صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی۔ مرکزی امیرتحریک

درس نمبر18

خالق کل سبحانہ و تعالی نے اپنے نورسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی ذات جل مجدہ کا اظہار فرمایا اور نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براہ راست حقیقت الحقائق جل شانہ کی معرفت کرائی گئی، رب العالمین نے اپنے نور کی براہ راست تجلی سے تخلیق ہونے والی ماورائے خیال قوت وتوانائی کے منبع و مصدر اور عظیم ترین توانائی کے ظہور اتم کو رحمۃ للعالمین بنایا تاکہ رحمت سے آفاق و انفس، مخلوقات اور موجودات کے ظہور میں آنے کے بعد ان کو بھی حق کی معرفت المثل الاعلیٰ کی صورت عطا ہوئی۔ موجودات پر معرفت کے ظہور کا سبب وہ محبت تھی جو حقیقت الحقائق کو حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھی۔ حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذاتی تجلیات اور ساری کائنات، آفاق و انفس صفاتی تجلیات کا مظہر ہیں۔ حضور سید عالم نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری مخلوق اور اللہ جل شانہ کے درمیان واسطہ، وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔

عالمین لاہوت، ملکوت اور ناسوت میں ’’لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ کی احدیت، وحدانیت، ملکیت، حاکمیت، طاقت اور قدرت الٰہی کی شانوں کا حقیقی منظر سب سے پہلے ’’مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰهِ‘‘ نے دیکھا۔ یعنی سب کے خالق و مالک کو نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی دیکھا کہ رَبِّ محمد جل شانہ نے اسے ہی تخلیق فرمایا تھا۔ اس واحد عظیم و اعلیٰ طاقت کے وجود مطلق پر سب سے پہلی گواہی نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ ا َشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود نہں ہے۔‘‘ گواہی دینے کی پہلی شرط واقعہ کا بچشم خود یکھنا ہوتاہے، عدالت میں جب گواہ جج کے روبرو پیش ہوتا ہے تو اس سے جج کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا وہ موقع پر خود موجودتھا اور اس نے اپنی آنکھوں سے واقعہ رونما ہوتے دیکھا، اگر گواہ کا جواب اثبات میں ہو تو جج اس کی شہادت قبول کر لیتا ہے، بصورت دیگر شہادت قبول نہیں ہوتی۔ واجب الوجود حقیقت الحقائق جل شانہ کو کائنات وموجودات کی تخلیق سے پہلے فقط نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہی واحد ویکتا خالق و مالک اورسب کچھ کرنے والا ہے۔

ابتدائی دروس سلوک و تصوف میں قارئین پڑھ چکے ہیں کہ تخلیق نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد قرن ہا قرن ؛ کہ جس کی طوالت کا اندازہ ماورائے فہم و ادراکِ انسان ہے، مخلوق اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالق سبحانہ و تعالی کو تکتا رہا، خالق باری تعالی پیار و محبت سے اسے دیکھتا رہا، دید کے کتنے زمانے گزرے، حسن و محبت نے ناز و انداز کے کیا کیا انداز دیکھے، راز و نیاز کی کیا کیا باتیں ہوئیں، کیا کہا اورکیا سنا گیا۔ اِنَّه هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ’’بیشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘ سمیع اور بصیر تو خالق سبحانہ و تعالی کی صفات ہیں، لیکن مقام قرب میں اللہ سبحانہ و تعالی نے خلق اول نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات کا آئینہ دار بنا دیا۔ مقام قرب میں ایک طرف احدیت اور دوسری طرف واحدیت تھی، ایک فاعل حقیقی تھا، ایک مفعول مجازی تھا، یہ مجلس تخلیق البدایہ والنہایہ تھی جو صرف اور صرف حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنانے اور سنوارنے کے لئے برپاکی گئی تھی، حق سبحانہ و تعالی کے نور کی تجلی نے مظہر حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ہر پہلو اور ہر ہر لحاظ سے اپنے لئے شاہکار اول و آخر بنا یا اورسنوارا، مظہر حق ایک ایسا آئینہ بنے، کہ جو اس ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو محبت سے دیکھے، وہ بھی اس کی صفات کا آئینہ بنے، اسی قدر محمدی بنے، نبی مکرم و معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سننے اور تکتے رہنے کا عمل ہی سلوک اور تصوف ہے، سلوک جتنا پاک و منزہ ہو گا، تصوف اتنا ہی کامل و اعلیٰ ہو گا، اسوئہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جتنا عمل ہو گا، تصوف کا رنگ اتنا ہی گہرا اور اکمل ہو گا۔

