میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرعی تقاضے اور ہماری ذمہ داری

مسز فرح فاطمہ

محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گفتگو اس قصیدے کی مانند ہے کہ جس کا چرچا و شہرہ ہر سال ہر موسم میں پڑھا جائے پھر بھی لوگ اس سے اکتاہٹ محسوس نہ کریں بلکہ یہ ان کے قلوب و اذہان کی تازگی و شادمانی کا باعث بنے۔ ملک عزیز پاکستان میں ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی ہر طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مطہرہ کی خوشی میں عوام الناس کے مذہبی جذبات چھلکتے نظر آتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ویسے تو سارا سال ہی محافل میلاد کا انعقاد بہت عقیدت و احترام سے کیا جاتا ہے مگر ربیع الاول کے مہینے میں یہ سماں کچھ اور ہی ہوتا ہے کیونکہ زمانہ ایک دوسرے سے مربوط ہوتا ہے موجودہ موقع کو دیکھ کر لوگ تاریخ گذشتہ کو یاد کرتے ہیں اور حاضر کو پاکر غائب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔

بلاشبہ یہ محافل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توجہ الی اللہ اور توجہ الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اس موقع پر مبلغین، خطباء اور علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کے بیان کے ذریعے امت مسلمہ کو خیر و فلاح کی دعوت دیں۔ محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت اس کے تقاضے و آداب کے موضوعات پر خطابات کے ذریعے عوام الناس کو درست نہج پر آگاہی فراہم کریں تاکہ اس میں غیر شرعی رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے۔

بدقسمتی سے اس حوالے سے بہت سی خرافات نے اس مقدس و بابرکت محافل کی حیثیت کو مشکوک بنا دیا۔ امت مسلمہ اس حوالے سے دو طبقات میں بٹ گئی۔ ایک طبقہ یہ اعتراض اٹھاتا ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل عہد رسالت میں منعقد نہیں کی جاتی تھیں لہذا یہ بدعت ہیں۔ تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ محبوب خدا کا میلاد تو فرش پر ہی نہیں بلکہ عرش پر بھی منایا گیا۔ تمام کتب فضائل و سیر میں ہمیں اس قسم کی روایات ملتی ہیں کہ خوداللہ نے اپنے محبوب کی ولادت پر سارا سال خوشی منائی۔ پورا سال بطور جشن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر ساری زمیں کو سرسبز کر دیا اور قحط سالی کا خاتمہ ہوا گلے سڑے درختوں کو بھی پھل لگے۔ رزق کی اتنی کشادگی دی کہ وہ سال خوشی و فرحت کا سال کہلایا۔ اس سال ولادت میں حاملہ ماؤں کو بیٹوں کی نعمت نصیب فرمائی۔

محض بدعت کہہ کر اسے ناپسندیدہ کہہ دینا ہٹ دھرمی و تنگ نظری ہے۔ بدعت کی دو اقسام ہیں۔ بدعت سیۂ اور بدعت حسنہ۔ بدعت حسنہ وہ نیا کام ہے جو دین کی اصل روح کو مسخ نہ کرے بلکہ دین کے فروغ کا باعث بنے اور دین کے فہم میں مددگار ثابت ہورہا ہو اور یہ اعتراض کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں منایا گیا تو اس کا جواب یہی ہے کہ جس طرح موجودہ صورتحال میں محافل میلاد مصطفی منعقد کی جاتی ہیں۔ نعتیہ اشعار، اذکار، فضائل و کمالات بیان کئے جاتے ہیں تو یہ اپنی اصل میں بالکل نبی کی سنت مطہرہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں بھی محافل میلاد منعقد کی جاتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں بیٹھتے تھے اور محفل نعت منعقد کرواتے تھے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ اشعار کہتے تھے۔ آپ دعا فرماتے :

’’اے اللہ! جب تک حسّان میری نعت پڑھتا رہے جبرائیل امین کو اس کی مدد کے لئے مقرر فرمادے‘‘۔ (صحیح بخاری، 2 : 908)

دوسرا طبقہ وہ ہے کہ جو میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر خرافات و منکرات و بدعات و محرمات کو نادانی میں انجام دے رہے ہیں اور بے ادبی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ صد افسوس کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانے والے اور جلوس و میلاد مصطفی کا اہتمام کرنے والے ایک طرف تو اتنی محبت کا اظہار کریں اور میلاد کی خوشیوں کو جزو ایمان سمجھیں دوسری طرف شرعی تقاضوں کو نظر انداز کر کے بے ادبی و گناہ کے مرتکب ہوں۔

عمومی طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کے موقع پر بعض شہروں میں نقلی پہاڑیاں، مذہبی مقامات کے ماڈلز بنائے جاتے ہیں۔ ان کی تزئین و آرائش پر بے تحاشہ خرچہ کیا جاتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان پہاڑیوں پر ڈسکو میوزک پر باقاعدہ نوجوان رقص کرتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ خواتین جوق درجوق بہت شوق کے ساتھ ان جگہوں پر آتی ہیں۔ یہ بے حجابانہ اختلاط سراسر گناہ کا باعث ہے اور ڈھول ڈھمکے، فلمی گانے سب حرام اور ناجائز امور ہیں۔ جب تک ان محافل میں وقار اور سادگی کو پیدا نہ کیا جائے گا یہ محافل اللہ و رسول کی رضا سے محروم رہیں گی۔ ان محافل میں آداب سے پہلو تہی کی جائے گی تو رحمت خداوندی اور اس کے فرشتوں کا نزول نہیں ہوگا۔

قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اس برائی کے خلاف کسی بھی طبقے سے آواز نہیں اٹھائی جاتی بالعموم مذہبی طبقے کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔

ہماری امت مسلمہ کے حوالے سے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کے تقاضوں کو سمجھیں اور اپنے کردار کا جائزہ لیں محفل میلاد کو نہایت سادگی، وقار، صدق اور اخلاص سے منعقد کریں۔ مردو زن کے آزادانہ اختلاط کی بجائے علیحدہ علیحدہ محافل گھر گھر منعقد کی جائیں۔ بازاروں اور گلیوں کو ضرور سجائیں، چراغاں کریں مگر فضول خرچی نہ کریں ان گھروں کی طرف بھی ایک نظر ڈالی جائے کہ جس گھر میں روشنی نہیں جو اپنے بچوں کے پیٹ بھرنے سے قاصر ہیں۔ قرض اٹھا کر بڑی بڑی محافل نہ سجائی جائیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں حسب توفیق جو بھی پیش کیا جائے گا وہ ان شاء اللہ قبول ہوگا۔

حکومت وقت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھے بلکہ اس موقع پر میلاد کے نام پر جو میلے، تھیٹر، سرکس اور اوباش لوگوں کے رقص و سرور پر سختی کا مظاہرہ کرے اور اصلاحی تدابیر عمل میں لائے۔ ان محافل کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل کو بیان کرنا ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی مگر افسوس!

حقیقت خرافات میں کھوگئی
یہ امت روایات میں کھوگئی

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سچا عاشق اور سنت پر عمل پیرا ہونے والا سچا مسلمان بنائے۔ آمین