حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کا منہاج تعلیم و تربیت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

محمد عمر حیات الحسینی

حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے سوانح حیات، سیرت و کردار، اطوار و عادات اور فضائل و کمالات کے بارے میں آپ کے ہم عصر اکابرین و عمائدین اور برگزیدہ شخصیات کی واضح شہادتیں مجلہ منہاج القرآن کے خصوصی نمبر کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ خاکسار کو حضرت والا سے ملاقات و زیارت کا شرف تو حاصل نہیں لیکن آپ کے تربیت یافتہ جگر گوشہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے آئینے میں ان کی فکرو شخصیت کے خدوخال ضرور دیکھے ہیں۔ ’’شاگرد اور بیٹے‘‘ میں باپ کا علم ہی نہیں سیرت و کردار بھی جھلکتی ہے۔ پھر حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے زیر مطالعہ رہنے والی ہزاروں کتابوں کو دیکھنے کی سعادت بھی میسر آئی۔ مکتبہ فریدیہ قادریہ کی کتب پر حضرت کے اہم نوٹس و حواشی کا بہ دقت نظر مطالعہ کیا ہے۔ فکر و تحقیق مجرد دماغ سوزی نہیں بلکہ صاحب علم و تحقیق کے شخصی کردار اور سماجی رویوں کا مظہر بھی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کتابوں پر نوٹس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ علم و تدریس اور طرز عمل کیا تھا فرزند ارجمند کے الفاظ و معانی خود حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصی عظمت، علمی رفعت اور شخصیت و کردار کی غمازی کرتے ہیں۔

’’ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد گرامی قدس سرہ العزیز کے بارے میں فرمایا کرتے ہیں کہ ’’حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ میرے صرف باپ ہی نہیں بلکہ میرے نکتہ رس مربی، عظیم استاد، باریک بین شیخ اور میری زندگی کے ہر پہلو میں ہادی و رہنما تھے۔ ان کی ذات گرامی میرے لئے سب کچھ تھی۔ ان کا محققانہ اور معتدل مسلک و مزاج میرا آئیڈیل ہے۔ بغدادی قاعدہ سے لے کر دورہ حدیث تک تمام علمی و دینی علوم میں ان سے تلمذ و رہنمائی کا شرف حاصل رہا‘‘ ۔

حضرت فرید ملت قدس سرہ العزیز کی عظمت کے اعتراف کے لئے اتنا کافی ہے کہ جس کے فیضان علم و تربیت نے عالم اسلام کو شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک گوہر نایاب دیا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کا ماحصل ایک ایسی شخصیت میں دیا ہے کہ جن پر تجدید کا سہرا سج رہا ہے۔ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جگر گوشہ کی تربیت کچھ اس انداز میں فرمائی کہ وہ ’’الولد سر لابيه‘‘ کا مصداق ہیں۔

حضرت فرید ملت کے علوم و معارف کے فہم و ادراک کے لئے ضروری ہے کہ تربیت یافتہ صاحبزادے اور شاگرد کی گہرائی و گیرائی کا مطالعہ کیا جائے کیونکہ بیٹا اور شاگرد اپنے باپ اور استاد کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ جب ہم حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان تربیت کے شاہکار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت، ابن تیمیہ، ابن حجر، عینی، ابن ہمام، ابن عربی جیسی نکتہ رسی، دقیقہ سنجی اور ژرف نگاہی دکھائی دیتی ہے۔ جس سے وہ حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تصوف و طریقت کے حامل نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی طلاقت سے معمولی بات کو رازی کا فلسفہ، غزالی کا نکتہ، ابن حجر کا دقیقہ اور ابن ہمام کا شگوفہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ میرے غور و فکر کی بنیادی نہج ابا جی قبلہ کے فیضان تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ علت و معلول سبب و مسبب کی اس طویل کائنات میں خود مسبب الاسباب نے ہر چیز کو وابستہ اسباب کر دیا ہے۔ مقبولیت و مردودیت بلاشبہ خدائے قادر قدیر کی جانب سے ہے مگر رد و قبول کے ظاہری اسباب بھی ضرور ہوتے ہیں۔ ہر صاحب علم و فن کے ایک عروج و کمال کا دور ہوتا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے اس کے ساتھ اس کا علم و فن بھی زمین دوز ہو جاتا ہے۔ دیکھنے والوں نے بار ہا دیکھا کہ نام نہاد لوگوں کی مسندیں الٹ گئیں اور ان کے حلقوں کی ایک ایک کڑی بکھر گئی مگر جسے علم و فن کہئے یا جامعیت و عبقریت نام رکھئے سالوں کے الٹ پھیر کے باوجود وہ کہنگی سے آشنا نہیں۔ آئے دن دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کا تربیت یافتہ پودا اب ایک گھنا سایہ دار درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ان کی تصانیف، مآثر علمیہ اور جیتے جاگتے تلامذہ کا طویل سلسلہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کی یاد اور ان کے ذکر و فکر سے ماحول کو لبریز کر رہا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد گرامی حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فن کو پائندگی دے رہے ہیں اور آپ کو دیکھ کر آج کا علمی طبقہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کی علمیت کو تسلیم کر رہا ہے۔