عظیم واعلیٰ رَبّ محمد سبحانہ و تعالی کا سلوک تخلیق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنا اعلیٰ مصفّٰی ہے اور عبد کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلوک کتنا متصوف ہے، کہ ایک (سبحانہ و تعالی) تجلی ڈال رہا ہے، دوسرا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجلی جذب کر رہا ہے، ایک حسن کی تخلیق کر رہا ہے، دوسرا حسن ازلی بن رہا ہے، ایک سراپائے محبت بنا رہا ہے دوسرا حبیب بن کر محبت کرنے کے انداز اپنا رہا ہے، تصوف کا یہ سفر سلوک زمانوں جاری رہا، اس وقت کا عالم کیا ہو گا۔ اندازہ محب سبحانہ تعالی اور محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے، عالم تھا ہی نہیں تو اسے کیا علم اور کیا خبر، دیکھنے والا مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہادت دے رہا ہے۔ اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ، اللہ جل سبحانہ ارشاد فرماتا ہے۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات غور سے سنو کہ میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جوشاہد ازل ہے، مشاہدہ سے بات کہہ رہا ہے، محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنی سنائی نہیں بلکہ عین الیقین اور حق الیقین ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فرماتے ہیں، میرا کلام سننے، مجھ سے کلام کرنے اور میری قوت، طاقت، توانائی اور قدرت دیکھنے کے بعد میری توحید کی شہادت دے رہے ہیں، کہ میں ہی معبود اور مسجود ہوں اور کائنات کا دوسرا کوئی الٰہ نہیں۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سبحانہ و تعالی کی احدیت پر شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اللہ جل مجدہ ؛ وہ ذات باری ہے کہ جس کے نام میں تسکین ہے، وہ آرام دل عارفین اور سکون قلب مساکین ہے، آفاق و انفس کا ذرّہ ذرّہ اس کا والہ و شیدا ہے، ارواح پاک اس کی شیفتہ و فریفتہ ہیں، مخلوقات اس کی صفات اور قدرتوں کو دیکھتے اور اس میں تفکر و تدبر کرتے ہیں، جہاں انسانی علم، شعور، فہم اور ادراک ختم ہو کر محض حیرت اور درماندگی میں ڈوب جاتے ہیں، وہاں سے اللہ جل شانہ کی شان کا آغاز ہوتا ہے، عقل و عرفان انسانی جب اپنی عاجزی کا اعتراف کرتی ہے، تو اس کا یہ اعتراف اس کے لئے خدائی علم و عرفان کا سبب بن جاتا ہے۔ شاہد حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے، کہ اللہ سبحانہ و تعالی بلند شان والا ؛وہ اِلٰہَ ہے جو لوازمات مادّہ سے پاک اوربرتر و اعلیٰ ہے، وہ زمان و مکان کی حدود سے ارفع ہے، وہ صاحبان عقل و فہم کے وہم وگمان اور ادراک سے بلند و بالا ہے، اللہ ؛ ذات عقول سے محجوب اور ارواح نوریہ کے لئے سرّکبریٰ ہے، ناقصاں کے لئے اس کا کمال حجاب اور کاملاں کے لئے حیرت، استعجاب اور بے بسی کا وہ وسیلہ؛ جس سے وہ کمال بندگی کے درجات پائیں، بندے کا کمال اللہ سبحانہ کی نسبت سے انتہائی درجے کی مسکنت، تذلّل، عاجزی اور انتہائی تضرع، الحاح و خضوع و خشوع کی حالت ہے جو اس کو رب والا شان کی بارگاہ تک پہنچاتی اوراس کے لئے پناہ ایزدی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اللہ جل مجدہ ؛ غم و ہر اس کے وقت بندے کی پناہ ہے، اللہ جل شانہ، انسان کو مخلوقات کے ڈراور خوف سے نجات دیتا اور دشمنوں کی دستبرد سے محفوظ کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا اسم ذات، جملہ صفات کو اپنے اندر موجود رکھتا ہے، صفات؛ اس کی اسم ذات بامسمّٰی سے نہ خارج ہیں نہ زائد، اس کی ذات و صفات میں تفریق ناممکن ہے۔

