اولاد کی تعلیم و تربیت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

مسز فریدہ سجاد

اللہ تعالیٰ نے اہلِ خانہ اور اولاد کی تربیت سے متعلق قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا

(سورة التحريم، 66 : 6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ‘‘

اس کے بعد پھر فرمایا :

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌO

(الطور، 56 : 21)

’’اور جو لوگ ایمان لائے اور اُن کی اولاد نے ایمان میں اُن کی پیروی کی، ہم اُن کی اولاد کو (بھی) (درجاتِ جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے (خواہ اُن کے اپنے عمل اس درجہ کے نہ بھی ہوں یہ صرف اُن کے صالح آباء کے اکرام میں ہوگا) اور ہم اُن (صالح آباء) کے ثوابِ اعمال سے بھی کوئی کمی نہیں کریں گے، (علاوہ اِس کے) ہر شخص اپنے ہی عمل (کی جزا و سزا) میں گرفتار ہوگاo‘‘

بچوں کی تربیت سے متعلق معلم انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے۔‘‘ (محمد بن احمد صالح، الطفل فی الشریعۃ الاسلامیۃ : 74)

اسلام نے والدین کے لئے یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں۔ یہ والدین کی تربیت ہے جس سے اولاد کی دنیا اور آخرت بنتی اور بگڑتی ہے۔ جس طرح جڑ کے بغیر پھل، پھول، برگ و بار کا کوئی تصور نہیں اسی طرح اچھے والدین کے بغیر صالح اولاد کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف مراحل حیات میں انسانی شخصیت اس کا کردار، سوچ، عمل، رد عمل اور رحجانات سب کچھ اسکی ابتدائی تربیت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ جو خیالات، عقائد، نظریات اور رحجانات بچپن میں پختہ ہوجاتے ہیں انسان کی ساری زندگی انہی کے تابع ہو کر رہ جاتی ہے۔ گویا انسانی زندگی میں والدین کی طرف سے ملنے والی ابتدائی تربیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

چنانچہ جہاں ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے جو انسانی شخصیت کی بنیاد بنتی ہے وہاں شعور کی پختگی، زاویہ نگاہ کی وسعت اور عملی زندگی میں کامیابی کے لائحہ عمل کے لئے والد کی مسلسل رہنمائی اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

آج اگر ہم اپنے معاشرے میں نگاہ ڈالیں تو والدین اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم یا کسی ہنر سے بہرہ ور کرانے میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جائے، ڈاکٹر، انجینئر یا پھر کامیاب بزنس مین بن جائے۔ بعض والدین اپنی بھر پور محنت، لگن اور خوش قسمت ہونے کی وجہ سے کسی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اکثر دینی گھرانوں میں بھی والدین اپنی اولاد کی ظاہری و باطنی تربیت کے باب میں ان کو دینی اقدار سے روشناس کرانے اور ایمان، اعتقاد اور عمل صالح پر کار بند رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں، نتیجتاً ان کی اولاد نہ صرف اپنے ہاتھوں سے نکلتی ہوئی بلکہ دین سے بہت دور ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

شیخ الاسلام نے اس کی دو وجوہات بیان فرمائی ہیں، پہلی وجہ یہ کہ در حقیقت اولاد نے گھر میں اپنے والد کے قول و فعل میں دین کا وہ جوہر نہیں دیکھا ہوتا، جو وہ ان کو دینا چاہتا ہے جس کے باعث والد کی تربیت اولاد پر اثر انداز نہیں ہوتی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر والد خود صاحب توفیق، صاحب استقامت ہو اور اسکا اپنا عمل، کردار اور حال بھی اچھا ہو۔ لیکن اس نے اپنی اولاد کو پچپن ہی سے انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ دین کی راہ پر نہیں چلایا یعنی اولاد کی تربیت کا حق ادا نہیں کیا۔ وہ خود کو ساری زندگی دوزخ کی آگ سے بچاتا رہا، مگر اولاد کو دوزخ سے بچانے کی فکر نہ کی۔ اس نے انہیں دنیا تو سکھائی، مگر دین نہیں سکھایا، دنیا کمانا تو سکھایا مگر آخرت کمانے کی فکر پیدا نہیں کی تو پھر اولاد خود بخود کیسے دیندار بن سکتی ہے؟

الحمد اللہ۔ اگر ہم شیخ الاسلام کو دیکھیں تو ان پر اللہ رب العزت کا خاص لطف و کرم اور اس کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص عنایت ہے۔ آپ ظاہر، باطن کا آئینہ دار ہیں، آپ کے قول و فعل میں قابل رشک مطابقت اور موافقت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ آپ نے اپنی اولاد کے سیرت و کردار میں صالحیت اور تقوی و طہارت کا حسن پیدا کرنے کے لئے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اپنی زندگی کے تمام معاملات کو ان کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا ہے۔

آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اگرچہ اسلام کے عظیم آفاقی پیغام اور تحریک منہاج القرآن کے عظیم مشن کی ترویج اور اس کی ہمہ جہت اشاعت میں صرف ہوتا ہے لیکن بحیثیت ایک والد کے آپ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اولاد کی تعلیم و تربیت سے کبھی بھی غافل نہیں رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کی اولاد بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کے علوم سے مزیّن نظر آتی ہے۔

آپ کی تربیت سازی میں یہ پہلو قابلِ توجہ ہے کہ آپ ظاہر و باطن کے نظام تعلیم و تربیت میں مذہبی سائینٹفک، قدیم و جدید اور سوشل سائنسز پر مشتمل تمام علوم کو یکجا کر کے ایک اسلامی شخصیت کی تشکیل کے حق میں ہیں۔ آپ کے نزدیک علم اور تعلیم محض خواندگی (Literacy) کا نام نہیں ہے کہ اولاد تھوڑا یا زیادہ پڑھ لکھ جائے یا مختلف پیشہ وارانہ تعلیم پر کم یا زیادہ عبور حاصل کرلے، بلکہ علم تو ایک سمندر ہے۔ جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَوْقَ کُلّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ. (یوسف، 12 : 79) یعنی ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ الاسلام اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے میں مصروف ہیں۔ اس درجہ توجہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کے والد گرامی حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ جو نہ صرف ڈاکٹر تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اعلی پایہ کے متبحر عالم بھی تھے، علوم دینیہ، کلاسیکل سائنسز، اور علوم عربیہ میں اپنے وقت کی اتھارٹی سمجھے جاتے تھے، انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کی تربیت ایسے مثالی ماحول میں کی، جو ہمہ گیر اور ایک ہمہ جہت شخصیت کی پرورش کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکتا تھا۔

آپ نے اتباعِ احکامات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے والد گرامی کے انداز تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی جو تعلیم و تربیت فرمائی ہے۔ وہ تربیت اولاد کے باب میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس انداز تربیت کے چند گوشے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔

٭ آپ کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ آپ جب قرآن حکیم کا ترجمہ و تفسیر یا تصانیف و تالیف کا کام رہے ہوتے ہیں تو دوران مطالعہ جب آپ کسی خاص آیت یا حدیث مبارکہ پر پہنچتے ہیں جس میں ہدایت یا نصیحت کی بات ہو تو آپ بیگم صاحبہ اور بچوں کو سٹڈی روم میں اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور پھر وہ آیت یا حدیث مبارکہ پڑھ کر سناتے اور اس پر عمل کی تلقین فرماتے ہیں۔

٭ جب آپ پاکستان میں ہوتے ہیں تو ہمیشہ کھانا اپنے اہل و عیال کے ساتھ مل کر تناول فرماتے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے بچوں کی تربیت بھی فرما رہے ہوتے ہیں مثلا کھانے کے دوران آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک بیان کرتے ہیں۔ ’’عمر بن ابو سلمہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنا بچپن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں گزارا، کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ برتن کے تمام اطراف میں گھومتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : ’’اللہ کے نام سے آغاز کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے لقمہ اٹھاؤ، اس کے بعد میرے کھانے کا یہی طریقہ رہا‘‘

(بخاری، الصحيح، 5 : 2056، رقم : 5061)

شیخ الاسلام کے اس انداز تربیت سے تمام بچے بخوبی سمجھ جاتے کہ آپ ہمیں کیا سمجھانا چاہتے ہیں۔

آپ جب کبھی بچوں کی مجلس میں جائیں تو باپ کی حیثیت سے نہیں بلکہ دوست کی حیثیت سے بیٹھتے ہیں۔ دوران گفتگو اگر بچوں میں کسی کو چھینک آجائے تو آپ بچوں کو بڑے محبت بھرے انداز سے بتاتے ہیں کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ کہے، اور اس کا بھائی یا دوست (جو بھی سنے) وہ جواباً ’’يَرْحَمُکَ اﷲ‘‘ کہے اور جب اس کا بھائی ’’يَرْحَمُکَ اﷲ‘‘ کہے تو پھر وہ کہے ’’يَهْدِيْکُمْ اﷲُ وَيُصْلِحْ بَالَکُمْ‘‘ اللہ تعالی تمہیں ہدایت دے اور تمہارے حالات کو سنوارے۔ (بخاری، الصحيح، 5 : 2298، رقم : 5870)

٭ رمضان المبارک میں پہلے دو عشروں میں آپ کا معمول یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے اہل و عیال کے ساتھ گھر میں باجماعت نماز تراویح ادا کرتے ہیں اور نماز تراویح خود پڑھاتے ہیں۔ آپ نے کبھی بھی بچوں کی تربیت سختی سے نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اولاد کی بچپن میں کی گئی حکمت پرمبنی تربیت ان کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔

