثابت ہوئی۔ اگلے دن خبر ملی کہ شہزادہ فتح یاب ہو کر آرہا ہے۔ ماں فرط جذبات سے اظہار تشکر کے لئے سجدے میں گر گئی۔ ادھر بادشاہ اپنی بیگم کے یقین پر حیران تھا۔ پوچھنے لگا کہ اتنا کامل یقین کہ تم نے میرے مخبروں کی اطلاع کو سراسر جھٹلا دیا۔ ملکہ نے جواب دیا کہ خدا نے میری لاج رکھی ہے اور تو کوئی خاص بات نہیں۔ مگر بادشاہ اس بات پر مصر تھا کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی بڑی وجہ ہوگی۔ آخر ملکہ نے مجبور ہو کر کہا کہ جب شہزادہ میرے وجود کا حصہ بنا تو میں نے خدا سے عہد کیا کہ میرے پیٹ میں کوئی حرام غذا نہیں جائے گی کیونکہ حلال غذا سے اعلیٰ اخلاق اور اچھے مزاج بنتے ہیں اور حرام خوراک سے انسان کا خمیر فاسد ہوتا ہے اور برائی اس کی سرشت میں شامل ہو جاتی ہے۔

چنانچہ شہزادے کی ولادت تک میں نے ایک لقمہ بھی ایسا نہ کھایا جو حرام ہو یا جس پر حرام ہونے کا شائبہ ہو اور جب شہزادہ پیدا ہوا تب بھی میں نے بڑی احتیاط کی تاکہ حرام غذا دودھ بن کر اس کے اخلاق پر برا اثر نہ ڈالے۔ میں جب بھی اسے دودھ پلاتی تو دو رکعت نفل ادا کرتی۔ اس لئے میرے بیٹے کے اخلاق بہت اچھے تشکیل پائے۔ شہادت چونکہ ایک اچھا خُلق ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ میرا بیٹا شہید تو ہو سکتا ہے مگر راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ میں نے خدا سے عہد نبھایا تو مجھے یقین کامل تھا کہ خدا بھی اپنے بندوں سے وعدہ نبھاتا ہے۔ اس لئے میرے یقین کامل نے آپ کے مخبروں کی اطلاع کو ماننے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میرا خیال سچ ثابت ہوا اور بیٹا بہادری سے لڑتا ہوا فتح یاب ہو کر واپس آیا۔ بادشاہ ملکہ کی بات سن کر اشکبار ہوگیا۔ اس کے آنسو یقینا اس عظیم عورت کی پرورش کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ عظیم ماں کون تھی؟ یہ خاتون امیر عبدالرحمن والئی کابل کی بیوی تھیں۔ جس نے رزق حلال کی برکت اور اسکے انسانی اخلاق پر مثبت اثرات کو عملاً دنیا کے سامنے ثابت کر دکھایا۔

سورہ المائدہ میں اللہ رب العزت نے رزق حلال کے متعلق یوں ارشاد فرمایا :

وَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّهُ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِيَ أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَO

(المائدة، 88 : 5)

’’اور جو حلال پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے کھایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہوo‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

رزق حلال کا حاصل کرنا جتنا اہم ہے۔ اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس کو پاک اور طاہر رکھا جائے۔ ہر انسان اس دنیا میں اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں رزق لکھ دیا ہے۔ اس کو حلال اور حرام دونوں راستے دکھادیئے ہیں۔ خواہ وہ حلال اختیار کرے یا حرام، اس کا رزق جتنا لکھا جا چکا ہے۔ وہ اسے ضرور ملے گا جو شخص حلال ذرائع کا انتخاب کرتا ہے اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشخبری سنائی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’جو شخص حلال روزی کمانے میں تھک کر شام کرے وہ اس حالت میں رات گزارے گا کہ اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اس حال میں صبح کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوں گے‘‘۔

(بحوالہ طبرانی و احیاء العلوم ج 2 ق 2 ص 229)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’جس شخص نے حلال ذرائع سے دنیا طلب کی تاکہ خود کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچائے رکھے اور اپنے اہل و عیال کے لئے روزی مہیا کرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ وہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ بدر کامل کی طرح چمک رہا ہوگا اور جس نے حلال طریقے سے دنیا اس لئے کمائی کہ وہ دوسروں سے مال و دولت میں بڑھ جائے۔ دوسروں پر اپنی بڑائی جتائے نمود و نمائش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا‘‘۔ (کنزالعمال، کیمیائے سعادت)