عرب و عجم کے بعض مشاہیر جو دوسروں کے کمالات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے وہ آج ان کے پروردہ تربیت کی انفرادیت کا کشادہ دلی سے اعتراف کر رہے ہیں۔

حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث اور اسلامی علوم خود پوری بالغ نظری سے مطالعہ کئے اور پھر رسوخ کے ساتھ اپنے جگر گوشہ کو پڑھائے۔ قرآنی معارف سورج کی طرح روشن و منور تھے اور قرآنی مفاہیم کی گرہ کشائی کا درس اس انداز میں دیا کہ ترجمہ عرفان القرآن کے لفظ و معنی کے ربط میں حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کی روح جھومتی دکھائی دیتی ہے۔ احادیث کا مآخذ قرآن کی آیات سے جیسے واضح کیا جا رہا ہے اور مختلف احادیث میں تطبیق کی دلآویز شرح ’’المنہاج السوی‘‘ سے اقوال متعارض نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مطابقت لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی روح اپنے فیض تربیت کے اس انداز درس حدیث سے سرشار ہو رہی ہوگی اور عالم برزخ میں کیف و لذت پا رہی ہوگی۔ قرآن و حدیث کے تمام بیانات کو سامنے رکھ کر مسئلہ کی ایسی تنقیح کہ جس سے چاروں فقہاء اپنے افکار و نظریات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے قریب نظر آتے ہیں یہ اندازِ فقہ و اصول فقہ اور افتاء کا ایسا منہج ہے جو حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پروردہ نگاہ کو اس طرح پڑھایا کہ آج جب الجھی گھتیاں سلجھا رہے ہیں تو عالم برزخ میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی روح مستی میں مزید لافانی برکات کے لئے دعائیں مانگتی ہوگی۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ بیدار مغز دانش ور تھے اور وہ تمام ممتاز اہل علم کی خصوصیات سے کماحقہ آگاہ تھے۔ ہر اہل علم کے علمی تفوق کو بصدق دل تسلیم کرتے تھے۔ ساتھ ہی ان کی علمی کمزوریوں کی بھی نشاندہی کرتے۔

حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ مستحکم حنفی ہونے کے باوجود دوسرے ائمہ رجال علم کے کمالات کو تسلیم کرنے میں فراخ دل تھے۔ انہوں نے اپنے پروردہ نگاہ کو ہر میدان میں طاق کیا۔

تحریک منہاج القرآن کے اندرون و بیرون ممالک تاباں و تابناک علمی و فکری نیٹ ورک کو دیکھ کر خود چشم فلک بھی مبتلائے حیرت ہے۔ پروردہ نگاہ فرید رحمۃ اللہ علیہ بہ یک وقت جلائے باطن کا سبق دے رہے ہیں۔ فکر کو مستقیم، عقائد میں واضحیت، اعمال میں تطہیر اور دانش و بینش کی تقسیم کر رہے ہیں، فلسفہ و منطق کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ فقہ و ادب میں انفرادیت کا منہاج متعین کرتے جا رہے ہیں۔ اسرار قرآنی اور رموز ربانی کی ایسی نقاب کشائی کر رہے ہیں جس سے وجدان جھوم جھوم جائے۔ یہ سب کچھ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کا فیضان علم تموج پذیر ہے۔ کسب و اکتساب اور اخذ و قبول کا سارا منہاج انہی کے ذوق تربیت کا مرہون منت ہے۔

