صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

درس نمبر16

بحمد اللہ تعالی ماہانہ دروس سلوک و تصوف میں ہماری گفتگو کامدعا اپنے احباب کو ہر ماہ اس قدر مواد فراہم کرنا ہے۔ کہ وہ آسانی سے سمجھ کر اس پر مسلسل غور و فکر کریں او ر خالق کائنات، قادر مطلق وحدہ لاشریک، ذوالجلال و الاکرام، رب رحمن و رحیم اور مالک یوم الدین کی عظمت و جلالت اوراس کی حاکمیت اعلیٰ کے سامنے اپنے سر تسلیم کو دل کی مکمل تصدیق کے ساتھ خم کرتے ہوئے زبان سے اس کی عظمت کے ترانے گائیں، اللہ جل شانہ کی صفات اور آیات میں تفکیر اور تدبیر ہی حقیقت کی تلاش کا وہ سفر ہے جس کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالی کی قدرتوں کا ادراک ہوتا ہے کہ اس نے اپنے نور کے پرتو سے خلق اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو تخلیق کیا اور اس انتہائی طاقتور توانائی (Extremely High Energy) کی وحدیت (Singularity) کومعتدل توانائی (Lowenergy) میں تبدیل کر کے رحمۃ للعالمین بنا دیا تاکہ عالمین اور جملہ مخلوق الہی اس توانائی کو برداشت کرکے رحمت و برکت حاصل کر سکیں، اپنے عظیم شاہکار نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آفاق (COSMOS) اور انفس (Souls) کو پیدا کرنا، عالمین کی ہر لمحے پیدائش (Creation) اور اس میں مسلسل وسعت (Continuous expansion) کائنات میں تخلیق و تعمیر کا لامتناہی سلسلہ کائنات کی سب سے پیچیدہ مخلوق ’’انسان‘‘ کی تخلیق اور اسے ایک باقاعدہ تدریجی شعوری اور عقلی نظام سے مزین کرنا، انسان کو مکمل شناخت ذات اور شعور زندگی دینا تاکہ انسان کی بودوباش کے لئے کائنات سے الگ ایک ایسی دنیا (Planet Earth) وجود میں آئے جس کے اندر انسان کے لئے وہ سب کچھ ہو جو کائنات کے کسی دوسرے سیارے، ستارے، نیبولے اور کہکشاں میں نہ ہو، ہوا اور پانی جیسی نعمتیں انسان کو عطا کرنا،جو کسی دوسرے سیارے، ستارے میں نہیں ہیں پھر اس نے زمین پر ایک ایسا ماحول (Environment) بنایا اور اس کو نباتاتی مراحل تخلیق اوراس کے اشجار و نباتات کو نیم شعوری حیات کی تکمیل کے مراحل سے گزارکر حیوانات کو سادہ شعوری زندگی کی تکمیل سے انسان کے تابع کر دیا، یہ سب کچھ خالق کائنات وانفس کی بے پناہ قوت، توانائی، حکمت، عدالت اور حاکمیت اعلیٰ پر ہمہ وقت گواہی دے رہی ہے، تلاش حقیقت کے لئے مومن کو اللہ تعالی کی نشانیوں پر غوروفکر کرنے کا حکم دیاگیا ہے اور اسے وجود باری کے بارے میں تفکر سے منع فرمایا گیا ہے۔

تَفَکَّرُوْا فِی آلاءِ اللّٰهِ وَلَاتَفَکَّرُوْا فِی اللّٰهِ.

’’اللہ سبحانہ و تعالی کی نشانیوں (تخلیقات) میں غور و فکر کرو، اور ذات باری تعالی میں غور و فکر نہ کرو۔‘‘

اللہ جل شانہ سورہ الانعام میں ارشاد فرماتا ہے۔ ’’لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِکُ الْاَبْصَارَ‘‘

’’آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں (نگاہیں اس کو پانہیں سکتیں اور نہ ہی اس کا احاطہ کر سکتی ہیں) اور وہ (لوگوں کی) نگاہوں کو پا سکتا ہے، (اس کا ادراک کر سکتا ہے، وہ ان کی بصارت اور بصیرت سب ہی کا احاطہ کئے ہوئے ہے) اور وہ بڑا باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘

بیشک انسان اللہ جل مجدہ کو بچشم سر دیکھ نہیں سکتا، لیکن بصارت رکھنے والے مومنین اس کی نشانیوں میں اس کی حقیقت پا لیتے ہیں۔ رب العالمین جملہ مخلوقات کا خالق ہے، اس کی ساری مخلوق اس کو اللہ، رحمن اور رحیم مانتی اور اس کی تصدیق کرتی ہے، شیاطین اور انسانوں میں بعض اس کو نہیں مانتے، بعض اس کو اپنے اندازوں کے مطابق مانتے ہیں اور اس کو مختلف شکلوں میں مانتے ہیں، ہم نے قبل ازیں عرض کیا تھا کہ کائنات میں اللہ تعالی جل شانہ کی صحیح معرفت صرف خلق اول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا۔

کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِيًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرِفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ.

