صلوۃ و سلام کے مفاہیم اور فضائل و برکات : تیسری قسط

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد، ناقلہ : مریم کبیر

جب فاصلوں کی دنیا تھی حضرت جبرائیل علیہ السلام ساتھ چلے، براق بھی ساتھ رہا کیونکہ یہ فاصلے کی دنیا کی سواری تھی اور وہ فاصلے کی دنیا کے شہسوار تھے خواہ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر تھا یا مسجد اقصیٰ سے عالم سموات کا سفر تھا یا سمواتِ دنیا سے عرش معلیٰ تک سفر تھا یا بیت المعمور سے سدرۃ المنتہیٰ کا سفر تھا۔ سدرۃ المنتہیٰ اس انتہا کو کہتے ہیں جس انتہا پر سارے فاصلے ختم ہو جاتے ہیں عالم مکان وہ ہے جس میں فاصلے ہوتے ہیں خواہ قریب ہوں یا دور۔ لیکن جب کوئی عالم مکان سے نکل کر عالم لامکاں میں داخل ہوتا ہے تو فاصلے نہیں رہتے۔ آپ سائنسی دنیا میں بھی کبھی غور کریں تو جوں جوں آپ Space میں ہزاروں میل دور چلے جاتے ہیں تو زمانہ سکڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ Scientific Principle ہے۔ جیسے دو بھائی اکٹھے جڑواں پیدا ہوئے جن کی عمر بیس بیس سال تھی ایک Space سے اوپر چلا گیا۔ دوسرا زمین پر رہا۔ اب جو بھائی زمین کو چھوڑ کر گیا تھا۔ جب وہ زمین پر واپس آئے گا تو اس وقت زمین والے کی عمر چالیس سال ہوگی اور جو Space سے باہر نکل گیا تھا اس کی عمر 35 سال ہوگی کیونکہ اصول ہے کہ جتنا انسان اوپر جائے گا اتنا زمانہ سکڑتا جائے گا اور جیسے زمانہ سکڑے گا ویسے فاصلے سکڑیں گے نیچے والے پر بیس سال گزر گئے اوپر والے پر پندرہ سال گزرے اس طرح پانچ سال کا زمانہ کم ہوگیا۔ یہ تو عالم مکاں کی بات ہے اور اگر کوئی عالم لامکاں پر چلا گیا تو کیا اس کا کوئی فاصلہ رہ گیا؟ اسی Space پر جانے والے کا زمانہ رہا نہ مکان رہا تو پھر عالم لامکاں میں زمانہ اور فاصلہ کیسے رہے گا؟ اب اس پر قرآن کی دلیل دیتا ہوں۔

سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ ملکہ سبا بلقیس اسلام قبول کرنے یمن سے آرہی ہے، ہزاروں میلوں کا فاصلہ ہے آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت میرے دربار میں میرے سامنے حاضر کر دے؟ اس پر جنّات کا سردار اٹھا اس نے کہا میں لا سکتا ہوں۔ پوچھا کتنی دیر میں؟ اس نے کہا جتنی دیر میں آپ اپنی کرسی سے اٹھیں اتنی دیر میں ہزاروں میلوں کا فاصلہ سکیڑ کر ملکہ سبا بلقیس کا تخت حاضر کردوں گا۔

یاد رہے وہ جنّ تھا اور اپنی جناتی طاقت استعمال کر رہا تھا۔ ولی نہ تھا اب ایک ولی اٹھ کھڑا ہوا جو حضرت سلیمان علیہ السلام کا صحابی تھا۔ جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے۔

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ.

(النحل، 27 : 40)

(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے آنکھ جھپکی اور کھولی تو تخت سامنے موجود تھا۔ اب قرآن کے مطابق آنکھ جھپکنے سے پہلے جو تخت آگیا۔ اتنی دیر میں کوئی آدمی غائب بھی نہیں ہوسکتا۔ غائب ہونا تو درکنار کوئی شخص کھڑا بھی نہیں ہو سکتا مگر صرف آنکھ جھپکنے میں تمام فاصلے ختم کر کے تخت کو حاضر کر دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عالم مکاں کے فاصلے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ چہ جائیکہ کوئی لامکاں میں چلا جائے جہاں فاصلے کا تصورہی نہیں۔ اب یہ فاصلہ کیسے مٹا کہ تخت حاضر کر دیا گیا؟ اس سوال کا جواب بھی اسی مذکورہ آیت کریمہ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ.