٭ شیخ الاسلام کا یہ بھی معمول ہے کہ گھر میں اگر کوئی فیصلہ کرنا ہوتا تو آپ اپنے اہل خانہ کے تمام افراد بشمول چھوٹے بچوں کو، یہاں تک کہ اپنے پوتے حماد مصطفی المدنی کو بھی بٹھا لیتے ہیں اور صورتحال سب کے سامنے واضح کرکے ڈسکس کرتے ہیں اور باری باری سب کی رائے لے کر مشاورت کے بعد فیصلہ فرماتے ہیں۔ آپ نے کبھی بھی بطور باپ یا فیملی سربراہ ہونے کی حیثیت سے فیصلہ نہیں سنایا۔

آپ کے نزدیک بچے تربیت کے مرحلے میں ہوتے ہیں۔ ان کو اگر شامل نہیں کریں گے تو انہیں معاملات کو سمجھنا، ان کی جانچ پڑتال کرنا اور ان کا جائزہ لینا کیسے آئے گا؟ شیخ الاسلام کے اس عمل سے بچوں کی تربیت کے تین اصول ظاہر ہوتے ہیں۔

  1. گھر کے ماحول میں جمہوریت کی فضا ہونی چاہیے تاکہ ہر فرد اپنی سوچ، عقل اور تجربے کی بناپر رائے دے سکے۔
  2. تمام بچوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے یعنی کچھ بچوں کو باخبر اور کچھ کو بے خبر نہیں رکھنا چاہیے۔
  3. بچوں کی روحانی، اخلاقی، جسمانی اور ذہنی نشوونما پر توجہ دینی چاہیے تاکہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو اور ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔

٭ آپ کی تربیت کا ایک خوبصورت انداز یہ ہے کہ آپ بچوں کی چھوٹی چھوٹی مثبت باتوں پر ان کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں حتی کہ اگر کبھی آپ کے چھوٹے پوتے شیخ احمد مصطفی العربی بھی آپ کے سٹڈی ٹیبل سے کوئی کرسٹل ماسٹر پیس بھی اٹھا لیں تو آپ اس دو سالہ چھوٹے بچے کو بھی یہ نہیں فرماتے کہ بیٹا اسے رکھ دو۔ یا یہ چیز ٹوٹ جائے گی۔ بلکہ آپ بڑے ہی پیار بھرے انداز میں فرماتے ہیں :

Shaykh Ahmad, Is it Possible? can you put it Back Please!

اور جب وہ واپس رکھ دیتا ہے توآپ تالی بجاتے ہوئے اس کی اتنی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ اب اس بچے کا یہ عالم ہے کہ وہ خود کتاب اٹھا کر قائد محترم کی گود میں رکھ دیتا ہے تاکہ ان سے تعریف اور حوصلہ افزائی ہو۔

٭ آپ کی تربیت کا ایک زبردست گوشہ یہ بھی ہے کہ جب آپ چاہ رہے ہوں کہ فلاں کام اس طرح ہونا چاہیے تو اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ اسکا حکم دے دیں اور بلاشبہ تمام اہل خانہ اس پر عمل کریں گے۔ لیکن آپ کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ کسی کام کا حکم دینے کی بجائے وہ کام خود کرنے لگتے ہیں۔ جس سے پورا گھرانہ اس کام کی تعمیل میں لگ جاتا ہے۔ آپ ایک دفعہ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ ریپرز پڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے کسی کو اس کی صفائی کا حکم نہیں دیا بلکہ خود ہی اٹھا دیئے۔ بچے بھاگتے ہوئے آئے لیکن اس وقت تک شیخ الاسلام مدظلہ وہ ریپرز اٹھا چکے تھے، یوںآپ نے الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے حسن عمل سے وہ بات ان تک پہنچا دی۔ یوں بچوں کی تربیت بھی ہوگئی اور دوسروں کو سمجھانے کا طریقہ بھی بتا دیا۔

٭ آپ کی تربیت کا انداز یہ بھی ہے کہ اگر کسی بچے کو تحقیق و تدوین کے حوالے سے کام دیا۔ اس سے متعلق اشارے دے دیئے کہ یہ کام کر کے لائیں شام کو دیکھا کہ بقیہ کام تو مکمل ہوگیا ہے لیکن کچھ حوالہ جات رہ گئے ہیں تو آپ اس پر اسے ڈانٹیں گے نہیں۔ بلکہ اس کو بلا کر فرمائیں گے کہ فلاں کتاب لے آئیں اور اس کا فلاں صفحہ کھولیں اس طرح حوالہ بھی دکھا دیں گے اور اسے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ کام کیسے کرنا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام مدظلہ کو دو صاحبزادوں اور تین صاحبزادیوں سے نوازا۔ آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اپنی اولاد کے انتہائی خوبصورت نام رکھے اور ان کی تربیت ایک مثالی ماحول میں کی۔