ذوقِ مطالعہ

حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیان فرماتے ہیں کہ ابا جی قبلہ کو مطالعہ کا ذوق عشق کی حد تک تھا۔ کھانے اور آرام کے وقفے کے دوران بھی مطالعہ جاری رہتا تھا۔ مکتبہ فریدیہ قادریہ کی ہزاروں کتب میں کوئی کتاب ایسی نہیں جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو۔ ورق گردانی ان کا وظیفہ حیات تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ فارغ التحصیل یعنی حصول سند کو کبھی منتہائے مقصود نہیں سمجھنا چاہئے۔ فراغت کا حاصل صرف اتنا ہے کہ اس کے بعد طالب علم میں قوت مطالعہ پیدا ہو جاتی ہے اور علم کا دروازہ کھل جاتا ہے اب یہ فارغ ہونے والے طالب علم کا کام ہے کہ وہ علم کے چند کُلیوں پر قناعت کرنے کے بجائے اس دروازے میں داخل ہو اور اس قوت مطالعہ کو کام میں لاکر علم میں وسعت و گہرائی و گیرائی پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہمہ وقت مطالعاتی انہماک و استغراق میں رہتے ہیں۔

حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے ذاتی کتب خانہ میں تمام علم و فن پر بنیادی کتابیں موجود تھیں۔ حضرت کی ذاتی لائبریری صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسرے اہل علم کی بھی علمی پیاس بجھاتی تھی۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے نامی گرامی علمائے کرام کو جب کسی مسئلے کی تحقیق کرنی ہوتی تو وہ آپ کے ہاں تشریف لاتے اور ہفتوں کتابوں کی ورق گردانی کا سلسلہ جاری رہتا تھا جب کبھی حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کسی جگہ تشریف لے جاتے اور وہاں کچھ کتابیں نظر پڑ جاتیں تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ آپ ان پر ایک نظر ڈالے بغیر گزر جائیں اور کوئی کتاب پہلے ہی سے دیکھی ہوئی ہوتی تو خیر ورنہ کتنی ہی جلدی کا وقت ہوتا اسے الٹ پلٹ کر دیکھنا لازمی تھا۔ پروردہ نگاہ فرید رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں کوئی نئی کتاب لے کر آتا تو ابا جی قبلہ اسے چند روز اپنے قریب رکھتے اور خواہ کتنی مصروفیات میں الجھے ہوئے ہوں اس کے مطالعے کے لئے وقت نکال لیتے تھے۔ مختلف علوم سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دلچسپی کے مختلف ادوار گزرے ہیں۔ آغاز میں ادب، معقولات یعنی منطق، فلسفہ، کلام اور ہیئت میں دلچسپی تھی۔

آخری عمر میں آپ کو سب سے زیادہ ذوق اور سب سے زیادہ شغف علم تصوف کے ساتھ ہوگیا تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ دل یوں چاہتا ہے کہ اسی ذوق میں عمر تمام ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ آرزو پوری فرمائی اور سلوک و تصوف ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ کا آخری محور فکر ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے والد گرامی کی تربیت نے علم کی اتنی پیاس کردی تھی کہ آپ کو اپنی کتابوں کے علاوہ کسی چیز کا ہوش نہ ہوتا۔ نہ اپنے کپڑوں کی خبر، نہ جان کی، ایک علم کی لگن ہوتی تھی۔

چنانچہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پروردہ نگاہ کو آغاز سے ہی اس انداز سے پروان چڑھایا یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور بزرگوں کی عظمت و عقیدت ان کے رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے، لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ آپ کبھی اس عقیدت کو مسائل کی تحقیق و تنقید میں حائل نہیں ہونے دیتے اور نہ کبھی اپنی تنقید سے کسی کی عظمت و عقیدت پر حرف آنے دیتے ہیں۔