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جب عالم شباب کو پہنچے تو ایک روز اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : امی جان! شکر ہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے کبھی تہجد کی نماز قضا نہیں کی۔ والدہ محترمہ نے جواب دیا : بیٹا اس میں تیرا کوئی کمال نہیں یہ تیری ماں کے دودھ کا کمال ہے۔ خدا کی قسم میں نے کبھی تجھے دودھ وضو کے بغیر نہیں پلایا۔

ایسی مائیں ملت اسلامیہ کا قابل فخر اور گراں قدر سرمایہ ہیں۔ جس سرمائے سے آج ہم محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلمان والدین اولاد کی پرورش اپنا دینی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں اور اس کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں تو جہاں انہیں تسکین قلب حاصل ہوتی ہے وہاں اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کی نعمت بھی میسر ہوتی ہے۔ حدیث قدسی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حرام سے پرہیز کرنے والوں سے مجھے حساب لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے‘‘۔ (کیمیائے سعادت، ص 381)

آج مسلمان والدین اپنی اولاد کی تربیت میں رزق حلال کی اہمیت سے جس طرح لاپرواہ اور غافل ہو رہے ہیں۔ اس سے نئی نسل کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ جب مائیں بچوں کی پرورش کے لئے پھلوں، دودھ اور میوہ جات کے استعمال کو ضروری خیال نہیں کرتی تھیں بلکہ اکثر مائیں یہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ کیلشیم کیا ہوتا ہے اور اس کے ہڈیوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں یا کون سی اجناس بچے کے دماغ کی صحت اور نشوونما کے لئے ضروری ہیں؟

وہ اپنے بچوں کی پرورش بڑے انوکھے انداز میں کرتی تھیں وہ یقین رکھتی تھیں کہ خدا کے ذکر کی خوراک سے بچے کی دماغ کی نشوونما ہوگی۔ درود و سلام کی کثرت سے ذہانت ملے گی۔ قرآن کی تلاوت سے اس کا دل روشن ہوگا۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ان کے خون میں گردش کرے گی تو خوبصورت اور روشن چہرے وجود میں آئیں گے۔ رزق حلال سے اعلیٰ اوصاف پیدا ہونگے اور نماز جیسی عبادت سے سکون قلب حاصل ہوگا۔ آج ہم اپنی نگاہیں ہر طرف دوڑاتے ہیں تو نگاہیں مایوس پلٹ آتی ہیں دل مضطرب ہو جاتا ہے کہ کہاں گئے وہ لوگ، وہ مائیں، وہ باپ اور وہ بیٹے، زندگی کدھر جا رہی ہے یہ کیسی ترقی کی دوڑ ہے کہ جس میں شامل ہونے کے لئے مائیں اپنے دوپٹوں سے اور خوف خدا سے غافل ہوگئیں۔ باپ پیسہ کمانے کی مشین بن گئے اور یاد خدا سے بے نیاز ہوگئے۔ بیٹے مادیت پرستی اور عیش میں پڑگئے۔ ادب و احترام، محبت اور اطاعت جیسے جذبات سے عاری ہوگئے۔ قرآن مجید میں واضح حکم موجود ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ

(التحريم، 66 : 6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

قیامت کے دن اپنے بیوی بچوں کو حرام کھلانے والے شخص کی گردن پکڑ کے اہل خانہ خدا کے حضور عرض کریں گے۔ یااللہ! یہ ہمارا باپ ہے۔ یہی میرا خاوند ہے۔ اس نے ہمیں علم دین نہ پڑھایا اور ہمیں حرام کھلاتا رہا، ہمیں معلوم نہ تھا۔ لہذا ا س سے ہمارا حق دلایا جائے۔

ہمیں اس وقت سے درنا چاہئے جب ہم خد اکے حضور پیش کئے جائیں گے۔ آج ہم ترقی حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر افراتفری اور بے راہ روی بڑھتی جارہی ہے۔ سکون جیسی دولت دلوں، گھروں اور عبادتوں سے نکلتی جارہی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ حرام روزی ہے۔ آج بھی ہر گھر جنت نظیر اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اگر مائیں خود کو سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی سیرت میں ڈھل کر اپنے بچوں کے دلوں میں محبت اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھر دیں۔ باپ اپنی زندگیاں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنوار لیں تو عجب نہیں کہ بیٹوں کی زندگیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ عنہ، حضرت سید علی ہجویری رضی اللہ عنہ اور یگر سلف صالحین کے روشن کردار کا آئینہ بن جائیں اور بیٹیاں، خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا کی پاکبازی و پاکدامنی زہد و تقویٰ اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی حامل بن جائیں۔