صلوۃ و سلام کے مفاہیم اور فضائل و برکات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد

اسی طرح اگر آپ کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے لئے جائیں تو وہاں ایک ڈش ہوتی ہے جس میں وہ Chicken Beef، Fish وغیرہ تمام چیزیں ملاکر ایک پلیٹ میں رکھ دیتے ہیں۔ عربی زبان میں اسے مشویہ بھی اور مصلیا بھی کہتے ہیں اور انگلش میں اسے Mixed Grill کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ آپس میں مل کر Mixed ہوگئے ہیں۔ یعنی ساری چیزیں جڑ جائیں اور فاصلہ نہ ہو تو اس کو صلی کہتے ہیں۔ اب اس پر حدیث Court کرتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ السلام اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دونوں ہجرت کے دن دو سواریوں پر سوار تھے۔ فرمایا آگے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا اونٹ تھا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی سواری ان کی سواری کی Back سے جوڑی ہوئی تھی۔ فاصلہ نہیں ہونے دیتے تھے تو فرمایا سَابَقَ رَسُوْلُ صلی الله عليه وآله وسلم حضور آگے آگے چلے صَلَّی اَبُوْبَکْرُ، ابوبکر مصلّی ہوکر چلے یعنی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑ کر چلے تاکہ فاصلہ نہ آجائے۔

ائمہ لغت نے بیان کیا کہ صلیان یہ ملک روم میں ایسی بوٹی یا گھاس کو کہتے ہیں کہ جب اونٹ کھاتے ہیں تو ایک سیکنڈ میں ہضم ہو جاتی ہے۔ ہم کھانا کھاتے ہیں تو 3 گھنٹے Digest ہونے میں لگتے ہیں۔ مگر وہ بوٹی پیٹ میں جاتے ہی ہضم ہو جاتی ہے۔ امام ابن اسیر نے اس کو النہایہ میں بیان کیا ہے۔ اب اس پر امام بخاری کی حدیث Court کرتا ہوں جسے امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ایام وصال میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے ہیں آپ نے پردہ اٹھایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آقا علیہ السلام کو تکنے لگے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں حضور مسکرائے تو خدا کی قسم ایسے لگا جیسے خدا کا قرآن کھل گیا ہو اور چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور کی چمک اس مسجد میں اس طرح پڑی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے چہرے پھر گئے۔ انہیں قبلہ اور سمت کعبہ بھول گئی۔ انہیں نماز کی سمعت و جہت بھول گئی اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکھڑہ تکنے کے لئے ان کے چہرے قبلہ کی سمت سے پھر کر مصطفی کی طرف ہوگئے۔ یہ حدیث کا مضمون تھا جس سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے عشق کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔ اب اصل بات کی طرف آتے ہیں جس کے لئے حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مصلی چھوڑ دیا اور اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹے تاکہ پہلی صف میں مل جائیں۔

لہذا معلوم ہوا کہ کسی سے مل جانا اور کسی میں مل جانا اور الگ نہ رہنا ا سکو صلوۃ کہتے ہیں۔ اس معنی کے اعتبار سے ان الله و ملائکته يصلون علی النبی کا مفہوم یہ ہوگا کہ رب تعالیٰ فرما رہا ہے کہ لوگو! مجھے اپنی عزت کی قسم! میرا مصطفی مخلوق ہے میں خالق ہوں۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبد ہیں میں معبود ہوں۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے رسول مقربّ ہیں میں الہٰی مرسل ہوں۔ مگر ان پر صلوۃ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ جب سے بنایا ہے اس کو مخلوق کے رتبے میں رکھتے ہوئے فاصلے مٹا کر اپنے ساتھ ملاتا رہتا ہوں اور جب تک ہوگا جوڑتا رہوں گا اور فاصلے مٹاتا رہوں گا۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ رب تعالیٰ تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ جوڑتا رہتا ہے اور کچھ نادان دونوں کو پھوڑتے اور فاصلے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اسی لئے باری تعالیٰ نے کلمہ طیبہ، اذان اور نماز میں بھی اپنے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام اپنے ساتھ رکھا۔ یہ لفظ صلوۃ کا پہلا لغوی معنی تھا۔ ائمہ لغت کے نزدیک لفظ صلوۃ کے لغوی معنی کا دوسرا مادہ صلو ہے (پہلا صلی تھا) اور لغت کے امام ماوردی اور لغت کی کتابوں القاموس، لسان العرب، تاج العروس وغیرہ کے مطابق صلو کا معنی ہے ابصم والجموع۔ دو کو آپس میں جمع کر دینا اور جوڑ دینا۔ یعنی انضمام کر کے ایک بنا دینا۔

