راضیہ نوید

تاریخ پاکستان ایسے درد ناک واقعات سے بھری پڑی ہے جس سے آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں۔ اس ملک کے قیام میں مسلمانوں کی کوششیں، لاکھوں لوگوں کی محنتیں، ہزاروں شہداء کا خون، خواتین اور بچوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ بنا جس کے بعد پورے برصغیر میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کے نعرے گونج اٹھے۔ اقبال کے خواب کو تعبیر کی شکل دینے کے لیے عوام قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اپنی جانون کو ہتھیلیوں پر رکھ کر میدان کار زار میں نکل پڑی۔ مگر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد آج پاکستان تباہی کے دھانے پر کھڑا نظر آتاہے۔ بالعموم پاکستان اور بالخصوص اگر امت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تواس وقت غیرمسلم لابی نے امت مسلمہ کے وجود کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس وقت امت مسلمہ ایک جانب تو ایسے غلط عقائد میں الجھادی گئی ہے کہ ہر شخص اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنے کی بجائے فرقہ واریت کا شکار ہے، دوسری طرف مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے، عراق پر امریکی حملے، افغانستان میں مداخلت، کشمیریوں پر ظلم و ستم، حال ہی میں فلسطین کی سرزمین پر نہتے مسلمانوں کی خون ریزی، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں مسلمان بھائیوں کا آپس میں اپنے خون سے ہاتھ رنگنا، معاشی ابتری، قیادت کا فقدان، دوسروں پر انحصار وغیرہ اس وقت امت مسلمہ کا خاصہ ہیں۔ ایسے حالات میں جبکہ امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تو قانون قدرت یاد آتاہے کہ جب اندھیرا بہت بڑھ جائے تو صبح کا ستارہ ٹمٹاتا ہے اور روشنی پھیلتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی قوم ظلمت کی تاریکی میں بھٹکی ہے تو اللہ رب العزت کسی ایسے مرد کو ضرور بھیجتاہے جو تاریکی میں روشنی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ آج ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ کو کسی ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مغموم چہروں پر مسکراہٹ لا سکے، امت کے پارہ پارہ وجود کو سمیٹ سکے، یزیدی طاقتوں کے سامنے حسینیت کا کردار ادا کر سکے، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد تازہ کر سکے اور اسلام کو سپر پاور بنا سکے۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کسی ایسے ہی مرد حر کا ذکر فرماتے ہیں کہ

’’مرد حر کا دل کلمہ طیبہ کے نور سے روشن ہوتا ہے اور کسی بڑے حاکم اور وڈیرے کے سامنے نہیں جھکتا۔ وہ زندگی کی راہ پر اپنے قدم اتنی مضبوطی سے جماتا ہے کہ اس کے سوز سے منزلیں پگھل کر اس کے نیچے آجاتی ہیں۔ اس کو موت سے حیاتِ جاوداں ملتی ہے اور اس کا نعرہ تکبیر حرف و آواز کا محتاج نہیں ہوتا۔ دین کے رموز ہمارے لیے خبر اور اس کے لیے نظرکا درجہ رکھتے ہیں کہ اس کی رسائی باطن تک ہے جب کہ ہم ابھی تک دروازے سے باہر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ہم غیروں کے دوست اور وقتی مفاد کی خاطر مسجد تک کو بیچ ڈالتے ہیں کہ وہ جام سے سرمست ہے جو اسے میخانہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میسر آئی ہے۔ وہ اپنے سینے میں امتوں کو جوش میں لانے والا نعرہ تکبیر رکھتا ہے اور اس کی پیشانی سے قوموں کی تقدیر پڑھی جا سکتی ہے۔ ہم سب مغرب کے غلام ہیں جب کہ وہ فقط اللہ کا بندہ ہے اور یہ رنگ و بو کا جہان اسے اپنے اندر نہیں سما سکتا۔ ہمارے کام اور زندگی کے مشاغل گمان اور اٹکل پچو باتوں سے باندھے ہوئے ہیں اور وہ کم سخن اور سیرت و کردار سے عبارت ہے‘‘ ۔

