نور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سیدہ ریحانہ بخاری

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے

نوخیز کلیوں نے اک ادا کے ساتھ اپنی مخمور نگاہوں کو کھولا اور بھرپور انگڑائی لی۔ کھلتی ہوئی ان معصوم کلیوں کی مہک ساری فضا کو معطر کرگئی۔ ایک آبدار موتی اپنی چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کرتا ہوا مخملی گھاس پر آگرا۔ گھاس نے مسکرا کر موتی کو اپنی آغوش میں چھپا لیا۔ چشم فلک نے بڑے پیار سے اس حسیں منظر کو دیکھا۔ ایک یہی قطعہ کیا آج تو سارا ماحول ہی ایسے حسین مناظر پیش کر رہا تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا آج ہی تو وہ مبارک ہستی کائنات رنگ و بو میں تشریف لائی تھی جس کی خاطر اسے تخلیق کیا گیا تھا آج ہی تو اس نور نے ساری دنیا کو منور کیا تھا جس کی خواہش وادی مکہ کی ہر دوشیزہ کے دل کی دھڑکن تھی۔

نور نبوت اور فاطمہ بنت مَر

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ قریش مکہ کے وہ حسین و جمیل، مردانہ وجاہت کا شاہکار نوجوان تھے جن کے حسن کی انتہا وہ نور نبوت تھا جو پیدائش سے لے کر آج تک ان کی روشن اورکشادہ پیشانی میں ستاروں کی مانند چمکتا تھا۔ اسی نور کے باعث ان کے حسیں چہرے میں ایسی بھرپور مقناطیسیت پیدا ہوگئی تھی کہ اپنے پرائے سب ان کے گرویدہ تھے۔ ان کی جانب کھنچے چلے آتے تھے۔ اسی نور کی کشش کے باعث قریش مکہ کی تمام دوشیزائیں اپنے دل میں آپ رضی اللہ عنہ کی خواہش رکھتی تھیں اور آپ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر کے اس نور کی امین بننا چاہتی تھیں۔ ان میں سے چند نے تو موقع ملنے پر نہایت شائستہ اور مہذب انداز میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس خواہش کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ انہی خواتین میں سے ایک کا نام فاطمہ بنت مَر بتایا جاتا ہے یہ نہایت باکردار اور کتب سماوی کی عالمہ تھیں تمام قریش کی طرح ان کے علم میں بھی یہ بات تھی کہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بچ جانے کی خوشی میں سو اونٹ قربان کئے ہیں۔ وہ بھی زندگی کے شب و روز میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں چمکتے نور کا مشاہدہ کیا کرتی تھیں اور اپنے دل میں اس نور کو پانے کی خواہش رکھتی تھیں۔ ایک روز انہوں نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس خواہش کا اظہار بھی کر دیا اور کہا اے عبداللہ! آپ کے والد نے آپ کی زندگی کی خوشی میں جتنے اونٹ قربان کئے تھے میں اتنے ہی اونٹ دینے کو تیار ہوں اگر آپ مجھ سے نکاح کر لیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بوجوہ انکار کر دیا۔ جب حضرت عبداللہ کی شادی حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا سے ہوگئی تو اس عالمہ نے اپنی خواہش کی وضاحت اس طرح کی۔ ’’اے عبداللہ میں کوئی بدکردار عورت نہیں ہوں میں آپ کی جانب اس لئے مائل ہوگئی تھی کیونکہ آپ کی پیشانی میں نور نبوت چمکتا تھا‘‘۔

فاطمہ شمعیہ کی خواہش نکاح

یہ خواہش محض ایک عورت کی نہیں تھی ایسی کئی اور خواتین بھی تھیں انہی میں مکہ کی وہ عورت بھی تھی جو کاہنہ ہونے کے ساتھ ساتھ تورات اور انجیل کی عالمہ بھی تھی۔ جب حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ کو لے کر بغرض نکاح قبیلہ بنو زہرہ روانہ ہوئے تو راستے میں اس عورت یعنی فاطمہ شمعیہ سے ملاقات ہوئی۔ فاطمہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چمکتے دیکھا تو فوراً سب کچھ بھانپ کر اس نور پر ہزار جان سے فریفۃ ہوگئی اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو نکاح کا پیغام دیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ابھی تو ہم جار ہے ہیں واپسی پر تجھ سے بات ہوگی۔

حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا امین نور نبوت

قبیلہ بنو زہرہ کے مرحوم سردار وہب کی بیٹی اور موجودہ سردار وہیب کی بھتیجی بی بی آمنہ کی اعلیٰ ترین سیرت و کردار کے چرچے زبان زد خاص و عام تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ بھی حضرت عبداللہ کی مانند حسیں سیرت و حسن صورت کا مکمل اور بے مثل نمونہ تھیں۔ حضرت عبداللہ اپنے والد کے ہمراہ قبیلہ بنو زہرہ پہنچے یہاں حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اپنے لاڈلے بیٹے کے ساتھ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہ کے نکاح کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ وہیب کو قریش مکہ کے اعلیٰ ترین گھرانے کے اتنے بہترین رشتے سے بھلا کیونکر انکار ہو سکتا تھا چنانچہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا سے ہو جاتا ہے اور یوں دو پاکیزہ روحیں نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ جاتی ہیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تھوڑا عرصہ وہاں قیام کرنے کے بعد اپنی عفت مآب دلہن کو لے کر واپس مکہ آجاتے ہیں۔

فاطمہ شمعیہ کی اپنی خواہش نکاح سے دستبرداری

انہی دنوں میں حضرت عبداللہ کا گزر ایک بار پھر فاطمہ شمعیہ کے قریب سے ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ اسے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ تو نے ہمیں نکاح کا پیغام دیا تھا اس وقت ہم نے تجھے جواب نہیں دیا تھا۔ آج تو اپنی مرضی بتا۔ فاطمہ ایک بار پھر آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھتی ہے اور افسوس سے جواب دیتی ہے۔ اے عبداللہ! اب مجھے آپ سے شادی کی خواہش نہیں رہی کیونکہ جس نور کی تمنا میں، میں آپ سے نکاح کرنا چاہتی تھی وہ نور تو خوش نصیب آمنہ رضی اللہ عنہا لے گئی اب میں آپ سے شادی کر کے کیا کروں گی؟

حجرہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا اور نور کی بارش

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی شادی ماہ رجب کے اوائل میں ہوتی ہے وہ پیر کا مبارک دن تھا اور صرف تین دن بعد جمعہ کی رات کو یہ مقدس اور دلآویز نور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشت مبارک سے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک میں منتقل ہو جاتا ہے اور اس نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشری ولادت کی تشکیل کا اہتمام شروع ہوجاتا ہے۔ 9 ماہ گذر جاتے ہیں اور پھر ایک متبرک اور روشنیوں میں نہائی ہوئی ایک حسین شب۔۔۔۔

پڑتی ہے نوری بھرن امڈا ہے دریا نور کا
سر جھکا اے کشت کفر، آتا ہے اہلا نور کا

وادی مکہ میں مٹی سے بنے ایک کچے مکان کے خوشبوؤں سے معطر ایک کمرے میں ایک حسین و جمیل دوشیزہ بلند اور اعلیٰ ترین سیرت و کردار کی حامل شرم و حیا اور معصومیت کا پیکر، صبر و شکر کی اعلیٰ ترین قدروں کی خوگر جیون ساتھی کی جدائی کا صدمہ دل ناتواں میں چھپائے اپنی فطری معصومیت کے ساتھ تخلیق کے عظیم اور پاکیزہ ترین مرحلے سے گزر رہی تھی آج کی رات اس کی زندگی کی سب سے حسین رات اور یہ لمحات اس کی زندگی کے ہی کیا کائنات کے حسین ترین لمحات تھے آج وہ عظیم ہستی اس کائنات ہستی میں بصورت بشر جلوہ گر و جلوہ افروز ہونے جا رہی تھی۔ جس کی خاطر ہی یہ سارا عالم آب و تاب بنایا، سجایا اور سنوارا گیا تھا جس کی محبت کی خوشبو رب کائنات نے ذرے ذرے میں سمو دی تھی جس کے حسن جہاں ساز نے کائنات کے سارے حسن کو اپنی حسین آغوش میں سمیٹ لیا تھا۔