آپ کی تربیت کا امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں شفقت و محبت، عفو و درگزر اور پیار کی فراوانی غالب رہتی ہے۔ مگر کبھی حسب ضرورت سختی اور تنبیہ بھی فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب ممکن ہو سیر و تفریح کے لئے کسی صحت افزاء مقام پر بھی لے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کبھی کبھار کرکٹ، بیڈ منٹن بھی کھیلتے ہیں۔ بعض اوقات بچوں کے ساتھ بے تکلفانہ طور پر گھل مل جاتے ہیں اور موقع محل کی مناسبت سے مزاح بھی فرماتے ہیں۔ الغرض آپ حتی الوسع اپنے جملہ معاملات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع میں سرانجام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام کی خصوصی تربیت کا اثر آپ کی تربیت یافتہ اولاد میں بھی جھلکتا ہے۔

صاحبزادہ حسن محی الدین قادری

محترم حسن محی الدین قادری بڑے صاحبزادے ہونے کے ناطے شیخ الاسلام کی خصوصی توجہات اور فیوضات کے امین ہیں۔ جس طرح حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ نے اپنے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دینی و دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اس طرح آپ محترم حسن محی الدین کو قرآن و حدیث اور درس نظامی کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین دنیاوی تعلیم سے مزین کر رہے ہیں۔ آپ کو بچپن میں شیخ الاسلام مدظلہ سے علوم دینیہ حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی تربیت کا یہ فیض بچپن ہی سے آپ کی شخصیت میں موجزن نظر آتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صحافی شیخ الاسلام مدظلہ کی رہائش گاہ پر ان سے انٹرویو لینے آیا صاحبزادہ حسن محی الدین کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی، انٹرویو کے دوران آپ ڈرائنگ روم میں آگئے۔ صحافی نے مخاطب ہو کر فوراً سوال کر ڈالا کہ بتائیے بیٹا آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے۔ ڈاکٹر، انجینئر، یا پھر پائلیٹ؟ انہوں نے کہا میں تو اللہ کے فضل و کرم سے بڑا ہوکر اسلام کا خادم بنوں گا۔ آپ کا جواب سن کر وہ صحافی اس قدر متاثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور کہا بلا شبہ یہ والدین کی تربیت کا اثر ہے۔

صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ لاہور بورڈ سے، گریجوایشن پنجاب یونیورسٹی سے درس نظامی، تفسیر، حدیث کی تعلیم اور علوم عربیہ و اسلامیہ میں ایم۔ اے کی ڈگری منہاج یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد پاکستان لاء کالج سے ایل۔ ایل۔ بی کی تکمیل کے بعد آپ اعلیٰ اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے عالم عرب میں تشریف لے گئے۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام مدظلہ کے علاوہ عالم عرب کی عظیم علمی و روحانی شخصیات شامل ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

1۔ شیخ دیب الکلاخ :

آپ عالم عرب کی مصروف علمی و روحانی شخصیت ہیں۔ جن کی عمر تقریباً 100 سال ہے جن سے ان کے دادا جان ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے حصولِ فیض کیا۔ صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کو آپ نے جمیع علوم عقلیہ و نقلیہ اور عقائد میں سند دی ہے۔

2۔ شیخ فاتح الکتانی :

آپ عالم عرب کی عظیم شخصیت شیخ مکی الکتانی کے صاحبزادے ہیں۔ صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے آپ سے علوم حدیث حاصل کئے اور مؤطا امام مالک کی شرح الزرقانی چار دنوں میں مکمل کر کے سند حاصل کی۔

3۔ الدکتور اسد سعید الصاغرجی :

آپ نے صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کو اپنی تمام اسانید اور شیخ محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ کی جمیع اسناد اور اپنے دیگر تمام اساتذہ کی بھی جمیع اسناد عطا کی ہیں۔

4۔ شیخ حسین العصیران :

ان سے آپ نے حدیث المسلسل بالمصافحہ بالمشافہ حاصل کی ہے۔ ان کے علاوہ آپ نے شیخ ہشام البرھانی، شیخ اسامہ الرفاعی الشافعی، الدکتور سعید رمضان البوتی اور المحدث الشیخ نعیم الارکسوسی جیسے اجل علماء و مشائخ سے حصول علم و فیض کیا ہے۔

صاحبزادہ حسن محی الدین قادری جامعۃ الازہر کے اساتذہ کے بورڈ کے ممبر ہیں۔ جامعۃ الازہر کے تمام بڑے شیوخ اور اساتذہ کرام سے آپ کی ملاقات ہوئی ہے اور آپ علمی مباحث میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ قاہرہ مصر میں آپ عرب لیگ کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعۃ الدول الوحبۃ میں میثاق مدینہ کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کر رہے ہیں۔ آپ کا موضوع میثاق المدینہ و مکانتہ دستوریہ فی عہد المعاصر، دراستہ مقارنہ مع دستور الامریکی و بریطانی و اوزجی ہے۔ آپ کے نگران (Supervisor) مصر میں Constitutional law کی سب سے بڑی Authority ’’الشیخ الدکتور یحییٰ الجمل‘‘ ہیں۔ آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر پرکام کا بھی آغاز کیا ہے اور قرآنی سورہ میں مناہج حیات کے حوالے سے دعوتی و تربیتی موضوع پر عربی میں کام کر رہے ہیں۔