(النمل، 27 : 40)

’’پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پا س رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا : یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

معلوم ہوا جب بندہ خود کو خدا میں فنا کر دے تو خدا اس کے سارے فاصلے اس کے وجود میں فنا کر دیتا ہے اب جس کے اپنے فاصلے خدا سے نہیں مٹے تو اسے دوسرے فاصلوں کا مٹنا کیسے سمجھ میں آئے گا؟ وہ تو دربار سلیمان علیہ السلام کا ولی تھا جس نے اپنا فاصلہ مٹا کر خدا کے فضل میں فنا پائی تھی۔ اس کے فاصلے مٹ کر ایک ہوگئے۔ کہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک ولی کا فاصلہ مٹنا اور کہاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی امت کے ولیوں کا فاصلہ مٹنا اور پھر کہاں خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فاصلہ مٹنا کہ معراج کی سواری براق بھی پیچھے رہ گیا حضرت جبرائیل امین بھی نیچے رہ گئے۔ سدرۃ المنتہٰی بھی نیچے رہ گئی پھر عالم لامکاں میں داخل ہوئے جہاں نہ Time ہے نہ Space۔ اس جہاں میں گئے جہاں جہان بھی نہیں۔ اس مکاں میں گئے جہاں مکان نہیں۔ اس جگہ گئے جہاں جگہ اور فاصلہ نہیں۔ وہاں پہنچ کر فرمایا :

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO

(النجم، 53 : 9، 8)

’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوہ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)

دو کمانوں کا فاصلہ خالق اور مخلوق کی قربت کی انتہا تھی مگر رب تعالیٰ چونکہ اپنے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمیشہ صلوۃ پڑھتا ہے اور صلوۃ وصل یصل وصلاً، وصولاً یا وصالاً سے ہے اورجب تک اس میں ملنے کا معنی نہ پایا جائے تب تک صلوۃ کا پورا معنی ادا نہیں ہوتا لہذا قاب قوسین میں قربت تھی مگر وصال نہ تھا۔ رب تعالیٰ اپنے محبوب کو لامکان میں لایا جہاں فاصلے کا نام و نشان نہیں پھر بھی دو کمانوں کا فاصلہ رکھے بات نہیں بنتی لہذا فرمایا۔ ’’اَوْ اَدْنٰی‘‘ پھر (یہ دو کمانوں کا) فاصلہ بھی نہ رہا۔ فاصلوں کی تمام حدیں ختم کر دیں۔ بس ایک حد برقرار رہی جس کے بارے میں فرمایا فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO (النجم، 53 : 10) ’’پس (اس خاص مقام قرب و وصال پر) اس (اللہ) نے اپنے عبد (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔

ایک حد برقرار رہی کہ جانے والا عبد رہا اور لے جانے والا معبود رہا۔ یہ مخلوق رہا وہ خالق رہا۔ باقی تمام فاصلے ’’اَوْ اَدْنٰی‘‘ میں گم ہوگئے۔ اسی طرح اس مادہ وصل سے عربی زبان میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے ’’الوصیلہ‘‘ جس سے صلوۃ نکلا ہے۔ اگر ایک وسیع زمین اور ادھر دوسری وسیع زمین کا ٹکڑا اور دونوں کے کنارے مل جائیں اور کوئی نالہ اور راستہ نہ رہے توان دونوں کناروں کو الوصیلہ کہتے ہیں۔ اسی سے صلہ رحمی ہے یعنی ٹوٹے رشتوں کو جوڑنا اور قطع رحمی خونی رشتوں کو توڑنا ہے اس سے لفظ صلوۃ ہے کہ زمین الگ الگ ہو مگر کنارے جڑ جائیں تو اسے صلوۃ کہتے ہیں۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام پر اس صلوۃ کا معنی یہ ہوگا کہ آقا علیہ السلام فوق العرش گئے، عرش مخلوقات کی انتہا ہے بالائے عرش مخلوق کا کوئی کام نہیں جب آقا عرش سے آگے گزر گئے تو مخلوق کی انتہا کا مقام حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں کے نیچے آگیا۔ اب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر صرف خدا تھا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نیچے مخلوق رہ گئی تھی اور حضور علیہ السلام خود بھی مخلوق تھے لہذا آپ بین الخالق والمخلوق برزخ بن گئے۔ آقا علیہ السلام کا ایک رخ ادھر خدا سے جڑ گیا تھا اور قدم مخلوق کے سروں پر تھے لہذا ایک رخ سے دے رہے تھے اور دوسرے رخ سے لے رہے تھے۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا خدا سے اس طرح جڑ جانا اور اتصال ہونا کہ کوئی فاصلہ درمیان میں نہ رہے۔ یہ اللہ کا حضور علیہ السلام پر صلوۃ پڑھنے کا معنی ہے گویا ان تمام معانی کا لب لباب یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر صلوۃ پڑھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سے اس نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو تخلیق کیا ہے تب سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان اور مقام و مرتبہ بلند کر رہا ہے۔ تب سے فاصلے مٹا کر قربتیں دے رہا ہے اور اپنے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ اب بولئے کون سی کمی شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رہ گئی؟ حضور کو بلند مقام سے بہرہ یاب کرنا اور اس کا چرچا کرتے رہنا ہی اللہ کا حضور علیہ السلام پر صلوۃ پڑھنا ہے۔

