عالمِ اَرواح کے میثاق اور عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازہری

اسی طرح کنز العمال کی روایت ہے اور یہ حدیث بہت سارے طرق سے آئی ہے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے قریب اپنا ہاتھ دیکھا کر فرمانے لگے۔ خدا کی قسم میں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں اپنا ہاتھ دے کر بیعت کی تھی۔ جس دن سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں اپنا دایاں ہاتھ دے کر بیعت کی آج میرا آخری زمانہ آگیا اس ہاتھ کو آج کے دن تک میں نے غسل اور طہارت کے وقت بھی استعمال نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ سے مس ہوا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس درجے کے لطیف آدابِ تعظیم و تکریم کون سکھاتا تھا؟ یہ محبت خود سکھاتی تھی۔ بخاری شریف میں حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مجھے غسل کی حاجت تھی اور میں ایک گلی میں جا رہا تھا، آگے اتفاق سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نشست تھی وہاں بیٹھنا تھا لہذا مڑ کے واپس آ گئے اور گھر جا کر غسل کیا، طہارت کی، وضو کیا اور اُس کے بعد پہنچے تو آقا علیہ السلام نے پوچھا کہ ابو ہریرہ! تم نظر نہیں آئے، دیر سے آئے ہو کہاں تھے؟ عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے وضو اور غسل کرنا تھا۔

یہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم تھے جنہوں نے آقا علیہ السلام کی مجلس کے سامنے سے بے وضو گزرنا گوارہ نہیں کیا کہ کہیں اُس حال میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ نہ پڑے۔ ادب کا یہ لطیف شعور کس نے دیا؟ اسی طرح مواہب اللدنیہ میں روایت ہے کہ ایک صحابی حضرت اصلح بن شریک رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی تھی جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر پر جانا ہوتا تو وہ آقا علیہ السلام کی اونٹنی پر کجاوہ فِٹ کرتے تھے۔ ایک دن علی الصبح آقا علیہ السلام کا سفر تھا مگر انہوں نے غسل کرنا تھا اور ٹھنڈا یخ پانی تھا وہ بخار سے تھے لہذا پریشان تھے کہ پانی گرم کر کے پھر غسل کروں ادھر آقا علیہ السلام کے سفر کا وقت شروع ہو گیا انہوں نے ایک صحابی کو بلایا کہ میں نے ابھی غسل اور وضو کرنا ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر کا وقت ہو گیا لہذا کجاوہ تم fix کر دو۔ اس نے fix کر دیا وہ تیزی سے غسل اور وضو کر کے دوڑے اور سفر میں جا کے قافلے سے مل گئے۔ آقا علیہ السلام نے پوچھا اصلح بن شریک کیا بات ہے آج کجاوہ تم نے نہیں رکھا کیونکہ پہلے کی طرح اچھی طرح فکس نہیں ہوا؟ عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے غسل کرنا تھا۔ اور میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ تو میں ٹھنڈے پانی سے گریز کر رہا تھا لہذا میں نے دوسرے صحابی کو بھیجا تھا۔ آقا علیہ السلام کو اس کے ادب کا جو رنگ پسند آیا وہ خدا کو بھی پسند آیا اُسی لمحے اﷲ نے تیمم کی آیت بھیج دی کہ اگر آپ بیمار ہیں، مریض ہیں اور آپ وضو نہیں کر سکتے پانی ٹھنڈا ہے یا موجود نہیں توآپ تیمم کر لیا کریں؟ یہ آیت بھی امت کو بطورِ نعمت حضرت اصلح بن شریک رضی اللہ عنہ کے ادبِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے نصیب ہوئی۔ کہ انہوں نے بغیر وضو اور غسل کجاوہ کو ہاتھ نہیں لگایا جس پہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹھنا تھا۔ محبت خود ادب اور تعظیم و تکریم کے آداب ایجاد کر لیتی ہے۔

سنن ابی داؤد ’’کتاب الحدود‘‘ میں حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