معقولات کی تدریس

صرف و نحو، ادب، فقہ اور معقولات یعنی منطق، فلسفہ، کلام، ہئیت اور ریاضی کے علوم میں بھی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کامیاب مدرس تھے۔ چونکہ انہوں نے یہ علوم ایسے اساتذہ سے پڑھے تھے جو اپنے وقت میں معقولات کے امام سمجھے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان علوم میں بھی راسخ استعداد عطا فرمائی تھی چنانچہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ جب آپ معقولات کے ماہر کی حیثیت سے معروف ہوئے لیکن ساتھ ہی اہل اللہ اور مرشد کی تعلیم و تربیت اور ان کی صحبت کے اثر سے یہ حقیقت ان کے ذہن و قلب سے پیوست ہوگئی کہ یہ علوم ایک طرف تو مقصود بالذات نہیں بلکہ محض آلے اور وسیلے کی حیثیت رکھتے ہیں اور دوسری طرف ان علوم میں اجتہاد کا باب بہت وسیع ہے اور ان میں فلاسفہ کے فتوؤں کی تقلید ضروری نہیں۔ پروردہ نگاہ کو ان علوم کی تدریس کے دوران صرف کتاب کو سمجھانے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ زیر بحث مسائل میں اپنی تحقیق سے بھی روشناس فرماتے تھے۔ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک معقولات کی تدریس میں جب انہماک زیادہ ہو جائے تو بعض اوقات یہ حقیقت نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ ان کو پڑھنا پڑھانا بذات خود مقصود نہیں۔ بلکہ منطق تو محض آلہ ہے اور فلسفہ اس لئے پڑھایا جاتا ہے کہ ایک عالم دین کو ان نظریات کا صحیح علم ہو جو دین کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں اور پھر وہ ان کی مدلل و موثر تردید و تغلیط کر سکے۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے منطق و فلسفہ کا درس دیتے ہوئے یہ حقیقت طلبہ کے ذہن نشین کرا دی کہ ان عقلیات میں بذات خود کچھ نہیں رکھا اور اگر انسان کو وحی ربانی کا نور ہدایت حاصل ہو تو وہ ان عقلی گھوڑوں سے کبھی مرعوب نہیں ہو سکتا۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ جس طرح ہمارے قدیم متکلمین نے یونانی فلسفے میں مہارت حاصل کرکے اس کی تردید و تغلیط فلسفیانہ زبان ہی میں کی تھی، اسی طرح موجودہ دور کے علماء کو جدید فلسفہ میں مہارت حاصل کر کے وہی کام از سر نو انجام دینا چاہئے، اس غرض کے لئے انہوں نے اپنے پروردہ نگاہ کو جدید فلسفہ کے لئے درس بھی دیا تھا۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ خواہش ضرور تھی کہ ایسے دانش ور پیدا ہوں جو جدید فلسفہ پر مکمل دسترس حاصل کر کے عہد جدید کا نیا تہافۃ الفاسفہ تصنیف کر سکیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنے پروردہ نگاہ کو جدید تعلیم دلوائی۔

فقہ و اصول فقہ کی تدریس

علوم متداولہ میں فقہ اور اصول فقہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کو ان سے بڑی مناسبت عطا فرمائی تھی۔ اسی مناسبت طبعی کا نتیجہ ہے کہ اپنے پروردہ نگاہ کی ان دونوں علوم میں ایسی مناسبت پیدا کی کہ اکابر اہل علم نے بجا طور پر حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ’’فقیہ النفس‘‘ کا لقب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ خاص عطا ہے اور ظاہری اسباب میں اس طرز عمل کا نتیجہ ہے جو حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار فرمایا تھا اور وہ فطری طور پر ان کے جگر گوشہ میں بھی منتقل ہوا ہے جو بندہ کی رائے میں یہ چار چیزیں ہیں۔

1۔ پیہم محنت 2۔ للہیت 3۔ بزرگوں کی صحبت 4۔ مسلسل مطالعہ

ان چاروں باتوں کے مکمل اہتمام کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دونوں استاد اور شاگرد باپ اور بیٹے کو فقہ و اصول فقہ میں وہ مقام بخشا ہے کہ جس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔

فقیہ النفس

’’فقیہ النفس‘‘ فقہاء کی ایک اصطلاح ہے اور اس سے مراد وہ آدمی ہوتا ہے جسے اللہ رب العزت نے فقہ و اصول فقہ میں کثرت ممارست و مہارت کے بعد ایک ایسا ذوق سلیم عطا فرما دیا ہو کہ جس کی روشنی میں وہ کتابوں کی مراجعت کے بغیر بھی صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہو مجھ جیسے کمترین بے علم و عمل طالب علم کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ کسی کے بارے میں فقیہ النفس ہونے کا فیصلہ کرے۔ کیونکہ فقیہ النفس کی پہچان بھی انہی لوگوں کا حصہ ہے جنہیں اللہ رب العزت نے تبحر علمی سے نوازا ہو۔ لہذا میری یہ مجال نہیں ہے کہ میں فقیہ النفس پر کوئی تبصرہ کروں، الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی، شیخ محمد ابوالخیر الشکری اور الشیخ شہاب الدین احمد فرفور جیسے ارباب کمال نے پروردہ نگاہ فرید رحمۃ اللہ علیہ کو ’’فقیہ النفس‘‘ کا خطاب دیا ہے۔

پروردہ نگاہ فرید کو اصطلاحاً فقیہ النفس کہنا تو شیخ الصاغرجی یا انہی کے پائے کے کسی عالم کا مقام ہے، تاہم اتنی بات ضرور ہے کہ پروردہ کے یہ محامد استاد کی علمی لیاقت پر دال ضرور ہیں۔