صاحبزادہ حسین محی الدین قادری

شیخ الاسلام مدظلہ العالی کی تعلیم و تربیت اور توجہات و فیوضات کے دوسرے امین آپ کے چھوٹے صاحبزادے حسین محی الدین قادری ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور ذہنی صلاحیت سے نوازا ہے۔ تنظیمی نظم و نسق اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ آپ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم پاکستان سے حاصل کی اور پھر یارک یونیورسٹی ٹورنٹو کینیڈا (York University Canada) سے انڈر گریجوایٹ کیا اور فرانس میں سائی ٹو یونیورسٹی پیرس (Science To University Paris) سے عالمی بزنس (International Business) میں ایم۔ بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل آسٹریلیا یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔ یہ اسی تربیت کا ہی فیض ہے کہ اس کم عمری میں عالمی معیشت اور بزنس کے حوالے سے آپ کا نام ایک معتبر حوالہ بن چکا ہے۔ بہت سے TV چینلز پر آپ کے انٹرویو شائع ہو چکے ہیں۔ متعدد قومی اور بین الاقوامی میگزینز میں آپ کے آرٹیکلز اردو، انگریزی اور فرانسیسی زبان میں شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کی درج ذیل کتب شائع ہو چکی ہیں۔

1۔ نقش اول (مجموعہ شاعری) 2۔ پاکستان میں شکر سازی کی صنعت
3۔ پاکستان میں بجلی کا بحران اور اسکا حل 4۔ SAARC & Globalizatoin
5۔ Strategie de diversification d, EDF' al etranger (فرانسیسی زبان میں)
6۔ Sugarcane Ethanol as an Alternate Fuel Source for Pakistan

ان علوم کے ساتھ ساتھ آپ بچپن ہی سے شیخ الاسلام مدظلہ اور دیگر جلیل القدر اساتذہ کرام سے علوم عربیہ اور شرعیہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ کینیڈا قیام کے دوران آپ ہر روز نماز فجر کے بعد یونیورسٹی جانے سے قبل جید علماء کرام سے علوم دینیہ پڑھتے تھے۔

شیخ الاسلام مدظلہ سے آپ نے خصوصی طور پر حدیث اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی اور باقاعدہ سند حاصل کی۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم کتاب المنہاج السوّی کی جب تدوین ہوئی تو آپ نے شیخ الاسلام مدظلہ سے یہ مکمل کتاب سبقاً پڑھی اور ان سے المنہاج السوی کی سند حاصل کرنے والے پہلے فرد کا شرف حاصل کیا۔ اسی طرح تصوف و معرفت کا علم آپ کو شیخ الاسلام مدظلہ کی طرف سے بچپن کی گھٹی کی طرح ملا جس کا آپ لمحہ بہ لمحہ فیض حاصل کر رہے ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور امن عالم کے نقیب مصطفوی ہونے کی انقلابی فکر کا جذبہ اور ولولہ آپ کے رگ و پے میں دوران خون کی طرح شامل ہے۔ کسی نے آپ کے مقصد حیات کے بارے پوچھا تو آپ نے فوراً جواب دیا کہ ’’میرے مقصد حیات کا تعین اسی دن ہوگیا تھا جس دن میرے مرشد و قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ نے ظالم سامراج کے خلاف مصطفوی پرچم کو سربلند کرنے کی قسم کھائی تھی۔

بلاشبہ شیخ الاسلام کی تربیت کا یہ فیض ہے کہ آپ کی ذات میں علم و عمل، تقویٰ و طہارت، اعلیٰ اخلاق اور دین مبین کی محبت، سب چیزیں یکجا نظر آتی ہیں۔

صاحبزادی قرۃ العین فاطمہ

شیخ الاسلام مدظلہ نے جہاں اپنے صاحبزادگان کی دینی و دنیاوی دونوں طرح کی اعلی ترین تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا وہاں اپنی صاحبزادیوں کو کسی طرح کی تعلیم و تربیت میں کمی نہیں ہونے دی۔ محترمہ قرۃ العین فاطمہ کو آپ کی بڑی صاحبزادی ہونے کی وجہ سے شیخ الاسلام مدظلہ کے قریب رہنے کا سب سے زیادہ موقع نصیب ہوا۔ یہی وجہ ہے علوم جدیدہ کے ساتھ ساتھ اخلاص، للہیت اور تقوی و طہارت آپ کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ آپ ابھی کلاس دوم کی کم سن طالبہ تھیں جب آپ نے قرآن حکیم کو تجوید و قرات کے ساتھ مکمل کیا۔ سکول و کالج میں آپ نے ہمیشہ مقابلہ قرات میں حصہ لیا اور اول انعام حاصل کرتی رہیں۔