مرد حر دریا کی طرح گہرا اور بے کنارہ ہے وہ کسی ندی نالے اور پرنالے سے فیض حاصل نہیں کرتا بلکہ دوسروں کے لیے فیض رساں ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری بھی وہ مرد حر ہے جو اکیسویں صدی میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل دے سکتا ہے، مغموم دلوں کو شادمانی عطا کر سکتا ہے، امت مسلمہ کو ایک جگہ جمع کرسکتا ہے، مسلم کا من ویلتھ جس کا خواب ہے، جو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں سائنس لے کر نئی دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ تاریخ کی کہکشاں میں بہت سی فکر و نظریہ نے لوگوں کو نئی راہ دکھائی تو کسی کے عزم و ہمت نے افراد میں ولولہ پیدا کیا، کسی نے اپنی ایجادات سے دنیا کو نفع پہنچایا تو کسی نے اپنے علم سے لوگوں کو فیض یاب کیا، کسی کے عشق و جنون نے اسے لافانی بنایا تو کوئی اپنی قوت بیان کی بناء پر امر ہوا، کسی کو اس کی شاعری نے دوام بخشا تو کسی نے روحانیت کے ذریعے ابدی زندگی پائی، کوئی اپنے قائدانہ اوصاف کے باعث تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہا تو کسی کی فتوحات نے اسے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رکھا۔ مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک نام، ایک تاریخ، آفاقی قائد، نامور فقہیہ، عظیم المرتبت محدث، علوم اسلامیہ پر کامل دسترس رکھنے والا جلیل القدر عالم دین، زندگی کی نقاب کشائی کرنے والا مدبر، رفیع المرتبت مفسر قرآن، تاریخ کے اسرار و رموز منکشف کرنے والا دانائے راز، ملت اسلامیہ کے دور زوال میں شکوہ ماضی بخشنے والا بطل جلیل، امام ابو حنیفہ کے فکر و تدبر کی پہچان بن کر ابھرنے والا رجل رشید، دلوں پر حکومت کرنے والا بے تاج بادشاہ، علوم جدیدو قدیمہ پر یکساں دسترس رکھنے والا لیڈر جو اپنی ذات میں انجمن لیے، اپنے قلب میں لا تعداد علم کا بحرو ذخائر لیے اور سب سے بڑھ کر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار سینہ لیے ہوئے، جس کی زبان و بیان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاثیر سے فیض ترجمان بن چکی ہے۔ اس دانائے راز کی نظر مسلمانوں کی سیاسی، اخلاقی، معاشی اور مذہبی ابتری کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن صیہونی طاقتوں پر بھی ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی نے سینکڑوں کتب اور ہزاروں خطابات جن میں قرآن و حدیث کے ساتھ طبیعات، حیاتیات، سیاسیات، معاشیات، قانون، علم التقلیم، تقابل ادیان، تنقید، سوانح، تاریخ، نفسیات، فلسفہ، بین الاقوامی سیاسیات، قرآنی فلسفہ انقلاب، حتیٰ کہ دنیا کے ہر موضوع پر گفتگو فرمائی۔ آپ کی ان علمی خدمات کا کوئی ذی شعور انسان جھٹلا نہیں سکتا۔ پھر صرف یہی نہیں بلکہ تحریک منہاج القرآن کی صورت میں ایسی فکر کی بنیاد رکھی جو واضح، مضبوط اور نتیجہ خیز ہے۔ آپ نے تاریخ میں تیار ہونے والی تمام تحریکوں اور انقلاب کا مطالعہ کرنے کے بعد قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام تفصیلات، شرائط اور تقاضوں کے ساتھ قرآنی فلسفہ انقلاب کو بیان کیا۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری روایتی علماء سے ہٹ کر نہ صرف معاشرتی حالات کا مکمل علم رکھتے ہیں بلکہ بین الاقوامی حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں جس کی مثال ہمارے سامنے ان کی کتاب"نیو ورلڈ آرڈ اور عالم اسلام" کی صورت میں موجود ہے۔ ان کی شخصیت کی نمایاں خصوصیت وسیع النظری اور میانہ روی ہے۔ انہوں نے کبھی کسی دینی جماعت یا مذہبی قیادت کو تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان کے نزدیک ہر وہ جماعت اور قیادت قابلِ احترام ہے جو ملک و قوم کے مفاد کے لیے مصروف عمل ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی اٹھاون سالہ زندگی میں ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد کی بات کی ا ور مسلمانوں کو سپرپاور بنانے کا خواب دیکھا۔ بالخصوص پاکستان، پاکستانی معاشرے اور عالم اسلام کی زبوں حالی کا ایسا درد، فکر اور پریشانی ہے کہ بسا اوقات وہ کئی کئی گھنٹوں تک روتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس وقت ایسی قیادت ہیں جو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا Visionرکھتے ہیں اور اسلام کو ایک پاور بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے بارے میں جناب جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "ڈاکٹر محمد طاہر القادری ملت اسلامیہ کا بلاشبہ ایک گراں بہا اور ایک گراں قدر سرمایہ ہیں۔ جن کی فکرنے جگہ جگہ ہدایت کے چراغ روشن کردیے ہیں"۔ (سیارہ ڈائجسٹ)

الغرض اکیسویں صدی کا قائد وہی ہو سکتاہے جو مرد مومن اور مرد کامل ہو، جو دنیا کی امامت و قیادت کا فریضہ سنبھال سکتاہو، جو تہذیب وتمدن کا رخ اسلام کی طرف موڑ سکے، جو گرم گفتگو دم جستجو ہو، صلح و جنگ میں مثالی ہو، خوددار، غیور، نڈر اور بہادر ہو، جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایمانِ جلالی، علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی قوت، ابور ذر کا فقر و استغناء اور سلمان علیہ السلام کا صدق و صفا رکھتاہو، جسے ایک طرف ملکی حالات اور دوسری جانب بین الاقوامی حالات سے مقابلہ کرنا آتا ہو، ایک ایسی قیادت جس کا سر سوائے اللہ رب العزت کی بارگاہ اور درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہیں اور نہ جھکتا ہو۔ اگر ایسی قیادت کہیں موجود ہے تو وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے جنہیں بلاشبہ انھیں آفاقی قائد کہا جا سکتا ہے۔