اسم ’’اللّٰه‘‘ ؛ ذات باری تعالی کے لئے خاص الخاص ہے، یہی اسم اعظم اسم ذات ہے، جس طرح اللہ تعالی کی ذات تمام عیوب سے پاک و منزّہ ہے، اسی طرح اسم ذات بھی نقطہ سے مبرا ہے، ’’اللّٰه‘‘ سے حرف ہمزہ دور کرنے سے للّٰہ رہ جاتا ہے، للّٰہ بھی اپنے معنی پر قائم اور دائم ہے، جیسے لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ (اللہ سبحانہ و تعالی کے لئے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے) اور اگر ’’اللّٰه‘‘ کاایک لام دور کیا جائے تو بھی اپنے اصلی معنی پردلالت کرتا ہے اور ’’لَه‘‘ رہ جاتا ہے جیسے لَه مُلْکُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ (اسی کے لیے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی ہے) اور اگر ’’اللّٰه‘‘ کے دونوں لام دور کر دیں اور آخری حرف ہ کو واؤ کے ساتھ ضم کر یں، تب بھی اصلی معنی باقی رہتے ہیں جیسے هُوَالْخَالِقُ (وہی پیدا کرنے والا ہے) اسم ’’اللّٰه‘‘ کی خاصیت سے قلب کو نور ملتا ہے، قرآن مجید میں محبوب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد ہوتا ہے، قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، محبوب محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرما دیجئے، (کہ ) وہ ’’اللّٰه‘‘ (جس کا میں رسول ہوں، جو خالق کائنات ہے وہ ) ایک ہے۔ (اور بالکل ایک ہے۔ اس کے اجزاء کا تصور ہی نہیں، وہاں نہ اجزاء عقلیہ ہیں نہ خارجیہ، وہ (سبحانہ و تعالی) گنتی کا ایک نہیں، بلکہ یکتائی اس کی صفت ہے جو ناقابل تقسیم ہے، وہ احد ہے کثرت کو اس کی ذات میں دخل ہی نہیں)

اللہ سبحانہ و تعالی ؛ کی حقیقت ماورائے بیان ہے، بس لوازم وصفات سے اس کی تعریف ہوسکتی ہے۔ اللہ جل شانہ خوداپنی تعریف بھی اسی طرح کرتا ہے کہ تعریف کا پہلا لفظ ’’هُوَ‘‘ ایسے اشارہ کی صورت میں ہے؛ کہ جس کی تفسیر نہ ہو سکے اشارہ ہی رہے اور ’’هُوَ‘‘ کے بعد ’’اللّٰه‘‘ وہ نام جو تمام صفات باری پر دلالت کرے، لیکن ’’اَحَدْ‘‘ ہی رہے، وہ وہی ہے کہ جس کی کیفیات وحالات کا بیان مشکل سے مشکل تر ہے لیکن اتنا جامع واکمل کہ جس سے اس کی ہستی مطلق کا یقین ہو جائے۔ اللہ جل شانہ ہی اَحَدْ اور وَاحِدْ ہے، اس کی ذات کے سوا ہر شئے کا وجود مرکب ہے، کیونکہ ہر شئے کا ظہور ترکیب کا نتیجہ ہے۔ جیسے انسان کہ انسانی زندگی عناصر کی ترتیب کے ظہور میں آنے سے عبارت ہے، اور جب اجزاء جسمانی؛ آگ، ہوا، پانی، مٹی اور روح جدا ہوتی ہیں، تو اسے موت سے تعبیر کیاجاتاہے۔ بقول عارف

