خواتین کے حقوق کا تحفظ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

افتخار شاہ بخاری

امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، جرمنی سمیت دیگر تمام مغربی ممالک میں عورت کے حقوق کے سلسلے میں ہر سال عالمی یوم خواتین کے موقع پر بڑی بڑی تقریبات، ریلیاں، کانفرنسز منعقد ہوتی ہیں اخبارات میں کالم لکھے جاتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کی تشہیر اور مباحثے منعقد کئے جاتے ہیں تاہم یہ ایک المیہ ہے کہ آج مغربی اہل علم جب بھی عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں، تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس باب میں اسلام کی تاریخی خدمات اور بے مثال کردار کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں، یہ کوتاہ بینی اسلام سے ان کی حسد و نفرت کا بین ثبوت ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ یورپ اور براعظم امریکہ میں اسلام سب سے زیادہ فروغ پذیر مذہب ہے اور جیسے جیسے اسلام کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا زور بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغیات، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مغرب پہلے ہی عالم اسلام سے بہت زیادہ طاقتور ہے، مصنوعی خلائی سیاروں کی بدولت مغرب عالم اسلام کے خلاف صحافتی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسلام کے خلاف بے بنیاد اور شر انگیز الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے سے پچھلی دو دہائیوں سے جاری ہے، مختلف نوعیت کے الزامات میں سب سے زیادہ اور تواتر کے ساتھ جو الزام عائد کیا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام میں خواتین کے حقوق محفوظ نہیں ہیں، یہ الزام حقیقت کے برخلاف اور شرانگیزی پر مبنی ہے۔

اس سازش کو عالمی سطح پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بے نقاب کر کے ایسے دلائل کے ساتھ رد کیا ہے جس کا جواب مغربی دانشوروں کے پاس موجود نہیں ہے۔ شیخ الاسلام نے اس سلسلے میں مختلف کانفرنسز میں دوران خطاب دین اسلام کی طرف سے تفویض کئے گئے خواتین کے حقوق کو اجاگر کیا ہے اور انہوں نے اپنی کتاب ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ میں اہل مغرب کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے کہ صرف اہل مغرب ہی خواتین کے حقوق کے پاسدار نہیں ہیں۔ اس کتاب میں ایسے دلائل دیئے گئے ہیں جس کی روشنی میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ دین اسلام ہی خواتین کے حقوق کا حقیقی علمبردار ہے۔ جس سے تاریخ انکار کر سکتی ہے اور نہ اس کا جواب اہل مغرب کے نام نہاد اسکالرز و اہل علم کے پاس ہے۔

شیخ الاسلام نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ پچھلی صدی کے آغاز تک مغربی قانونی تاریخ میں عورت ایک Non-person تھی۔ عورت کو نہ تو باقاعدہ Legal person تسلیم کیا گیا اور نہ ہی مغربی قانون ساز اداروں کے مختلف قوانین میں مذکور Person یا Man کے ذیل میں بھی عورت کو کبھی شامل کیا گیا تھا۔

(W.Blackston commentaries on the law of English Book-1.Ch.15-P 442)

شیخ الاسلام نے عورت کے حق رائے دہی کے اعتراف کی تاریخ کا جائزہ پیش کر کے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ برطانیہ میں عورت کے حق رائے دہی کے لئے جدوجہد کا آغاز 1897ء میں Millicent Fawcett نے "National union of women's sufferage" کے قیام سے کیا۔ یہ تحریک اس وقت زیادہ زور پکڑ گئی جب 1903 ء میں Emmeline pakhurst نے Women's Social and political union بنائی اور یونین بعد میں Sufferagettes کے نام سے مشہور ہوئی۔

برطانیہ کے ہاؤس آف کامن نے 1918ء میں 55 کے مقابلے میں 385 ووٹوں کی اکثریت سے Representation of people act پاس کیا۔ جس کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیاگیا۔ اگرچہ یہ خواتین کے سیاسی حقوق میں حق رائے دہی کے اعتراف کا نقطہ آغاز تھا مگر ابھی عورتوں کو مردوں کے برابر مقام نہیں دیاگیا تھا کیونکہ عام مردوں کیلئے حق رائے دہی کی اہلیت 21 سال اور مسلح افواج کے لئے 19 سال تھی۔

امریکہ میں 4 جولائی 1976ء کا اعلان آزادی جدید جمہوری معاشرے کے قیام کی خشت اول سمجھا جاتا ہے مگر اس میں بھی عورت کو بنیادی انسانی حقوق کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ Richard N.Current کے مطابق نوآبادیاتی معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے کوئی حقوق نہ تھے اور نہ ہی انقلاب آزادی سے اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی۔ (American History new year1987)

اس طرح جب جیفرسن نے اعلان آزادی میں The people کا لفظ استعمال کیا تو اس سے مراد صرف سفید فام آزاد مرد تھے۔

(Lorna C.Mason History of the united state vol 1 1992, P-188)

آج دو صدیوں بعد بھی امریکہ میں عورت آزادی ومساوات کے لئے مصروف جدوجہد ہے۔

(Milton Democracy under pressure 1993, p-45)