تو حسن کائنات ہے تو جان کائنات
تیرے ہی دم قدم سے ہے کونین کا شباب

مکہ کے وہ ماہ نور اس کائنات رنگ و بو میں کیا تشریف لائے کہ اس نورانی ولادت کی برکت سے بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کا مقدر ہی جگمگا اٹھا وہ مرحلہ جو دیگر عورتوں کے لئے نہایت کٹھن ہوتا ہے آپ رضی اللہ عنہا کے لئے بے حد آسان کر دیا گیا۔ نگاہوں کے سامنے سے پردے ہٹا دیئے گئے پھر چار سو ایسا نور پھیلا کہ شام اور روم کے محلات بھی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہے۔ مخدومہ کائنات حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میرے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس کی روشنی میں، میں نے شام کے محلات دیکھ لئے، ایسا کیوں نہ ہوتا آج وجہ تخلیق کائنات اور کل عالمین کی سب سے عظیم نورانی ہستی نے بطن مادر سے آغوش مادر تک پہنچنے کی ایک اور منزل طے کر لی تھی۔ سفر سعادت کا ایک اور مرحلہ مکمل ہوگیا تھا اور ایسی نورانی ہستی کی سواری جب کسی منزل سے گزرتی ہے تو روشنیاں ہی کی جاتی ہیں راستے بقعہ نور بنائے جاتے ہیں پھر جب روشنیاں زیادہ ہوں تو عام حالات میں آنکھ سے اوجھل چیز بھی صاف نظر آنے لگتی ہے۔

حضرت مریم علیہا السلام، حضرت آسیہ علیہا السلام اور جنتی حوروں کی آمد

وہ کیا عظیم گھڑیاں تھیں کہ جب حضرت آسیہ علیہا السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کو بھی حکم ہورہا ہے کہ جنتی حوروں کو ساتھ لے کر جاؤ اور ام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس عظیم ولادت کی خوشخبری سناؤ، دلاسہ اور تسلی دو۔ انہیں راحت و آرام پہنچاؤ اس عظیم عمل سے گزرنے کی خوشی میں جنتی مشروب پلاؤ۔ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا خود ولادت شریف کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔ ’’بوقت حمل میں نے قبیلہ عبد مناف کی عورتوں کی طرح حسین اور کھجور کی طرح لمبی عورتوں کو دیکھا انہوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا میں نے ان سے زیادہ حسین عورتیں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں ان میں سے ایک عورت آگے بڑھی اور اس نے مجھ سے کہا مجھ سے ٹیک لگالو میں نے ٹیک لگالی پھر ایک اور عورت آگے بڑھی اس نے مجھے پینے کے لئے ایک مشروب دیا یہ مشروب دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا تھا وہ بڑے پیار سے کہنے لگی اسے پی لو میں نے پی لیا دوسری بولی اور پیو میں نے اور پیا جب میں سیر ہوگئی تو میں نے ان سے ان کے بارے میں پوچھا ان خوبصورت عورتوں نے بتایا کہ وہ حضرت آسیہ علیہا السلام اور حضرت مریم علیہا السلام ہیں اور ان کے ساتھ جنت کی حوریں ہیں‘‘۔ بلاشبہ ان معزز عورتوں کی جانب سے یہ ساری محبت ساری عقیدت سارا پیار سارا احترام اس عظیم ہستی کی وجہ سے تھا جو عورت کے وجود کو رفعت و عظمت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے جلوہ گر و جلوہ افروز ہو رہی تھی جن کے وجود مسعود کی برکت سے مردوں کے ہاتھوں زندہ گاڑی جانے والی لڑکی کے قدموں کو خود مردوں کی بھی جنت قرار دیا جانا تھا وہی مقدس و محترم ہستی جس کی پیدائش کل عالم کے لئے سراپا رحمت تھی۔

واہ رتبہ تیرا سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا
کب کسی کے مقدر میں ہے یا ہو

نور ہے آپ کا سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا
آپ کو جو ملا سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو فوراً بعد ہی آپ کو ساری دنیا کی سیر کرائی گئی تاکہ تمام کائنات اللہ کے محبوب اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان کر زیارت کا شرف حاصل کر لے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنی تمام سلطنت اور تمام امت کو دیکھ لیں۔

میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت شفا بنت عمرو

حضرت شفا رضی اللہ عنہا بنت عمرو فرماتی ہیں جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر ولادت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے میرے ہاتھوں میں تشریف لائے سبحان اللہ لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہوں ان مبارک ہاتھوں پر جنہوں نے سب سے پہلے حضور علیہ السلام کے نورٌ علیٰ نور بدن مبارک کو چھونے کا شرف حاصل کیا فرماتی ہیں : ’’اس وقت میں نے کسی کہنے والے کو سنا وہ کہہ رہا تھا آپ پر اللہ رحمت نازل فرمائے اور آپ کا رب آپ پر رحمت کے پھول برسائے‘‘ آگے فرماتی ہیں : ’’مشرق و مغرب میں جو کچھ تھا وہ میرے سامنے روشن ہوگیا اور یہ روشنی اتنی تھی کہ اس میں، میں نے روم کے محلات بھی دیکھ لئے‘‘ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کپڑے پہنا کر بستر پر لٹا دیا اسی دوران اچانک روشنی بھی کم ہوگئی مجھ پر رعب اور کپکپی طاری ہوگئی میں نے دائیں طرف سے سنا کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا انہیں کہاں لے گئے ہیں؟ جواب آیا مغرب کی طرف اس کے بعد پھر روشنی پھیل گئی مجھ پر رعب چھاگیا اور میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے روشنی پھر کم ہوگئی اس دفعہ بائیں طرف سے آواز آئی کوئی کہہ رہا تھا اب انہیں کہاں لے گئے ہیں؟ جواب آیا مشرق کی طرف لے گئے ہیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت عبداللہ اور ستاروں کی چمک

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت عبداللہ حیران ہیں یہ ستارے جو آسمان پر چمکتے ہیں اتنے روشن کبھی نہ تھے جتنے آج ہیں۔ کائنات جتنی روشن آج ہے اتنی پہلے تو کبھی نہ تھی جتنا نور آج ہر طرف پھیلا ہوا ہے اتنا پہلے تو کبھی نہ تھا نورانی کرنوں کی یہ چھما چھم بارش یہ کہاں سے ہو رہی ہے یہ سب کمال تھا اس نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو آج کی رات بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی گود میں چمکنے والا تھا جس کی نورانی کرنوں سے ہر ظلمت مٹ جانے والی تھی ہر تاریکی دور ہو جانے والی تھی ہر اندھیرا چھٹ جانے والا تھا چار سو نور ہی نور اجالا ہی اجالا ہونے والا تھا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت عبداللہ فرماتی ہیں جس گھڑی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی میں بھی حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھی اس وقت میں نے جس چیز کی طرف دیکھا اسے نور ہی نور پایا میں نے آسمانوں کی طرف دیکھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ تو زمین سے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں حتی کہ اتنے نیچے آگئے کہ مجھے یوں لگا گویا یہ ابھی مجھ پر گر پڑیں گے اور جب بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو ایسا نور بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا سے نکلا جس سے سارا گھر روشن ہوگیا اور ہر طرف نور ہی نور پھیل گیا۔

باغ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا

نور ولادت اور مخدومہ کائنات رضی اللہ عنہا

مخدومہ کائنات حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں مجھے دوران حمل ایسی کوئی تکلیف نہیں ہوئی جو ایسی حالت میں عام عورتوں کو ہوتی ہے جب حمل مبارک کو چھ ماہ گزرے تو خواب میں ایک ہستی تشریف لائی اس نے مجھ سے کہا اے آمنہ رضی اللہ عنہا کائنات کی افضل ترین ہستی تیرے پیٹ میں جلوہ گر ہے جب وہ پیدا ہوں تو ان کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھنا جب وہ لمحہ مبارک قریب آیا اور وہ کیفیت طاری ہوئی جو عموماً عورتوں کو ایسے مواقع پر طاری ہوتی ہے تو میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے ایک گونجدار آواز سنی جس نے میرے اوپر ہول طاری کر دیا پھر دیکھا جیسے کسی نے سفید پرندے کے پر جیسی کوئی چیز میرے سینے پہ مل دی ہے اس سے میرا خوف جاتا رہا اور ہر تکلیف زائل ہوگئی اس وقت میں پیاس محسوس کررہی تھی اچانک دودھ کی طرح سفید مشروب میرے سامنے پیش کیا گیا جو میں نے پی لیا اس سے ہر چیز منور ہوگئی جیسے مجھ سے نور پھوٹ رہا ہو۔