ریڑھ کی ہڈی کے نچلے حصے کو الصلی کہتے ہیں اس لئے کہ جسم کے اوپر کے دھڑ کو اور نیچے والے ٹانگوں کے دھڑ کو جوڑتا ہے۔ ائمہ لغت کہتے ہیں کہ عربی زبان میں اس مادہ سے جتنے بھی لفظ نکلتے ہیں خواہ وہ اسی ترتیب سے رہیں اور خواہ ترتیب بدلتے رہیں یعنی ص لی ہو خواہ صلی ہو جائے۔ خواہ ص ل میں واؤ پہلے آجائے اور ص بعد میں۔ خواہ ص ل و کے تینوں حروف کو جس طرح چاہے Disordeler کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے لئے ایسا لفظ چنا ہے کہ ان سب کا معنی ایک رہے گا۔ اسی سے ایک لفظ صل ہے جسے صولۃ بھی کہتے ہیں عربی زبان میں کہتے ہیں کہ بلی یا شیر اگر کسی پر حملہ کریں تو پہلے تھوڑی دیر بیٹھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو جمع کرتا ہے اور پھر بھرپور تیاری اور قوت کے ساتھ حملہ کرتا ہے۔ اپنی تمام Ability اور Attention کو جمع کرنا، اس کو عربی زبان میں صلّ صولا یا سولۃ کہتے ہیں اسی طرح ہمارے ہاں جب جوڈے کراٹے کا فن سکھاتے ہیں جس سے وہ اینٹیں وغیرہ توڑتے ہیں تو پہلے اپنی ساری صلاحیتوں کو سکیڑتے ہیں اور Consolidat کرتے ہیں جس سے وہ Powerful ہو جاتے ہیں۔

اسی سے ایک لفظ نکلا ہے المصول جھاڑو کو المصولۃ کہتے ہیں جس کو مختلف تیلے باندھ کر جوڑا جاتا ہے۔ اس باندھنے کی وجہ سے اسے المصولۃ کہتے ہیں۔ اس معنی کو امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن العربی اور دیگر ائمہ نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح اگر آپ دیہاتوں میں جائیں تو گندم کاٹی جاتی ہے۔ جس کو اکٹھا کرکے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اس کو عمل التصویل کہتے ہیں۔ صول سے ہے۔ اس جمع کرنے کو مصول بھی کہتے ہیں تو وہ گویا صلوۃ کا معنی یہ ہوئے کہ بندے اور خدا کے درمیان جتنے فرق ہیں سوائے خالق و مخلوق کے اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مٹا کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ جمع کر دیا۔ عبدیت کا فرق باقی رکھا تاکہ وہ عبد رہے اور میں معبود رہوں، وہ بندہ رہے اور میں خدا رہوں۔ باقی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ یوں جمع کر دیا کہ کوئی میرے محبوب کو مجھ سے جدا نہ کر سکے اور جو مجھے دیکھنا چاہے اسے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آئے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آئینے میں دیکھے تو اسے خدا نظر آئے۔ فرمایا جب سے میں ہوں تب سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ ملا کر مقام جمع عطا کر رہا ہوں اور تب سے سارے فرق مٹا رہا ہوں اور اس کو اپنے ساتھ اتنا قریب کر رہا ہوں کہ جسے مجھے دیکھنا ہو وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دیکھ لے۔ یہ ہے اللہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوۃ پڑھنا۔