مدینہ کے قریب یہود کی بستی تھی۔ اس میں بدکاری کا واقعہ ہوا اور وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئے کہ ہمارے ہاں تشریف لائیے اور سماعت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سزا جاری فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہودیوں کی مسند پہ تشریف فرما ہوئے بدکاری کا مقدمہ سامنے رکھا گیا انہوں نے پوچھا اس کی سزا کیا ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا توراۃ لے آؤ (دیکھئے ہمارا کتنا Peaceful religion ہے دین اسلام میں کتنی وسعت ہے) قرآن کی اپنی سزا نافذ نہیں کی بلکہ فرمایا جو تمہاری کتاب تورات کا قانون ہے وہی نافذ کروں گا۔ تورات لائی گئی اب یہ وہی تورات تھی جس کے لیے قرآن میں جابجا آیا کہ اُس کے اندر تحریف کر دی گئی یعنی رد و بدل کے الفاظ بدل دیئے گئے۔ مگر جب وہ سامنے لائی گئی تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تورات کو دیکھ کر مسند سے اٹھ گئے۔ (آقا علیہ السلام ادب کے سلیقے سکھا رہے ہیں) اور فرمایا اس تورات کو اِس مسند پر رکھ دو اور اپنے نیچے سے اپنی مسند نکال دی اور تورات کو خطاب کر کے فرمایا :

’’میں تجھ پر اور جس نے تجھے ناز ل کیا اُس رب پر ایمان رکھتا ہوں‘‘۔

چونکہ اصل تورات وحی اور اس کا کچھ حصہ تو اس میں بھی شامل تھا بقایا بدل دیا گیا تھا۔ صاحب قرآن پیغمبر، اﷲ کی اُس وحی کے چند کلمات کی بھی تعظیم کرکے مسند اُس کو دے رہا ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادب کے طریق سکھا رہے ہیں کہ دوسرے کا اگر دین و مذہب ہو، آسمان سے نازل شدہ، باوجود تبدیلیوں اور تحریفوں کے اُس کا بھی احترام کرو۔ پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے ایک عالم کو بلاؤ۔

ایک یہودی کو بلایا گیا جسے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس میں پڑھو رجم کی سزا کیا لکھی ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی کے عالم سے پڑھا کے ان کو سنانا چاہتے تھے تو جب اس نے پڑھا تو اس میں بھی رجم کی سزا وہی تھی جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو دے چکے تھے۔ فرمایا میں کہتا تو سمجھتے کہ اسلام کی سزا نافذ کر رہا ہوں۔ لہذا آقا علیہ السلام نے تورات کے مطابق رجم کی سزا دے دی۔ اور دوسرا بڑا عجیب واقعہ جو آقا علیہ السلام کی سنت و ادب سے ثابت ہوتا ہے اسے امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں اور کنزل العمال میں حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن آقا علیہ السلام حرم کعبہ میں داخل ہوئے 360 بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتوں کو گرا دینے کا حکم دیا اور فرماتے جاتے جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا (الاسراء، 17 : 81) صحابہ بتوں کو گراتے اور بت گرتے جاتے۔ بتوں کو گراتے گراتے آگے کعبۃ اللہ میں جب پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کعبۃ اﷲ کے اندر داخل ہوئے فصلی فيه رکعتين تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت نفل ادا کئے فرای فيه تمثال ابراهيم و اسماعيل و اسحاق کعبہ کے اندر آقا علیہ السلام نے سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل اور سیدنا اسحاق علیہم السلام کی تصویریں دیکھیں جن کے بت بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ آقا علیہ السلام نے انہیں پہچان کر ان کو چھڑی سے نہیں گرایا جبکہ بقیہ لات، منات، دجال، عزی ہر بت کو چھڑی سے گرا دیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدنا اسحاق علیہ السلام کے بتوں کے بارے میں فرمایا : ’’زعفران لے آؤ‘‘ اور زعفران پانی میں حل کر کے ان کے اوپر زعفران لگا دیا تاکہ ان کی پہچان نہ رہے۔ ادب کا یہ عالم ہے کہ انہیں توڑنے کی بجائے پہچان ختم کرادی۔ اسی طرح مصنف عبد الرزاق میں امام عبد الرزاق روایت کرتے ہیں امام ابو حاتم اور امام طبری بھی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع حاجت کے وقت کس طرف رخ کروں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ رفع حاجت جب کرنے کے لئے بیٹھو کعبے کی سمت رخ نہ کرو۔

وہ کعبہ جو نگاہوں کے سامنے نہیں ہے، رفع حاجت کے وقت سینکڑوں میل دور اس کی سمت کا بھی ادب ہے۔ حتی کہ اسلامی فقہ میں کعبہ کی طرف پشت کرنا اور تھوکنا بھی منع ہے۔ جس سمت کعبے کا وجود ہے اس سمت کا بھی احترام اور ادب ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ادب اور تعظیم و تکریم کا یہ معیار عطا کیا تھا اور اسی معیار ادب کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روا رکھا۔ اب یہ طریقہ تابعین اور تبع تابعین اور ائمہ کرام میں جاری ہے۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ الشفاء میں روایت کرتے ہیں کہ خلیفہ ابو جعفر المنصور ایک مرتبہ مسجد نبوی میں آیا بادشاہ وقت تھا جب تھوڑی اونچی آواز سے بات کرنے لگا تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ پاس کھڑے تھے۔ فرمایا : اے خلیفہ وقت!

