ملازمت پیشہ خواتین گھر اور ملازمت سے انصاف کیسے کریں؟

فریدہ سجاد

کہتے ہیں کہ ’’امید پر دنیا قائم ہے‘‘ یہ ایک حقیقت اور خوشگوار احساس ہے جو کسی بھی مایوس انسان کو پر امید بنا دیتا ہے۔ سوچیے زندگی کتنی تنگ ہوتی اگر امید نے اس کا دائرہ وسیع نہ کر دیا ہوتا۔ ہاں یہی امید ہی تو ہے جو کسی مریض کو کڑوی، کسیلی، بد ذائقہ دوائی کھانے پر مجبور کرتی ہے کہ اس سے صحت حاصل ہوگی۔ یہی امید ہی ہے جو طالب علم کو محنت کرنے پر مجبور کرتی کہ کامیابی حاصل ہوگی۔ یہی امید ہی ہے جو عورت کو گھر کے معاملات کے ساتھ ساتھ ملازمت کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ گھریلو مالی مشکلات ختم ہونگی۔ لیکن بعض اوقات دوائی کھانے سے شفا نہیں ملتی، محنت کرنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی، ملازمت کرنے سے گھریلو مالی مسائل حل نہیں ہوتے کیوں؟ اس کے کئی اسباب ہیں سر دست ہم ان اسباب کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر ملازمت پیشہ خواتین محنت کے باوجود گھر، دفتر میں توازن نہیں رکھ پاتیں۔

ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی (شادی شدہ) خواتین دو طرح کی ہیں۔

1۔ گھریلو خواتین 2۔ ملازمت پیشہ خواتین

1۔ گھریلو خواتین

وہ پڑھی لکھی خواتین جو شادی کے بعد صرف اپنے شوہر، گھر اور بچوں کے حقوق پورے کرنے میں زندگی بسر کر دیتی ہیں۔ لیکن گھریلو امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی کام کرنا چاہتی ہیں اور یہ سوچ کر کہ ’’کروں یا نہ کروں‘‘ میں گم رہتی ہیں۔ نتیجۃً صرف گھر کی ہو کر رہ جاتی ہیں۔

2۔ ملازمت پیشہ خواتین

ان کو پھر دو حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔

-1 وہ خواتین جو گھر کو پوری توجہ تو نہیں دے پاتیں، لیکن اپنے شوہر کے شانہ بشانہ دفتر میں کام کر کے خوشگوار ازدواجی زندگی اور گھر کے اخراجات میں اپنا حصہ بٹانے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔

-2 وہ خواتین جن کا خیال یہ ہے ہم نے تعلیم کس لیے حاصل کی؟ کیا صرف گھریلو امور کی انجام دہی کرنے یا بچے پالنے اور گھر میں خادمہ کی حیثیت سے رہنے کے لیے؟ ایسی سوچ کے پیش نظر جب وہ معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے گھر سے فرار حاصل کرتی ہیں تو جائز و ناجائز ملازمت حاصل کر کے پیسہ اور شہرت کماتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور سمجھدار تصور کرنے لگتی ہیں اور اپنے آپ کو کسی کا محتاج نہیں سمجھتیں۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا میں اس طرح گم ہو جاتی ہیں کہ انہیں اپنی تباہی اور گمراہی کا احساس تک نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ ایسی خواتین کو راہ ہدایت عطا فرمائے۔

ایسی خواتین یاد رکھیں کہ اسلام کی وضع کردہ حدود و اور باپردہ رہ کر خواتین زندگی کے ہر شعبے میں کام کر سکتی ہیں۔ جن خواتین نے ان اصولوں کو اپنایا وہ ان گنت کامیابیوں اور مثبت اثرات سے مستفید ہوئیں اور جس خاتون نے اسلام کے دائرہ کار سے نکل کر ذاتی نمود و نمائش، ذاتی مفادات اور معاشرے میں اپنے آپ بلند مقام کی خاطر ملازمت اختیار کی وہ معاشی، معاشرتی، گھریلو زندگی حتی کہ بحیثیت عورت اسلام نے اسے جو وقار اور مقام عطا کیا وہ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ آئیے اب بات کرتے ہیں ان خواتین کی جو کسی گھریلو پریشانی، مالی مجبوری اور تنگدستی کی وجہ سے ملازمت کرتی ہیں تو ان کو مختلف اطوار سے مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اندازہ نہیں کر پاتیں کہ اختلافات کیوں اور کہاں سے شروع ہو رہے ہیں؟ دراصل اس کی وجہ اہمیت اور حقیقت کا ٹکراؤ ہے جس کو وہ سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے مثلاً