ائمہ لغت کے نزدیک اسی لفظ صلوۃ کا ایک مادہ لوص بھی ہے۔ اسی سے لواص ہے جو فالودہ کو کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں دودھ، کھویا، نشاستہ ہے۔ سویاں، شربت گلاب، عرق گلاب، روح کیوڑہ وغیرہ سب کچھ اس میں مل جاتا ہے اور جب یہ ساری چیزیں مل جائیں تو اس کو فالودہ کہتے ہیں۔ اس لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ کے محبوب پر صلوۃ بھیجنے کا مفہوم یہ ہوگا کہ جب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہوگئی ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت خدا کی محبت بن گئی ایک ہوگئی، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت خدا کی قربت بن گئی ایک ہوگئی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت خدا کی حرمت بن گئی ایک ہوگئی، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب خدا کا ادب بن گیا ایک ہوگیا۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنا خدا کی بیعت ہوگئی، بیعت ایک ہوگئی، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت خدا کی محبت ہوگئی ایک ہوگئی، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معصیت خدا کی معصیت (نافرمانی) ہوگئی۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا خدا کی رضا بن گئی ایک ہوگئی۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا خدا کی عطا بن گئی ایک ہوگئی۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم خدا کا حکم بن گیا ایک ہوگیا۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہی (منع کرنا) خدا کی نہی بن گئی۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امر خدا کا امر (حکم دینا) بن گیا۔ ایک ہوگیا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر خدا کی خبر بن گئی ایک ہوگئی۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان خدا کا بیان ہوگیا ایک ہوگیا۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام خدا کی وحی بن گئی ایک ہوگئی۔ فقط فرق یہ رہا کہ خدا کی ذات، خدا کی ذات رہی، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات رہی مگر حکم جو جدا جدا تھے سارے مل کر ایک ہوگئے۔ سو اب جو خدا کی رضا چاہتا ہے تو فرمایا الله و رسوله احق ان يرضوه. (التوبہ،9 : 62) ’’اللہ اور اس کا رسول حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے‘‘۔

یوں نہیں فرمایا کہ احق ان يرضو. حق دار ہیں کہ انہیں راضی کیا جائے۔ بلکہ فرمایا اسے راضی کیا جائے۔ اسے کا لفظ ایک کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ معلوم ہوا ذاتیں دو ہیں مگر رضا ایک ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے خدا اور رسول کو ملادیا ہے استغفراللہ نادانو! نہ تو میں نے ملایا ہے اور نہ آپ نے ملایا ہے۔ ملانے والا خود خدا ہے۔ یہ سوال خود خدا سے کرو کہ وہ رسول کو اپنے ساتھ کیوں ملا رہا ہے؟ اور تثینہ کی بجائے واحد کی ضمیر کیوں استعمال فرمائی؟

اس نے یہی تو جواب دے دیا ہے کہ جو فرق تم Create کرنا چاہتے ہو اس کو میں ختم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ میرا صلوۃ اور درود پڑھنا ہے۔ لہذا اللہ کے درود پڑھنے کا معنی یہ ہوا کہ اس کے بندے اور خدا کے ایک فرق کو چھوڑ کر باقی سارے فرق وہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ یا لفظ صلوۃ لوص سے نکلا ہے جو عربی زبان میں شہد کو کہتے ہیں۔ اسی Original سے نکلا ہے لوّاص یہ عربی میں شہد کو اس لئے کہتے ہیں کہ مکھیاں ہزاروں پھولوں سے رس چوستی ہیں اور لالاکر ایک خانے میں جمع کر دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اس کو لواص کہا جاتا ہے۔ خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کے بھی ہزاروں خانے اور گوشے ہیں۔ کہیں خانہ اطاعت ہے، کہیں خانہ محبت ہے، کہیں خانہ اتباع ہے، کہیں خانۂ و امر و حکم ہے، کہیں خانہ قربت ہے، کہیں خانہ ادب ہے۔ ان طرح طرح کے خانوں اور شعبوں کو ملا کر خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق کو ایک جگہ جمع کر دینا اس کو صلوۃ کہتے ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سارے رشتوں کو ایک خانہ میں جمع کر دینے کی وجہ سے اس ایک لفظ کو لواص کہا جاتا ہے یہ اس کا چوتھا معنی تھا۔ اب اس لفظ صلوۃ کا ایک مادہ وصل ہے جس سے لفظ صلوۃ نکلا ہے۔ لغت کی کوئی کتاب اٹھائیں اس میں لکھا ہے کہ یہ صلوۃ کا Root word ہے اسی سے لفظ وصال ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص کا وصال ہوگیا۔ یعنی وہ باری تعالیٰ سے مل گیا۔ جو دور تھا وہ نزدیک ہوکر مل گیا۔ فراق وصال میں بدل گیا، جدائی قربت میں بدل گئی اور فاصلے سمٹ گئے۔ اس ملاپ کو عربی زبان میں وصال کہتے ہیں اس وصال سے لفظ صلوۃ نکلا ہے۔