والدین کے حد درجہ ادب و احترام اور خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھتیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ کے جوتے پالش کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتیں، گھر کے کام میں والدہ محترمہ کا ہاتھ بٹاتیں اور weekend پر گھر کا کھانا خود بناتیں۔ تعلیم میں محنت کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف ہر روز اپنے یونیفارم کو استری اور جوتے پالش خود کرتیں بلکہ سب بہن بھائیوں کے یونیفارم رات کو ہی استری کر کے رکھ دیتیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ بھی تمام بچوں کو آپ کا ادب کرنے کا حکم دیتے اور اگر کوئی آپ سے خلاف ادب بات کرتا تو فرماتے کہ جاؤ باجی سے معافی مانگو اور باجی سے فرماتے کہ اگر یہ آپ کا ادب نہ کریں تو آپ ان کے کپڑے استری نہ کریں۔

شیخ الاسلام مدظلہ کا انداز تربیت ہمیشہ شفقت و محبت کے ساتھ ساتھ حکمت پرمبنی ہوتا ہے۔ جن دنوں شیخ الاسلام مدظلہ خلوت میں تھے، آپ خلوت میں بھی ہر روز بچوں کی نماز کے بارے میں ضرور پوچھتے۔ ایک دن محترمہ قرۃ العین فاطمہ کی نماز فجر قضاء ہوگئی۔ شیخ الاسلام نے فرمایا اسکی سب سے قیمتی چیز کسی کو دے دو۔ آپ کو یہ احساس دلانا مقصود تھا کہ جس طرح ہمیں اپنی قیمتی چیز کے جانے کا دکھ ہوتا ہے تو نماز ان چیزوں سے کہیں بڑھ کر قیمتی ہے۔

آپ نے کوئین میری کالج سے گریجویشن کیا۔ اس دوران آپ کالج کی اسلامی سوسائٹی کی صدر رہیں۔ آپ نے علوم اسلامیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے تحریر و تقریر میں بھی مہارت حاصل کی۔

آپ کا انداز بیاں انتہائی پر اثر ہے۔ آپ تحریک منہاج القرآن خواتین کے نمائندہ میگزین ’’دختران اسلام‘‘ کی چیف ایڈیٹر ہیں۔ آپکے خطابات اور آرٹیکلز آپ کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

یاد رہے کہ شیخ الاسلام نے کبھی بھی اپنی صاحبزادیوں کو نام لے کر مخاطب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ نام کے ساتھ باجی کہتے حتی کہ آپ اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو بھی خدیجہ باجی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مفاد عامہ اور خدمت خلق کے لئے آپ کو اگر منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے گھر گھر، گلی گلی اور کوچہ کوچہ بھی جانا پڑا تو آپ نے دریغ نہیں کیا۔ علاوہ ازیں آپ کا گھر ماہانہ محفل ذکر الہی اور ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے۔ یہ محفل نعت یقینا بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک ہدیہ عقیدت اور صلوۃ و سلام کا عاجزانہ اظہار ہے، اس پروگرام کی ایک اہم بات اسکا تسلسل ہے جو کہ سالہا سال سے آپ کا معمول بنا ہوا ہے۔ جو کارکنانِ تحریک منہاج القرآن کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔

صاحبزادی عائشہ قرۃ العین

شیخ الاسلام مدظلہ کی دوسری صاحبزادی عائشہ قرۃ العین ہیں۔ آپ نے بہت کم عمری میں باقاعدہ تجوید و قرات کے ساتھ قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کی اور قراء ت کے مقابلوں میں ہمیشہ اول، دوم پوزیشن لیتی رہی ہیں۔ اسلامی اقدار اور روایات کے اندر رہتے ہوئے آپ کا شمار ہمیشہ صف اول کی طالبات میں رہا ہے۔

آپ دینی و دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں۔ آپ کلاس ششم تا میٹرک تک عبایا پہن کر ٹیبل ٹینس کھیلتی رہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کلاس نہم میں باپردہ ضلعی اور ڈویژن لیول پر شرکت کی اور اول پوزیشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ چیمپئن کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ اس طرح انہوں نے دیگر طالبات کے لیے اپنی زندگی کی ایک عظیم مثال قائم کی۔

آپ کو اللہ رب العزت نے فائن آرٹس میں خصوصی ملکہ عطا فرمایا۔ ڈرائنگ اور پینٹنگ کا شوق آپ کو بچپن ہی سے تھا۔ آپ نے اس فن میں مہارت حاصل کی۔ گریجوایشن کے دوران بین الکلیاتی مقابلہ جات جن میں لاہور کالج فار ویمن، کوئین میری کالج، گیریژن کالج جیسے تعلیمی ادارے بھی شامل تھے، آپ نے آئل پینٹنگ (Oil Painting) میں تھرڈ اور سکیچنگ (Sketching) میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ آپ کے والدین کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ فائن آرٹس کے دوران آپ کی ہم جماعت جہاں اسلامی نقطہ نظر کے منافی مناظر کو Draw کر رہی ہوتی تھیں وہاں آپ اپنی ڈرائنگ میں اسلامی فن تعمیر کے علاوہ معاشرے کے محروم اور مظلوم طبقات کی عکاسی میں مصروف ہوتیں۔ آپ کے موضوعات میں جنگ زدہ مفلوق الحال اور 2005ء میں زلزلہ زدگان خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ نے ایم۔ اے اسلامیات فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور اب ایل۔ ایل۔ بی کر رہی ہیں۔ روزمرہ معاملات میں احکام شریعت کی اس درجہ پابندی کا یہ معیار بلا شبہ آپ کے والدین کی تربیت کا ہی فیض ہے۔