لا ترفع صوتک في هذا المسجد  ’’یہ مسجد نبوی ہے اس میں آواز بلند نہ کرنا۔‘‘

کیونکہ ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَO إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌO إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَO

(الحجرات، 49 : 2 تا 4)

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقوٰی کے لئے چن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےo بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

خلیفہ ابو جعفر منصور کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ بات سنائی تو دعا کے وقت اس نے پوچھا اے امام مالک بتائیے میں دعا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی طرف چہرہ کر کے کروں یا ادھر پشت کر کے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا کروں؟ یعنی دعا کا ادب کیا ہے؟

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اس ہستی کی طرف پشت کر کے کیسے دعا کرتے ہو جو قیامت تک تمہارا اور تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی وسیلہ ہے‘‘ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت ایوب بن ابی تمیمہ کیسان السخیانی جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے جلیل القدر اساتذہ اور شیوخ میں سے تھے کے بارے میں پوچھا گیا کہ حدیث میں ان کا درجہ کیا ہے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے جتنے شیوخ اور اساتذہ سے حدیث روایت کی ہے ان میں حضرت ایوب السخیانی رحمۃ اللہ علیہ سے بہتر اور افضل کوئی شخص نہیں پایا۔ پوچھا گیا ان میں افضلیت کا سبب کیا ہے؟ کہنے لگے :

’’میں ان کے پاس رہتا تھا دو حج میں نے ان کے ساتھ کئے جب وہ حدیث بیان کرتے ہیں خدا کی قسم میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر آتا ان کی آنکھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں چھم چھم برسنے لگ جاتیں۔ اور وہ اتنا روتے کہ ان کی حالت زار پہ ہمیں رحم آ جاتا۔ جب میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں اتنا غرق دیکھا تو اس کیفیت کی بناء پر میں نے ان سے حدیث لکھنا اور روایت کرنا شروع کی۔ حضرت مصعب بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کبھی ان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا ان کا رنگ بدل جاتا اور زار و قطار رونے لگ جاتے اتنا روتے کہ ان کی حالت غیر ہو جاتی حتی کہ اسی حالت میں لوگ ان کو چھوڑ کر چلے جاتے مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اور ذکر سن کر ان کا گریہ و بکا رکتا نہ تھا۔ یہ تابعین اور تبع تابعین کا ایک تسلسل ہے، وہ تسلسل اب کہاں گیا؟ آج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق اور محبت کو کچھ اور نام دیا جاتا ہے حالانکہ یہ وہ وراثت اور میراث ہے جو اﷲ رب العزت نے پتھروں، درختوں، جانوروں اور شجر و حجر میں رکھی تھی۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام جعفر الصادق رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ وہ کثیر التبسم اور خوش مزاج تھے مگر اسی حالت میں جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا تو ان کے چہرئہ انور کا رنگ زرد ہو جاتا اور پھر ان کی حالت غیر ہو جاتی اور قابو سے باہر ہو جاتی۔ حضرت عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابی بکر کے بارے میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ جب کبھی مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا تو خدا کی قسم ان کے چہرے کا رنگ اس طرح ہو جاتا کہ جیسے کسی نے خون نچوڑ دیا ہو اور ان کی زبان گنگ ہو جاتی اور عشق و محبت اور ہیبت و جلال محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کی زبان سے کوئی کلمہ نہیں نکلتا تھا۔ وہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عامر بن عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا تو نام سن کر زار و قطار چیخ و پکار کرتے ہوئے رو پڑتے فرماتے ہیں میں نے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہو جاتا تو ان کی حالت اتنی غیر ہو جاتی کہ سامنے بیٹھے ہوئے دوست کو بھی پہچان نہ سکتے اور کوئی ان کو پہچان نہ سکتا کہ یہ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ فرمایا میں نے امام صفوان بن سلیم رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہوتا تو نام سنتے ہی اتنا روتے کہ چیخ بلند ہو جاتی تھی۔ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وہ کثیر التبسم تھے، مسکرانا ان کا معمول تھا مگر جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا بیان کرنے کا وقت آتا تو سارا جسم لرزہ براندام ہو جاتا اور کانپنے لگ جاتے۔ فرماتے ہیں اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا عمل یہ تھا جسے حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں جو امام مالک کے بھانجے ہیں کہ اگر کچھ لوگ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر آتے، استفسار کرنے اور علم لینے کے لئے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر خادمہ ان سے پوچھتی کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سننے یا مسائل فقہ پوچھنے آئے ہیں۔ اگر وہ کہتے کہ مسائل پوچھنے آئے ہیں تو وضو کر کے آپ باہر آ جاتے اور ان کو مسائل بیان کر دیتے اور اگر وہ کہتے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سننے آئے ہیں تو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ باہر نہ نکلتے اور انہیں پیغام بھیجتے کہ وہ مسجد میں بیٹھیں اور آپ خود غسل خانے میں جا کر تازہ غسل کرتے، خوشبو لگاتے، نئے کپڑے جو حدیث سنانے کے لئے رکھے ہوئے تھے وہ پہنتے پھر اپنا جبہ پہنتے، پھر عمامہ پہنتے، اور اپنی چادر ساتھ رکھتے، پھر ان کے لئے اونچی کرسی رکھی جاتی اور بخور جلایا جاتا جس کی خوشبو میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرتے۔ آپ سے ایک مرتبہ امام ابن ابی اویس رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا اے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یہ اتنا اہتمام حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کرنے اور سنانے کا کیوں کرتے ہیں؟ کہنے لگے خدا کی قسم میں یہ سب اہتمام اس حدیث اور صاحب حدیث کی تعظیم و تکریم اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت کے لئے کرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو ائمہ کرام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو اتنا مقام و مرتبہ دیتے تھے تو پھر ان صاحبان حدیث کے مقام و مرتبہ کا عالم کیا ہوتا ہوگا؟