عرب بھی کہتے ہیں وصل الشئی یا وصل الیہ الشئی یعنی کوئی چیز کسی سے مل جائے اور ایسی ملے کہ وہاں جاکر فاصلے ختم ہو جائیں۔ اس کو وصال کہتے ہیں۔ ان الله وملائکته يصلون. اللہ کا صلوۃ یہ ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ جب سے میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے تب سے میں اسے اپنا وصال دے رہا ہوں، تب سے اسے اپنا وصل دے رہا ہوں تب سے اسے اپنا ملاپ دے رہا ہوں۔ ارے مولا نے جب سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے تب سے اس کو وصال دینا شروع کیا ہے۔ تب سے اسے اپنے ساتھ ملانا شروع کیا ہے اب بتاؤ کوئی فاصلہ رہ بھی گیا ہے کہ نہیں؟ تو وہ جواب دیتا ہے ہاں ایک فاصلہ کبھی نہیں مٹ سکتا کہ وہ عبد ہے اور میں معبودہوں۔ میں لا الہ الا اللہ وہ محمد رسول اللہ ہے۔ یہ دو الگ Ideas ہیں تو پھر مولا تیرا وہ ملانا اور وصال کیا ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ نادان دیکھتا نہیں لا الہ الا اللہ میں اللہ کی ہ کا جہاں End ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی م شروع ہو رہی ہے۔ توحید و رسالت دو ہیں اور وصال یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں فاصلے اور فرق کرنے کے لئے واؤ یا قومہ نہیں ہے۔ یوں نہیں کہا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کا رسول ہے بلکہ فرمایا اللہ ایک ہے محمد اللہ کا رسول ہے۔

آپ نے کلمہ طیبہ میں دیکھا کہ ادھر الوہیت خدا ہے، ادھر رسالت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ادھر اللہ کا نام ادھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے مگر درمیان میں واؤ نہ لگا کے وصال کر دیا ہے۔ اگر و یا And لگتا تو الگ الگ رہتے۔ And ہٹا کر اللہ کی ہ کو محمد کی م سے ملا دیا ہے اور محمد کی م کو اللہ کی ہ سے ملا دیا ہے۔ اب محمد اللہ تو نہیں بنا اور محمد اللہ تو بن نہیں سکتا مگر محمد اللہ سے جدا بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ نے اسلام کے کلمے کے الفاظ میں واؤ نہیں لگایا تاکہ پتہ چل جائے کہ اللہ جو اپنے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور صلوۃ پڑھتا رہتا ہے یعنی مصطفی کو جب سے بنایا ہے تب سے جب تک ہے اپنے اور اپنے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان جو ’’اور‘‘ تھا وہ مٹاتا رہتا ہے اور ملاپ کرتا رہتا ہے جب ملاپ ہوجائے تو فاصلے نہیں رہتے۔ اس بات کی سمجھ دل والوں کو آئی ہے۔ ان کو کیا سمجھ آئے۔ جن کو دل کی لذت نہ ملی بہرے کو کیا سنایا جائے اور اندھے کو کیا دیکھایا جائے۔ جس نے ملاپ اور وصال کی شراب نہیں چکھی اسے لذت اور وصل کی بات کا کیا علم؟ اسے فاصلے ہی سمجھ آئیں گے کیونکہ وہ عمر بھر فاصلوں میں ہی رہا۔ جو عمر بھر فاصلوں میں رہا اس کو فاصلہ ہی سمجھ میں آئے گا۔ جس کا فاصلہ مٹا نہیں تو اس کو وصال کہاں سے سمجھ آئے۔

لہذا اس وصل اور صلوۃ کو سمجھنے کے لئے اولاً اپنے فاصلے مٹانے کی ضرورت ہے۔ جب بندہ اپنی رضا اس کی رضا میں فنا کر دیتا ہے۔ اپنی خواہش اس کے امر میں فنا کر دیتا ہے، اپنا ہونا اس کے ہونے میں فنا کر دیتا ہے، اپنی طلب اس کی طلب میں فنا کرتا ہے اور فاصلہ نہیں رہتا تو تب اسے قربت کی سمجھ آتی ہے اور جب قربت مل جاتی ہے تو وصال کی بھی سمجھ آ جاتی ہے۔یہ باتیں فاصلے والوں کو سمجھ نہیں آتیں۔