٭ اس کے گھر میں ساس، سسر، یا نندیں اپنے بچوں کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے آ رہی ہیں تو وہ شش و پنج میں مبتلا ہوجائے گی کہ بدستور دفتر جاتی رہوں یا دفتر سے چھٹی لے لوں۔

٭ دفتر جانے سے گھر، شوہر اور بچوں کو نظر انداز ہوتا دیکھ کر سوچتی ہے کہ میرے لئے گھریلو خاتون کی حیثیت سے رہنا زیادہ اہم ہے یا گھریلو مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ملازمت کرنا۔ اس طرح کے دیگر اختلافات اور مسائل جنم لیتے ہیں جو گھر کا سکون تباہ کرنے اور میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کا سبب بنتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک سروے کیا گیا جس کی روشنی میں درج ذیل باتیں سامنے آئی ہیں۔ اگر ملازمت پیشہ خواتین اس پر عمل کریں تو کافی حد تک گھر اور دفتر کے معاملات میں انصاف کر پائیں گی۔

1۔ ذہنی ہم آہنگی

یہ حقیقت ہے کہ ایک کامیاب گھر صرف عورت کی مرہون منت نہیں بلکہ مرد اور عورت دونوں کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ بنیادی ستون ہے جس پر گھر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔

خدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی اپنا کردار ادا کرنا چھوڑ دے تو عمارت قائم رہنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے، لہٰذا ملازمت پیشہ مرد اور عورت دونوں کا اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور آپس میں جذباتی، مالی اور ذہنی ہم آہنگی کا ہونا از حد ضروری ہے۔

2۔ صحت

ملازمت پیشہ خواتین اپنی صحت کا ضرور خیال رکھیں۔ متوازن غذا لیں کیونکہ انہیں بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ان کی زندگی عام گھریلو خاتون کی زندگی سے کہیں زیادہ احساس ذمہ داری، فرائض کی ادائیگی اور قربانیوں سے لبریز ہوتی ہے۔ ان کے لیے دفتر اور گھر میں توازن رکھنا بالکل ایسا ہے جیسے تنی ہوئی رسی پر چلنا، لہٰذا اپنے کھانے پینے پر توجہ دیں کیوں کہ ’’جان ہے تو جہان ہے۔‘‘ اگر صحت اچھی ہوگی تو خود بھی بیماریوں سے بچ سکیں گی اور دوسروں کی خدمت کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دے سکیں گی۔

3۔ نصب العین

آپ کو اپنی ملازمت کا مقصد متعین کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر آپ کی تمام توانائیاں صرف کرنا بیکار ہوگا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم اپنی جسمانی توانائیوں کو مثبت اور تعمیری کاموں میں صرف کرنے کی بجائے فضول کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں یہ اچھی عادت نہیں، گذرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا، جسمانی توانائی بھی ہر آنے والے دن اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کم ہونے لگتی ہے۔ لہٰذا اپنی ملازمت کا مقصد متعین کرنے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں اس کے حصول کے لیے صرف کریں۔