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو رب تعالیٰ نے اپنے اس عمل کے ساتھ شریک کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان سارے پردے ہٹا دیئے یہی وجہ ہے کہ جو شان، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی وہی شان حضور علیہ السلام پر درود پڑھنے میں رکھی۔ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے آقا علیہ السلام نے فرمایا ’’لوگو! تمہاری کوئی دعا ایسی نہیں ہے کہ اس دعا اور اللہ کے درمیان پردہ اور حجاب حائل نہ ہو مگر جب مجھ پر درود پڑھا جاتا ہے تو اللہ اس درود پاک کے صدقے اس کے اور دعا کے درمیان حائل پردے کو ہٹا دیتا ہے تو گویا دعا کو بھی اپنا وصال عطا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے فوری قبول ہو جاتی ہے۔ یہ وہی ملاپ اور وصال ہے جو اس نے اپنے محبوب کو عطا کیا ہے۔ وہی شان اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود و سلام کو دی ہے۔ اگر درود کے بغیر دعا کر دی تو حجاب باقی رہا اور اگر درود و سلام پڑھ لیا تو حجاب اٹھ گیا۔ اس لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ لوگو! گھروں میں داخل ہوتے وقت حتی کہ جب مسجد میں داخل ہو جاؤ تو دعا سے پہلے مجھ پر سلام پڑھا کرو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ امام نسائی نے بیان کیا ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

قَالَ اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَی النَّبِیِّ وَقُلْ اللّٰهُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.

’’جب مسجد میں قدم رکھو تو مجھ پر سلام پڑھا کرو اور پھر کہو اے اللہ میرے لئے رحمت کے دروازے کھول دے‘‘۔

اس لئے کہ بغیر سلام پڑھے حجاب رہے گا اور حجاب رہا تو رحمت الہٰی کے دروازے نہیں کھلیں گے اور اگر چاہتے ہیں کہ دعا قبول ہو جائے اور میری رحمت کے دروازے کھول دیئے جائیں تو دعا سے پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پڑھو۔

آگے لطف کی بات یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا درود و سلام جو خدا تک حجاب اٹھا دیتا ہے اس کی شان یہ ہے کہ درود و سلام پڑھنے والا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ہر امتی خواہ وہ لندن، امریکہ، افریقہ، پاکستان، ہندوستان، شرق و غرب، عرب و عجم میں جہاں بھی پڑھے مگر یہ سارے فاصلے مٹا دیئے جاتے ہیں۔

اس کو نہ ٹیلیفون کرنے ، ای میل بھیجنے اور نہ انٹرنیٹ کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ حدیث صحیح میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

مَامِنْ اَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّارَدَّاللّٰهُ عَلَیَّ رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ.

(سنن ابی داؤد، 2 : 218، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، رقم : 2041)

’’جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے میری روح لوٹا دیتا ہے پھر میں اس سلام بھیجنے والے شخص کے سلام کا جواب خود دیتا ہوں‘‘۔