’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو، تو میں نے خلق کو تخلیق کیا۔‘‘

خلق اول اور باعث تخلیق کائنات حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے اور اسی کے نوری وجود سے آفاق وانفس کو پیدا کیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں انسانوں اور جنات کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت کوقرار دیاگیا ہے، معبود حقیقی کے سامنے ہر معاملے میں سرتسلیم خم کرنا، اس کے احکامات کو ماننا اور اس پر عمل کرنا عبادت کہلاتا ہے اور اسی میں اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا پنہاں ہے، جو انسان کا سرمایہ حیات ہے۔ ’’وَرِضْوَانٌ مِنَ اللّٰهِ اَکْبَرُ‘‘ اللہ تعالی جل شانہ کی شانوں کی شاہد ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور وہی ذات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی منشاء ایزدی اور رضائے الہی کی مخبر صادق ہے۔‘‘

حضور نبی اول و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشن عامۃ الناس کو ’’عبادت‘‘ اور’’رضائے الہی کے حصول‘‘ کا طریقہ کار (Procedure) بتانا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء، رسل اور پیغمبر علیہم السلام کو بھی اس مشن میں حصہ لینے پر مامور فرمایا۔ اس مقصد کے لئے عالم ارواح نورانی ماحول میں ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا، خالق کل جل شانہ میر مجلس تھے، اللہ سبحانہ و تعالی کا خلق اول نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالق جل شانہ کے سامنے تھا، جس پر انوار ربانی کی شعاعیں مرتکز تھیں، وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نور کا انعطاف و انعکاس ہو رہا تھا، اللہ سبحانہ و تعالی کے نور کا انعطاف محبوب رب دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مخصوص تھا اور انعکاس نور سے تمام عالم ارواح منور ہو رہا تھا، اس وقت موجودات عالم تھے، نہ آفاق وانفس کا کوئی وجودی منظر، راز کی محفل تھی، ارواح انبیاء سے میثاق لینے کی ساعت تھی، انبیاء، رسل اور پیغمبروں سے عہد لینے (Oath taking) کی گھڑی تھی، ازلی شاہد، مبشر، نذیر اور داعی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کا وقت تھا، اللہ جل شانہ کا فرمان یوں صادر ہوا، قرآن حکیم میں ارشاد باری نے سورہ آل عمران کی آیات 81 اور 82 میں میثاق النبیین کا عجیب نقشہ کھینچا ہے۔

’’اور جب اللہ سبحانہ و تعالی نے تمام انبیاء سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت سے سرفراز کروں، پھر تمہارے پاس جب (میرا یہ ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے، جو تم کو دی گئی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہو تو تم اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد لازماً کرو گے (اس کی عالمگیر مشن کا حصہ بنو گے) (مزید تاکید کے طور پر) فرمایا کیا تم (سب پیغمبروں نے) اقرار کیا، اور اس پر میرا عہد قبول کیا (یعنی اگر تم خود اس نبی کو پاؤ تو اس کی تصدیق کرو، ورنہ اپنی امت کو تاکید کر جاؤ کہ بعد میں آنے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کریں، پیغمبروں کے میثاق میں ان کی امت شامل ہے ) سب پیغمبروں نے عرض کیا، ہم نے اقرار کیا (کہ ہم اپنے عہد پر ثابت قدم رہیں گے اور اپنی امت کو اس عہد پر رہنے کی تاکید کریں گے) اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا تو (اس عہد و پیماں کے) تم گواہ رہنا اور میں تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں، پھر جو کوئی بھی اس کے بعد روگردانی کرے گا تو وہ فاسقوں میں شمار ہو گا۔

مجلس آرائی کی شان ماورائے بیان ہے کہ یہ حس اِدراک سے ارفع اور قسام ازل کی جلوہ نمائی خیال وگمان سے بالاتر ہے، انبیاء علیہم السلام کی ارواح نورانی پر قیامت تک کی عظیم ذمہ داریاں ڈالی جانے والی تھیں، اللہ سبحانہ و تعالی کی عبودیت کا اقرار اور اس کے پیغامات کو سمجھنے اور قبول کر لینے کی اہلیت کے لئے انسانوں کی تربیت اور تیسرے مرحلے پر آنے والی مقدس ترین ہستی نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر، ان پر ایمان لانا اور ان کے مشن میں ضرور بالضرور مدد اور نصرت کرنا، میثاق النبیین کو نبھانے اور اللہ اور اس کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سرخرو ہونے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہم السلام نے یہ تینوں فرائض اس تسلسل اور دیانت سے ادا کئے، کہ گویایہی مقصد تخلیق کائنات تھا، اللہ سبحانہ و تعالی نے خلق اول محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد بھی یہی فرمایا تھا۔

لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاک ’’محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا۔‘‘

بیشک اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی پہچان کے لئے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا، پھر اپنے شاہکار کو منوانے کے لئے آفاق وانفس کوپیدا فرمایا۔ میثاق النبیین، عالم ارواح میں سب سے پہلا عہد تھا، سب سے زیادہ مقدس مخلوق یعنی گروہ انبیاء نے رسول کون ومکان کو کائنات بھر کا سلطان تسلیم کرنے اور ان کی نصرت کے لئے کیاتھا۔

قرآن حکیم میں تین معاہدے مذکور ہوئے ہیں، پہلا عہد بنی نوع انسان سے عالم ارواح میں اللہ کی خالقیت، الوہیت اور ربوبیت کالیاگیا،

’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَهِدْنَا‘‘ (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں (سب نے )کہا، کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے) ہم اقرار کرتے ہیں)

میثاق اول سے اللہ کی وحدانیت کا احساس انسان کی فطرت بالقوہ (Potential nature) میں راسخ کر دیاگیا، تاکہ انسان مرکز توحید سے وابستہ رہے، قلب حقیقت کی تلاش میں رہے، چاہے اس کا ماحول جس قسم کا ہو، خواہ وہ کفر والحاد کا ہو یا شرک وبت پرستی کا، بہرحال اس کے لاشعور میں رب العالمین جل شانہ کا احساس کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے، انسانی فطرۃ بالقوۃ (Human Nature) میں موجود اقرار الوہیت کا یہ لطیف راز اس وقت کھل کر سامنے آتا ہے، جب ہم بتوں اور مظاہر قدرت کے سامنے سر جھکانے والوں کو دیکھتے ہیں، کہ وہ بھی ’’کسی بہت بڑی طاقت‘‘ کو اپنا رب تسلیم کرنے کے لئے تصویروں، بتوں اور مظاہر قدرت کے سامنے اپنے سروں کو جھکاتے ہیں، ’’کوئی ہے ضرور‘‘ جسے وہ اپنا رب ماننا چاہتے ہیں۔ دوسرا میثاق خاص اہل کتاب علمائے کرام سے اظہار دین کا لیا گیا۔

’’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْکِتَابَ لِتُبَيِّنَنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَاتَکْتُمُوْنَهَ‘‘

تیسرامیثاق سرکار ہر دوسرا نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی خدمت و اطاعت بجالانے کا جو بلا واسطہ سارے انبیاء و مرسلین اور پیغمبروں علیہم السلام سے براہ راست اور بالواسطہ ان کی امتوں سے لیاگیا اور تین تاکیدوں کو جمع کرنے سے اسے مزید مضبوط بنایا؛ اول یہ کہ تمام رسل و انبیاء کو ایک دوسرے پر گواہ بنایاگیا، دوئم یہ کہ اپنی شہادت ان کے عہد پر قائم فرمائی، سوم یہ کہ اس عہدکی پاسداری نہ کرنے والوں کو فاسق قرار دیاگیا، یہ تیسری تاکید اور وعید بعثت نبوی کے بعد سابقہ پیغمبروں کی امتوں کے لئے ہے کہ نبی آخر الزماں سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے کافر مطلق ہوں گے، سرورکائنات فخر موجودات تمام کائنات کے رسول اور تمام رسولوں کے سردار ہیں، تمام نبی علیہم السلام آپ کے براہ راست امتی ہیں۔ آپ کی امت تمام امتوں سے افضل ہے، اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے شاہکار خلق اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک اور مقام و مرتبہ کو بے مثال رکھا، اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کی طرح ان کی صفات کو بھی بے مثل رکھا، ان کی نبوت اور رسالت بے مثل، ان پر اتاری گئی کتاب بے مثل، ان کی معراج اور اللہ تعالی سے ملاقات بے مثل، ان کا کلام بے مثل، ان کی اہل بیت بے مثل، ازواج بے مثل، بنات و اولاد بے مثل، اسوہ حسنہ بے مثل، سیرت بے مثل، خطاب بے مثل، غزوات بے مثل، اللہ سے عشق بے مثل، علماء و اولیاء بے مثل، اللہ سبحانہ کی طرف راہ نمائی بے مثل اور امت کی تعلیم وتربیت بے مثل ہے۔