جب تک عشق، محبت، ادب اور تعظیم و تکریم اپنے کمال تک نہیں جاتی اُس وقت تک ان نسبتوں اور ان کی حدیثوں کی ایسی عزتیں اور ایسی تکریمیں نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بغیر وضو کے کوئی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان نہ کرتا۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ چونکہ خود مالکی المذہب ہیں اس لئے کثرت سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر لائے ہیں۔ خود عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور یہ حق بھی ہے۔ کیونکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ان عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں کہ ساری زندگی 94 ھ میں پیدا ہوئے اور 180 ھ میں وفات ہوئی 87 برس عمر ہوئی مگر پوری زندگی صرف 2 حج کئے اور باقی زندگی نفلی حج یا عمرے کے لیے بھی نہیں گئے۔ کسی نے پوچھا سارا جہاں جاتا ہے آپ کیوں نہیں جاتے؟ انہوں نے کہا میں فرض ادا کر چکا اب معلوم نہیں کہاں موت آجائے چونکہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے شہر سے باہر موت گوارا نہیں کرتا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ گلیوں میں نہیں چلتے تھے دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتے کہ جن گلیوں پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم لگے میں گوارا نہیں کرتا کہ میرے قدم وہاں ان جگہوں پر لگ جائیں۔ امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ میں آپ کی مجلس میں تھا آپ حدیث بیان کر رہے تھے۔ حدیث کو بیان کرتے ہوئے ایک بچھو نے 16 مرتبہ آپ کو ڈس دیا۔ ہر دفعہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوتا رہا مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرتے رہے اور گفتگو کا سلسلہ منقطع نہیں کیا۔ جب فارغ ہوئے میں نے پوچھا۔