صاحبزادی خدیجہ قرۃ العین

شیخ الاسلام مدظلہ سے تعلیم و تربیت اور توجہات حاصل کرنے والی، آپ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی محترمہ خدیجہ قرۃ العین ہیں۔ جو آج کل کینیڈا میں’’ A-Level‘‘ کر رہی ہیں۔ بچوں میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے ان کو سب سے زیادہ آپ کی صحبت اور شفقت حاصل ہوئی۔ آپ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر عمل کرتے ہوئے خدیجہ باجی کو بچپن میں اپنے کندھوں پر اٹھا کر کھلاتے اور اس وقت تک نیچے نہ اتارتے جب تک خود نیچے نہ اتر جاتیں۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے جب کسی بچے کو لاڈ پیار زیادہ ملتا ہے تو وہ بگڑ جاتا ہے غرور آجاتا ہے لیکن خدیجہ باجی کو دیکھیں تو معاملہ ہی الٹ نظر آتا ہے۔ دیانت داری، شرم و حیاء، دین مصطفوی کے ساتھ تمسک اور قناعت کا مظہر ان کی شخصیت سے واضح جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ یقینًا یہ والدین کی اعلیٰ تربیت کا ہی اثر ہے۔

شیخ الاسلام کے پرسنل سیکرٹری محترم سجاد العزیز قادری بیان کرتے ہیں ’’1995ء کا واقعہ ہے جب ایوان قائد پر ایک جسٹس صاحب ملاقات کے لئے آئے ان کی تواضع کے لئے دیگر چیزوں میں چائے اور بسکٹ بھی شامل تھے۔ جب مہمان رخصت ہوئے اور تواضع کا بقیہ سامان اٹھایا جانے لگا تو آپ کی صاحبزادی جن کی عمر اس وقت غالبًا پانچ یا چھ سال تھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ بسکٹ لیں گی اس پر اس معصوم بچی نے جو سوال کیا وہ تربیت اولاد میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے پوچھا کہ یہ بسکٹ کس کے ہیں؟ میں سمجھ گیا کہ جس طرح شیخ الاسلام نے اپنی ذات پر تحریک منہاج القرآن کی آمدن سے ایک پائی بھی حرام کر رکھی ہے۔ اسی طرح ان کی اولاد نے بھی اسے عملاً اپنایا ہے۔ تحریک کے پیسوں سے خریدے گئے نمک سے غرارے کرنے سے انکار کرنا شیخ الاسلام مدظلہ کی دیانتداری کی وہ مثال ہے جو شائد دنیا میں دہرائی نہ جا سکے، دفتر میں جب کبھی آپ چائے پیتے تو پیسے اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ آپ کی ذاتی زندگی ایسے لاتعداد واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آپ نے بچوں کی بھی ایسی ہی تربیت فرمائی ہے کہ دفتر کے خرچ سے کوئی چیز نہ لیں (یاد رہے کہ شیخ الاسلام مدظلہ کچھ رقم مجھے دیتے تھے۔ جب آپ دفتر میں چائے پیتے تو میں اسی رقم میں چائے کی ادائیگی کرتا) چنانچہ میں نے آپ کی ذاتی رقم میں سے بسکٹ کے پیکٹ کے پیسے الگ کر لئے اور ان سے کہا کہ یہ گھر کے بسکٹ ہیں۔ انہوں نے مجھ سے وہ پیکٹ لے لیا۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جب وہ بسکٹ لے کر شیخ الاسلام مدظلہ کے پاس چلی گئیں اور پوچھا ابو جی یہ بسکٹ ہمارے ہیں۔ قائد محترم نے فرمایا نہیں یہ دفتر کے ہیں۔ باجی نے عرض کیا کہ بھائی نے کہا ہے کہ گھر کے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے مجھے بلایا اور پوچھا میں نے عرض کیا کہ آپ کی دی ہوئی رقم سے پیسے لے لئے ہیں۔ آپ نے فرمایا، گھر کی ذاتی رقم سے نئے بسکٹ باہر سے منگوا کر باجی خدیجہ کو دیں تاکہ دفتر اور گھر کی چیز گڈ مڈ ہونے کا شائبہ بھی نہ رہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ کی دیانت کا یہ عالم ہے کہ مشن کے وسائل سے اپنی ذات اور خاندان کو ایسے بچا کر رکھا ہے جیسے کوئی سفید کپڑے کو سیاہی کے کالے دھبے سے بچاتا ہے‘‘۔