زندگی کیا ہے عناصر کا ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزاء کا پریشاں ہونا

اللہ جل شانہ کی احدیت، وحدانیت، قادریت اور حاکمیت پر نبی محتشم سرکار کونین وثقلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لَااِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کی شہادت دی، سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللّٰه‘‘ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو محبت خالص کے شایان ہے، آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کا مالک، ارض و سما کا وارث، علیم وخبیر؛ ایسا ہے جو قلوب کے اندر کے رازوں سے واقف اور سینوں کے اندر پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، عالم کی ہرشئے اس کی تسبیح و تحمید و تکبیر و تہلیل میں مگن اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے، ’’اللّٰه‘‘ جل مجدہ وہ ہے کہ جو ہر شئے کے باطن اورخارج کے مقتضائے طبع کو جاننے اور اس کی تکمیل کرنے والا ہے، وہ بادلوں سے مینہ برساتا، زمین سے دانہ اناج اورسبزہ اگاتا ہے، وہ رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتا ہے، وہی نُوْرُالسَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ ہے، وہ ارواح کی جان اور قلوب کا مطلوب ہے، ہر بیقرار اور مضطردل کو قرار اور سکون عطا کرنے والا ہے۔ وہ نظام کائنات چلانے والا ہے، وہ سلوک کرنے والوں کو توفیق عطا فرمانے والا، سالکوں کو راہ دکھانے والا اور طالبوں کو طلب فرمانے والا ہے، ’’اللّٰه‘‘ جل مجدہ ہی ہے، جو اپنی مخلوق کی پرورش کرتا اور انہیں پروان چڑھاتا ہے، وہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے، قصورواروں کو معاف کرتا ہے، وہ گناہ گاروں کی بخشش کرنے والا، مغفرت فرمانے والا اور بے حد وحساب عطا کرنے والا ہے۔

وہ بے سہاروں کو سہارا اور بے ٹھکانوں کو ٹھکانہ عطا کرتا ہے، وہ ہر وقت جاگتا ہے، سوتا نہیں اور ہر وقت مانگنے والوں کو عطا کرتا ہے، وہ ناامیدوں کی امیداور نراسوں کا راس ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ؛ کانوں کو قوت سماعت، آنکھوں کوقوت بصارت، قلوب کو نور بصیرت دینے والا اور اذہان کو منور کرنے والا ہے، اس کے حکم سے فنا اور اسی کے فضل سے بقا ملتی ہے، اس کا عدل اس کے رحم کے پردہ میں مستور ہے، دنیا کے سب ولی، غوث، قطب، شہید، صدیق، فرشتے، پیغمبر، رسول اور نبی اللہ جل شانہ کے بندے ہیں، سب اس کے حکم کے آگے سربسجود ہیں، سب کے سر اس کے آگے خم ہیں، اس کا حکم سب پر حاوی اور محیط ہے، کوئی اس کی نافرمانی نہیں کرتا، وہ سب کیلئے رب العالمین ہے اور اسی نے ہمارے آقا و مولا سیدنا و حبیبنا و شفیعنا محمد رَّسول اللہ کو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنایا ہے۔

