اداریہ : ماہ محرم الحرام اور پیغام اتحاد و امن

اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام ماہ ذوالحجہ پر ہوتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حیات اسلام کا سفر قربانی سے شروع ہوتا ہے اور قربانی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم کرنا نہایت سہل ہے کہ ایک مسلمان کی تمام زندگی قربانیوں سے معمور ہے۔ ماہ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو فرزند خلیل اللہ حضرت اسماعیل علیہ السلام رضائے الہی کی خاطر اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیتے ہیں مگر ان کے حلقوم پر چھری چلنے سے پہلے ان کی قربانی بارگاہ خداوندگی میں مقبول ہو جاتی ہے جبکہ ماہ محرم الحرام کی دس تاریخ کو نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین علیہ السلام رضائے الہی کی خاطر سجدے کی حالت میں اپنا سر کٹوا کر دین اسلام کا نام روشن کر دیتے ہیں اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں کہ یہ سر اللہ تعالی کے حضور سجدے کی حالت میں کٹ تو سکتا ہے مگر کسی ظالم اور جابر حکمران کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ یہ تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی جو ماہ محرم الحرام میں پیش آئی۔

اکثر ایسے ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں باری تعالی اس ظاہری دنیا میں اقتدار عطا فرماتا ہے وہ اس کے نشہ میں بدمست ہو کر کبر و نخوت کا پیکر بن جاتے ہیں اور انہیں اپنا انجام، بھیانک موت اور قبر کی تاریک رات یاد نہیں رہتی وہ اس بات کو بھو ل جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔ وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ راہ راست پر آ جائیں مگر بعض لوگ ان کی دنیوی زیب وزینت اور چند روزہ جاہ و منصب کو دیکھ کر یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ کامیاب لوگ ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ اس دنیائے فانی میں کسی کا اقتدار کے مزے لوٹنا اور بظاہر کامیاب نظر آنا اصل اور حقیقی کامیابی نہیں بلکہ جب اللہ تعالی کی سخت پکڑ اور گرفت کا وقت آتا ہے تو نہ صرف انہیں ذلیل ورسوا کر کے اقتدار سے محروم کر دیا جاتا ہے بلکہ ان کی نسلوں کو بھی نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور ان کا نام تاریخ کے اوراق پر ناکامی و نامرادی اور بدی کی علامت بن جاتا ہے۔ ایسے ہی نمرود، فرعون، ہامان اور یزید جیسے حکمرانوں کے لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

تم سے پہلے بھی یہاں کوئی تخت نشیں تھا
اس کو بھی خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا

وہ یزید کہ جس نے اسی دنیا کی چند روزہ عیاشی اور اقتدار کی خاطر تپتے ہوئے ریگزار کربلا میں سید الشہدا امام عالی مقام نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جگرگوشہ بتول رضی اللہ عنہا، خون علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضر ت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ خاندان نبوت میں سے 70 افراد کو بڑی بے دردی سے شہید کر کے ظلم و ستم اور سفا کی کی انتہا کر دی اس نمرود اور فرعون صفت یزید پر وہ وقت بھی آیا کہ امت مسلمہ اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک لاکھ ستر ہزار یزیدیوں کو واصل جہنم کر دیاگیا۔

وہ یزید کہ جس نے حرمین شریفین کی بے حرمتی کی اور گھوڑوں اور اونٹوں کو باندھ کر مسجد حرام اور مسجد نبوی کے تقدس کو پامال کیا جس کی وجہ سے تین دن تک مسجد میں اذانیں اور جماعتیں نہ ہو سکیں، اس یزید پر وہ وقت بھی آیا کہ اسی دوران شدید درد کی حالت میں تین دن تک تڑپ تڑپ کر جان نکلی اور اس کی قبر پر بھی اونٹ اور گھوڑے باندھے گئے جو گندگی پھیلاتے رہے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے حرمین شریفین کو کشت و خون سے بچانے کے لئے کربلا کا سفر اختیار کر کے ہمیں امن کا پیغام دیا۔ بصور ت دیگر اگر وہ چاہتے تو مکہ ومدینہ کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اکثریت ان کی قیادت میں یزیدی حکومت سے ٹکر لینے کے لئے تیار تھی مگر حرمین شریفین کے تقدس کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے اور جنگ کی بجائے اور امن کی خاطر انہوں نے اپنے اپنے نانا اور بابا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔

آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب ماہ محرم الحرام آتا ہے تو پاکستان اور عالم اسلام میں فتنہ پروری، قتل وغارت گری اور فسادات کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے اور جنگ کا ماحول بن جاتا ہے۔ غیرمسلموں کو بھی جگ ہنسائی کا موقع ملتا ہے لہذا اس موقع پر سب سے زیادہ ضرورت اعتدال و میانہ روی کے راستے پر چلنے کی ہے۔ اس موقع پر بالعموم امت مسلمہ کے افراد اور بالخصوص سنی شیعہ طبقات کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر وحدت، یگانگت، یک جہتی اور اخوت و بھائی چارے کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے اس ماہ کو امن و سکون سے گزاریں تاکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے امن و یگانگت اور اخوت و بھائی چارے کے اصل کردار کو زندہ کیا جا سکے۔