بعض افراد کو مغالطہ لگا اور انہوں نے ’’اِلَّارَدَّاللّٰہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ‘‘ کا معنی غلط سمجھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار مقدس پر جالی مبارک کے سامنے سلام پڑھیں تو تب حضور علیہ الصلوۃ والسلام درود کا جواب دیتے اورسنتے ہیں۔ یہ تصور غلط ہے کیونکہ میں نے ابوداؤد شریف کی حدیث صحیح کا حوالہ دیا ہے جس میں آقا علیہ السلام نے قرب و بعد کی بات نہیں کی اس میں فرمایا مَا مِنْ اَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَیَّ میری ساری امت میں کوئی فرد مجھ پر کہیں سے بھی درود و سلام پڑھے تو وہ مجھ پر پیش کیا جاتا ہے اور میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ دوسرا مغالطہ بعض لوگ یہ ڈالتے ہیں کہ جب سلام پڑھا جاتا ہے تو اس وقت حضور علیہ السلام کی قوت سماعت لوٹائی جاتی ہے اور اس وقت آپ سلام کا جواب دیتے ہیں۔ یہ تصور شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب سلام پڑھا روح ڈال دی جب سلام ختم ہوا روح نکال لی۔ سارا دن (معاذاللہ) اللہ روح نکالتا اور ڈالتا ہی رہتا ہے (استغفراللہ العظیم) یہ سوچ گستاخانہ اور شان محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے۔ اس غلط معنی پر ایک سوال ہے کہ اگر درود و سلام پڑھنے پر اللہ روح اور قوت سماعت لوٹا دیتا ہے تو مجھے بتایئے کہ کائنات ارضی پر کوئی ایسا لمحہ ہے جس میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر سلام نہیں پڑھا جاتا؟

ساری کائنات ایک طرف چھوڑ دیجئے اب تو منہاج القرآن ایک ایسی جگہ ہے کہ 24 گھنٹے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جہاں حضور پر درود و سلام نہ پڑھا جاتا ہو۔ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کا ایک مرکز ہے تو باقی کائنات سے کتنے درود و سلام آتے ہونگے جب 24 گھنٹے میں کائنات میں کوئی ایسا لمحہ نہیں جس میں آقا پر درود نہ پڑھا جاتا ہو تو کون سا وقت ہے جس میں روح اور سماعت نکالی جاتی ہے۔ حدیث پاک کے مطابق قبر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ستّر ہزار فرشتے صبح اترتے ہیں جو شام تک درود پاک پڑھتے ہیں اور ستّر ہزار کی تعداد میں شام کو اترتے ہیں جو صبح تک درود و سلام پڑھتے ہیں۔ اس طرح فرشتوں کے ذریعے بھی درود و سلام بھیجنے کا تسلسل جاری رہتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ایک سیکنڈ کا وقفہ نہیں آنے دیتا۔ حتی کہ جس دن قیامت آئے گی اس دن بھی ستّر ہزار ملائکہ کا دستہ قبر انور پر حاضری کے لئے کھڑا ہوگا اور اپنی قبر مبارک سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام ستّر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں اٹھیں گے۔ معلوم ہوا کہ قیامت تک کوئی لمحہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر درود و سلام کے بغیر نہیں گزرے گا لہذا ہمہ وقت حضور سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔

رب ذوالجلال کی عزت کی قسم! حضور کی امت میں وہ بھی ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جواب سنتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جب وہ نماز میں دوران تشہد السلام عليک ايها النبی ورحمة الله و برکاته کہتے ہیں تو تھوڑی دیر وقفہ کرتے ہیں کیونکہ اسی لمحے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب آتا ہے اور وہ جواب سن کر پھر آگے السلام علينا وعلی عبادالله الصلحين پڑھتے ہیں۔ اگر کسی کے نصیب کی آنکھ کھلی نہیں ہے یا کان بند ہیں تو اس پر بدبختی مسلط ہے۔ وہ اپنا علاج کروائے کیونکہ وہ ابھی تک فاصلوں میں بھٹک رہا ہے۔

لہذا لوگو! مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھی پڑھا کرو اور سلام بھی پڑھا کرو کیونکہ درود سے ثواب ملتا ہے اور سلام سے جواب آتا ہے۔ ایک حدیث صحیح میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلَاةً وَاحِدَةً صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَحُطَّتْ عَنْه عَشْرُ خَطِيْئَاتٍ وَرُفِعَتْ لَه عَشْرُ دَرَجَاتٍ.

(نسائی، السنن، کتاب السهو، باب الفضل فی الصلوة علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ،4 : 50)

’’جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں‘‘۔

اگر کوئی سلام پڑھتا ہے جیسے آپ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے ہیں تو سلام کرنا سنت ہے مگر جسے سلام کردیا جائے تو ہر اس مسلمان پر جواب دینا واجب ہے۔ جب ہم ترک واجب نہیں کر سکتے تو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے ترک واجب کر سکتے ہیں؟ اب جس نے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھا خدا کی قسم وہ ہر ایک کا جواب دیتے ہیں اسے سننے والے سنتے ہیں اور دیکھنے والے دیکھتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھ لیں کہ آقا علیہ السلام پر دو طرح سے درود و سلام پیش ہوتا ہے ایک طریقہ وہ ہے جس کے بارے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَيْثُ مَاکُنْتُمْ.