رب ذوالجلال والاکرام کی توحید کے تصور کو رگ و پے میں اتارنے اور قلب و باطن میں جاگزیں کرنے سے ہی انسان کا دائرہ اسلام میں آنا متحقق ہوتا ہے، دنیا کا کوئی بھی فرد جو اسلامی زندگی اپنانے کا خواہاں ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا پہلا قدم توحید کے دائرے کے اندر رکھے کہ یہی دین کی اساس اور نظریہ اسلام ہے، اسلام کی بنیاد کے پانچ ستونوں میں سب سے پہلا ستون توحید ہے، یعنی یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اسلام کا رکن اول کلمہ شہادت، اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلَهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُهُ ہے۔ اسی سے اسلامی سلوک وتصوف کی ابتداء ہوتی ہے، سالک پر لازم ہے کہ راہ سلوک پر قدم رکھتے ہی اقرار باللسان یعنی زبانی اقرار کے ساتھ تصدیق بالقلب یعنی صمیم قلب سے کلمہ طیبہ کا اقرار کرے اور اسے ہر وقت پڑھتا رہے، اس پر غور و فکر کرتا رہے، ہر کام میں اسے اپنا نگران بنائے اور ببانگ دہل شہادت توحید کا اعلان کرے، تاکہ اس کا ظاہر و باطن ایک ہو جائے، کیونکہ اس کا زبانی اقرار ظاہری شہادت ہو گی جس کو ترقی دے کر اس نے اپنے من کے گلستاں میں اللہ سبحانہ و تعالی کی توحید اور نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پھول اگائے ہیں۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

زباں نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

ان شاء اللہ تعالیٰ دروس سلوک و تصوف میں ہم کلمہ طیبہ سے ہویدا عملی توحید پر تفصیلی گفتگو کریں گے کہ یہی تصوف کی ابتدا بھی ہے اور انتہاء بھی اس موقع پر قارئین دروس سلوک و تصوف کی توجہ باردگر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اس عظیم الشان قول کی طرف مبذول کر وں گاکیونکہ عمل کیلئے علم کا ہونا لابدی ہے :

’’مَنْ تَصَوَّفَ وَلَمْ يَتَفَقَّهْ فَقَدْ تَذَنْدَقَ وَمَنْ تَفَقَّهَ وَلَمْ يَتَصَوَّفْ فَقَدْ تَفَسَّقَ وَمَنْ جَمَعَ بَيْنَ الهَاتَيْنِ وَقَدْ تَحَقَّقَ‘‘

’’جو عالم نہ ہو اور صوفی بن جائے، وہ زندیق ہو جائے گا اور جو عالم ہو اور صوفی نہ بنے، وہ فاسق ہے اور جس میں یہ دونوں چیزیں (علم اور تصوف) ہوں، وہ تحقق یعنی حقیقت کو پہنچے گا۔‘‘

زندیق صفت ہے الزندقہ کی، یعنی باطن میں کفر اور ظاہر میں ایمان یابے دین اور بداعتقاد ہونا اور تَفَسَّق، حق وصلاح کے راستہ سے ہٹ جانے اور بدکاری کو کہتے ہیں، جیسے بدکار کو فاسق کہا جاتا ہے، فَسَّاقْ اور فَسِیْقْ، بہت بڑے بدکار یا ہمیشہ بدکاری کرنے والے کوکہتے ہیں۔ علم، عمل (سلوک) اور احسان (تصوف) لازم وملزوم ہیں، احکام الٰہی کے علم کے بغیر عمل ممکن نہیں اور عمل کے بغیر علم بے سود ہے اور علم و عمل بغیر احسان (تصوف) کے ناقص ہیں، بغیر اخلاص نیت کے عمل سے فائدہ نہ ہو گا، علم بے مقصد ہوتا ہے، اگر اس سے نیک سلوک پیدا اور مسلسل جاری نہ ہوں، اس لئے تصوف و احسان اور علم اور عمل (سلوک) کا باہمی تعلق بعینہ اس طرح لازم و ملزوم ہوتا ہے جیسے جان اور جسم کا تعلّق کہ روح نہ ہوتو جسم مردہ ہو جاتا ہے۔

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

جینے کے لئے عمل اور عمل کے لئے علم کا ہونا ازبس ضروری اور لابدی ہوتا ہے۔