اپنے لاڈلے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بعد کے احوال کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرماتی ہیں کہ ایک بادل نمودار ہوا اس سے گھوڑوں کے ہنہنانے اور پروں کے پھڑپھڑانے کی آوازیں آرہی تھیں اس بادل نے انہیں ڈھانپ لیا اور وہ میری نظروں سے غائب ہوگئے میں نے سنا کوئی کہہ رہا تھا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرق و مغرب اور انبیاء کرام کے اماکن ولادت پر لے جاؤ اور جن و انس سے درندوں اور پرندوں سے اور ہر قسم کی روحانی مخلوق سے ان کا تعارف کراؤ اور انہیں حضرت آدم علیہا السلام کی صفوت، حضرت نوح علیہ السلام کی رقت و گریہ زاری، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلعت اور دوستی، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت، حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن، حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت یحیی علیہ السلام کا زہد، حضرت عیسی علیہا السلام کی سخاوت عطا فرماؤ اور اخلاق انبیاء کرام سے معمور کردو۔

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری نگاہوں کے سامنے ظاہر ہوئے اس وقت ایک سبز ریشمی کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مٹھی میں تھا کسی نے کہا مبارک ہو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا پر قبضہ کرلیا ہے اور ساری مخلوق ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں آگئی ہے پھر میں نے تین اشخاص دیکھے ایک کے ہاتھ میں چاندی کی صراحی تھی دوسرے کے ہاتھ میں سفید ریشم کا ٹکڑا تھا اس نے وہ کھولا اور اس میں سے ایک مہر نکالی اس کی چمک دمک سے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا گئیں اس سراحی کے پانی سے اسے سات مرتبہ دھویا پھر ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر لگا دی اور ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر کچھ دیر کے لئے اپنے پروں کے اندر چھپا لیا پھر انہیں میرے سپرد کر دیا اور یوں یہ مرحلہ ولادت تکمیل کو پہنچا۔

عرش کی زیب و زینت پہ عروشی درود
فرش کی طیب و نزہت پہ لاکھوں سلام

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

اس انوار و تجلیات کی مبارک رات کی صبح کائنات ہست و بود کی حسین ترین صبح تھی یہ نورانی اور سہانی گھڑیاں پکار پکار کر کہہ رہی تھیں سنو اے خالق ارض و سما کی تمام مخلوق سنو اے مشرق و مغرب کے رہنے والو سنو اے عرش و فرش کے مکینو سنو اے چاند ستارو لوح و قلم سنو اے چرند و پرند شجر و حجر سنو! سنو اور گواہ ہو جاؤ کہ آج خالق کائنات نے وجہ تخلیق کائنات کو تمہارے درمیان پیدا فرمادیا ہے وہ عظیم ترین اور مبارک ترین ہستی تمہارے لئے تمہارے درمیان پیدا کر دی گئی ہے کہ جس کی خاطر تم خود پیدا کئے گئے ہو آج مقصد تخلیق کائنات پورا ہوگیا ہے آج گوہر مقصود حاصل ہوگیا ہے آج نبوت کے جھنڈے گاڑنے کی صبح ہے آج سلسلہ نبوت کے ہمیشہ کے لئے خاتمے کی صبح ہے آج بلندیوں کو چھونے والے ستاروں کے جھک جانے کی صبح ہے اور مدنی تاجدار کے دیدار خاص و عام کی صبح ہے آؤ اور رب کائنات کی اس خوشی میں شامل ہوکر رحمتوں برکتوں کے سارے خزانے لوٹ لو کہ آج گنجینہ عطا لٹانے کی صبح ہے۔

بزم کونین پہلے سجائی گئی
پھر تری ذات منظر پہ لائی گئی

سیدالاولیں سیدالآخریں
تجھ سا کوئی نہیں تجھ سا کوئی نہیں