4۔ ترجیحات

آپ کو بخوبی انداز ہونا چاہیے کہ آپ کی زندگی میں کس کام کی اہمیت زیادہ ہے۔ اگر آپ کے بچے بہت چھوٹے ہیں اور انہیں آپ کی توجہ کی ضرورت زیادہ ہے اور مالی مجبوری بھی نہیں ہے تو گھر سے باہر نکل کر ملازمت کرنے میں جلدی نہ کریں۔ دو چار سال انتظار کریں تاکہ آپ کے بچے سکول جانا شروع کر دیں۔ پھر آپ کے پاس بہترین وقت ہوگا کہ آپ اپنے کیرئیر کا آغاز کر سکیں۔ لیکن آپ پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ ہنرمند، سلیقہ شعار اور ذہین بھی ہیں تو بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ گھر بیٹھے کئی کام کر سکتی ہے مثلاً محلے کی بچیوں کو تعلیم دے سکتی ہیں۔ ان کو قرآن پڑھا سکتی ہیں، گھر میں درس قرآن کا آغاز کر سکتی ہیں۔ اور اگر گھریلو مالی مسائل ہوں تو آپ کسی رسالے یا اخبار میں مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کر سکتی ہیں۔ سلائی کڑھائی آتی ہو تو گھر میں ووکیشنل سنٹر کھول سکتی ہیں۔ الغرض گھر بیٹھے اس قسم کے بے شمار کام کیے جا سکتے ہیں جو آمدنی میں اضافے کا ذریعہ ہوں۔

5۔ نظام الاوقات کی پابندی

گھر سے نکلنے یا دن بھر کے معاملات کا آغاز کرنے سے پہلے اس دن کے معمولات کی تقسیم کار کر لیں۔ اس طرح آپ کی توانائی بحال رہے گی اور آپ خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر ہلکا پھلکا محسوس کریں گی۔ لیکن اگر دن کے کام کاج کی تقسیم کار نہیں کریں گی تو پورا دن محنت و مشقت کے باوجود ذہنی اور جسمانی طور پر ڈسٹرب رہیں گی مثلاً صبح کی مثال لے لیں۔ آپ نے صبح سویرے بیدار ہونے کے ایک دو گھنٹوں کے اندر اپنے بچوں کو اسکول کے لئے تیار کرنا ہے، شوہر کو دفتر روانہ کرنا ہے اور خود بھی تیار ہو کر کام پر پہنچنا ہے۔ اگر یہ تمام کام بیک وقت آپ خود کرنا چاہیں تو آپ کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذہنی اذیت کے ساتھ بچوں سے بھی تلخی ہوگی۔ شوہر کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بالآخر آپ کو اپنے اوپر بھی غصہ آئے گا، کہ کام کر کے بھی اس گھر میں سکون نہیں۔ لیکن اگر آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگا۔ آپ محسوس کریں گی کہ اگر صبح کے کاموں کی پلاننگ رات کو کر لی جاتی تو بہتر تھا۔ یوں سنگین صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ رات کو ہی بچوں اور شوہر کے کپڑے استری کر لیتیں۔ جوتے پالش کرکے رکھتیں۔ صبح اگر ناشتے میں چپاتی بنانی ہے تو آٹا رات ہی گوندھ لیتیں تو صبح ذہنی طور پر آپ فارغ ہوتیں اور ہر کام بڑی آسانی سے بروقت کر پاتیں۔

6۔ گھر کو وقت دینا

کاروبار زندگی چلانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ صرف کاروبار یا دفتر کی ہو کر رہ جائیں، گھر کے دیگر افراد بھی آپ کی محبت اور وقت کے منتظر ہوتے ہیں۔ بڑوں، بزرگوں اور بالخصوص بچوں کو ضرور وقت دیں مثلاً دفتر سے آتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لیتی آئیں اور اپنے رویے سے ان کو باور کروائیں کہ آپ محبت کرنے والی ماں ہیں۔ دفتر کی مصروفیات کے باوجود آپ کو بچوں کا بہت خیال رہتا ہے۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ گھر آتے ہی گھریلو کام نمٹانے کی بجائے کچھ دیر بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ کیونکہ بچوں کے لیے ماں کا گھر آنا باعث مسرت ہوتا ہے۔ ان سے روایتی سوالات مثلاً سکول کا کام مکمل کر لیا ہے کرنے کی بجائے وہ باتیں سنیں جو وہ آپ سے کرنا چاہتے ہیں۔ گھر آکر دفتر کو بھول جائیں صرف شوہر، بچوں اور گھر والوں کے متعلق سوچیے اور پورا وقت گھر کو دیں۔

امید ہے مندرجہ بالا مشوروں پر عمل کر کے ملازمت پیشہ خواتین اپنے گھر، بچوں اور دفتر کے معاملات کے ساتھ کافی حد تک انصاف کر پائیں گی۔