اے ابوعبداللہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ! آج آپ کا حال عجیب دیکھا ہے۔ 16 مرتبہ آپ کے چہرے کا رنگ زرد ہوگیا اور تکلیف کی کیفیت محسوس ہوئی مگر آپ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایت اور بیان کو منقطع نہیں کیا۔ کیا وجہ تھی؟ کہنے لگے اے عبد اللہ بن مبارک! 16 مرتبہ بچھو نے مجھے ڈسا ہے۔ عرض کی آپ بیان کو روک دیتے فرمایا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث بیان کر رہا تھا میں اپنی تکلیف کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کیسے چھوڑ سکتا تھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا ادب مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ حضرت ہشام بن غازی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ راستے میں چلتے ہوئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک حدیث پوچھ لی۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی چھڑی تھی راستے میں کھڑے ہوئے آپ نے اس چھڑی سے اسے 20 ضربیں ماریں اور فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث راستے میں چلتے ہوئے نہیں پوچھتے یہ بے ادبی ہے۔ پھر اس کو مناسب جگہ پر جا کر بٹھایا اور بدلے میں 20 حدیثیں سنائیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے میری خواہش تھی کہ مجھے ضربیں لگاتے رہیں اور حدیثیں سناتے رہیں۔ آقاں کے ساتھ عشق و محبت اور تعظیم کا یہ عالم تھا۔ اب امت کو اس ٹوٹے رشتے کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔ اس عقیدہ، اس نسبت، اس فہم، اس شعور کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔ ان کی اتباع میں بھی عشق و ادب تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کا اونٹ تھا جسے وہ زمین پر چٹیل میدان میں گھما رہے ہیں۔ کسی نے پوچھا اے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ فرمایا وجہ مجھے تو معلوم نہیں۔ بس میں نے ایک بار دیکھا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ کو یہاں چکر لگوا رہے تھے، میں تو یار کی ادا نبھا رہا ہوں اور کوئی کام نہیں ہے

ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی کو آقا علیہ السلام نے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے چھین کر پھینک دی، کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سونا مردوں کے لئے حرام قرار دے چکے تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تو وہ صحابی رضی اللہ عنہ بھی چل پڑا، کسی نے روک لیا، اور کہا کہ سونا عورتوں کے لیے حلال ہے، حضور علیہ السلام کا اتار کر پھینکنے کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے لیے حرام ہے۔ لہذا اٹھا کر لے جاؤ اور جا کر بیوی کو دے دینا۔ اس نے کہا کہ یہ مسئلہ مجھے بھی معلوم ہے کہ عورتوں کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حلال کیا ہے مگر جس شئے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار نفرت سے پھینک دیا ہے میں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا۔ یہ پیمانے تھے ادب کے۔ یہ ہر سال آقا علیہ السلام کا جو یوم ولادت آتا ہے اور شب میلاد آتی ہے اور ماہ ربیع الاول آتا ہے یہ اسی لیے آتا ہے کہ آقا علیہ السلام کے ساتھ اس نسبت کو پھر سے زندہ اور تازہ کیا جائے۔