فقاہت اور افتاء

پروردہ نگاہ فرید رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت اور افتاء کی باریک بینی کے پس منظر میں حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کی فقاہت کے بارے میں کچھ عرض کرتا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محض فقہاء کی کتب کی جزئیات یاد کر لینے سے کوئی عالم یا مفتی نہیں بنتا۔ ایسے بہت سے حضرات موجود ہیں کہ جنہیں فقہی جزئیات ہی نہیں ان کی عبارات بھی ازبر ہیں لیکن ان میں فتوی کی مناسبت نظر نہیں آتی۔ وجہ یہ ہے کہ درحقیقت ’’فقہ‘‘ کے معنی سمجھ کے ہیں اور فقیہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ عطا فرما دی ہو اور یہ سمجھ محض وسعت مطالعہ یا فقہی جزئیات یاد کرنے سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے کسی ماہر فقیہ کی صحبت اور اس سے تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ پروردہ نگاہ فرید کے فقہی اور افتائی ذوق اور ممارست کے محاسن پر بہ دقت نظر غور و فکر کیا جائے تو حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ و افتاء کے باب کے نقوش نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہ کیا باتیں ہیں جو محض مطالعہ یا فقہی جزئیات یاد کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ اگر یہ باتیں بیان میں آسکتیں تو پھر انہیں سیکھنے کے لئے کسی سے تربیت لینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اب ان کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ انہیں منضبط شکل میں مدون نہیں کیا جا سکتا اور نہ متعین الفاظ میں ان کی تعبیر و تشریح ممکن ہے۔ ان باتوں کے حصول کا طریقہ ہی یہی ہے کہ کسی ماہر فقیہ کے ساتھ رہ کر اس کے انداز فکر و نظر کا مشاہدہ کیا جائے۔ اس طرح مدت کے تجربے اور مشاہدہ سے وہ انداز فکر و نظر خود بہ خود زیر تربیت شخص کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جیسا کہ پروردہ نگاہ فرید میں وہ انداز فکر ودیعت ہوا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’اسباب اختلاف الفقہاء‘‘ اور ’’عقدالجید‘‘ میں تقلید و اجتہاد کا جو موقف بیان کیا ہے یہی ذوق اور یہی مسلک حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے زیر تربیت جگر گوشہ میں بیدار کیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فقہائے امت کے کلام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کے قانونی مقتضیات پر غور و فکر کر کے کوئی نتیجہ نکالا جائے، ان میں سے کسی ایک احتمال کو اختیار کرنے میں ایک فقیہ اور مفتی کو اپنی بصیرت سے کام لینا پڑتا ہے، بعض اہل علم کسی لفظ کے قانونی مقتضیات کو متعین کرنے میں اس کے لغوی مفہوم اور ٹھیٹھ منطقی نتائج کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس سے مسئلہ کی علت اور اس کا صحیح سیاق و سباق پس پشت چلا جاتا ہے اور بعض دیگر ارباب علم اس لفظ کے ٹھیٹھ منطقی نتائج پر زور دینے کے بجائے اس سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہیں جن میں وہ بولا گیا ہے، خواہ اس سے لفظ کے منطقی نتائج پورے نہ ہوں۔ پروردہ نگاہ فرید رحمۃ اللہ علیہ کا مزاج و مذاق ان دونوں کے درمیان ہے۔ کیونکہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ پیشہ کے اعتبار سے حکیم و طبیب تھے اور انہوں نے فقہ و فتاویٰ کے میدان میں بھی ایک ماہر حکیم و دانا کے طور پر بیمار لوگوں کا جسمانی و روحانی کا علاج معالجہ کیا۔ بعض اوقات زمانوں کے اختلاف سے حکم بدل جاتا ہے اور یہ قانون تلفیق بعض طبائع قبول نہیں کرتیں اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ علماء اپنی مرضی سے احکام شریعت میں احکام کی تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں بلکہ حالات کے لحاظ سے نسخے اور تدبیر کی تبدیلی ہوتی ہے جیسے کسی علاقے پر کسی وباء کے مسلط ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اطباء ایسی تدبیر بتاتے ہیں جن سے اس دباؤ کو روکا جا سکے، لیکن جب وباء آجاتی ہے تو پھر معالجین کی تدبیریں بدل جاتی ہیں اور اس وقت ایسے نسخے بتائے جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ بیماری آنے کے بعد شفا حاصل ہو۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جگر گوشہ کو تعلیم انگلش میڈیم سکول میں دلوائی۔ کیونکہ جدید علوم و فنون یا کسی زبان کی تحصیل کو بذات خود کبھی کسی نے حرام نہیں کہا۔ لیکن اس وقت چونکہ حضرت فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ میرے لخت جگر نے جس دور میں تحریک اٹھانی ہے اس کے تقاضے کیا ہوں گے؟