الحمد ﷲ تقوی کا یہ وہ معیار ہے جو آج کے دور میں شیخ الاسلام مدظلہ اور ان کی اولاد کے علاوہ بہت کم کہیں نظر آتا ہے۔ گلشن قائد کا ہر پھول جہاں اپنی جگہ منفرد خوشبو اور فیض تربیت میں رنگا ہوا نظر آتا ہے وہاں والدین کی تربیت کے کچھ پہلو تمام بچوں میں یکساں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان تربیتی امور میں سے چند نمایاں پہلو درج ذیل ہیں :

1۔ مقصد حیات :

شیخ الاسلام مدظلہ کے تمام بچوں کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی، محبوب خدائے لم یزل کے عشق کی تڑپ اور دین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت ہے۔

2۔ ایمان، اسلام اور احسان :

آپ کے تمام بچوں میں توحید و رسالت اور عقائد کے حوالے سے ذہنی و فکری شفافیت (Clarity)اور غیر متزلزل پختگی پائی جاتی ہے۔ نہ صرف صوم و صلوۃ بلکہ ارکان اسلام پر ظاہری پابندی آپ کے تمام بچوں کے کردار و عمل کا حصہ ہیں۔

3۔ دین اسلام کی خدمت اور مصطفوی انقلاب کے لئے تڑپ :

شیخ الاسلام مدظلہ کی اولاد میں تیسرا مشترک پہلو یہ ہے کہ ان سب میں محبت دین، خدمت دین، جذبہ اشاعت و تبلیغ دین، مصطفوی انقلاب کی فکر، درد اور تڑپ ان کے کردار و عمل میں خون کی طرح شامل ہیں، ان کی زندگی کا نصب العین دنیاوی مال و متاع اور مقام و منصب کا حصول نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح بالعموم اور امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی عظیم منزل تک رسائی بالخصوص ہے۔

4۔ حسن اخلاق :

شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنی تربیت سے بچوںکو اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ صداقت، جرات، شجاعت، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا ادب، خندہ پیشانی، عفوو درگزر، سخاوت، انفاق فی سبیل اللہ، معاشرے کے محروم طبقات کی خبر گیری اور امداد یہ سب وہ خوبیاں ہیں جنہوں نے شیخ الاسلام مدظلہ کی اولاد کو قابل تقلید نمونہ بنا دیا ہے۔

اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق شیخ الاسلام مدظلہ نے اس دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کو اپنی اولاد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس نعمت کو پوری امت مسلمہ کے نوجوانوں تک عام کرنے کا بھی اہتمام فرمایا ہے۔

اس سلسلہ میں آپ نے سب سے پہلے 1986ء میں منہاج یونیورسٹی 1994 میں منہاج کالج برائے خواتین قائم کی جس میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ علوم جدید و قدیم کے درمیان حسین امتزاج پیدا کیا ہے تاکہ طلبہ و طالبات نہ صرف قرآن و سنت کے علوم میں مہارت رکھیں بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بھی گہری واقفیت کے حامل ہوں۔ اس کے بعد آپ نے اسکول ایجوکیشن کی طرف توجہ کی اور 90 کی دہائی میں پانچ سو زائد سکول اور تقریباً 15 کالجز قائم کر دیئے۔ اسی دوران آپ نے دنیا کے کئی ممالک میں اسلامک سنٹر قائم کیے۔

امت مسلمہ کے نوجوانوں کی عمومی اصلاح کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ (MWL) منہاج القرآن یوتھ لیگ (MYL) اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ (MSM) کے نام سے ملکی اور بین الاقوامی تنظیمات قائم کیں۔ جس کی بدولت آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہات کے طفیل آج ہزارہا نوجوانوں کی زندگیوں کے رخ بدل چکے ہیں۔ سینما گھروں اور نائٹ کلبوں میں رقص و سرود سے کیف پانے والے کتنے نوجوان وَالّیل والضّحٰی زلفوں اور مکھڑے کے اسیر بن گئے ہیں۔ ذکر الٰہی اور نعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی روحانی غذا بن گئی ہے اور انکے رذائل فضائل میں بدل گئے ہیں۔ ہزارہا طالبات اور خواتین کا رُخ ذاتی نمود و نمائش سے ہٹ کر محبت الہی، عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدمت دین کی طرف ہو چکا ہے۔

آج وطن عزیز کے اعلیٰ عہدیداران، پی۔ ایچ۔ ڈی ڈاکٹرز، پروفیسرز، ججز، سرجنز، صحافی، دانشور، عالم دین خود کو شیخ الاسلام مدظلہ کا شاگرد، خوشہ چین اور فیضیاب کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور لاکھوں افراد آپ کی تصانیف اور خطابات کے ذریعے آپ کی تربیت کا فیض حاصل کر رہے ہیں۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی تعلیم و تربیت کے فیض سے آج پوری امتِ مسلمہ سیراب ہو رہی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے۔ آپ کا سایہ امتِ مسلمہ پر تادیر قائم رکھے اور سب اہلِ اسلام کو اس چشمۂ فیض سے اپنا حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