اب آخری بات کر رہا ہوں ہر چیز نئی لے لو جائز ہے۔ تعلیم جتنی نئی ملے لے لو، ٹیکنالوجی نئی آئے لے لو۔ کپڑے نئے نئے لے لو۔ گھر بار، سفر کی سہولتیں، ہر چیز جو نئی ملے بشرطیکہ وہ حلال ہو۔ جدید سے جدید تر لے لو کوئی مضائقہ نہیں مگر ایمان و عقیدہ کبھی نیا نہ لو وہ پرانا رکھو اور جتنا پرانا رکھوگے اتنا ہی اعلیٰ اور اتنا قیمتی ہوگا جان لو کہ ہر نیا عقیدہ فتنہ ہے، بدعت ہے اور گمراہی و ضلالت ہے جو دہلیز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور لے جا رہا ہے اور دوسری نصیحت آج کی رات کی کہ ہر شئے کو قبول کرو عقل کے پیمانے سے، ہر علم سے ہر ٹیکنالوجی سے ہر فکر سے ہر تحقیق سے، ہر شئے سے عقل کا تعلق اور رشتہ رکھو مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عقل کا چراغ کبھی نہ جلاؤ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق دل کا رکھو عقل کا نہیں۔ وہاں جھکے رہو، عاشق لوگ محبوب کی باتوں کو عقل کے پیمانے پر نہیں پرکھتے، جہاں عقل کا دخل ہوا وہاں تنقید آئی، جہاں تنقید آئی وہاں ایمان گیا۔ اللہ رب العزت نے پہلا سبق ’’يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ‘‘ کا دیا ہے۔ لہذا بن دیکھے ماننا عشق کا شیوہ ہے عقل کا شیوہ نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام سے تعلق کی اور سیرت کی اتباع کرو تو بغیر عقل کے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس جس شے کو نسبت ہے اس کا ادب کرو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب و تعظیم واجب ہے جو ایمان کا حصہ ہے صرف اس لیے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جان نثار ہیں اور اصحاب ہیں۔ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت ایمان ہے اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کندھوں پر حسن و حسین علیہماالسلام کو اٹھایا ہے اور کھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ ہر شئے کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔ حرمین سے محبت ہے تو اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وطن ہے کہ آقا نے اس کا لحاظ رکھا ہے۔ سارے شہر خدا کے مگر آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن جب میں اٹھوں گا تو میرے ساتھ سب سے پہلے مدینہ والے اہل جنت بقیع اٹھیں گے پھر اہل مکہ اٹھیں گے۔ پھر باقی دنیا اٹھے گی۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح حدیث ہے جو بخاری و مسلم کی متفق علیہ ہے۔ فرمایا ’’ہمارے لیے مدینہ کی محبت مکہ جیسی اور پھر فوری فرمایا کہ مکہ سے بھی بڑھ کر کر دے یعنی شدید تر کردے‘‘ اب مدینہ کی محبت مکہ سے زیادہ کیوں؟ اس لیے کہ وہاں خدا کا گھر ہے اور یہاں خدا کے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در ہے۔ گھر خدا کا وہاں ضرور ہے مگر خدا کی محبت کا مرکز و محور بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در ہے۔ اس لیے جہاں حضور علیہ السلام آرام فرما ہیں لاکھ کعبے بھی اس خطہ زمین پر قربان ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی دعا کی۔ ’’باری تعالیٰ مدینہ کی برکت کو بڑھا دے اور یہ حدیث پاک بخاری و مسلم کی متفق علیہ ہے کہ فرمایا برکت اتنی بڑھا دے کہ مکہ کی برکت سے بھی دوگنا کر دے‘‘۔ جب آقا علیہ السلام نے خود تصریح فرمائی تو اس فضیلت کا جو فرق رکھا اس کا مدار کیا ہے؟ حج تو مکہ میں ہوتا ہے برکت مدینہ کی زیادہ کیوں؟ حج مکہ میں ہوتا ہے محبت مدینہ سے زیادہ کیوں؟ سوائے اس کے کوئی اور سبب ہے کہ مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جا ہے، حضور کا مسکن ہے، حضور کا مدفن ہے۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن ساری دنیا کا ایمان سکڑ کر مدینہ میں آجائے گا۔ جیسے سانپ ہر طرف سے بھاگ کر اپنے بِل میں جا کر چھپ جاتا ہے اور محفوظ ہوجاتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’مَابَينَ بيتی و منبري روضة من رياض الجنة‘‘ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان یہ جنت کا باغ ہے۔ یہ ساری باتیں شہر مکہ کے لیے نہیں فرمائیں۔ جو مکہ بیت اللہ اور مسجد حرام کا شہر ہے حج وہیں ہے۔ مگر آقا علیہ السلام جب مدینہ آگئے تو ساری محبتیں اور رغبتیں مدینہ میں ہوگئیں۔ اس سے امت کو ایک سمت محبت دی جا رہی تھی کہ مکہ سے محبت بھی اسی کی معتبر ہوگی جس کی کثرت کے ساتھ محبت مدینہ سے ہے۔ اہل مدینہ کے لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا :

’’ جس نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ رکھا وہ دوزخ کی آگ میں اس طرح پگھل کے جل جائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے‘‘۔

یہ اہل مدینہ کے لیے کہا اہل مکہ کے لئے نہیں۔ یعنی آقا علیہ السلام سمت محبت سکھا رہے ہیں کہ اے میرے امتیو! تمہاری محبت کا رخ اور سمت یہ ہونی چاہیے کہ محبت اور عشق کی سمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہو۔ اگر یہ محبت نصیب ہوگئی تو اس کے صدقے کعبہ کی محبت بھی نصیب ہوگی، دین اسلام اور ایمان کی محبت بھی مل جائے گئی۔ اس رشتہ کو دوبارہ زندہ کرنے اور اپنی نسلوں میں اپنی اولادوں کو یہ وراثت منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا اس شیوہ ایمان کو خود بھی اپنائیں اور اپنی اولادوں کو بھی اس پر چلائیں۔ تب جاکر ہم اس قابل ہوں گے کہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جب قیامت کے دن اٹھیں، اور پیش ہوں تو اپنا چہرہ دیکھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خیرات سے مالا مال کرے۔ وما علینا الا البلاغ المبین۔