انیسویں صدی کی امریکن خاتون Susan B. Anthony جو کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کرتی رہی ہیں، 1872ء میں اس خاتون کو صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر گرفتار کیاگیا اور سوڈالر کا جرمانہ بھی عائد کیاگیا کیونکہ امریکن قوانین میں اس وقت عورت کو قانونی طور پر حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔ اس کے بعد 4 جون 1919 ء میں امریکی کانگرس اور سینٹ نے امریکی آئین کا 19 واں ترمیمی بل منظور کیا جس میں یہ قرار پایا کہ ’’آرٹیکل 19 : کوئی ریاست یا متحدہ ریاستیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہریوں کا حق رائے دہی جنس کی بنیاد پر ختم نہیں کریں گی‘‘۔ گویا امریکہ میں 1920 ء تک عورت کو رائے دہی کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ انیسویں ترمیم کے بعد عورت کو یہ حق حاصل ہوا۔ 7 فروری 1848 ء میں فرانس کی عبوری حکومت نے خواتین کے حقوق کا اعتراف کیا۔

1۔عمومی حق رائے دہی 2۔ تعلیم 3۔روزگار

مگر عورتوں کو حق رائے دہی ان کی طویل جدوجہد کے بعد 1994ء میں دیاگیا۔ آسڑیلیا میں ملک گیر سطح پر خواتین کو رائے دہی کا حق 1926 میں دیاگیا۔ عورتوں کو سب سے پہلے حق رائے دہی دینے والا ملک نیوزی لینڈ تھا جس نے 1893 ء میں یہ حق تفویض کیا۔ آسٹریلیا میں پہلی بار 1943 میں خاتون پارلیمنٹ منتخب ہوئی جبکہ نیوزی لینڈ میں 1933ء فن لینڈ میں 1907ء ناروے میں 1936، ڈنمارک میں 1918 ء، UK میں 1918 میں پہلی بار خاتون رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی۔

شیخ الاسلام مدظلہ نے اہل مغرب کے دعویٰ کی قلعی کھولنے کے بعد اسلامی تاریخ کی روشن مثالیں تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام نے ریاست مدینہ کے قیام کے ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو یہ حق رائے دہی اپنی سنت مبارکہ سے فراہم کیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دور مبارکہ میں عورتوں کو جہاد میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ عورتوں کی یہ حیثیت اسلامی معاشرے میں ان کے فعال کردار اور نمایاں مقام کی مظہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت مبارکہ پر عمل خلافت راشدہ کے دور میں بھی جاری رہا اور رائے دہی کے معاملات میں خواتین کی بھرپور شمولیت ہوتی تھی۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نظام خلافت میں آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ میں خواتین کو بھی نمائندگی کاحق حاصل تھا۔ ایک موقع پر جب آپ نے مجلس شوریٰ سے عورتوں کے مہر کی مقدار متعین کرنے پر رائے لی تو مجلس شوری میں موجود ایک عورت نے کہا کہ آپ کو اسکا حق اور اختیار نہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

’’اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن) (النساء،4 : 20)

ا س پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز واپس لے لی اور فرمایا ’’ایک عورت نے عمر سے بحث کی اور وہ اس پر غالب آ گئی‘‘۔ (عبدالرزاق، المصنف، 6 : 180، رقم : 10420)

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ کسی عام جگہ مارکیٹ و بازار وغیرہ میں بحث کے لئے نہیں پیش کیاگیا تھا بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا، مشاورت کے عمل میں منتخب لوگ شریک تھے لہذا ایک خاتون کا بل پر اعتراض کا مفہوم یہ ثابت کرتا ہے کہ اس وقت مجلس شوری میں خواتین بھی ممبرز پارلیمنٹ تھیں جنہیں بحث کا مکمل حق حاصل تھا۔

اسلام نے عورت کو سماجی، سیاسی اور معاشرتی زندگی میں وقار عطا کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ سے خواتین سے مشاورت کی تعلیم دی۔ اعلان نبوت کے آغاز میں ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کردار اس کی واضح نظیر ہے۔ مسلم معاشرے میں خواتین کو صرف مجلس شوری کی رکنیت کا حق ہی حاصل نہیں تھا بلکہ وہ مختلف انتظامی و انصرامی ذمہ ادریوں پر بھی فائز تھیں مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبداللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا، وہ Accountability کورٹ اور Market administration کی ذمہ دارتھیں۔

(ابن حزم المحلی : 9 : 429 )

ریاستی معاملات میں بھی عورت کے کردار پر اسلام نے اعتماد کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں 28ھ میں حضرت ام کلثوم بنت علی کو ملکہ روم کے دربار میں سفارتی مشن پر بھیجا۔

(طبری، تاریخ الامم والملوک، 2 : 601)

شیخ الاسلام نے عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق کے علمبردار محسن انسانیت کے زمانہ اور خلفاء راشدین کے ادوار میں کئے جانے والے چودہ سوسال قبل کے اقدامات سے روشناس کرا کر مغرب کے اس الزام کی نفی کی ہے کہ اسلام میں خواتین کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔

مفکرین آج کے دور میں اہم سیاسی معاملات میں عورت کی شمولیت کا سہرا مغرب کے سر رکھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یہ اسلام ہی تھا جس نے آج سے چودہ سوسال قبل عورت کونہ صرف حق رائے دہی دیا بلکہ عورت کو وہ عزت و تکریم بھی دی جس سے وہ معاشرے کا ایک موثر اور باوقار حصہ بن گئی اور اس نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سیاسی و انتظامی اور سفارتی کردار کے علاوہ علم و عمل میں بھی عورتیں نمایاں مقام کی حامل تھیں۔ لہذا اہل مغرب اور مفکرین اپنے اس نظریہ کی اصلاح کر لیں کہ سب سے پہلے اہل مغرب نے خواتین کو حقوق نہیں دیئے بلکہ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے 14 سوسال قبل یہ حقوق عورت کو تفویض کردیئے تھے۔