(سنن ابی داؤد، 2 : 218، کتاب المناقب، باب زيارة القبور، رقم : 2042)

’’پس تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے‘‘۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام پر دورد پاک براہ راست پہنچتا ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ درود صرف ملائکہ پہنچاتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ملائکہ بھی پہنچاتے ہیں مگر صرف ملائکہ ہی نہیں پہنچاتے۔ پہنچانے اور صرف پہنچانے میں فرق ہے۔ دوسرے طریقے کے بارے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ مَلَائِکَةً سَيَاحِيْنَ فِی الْاَرْضِ يُبَلِّغُوْنِیْ مِنْ اُمَّتِیْ السَّلَامَ.

(نسائی، السنن، کتاب السهو باب السلام علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم 3 / 43، الرقم : 1282)

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں جو مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں‘‘۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ فرشتے پہنچاتے ہیں۔ اس کا انکار نہیں ہے مگر ہم نے دین کو ایک آنکھ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور ایک آنکھ پر ہاتھ رکھ لیا ہے جبکہ ہمیں بینا ہو کر دونوں آنکھوں سے دین کو دیکھ کر چلنا چاہئے۔ ان احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ بے شک ملائکہ ہمارا درود آقا علیہ السلام تک پہنچاتے ہیں اب آقا نے اس کے علاوہ دوسری بات بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ فرشتوں کے بغیر براہ راست بھی سنتے ہیں لہذا ہمارا عقیدہ دونوں حدیثوں کے مطابق ہونا چاہئے۔

بعض محدثین اور بزرگ حضرات جنہوں نے حدیث کی کتابوں میں صرف لکھا ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کا درود ہو‘‘۔ رات خواب میں انہیں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی اور حضور علیہ السلام کے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار نہ تھے۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ خوش نہیں ہیں؟ ہم سے کیا خطا ہوئی ہے؟ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مجھ پر درود پڑھتے ہو سلام نہیں پڑھتے۔ جب درود پڑھو تو مجھ پر سلام بھی پڑھا کرو کیونکہ یہ اللہ کا امر ہے کہ صلوا عليه وسلموا تسليما. اس میں ایک نکتہ یہ بھی کار فرما ہے کہ صلوۃ پڑھنے کا حکم ایک بار ہے جبکہ سلام پڑھنے کا حکم تاکید کے ساتھ ہے اور کثرت کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ پیچھے صحیح احادیث میں بھی گزرا ہے کہ اہل اسلام کا سلام براہ راست بھی اور فرشتوں کے ذریعے بھی آقا علیہ السلام تک پہنچایا جاتا ہے اور بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سلام کا جواب بھی آتا ہے۔

امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کتنی خوش نصیبی ہے کہ انہوں نے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو کر یا نبی سلام علیک پڑھا۔ اُدھر اسی لمحے خود بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن لیا اور ملائکہ نے بھی پہنچا دیا۔ اب یہاں ایک سوال ذہنوںمیں آ سکتا ہے کہ اگر حضور علیہ السلام خود سنتے ہیں اور خود پہنچتا ہے تو پھر فرشتے کیوں پہنچاتے ہیں؟ اور یہ دونوں کام کس طرح ہوتے ہیں؟

اس سوال کا جواب بڑا سادہ ہے کہ جس طرح ہمارے کندھوں پر دائیں بائیں دو فرشتے بیٹھے ہیں جو ہمارا ہر عمل لکھتے ہیں دوسری طرف رب تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو خود بھی دیکھتا ہے مگر فرشتے بھی پہنچاتے ہیں۔ فرشتوں کے پہنچانے سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ رب تعالیٰ خود نہیں دیکھتا یا خود نہیں جانتا۔ وہ خود دیکھتا سنتا اور جانتا ہے مگر اس کے دربار کی شان یہ ہے کہ فرشتے اس کے ہرکارے بن کر پیش کریں کہ مولا تیرے بندوں نے یہ عمل کئے ہیں۔ وہ صرف فرشتوں کی اس پر شہادت دلواتا ہے۔ اسی طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام درود و سلام خود سنتے ہیں مگردربار رسالت کا ادب یہ ہے کہ فرشتے بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ سنت الہٰیہ ہے اب آخر میں بڑی اہم بات ہے کہ اس درود و سلام کا صلہ کیا ملتا ہے؟ (جاری ہے)