مزدور بچوں (Child Labour) کے حقوق

ڈاکٹر ظہور اللہ الازہری

حقوق حق کی جمع ہے۔ حق سے مراد انسان کو حاصل ہونے والے ایسے مفادات و مطالبات ہیں جن سے اس کو محروم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ملنے کی صورت میں قانونی طور پر انہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اسلام نے تمام انسانی طبقات کو ان کے حقوق عطا کیے، ایسے ہی بچوں کے حقوق کو بھی واضح انداز میں بیان کر دیا ہے۔ یہاں ہم صرف مزدور بچوں کے حقوق بیان کریں گے۔

چائلڈ لیبر سے مراد بچے کی ذات کا اجارہ ہے۔ چائلڈ سے مراد ایسا بچہ ہے جو بلوغت تک نہ پہنچا ہو۔ پاکستانی قانون میں لڑکے کیلئے بلوغت کی عمراٹھارہ برس اور لڑکی کیلئے سولہ برس ہے۔ لیبر کے حوالے سے ہمارے ملکی قانون میں چودہ سال کی عمر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ عمر کی حد بلوغت کی بجائے عقلمند اور سمجھ دار ہونے کے اعتبار سے ہے۔ اٹھارہ برس اور چودہ برس سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے کیلئے احتیاطی احکامات دیئے گئے ہیں مگر چودہ سال سے کم عمر بچوں کیلئے شرائط زیادہ سخت ہیں۔ لیبر سے مراد ذہنی و جسمانی مشقت ہے۔

عام لفظوں میں چائلڈ لیبر سے مراد ہے کہ بچے کو اس کے حق تعلیم و تفریح سے دور کر کے اس کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیا جائے۔ چائلڈ لیبر بھی بچوں کے مسائل میں بہت اہم مسئلہ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں چائلڈ لیبر کی شرح بہت زیادہ ہے اور عالمی سطح پر چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(ILO) نے اس بارے میں اپنی رپورٹ ان الفاظ میں مرتب کی ہے :

’’ایک اندازے کے مطابق چوبیس کروڑ ساٹھ لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ پھر ان بچوں میں سے تقریبا تین چوتھائی (سترہ کروڑ دس لاکھ) سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کہ کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی اور خطرناک قسم کی مشینری کے ساتھ کام کرنا۔

ایسے بچے ہر جگہ پر ہیں لیکن ان کی مشقت گھریلو ملازم کے طور پر نظر آتی ہے اور ورکشاپس کی دیواروں کے پیچھے کام کرتے نظر آتے ہیں اور آنکھ سے چھپے ہوئے کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔

لاکھوں بچیاں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتی ہیں جن کو کوئی معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اور خاص طور پر یہ آسانی سے زیادتی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ اسی طرح کئی لاکھ بچیاں خوف کی حالت میں کام کرتی ہیں۔ ان میں سے لاکھوں کو زبردستی مختلف مقامات پر سمگل کر دیا جاتا ہے (بارہ لاکھ تقریباً) جہاں ان سے زبردستی کام لیا جاتا ہے یا پھر غلامی کی دوسری صورت اختیار کی جاتی ہے (ستاون لاکھ تقریباً) جس میں ان کو پیشہ ور بدکاری اور فحش فلمیں بنانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے (اٹھارہ لاکھ تقریباً) اور ان کو مسلح تصادم میں شریک کیا جاتا ہے (تین لاکھ تقریباً) یا پھر دوسری ممنوعہ سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے (چھ لاکھ تقریباً)۔‘‘

چائلڈلیبر کا تناسب زیادہ تر افریقی ممالک میں ہے جیسا کہ ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے : اس رپورٹ کے مطابق برکینا فاسو، چاڈ، ٹوگو، سیرالیون، نیجر، گھانا، کوسٹاریکا، سنٹرل افریقن ریپبلک میں پچاس فیصد(%50) سے زیادہ بچے چائلڈلیبر کا شکار ہیں۔ ان سب ممالک میں سے نائیجر میں یہ حد چھیاسٹھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

چائلڈ لیبر کے اہم اسباب

(i) غربت : غربت چائلڈ لیبر کا بہت بڑا سبب ہے۔ عام طور وہ والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے یا کسی وجہ سے خود کمانے کے قابل نہیں رہتے یا ان کی کمائی کم ہوتی ہے مگر زیادہ افراد کی کفالت ذمہ ہوتی ہے تو ایسے میں والدین اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔

(ii) والدین کی جہالت : اکثر اوقات چائلڈ لیبر کا سبب غربت ہوتا ہے مگر بعض اوقات والدین کی تعلیم اور شعور میں کمی بھی اس مسئلے کا سبب بنتی ہے۔ والدین میں یہ شعور نہیں ہوتا کہ تعلیم کے کیا ثمرات ہیں؟ بعض لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ تعلیم کا مقصد رزق کمانا ہوتا ہے۔ پس یہ والدین بچوں کو بچپن سے ہی کسی فیکٹری، کسی موٹر مکینک یا کسی اور ہنرمند کے پاس چھوڑ دیتے ہیں تاکہ بچہ جلد روزگار کمانے کے قابل ہو سکے۔

(iii) حکومت کی عدم سرپرستی : چائلڈ لیبر عام طور پر غریب ممالک میں یا ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں آمریت نافذ ہے۔ چونکہ ان حکمرانوں کو عوام کے مسائل کے حل کرنے میں دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے مستقبل سنوارنے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اس لیے وہ بچے خواہ تعلیم حاصل کریں یا چھوٹی عمر میں مزدوری کریں ان کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔

(iv) معاشرے کی بے حسی : اگر معاشرے میں حساس لوگ موجود ہوں تو وہ صرف اپنے معاملات سنوارنے تک محدود رہ کر خود غرضی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کے مسائل پربھی توجہ دیتے ہیں۔ چائلڈ لیبر ان معاشروں میں پائی جاتی ہے جہاں لوگ خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں یہ احساس ختم ہو جاتا ہے کہ ایک بچہ جس کی تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہے وہ کسی مکینک کی دکان پر ہاتھ میں اوزار پکڑے گاڑی کی مرمت کر رہا ہے۔ اگر افراد میں احساس ہو تو بے شک حکومت تعلیم و تربیت کے اقدامات نہ بھی کرے، خدا ترس لوگ خود تعلیم و تربیت کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں جہاں مستحق طلبہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی مالی ضروریات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ پس جس معاشرے میں لوگوں کے دل سے احساس ختم ہو جائے کہ بچوں کے مسائل کیا ہیں وہاں چائلڈ لیبر جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

کتاب و سنت میں چائلڈ لیبرسے متعلق بنیادی ضابطہ

قرآن حکیم کا یہ اصولی ضابطہ ہے کہ وہ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا

(البقرة، 2 : 286)

’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت کے احکامات میں اس ضابطے کا لحاظ رکھا گیا ہے اور بچے کو بنیادی احکامات شریعت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔

مذکورہ بالا قرآنی ضابطے کے مطابق تین قسم کے افراد کے اعمال پر گرفت نہیں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’تین افراد سے قلم اٹھا دیا گیا ہے سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچے سے یہاں تک کہ اس کو احتلام ہو جائے اور مجنون سے یہاں تک کہ اس کوسمجھ آجائے۔‘‘ (ابو داؤد، السنن، کتاب الحدود ا، 2 / 357)

اس سے معلوم ہوا کہ سونے والے، مجنون اور بچے سے سرزد ہونے والے اعمال پر گرفت نہیں ہے۔ انہیں ضابطوں کے پیش نظر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خطبہ کے دوران ہدایات دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اور تم بچے کو روزگار کا مکلف نہ بناؤ۔‘‘ (مالک، الموطا، کتاب الاستیذان، 812)

مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ بچے کو باقاعدہ روزگار کا ذمہ دار بنانا اس کو استعداد سے بڑھ کر تکلیف دینے کے مترادف ہے۔ ایسی محنت و مشقت جو بچوں کی استعداد کے مطابق ہو اور ان کی تعلیم و تربیت کو متاثر نہ کرے، درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بچپن میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے۔

’’اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی مبعوث کیا اس نے بکریاں چرائیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی؟ فرمایا ہاں میں مکہ والوں کیلئے قراریط پر بکریاں چرایا کرتا تھا۔‘‘

(بخاری، الجامع الصحيح، کتاب الاجارة،1 / 301)

مذکورہ بالا احادیث سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :

سارے کام اس طرح نہیں ہوتے تھے جس طرح میرے صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دوران میرے کاموں پر کبھی اف تک نہ فرمایا اور نہ یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا؟ یا یہ کام کیوں نہ کیا؟ (السنن، کتاب الادب، 2 / 310، مکتبہ امدادیہ، ملتان)

اس روایت سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :

  1. چھوٹے بچوں سے خدمت لی جا سکتی ہے۔
  2. کام بچوں کی استعداد کے مطابق ہونا چاہئے۔
  3. اس خدمت کے دوران ان پر سختی نہیں ہونی چاہئے۔
  4. اس خدمت کے دوران تعلیم و تربیت کے مواقع بھی میسر ہوں۔

اس حدیث سے چائلڈ لیبر کے متعلق بڑے جامع احکامات ہمارے سامنے آتے ہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیلئے کسی نے مامور کیا؟ تاکہ بچے کی مشقت اور خدمت کے حوالے سے ولایت کا کردار سامنے آسکے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو ’’یتیم سے سفر و حضر میں خدمت لینا جبکہ وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہو اور ماں یا اس کے شوہر کا یتیم کیلئے مدد کرنا‘‘۔ میں یوں ذکر کرتے ہیں :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منور تشریف لائے تو ان کا کوئی خادم نہ تھا سو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلاشبہ انس ذہین لڑکا ہے وہ آپ کی خدمت کرے گا۔ انہوں نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفر اور حضر میں خدمت کی۔‘‘

(الجامع الصحيح، کتاب الوصايا، 1 / 388)

غزوئہ خیبر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرنے کی روایت بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یوں بیان کرتے ہیں :

’’بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا میرے لیے اپنے بچوں میں سے ایک بچہ تلاش کرو تاکہ میری خدمت کرے یہاں تک کہ میں خیبر چلا جاؤں، سو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مجھے اپنے پیچھے بٹھا کر لے گئے حالانکہ میں اس وقت لڑکا تھا۔‘‘

(الجامع الصحيح، کتاب الجهاد، باب من غزا بصبی للخدمة، 1 / 405)

ان دونوں روایات سے درج ذیل امور ثابت ہوئے :

1۔ یتیم سے خدمت لی جا سکتی ہے۔ اور اس حدیث میں یتیم سے بغیر اجرت خدمت لینے کا جواز ہے۔

ii۔ یتیم کی ماں اور اس کا سوتیلا باپ اس کو خدمت پر دے سکتے ہیں بطور خاص اس صورت میں جبکہ اسکا حقیقی والد وفات پا چکا ہو تو پھر اس کی ماں اور اس کے سوتیلے باپ ہی وصی شمار ہوں گے۔ اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

’’ماں اور اس کے علاوہ دیگر کیلئے زیر کفالت یتامٰی کے مصالح میں تصرف کا حق حاصل ہے اگرچہ وہ وصی نہ ہوں۔‘‘

iii۔ یتیم کو ایسی شخصیت کی خدمت کیلئے دیا جائے جو اس کی تادیب کا سبب ہو۔ امام عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس اشکال کہ یتیم کی خدمت میں مشغولیت تادیب سے اعراض کا سبب ہے، کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اور یہ کہ یتیم ایسے آدمی کے پاس ہو جو اس کو ادب سکھائے اور وہ اس کی تادیب سے فائدہ اٹھائے جیسے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے خدمت نبویہ کے دوران ہوا۔‘‘

کتاب و سنت کی اس بحث سے چائلڈ لیبر کے مشروط جواز کے ساتھ ولایت کے کردار کا ذکر ہوا۔ اب فقہی مکاتب فکر کی روشنی میں اس پر بحث کی جائے گی۔

چائلڈ لیبر اور مذاہب اربعہ :

چاروں فقہی مکاتب فکر کے نزدیک چائلڈ لیبر کے متعلق بحث سے اہم نکات واضح ہوں گے۔

احناف کی رائے :

احناف کے نزدیک چائلڈ لیبر کے باب میں ولایت کے کردار کا ذکر اور اس سے متعلق اہم ضوابط حسب ذیل ہیں :

ماذون ہونے کی صورت میں بھی ولی کا کردار ہے کہ وہ عقلمند بچے کو اجارہ کا اذن دے گا تو اسکا اپنی ذات کے حوالے سے اجارہ درست ہو گا۔ اور محجور ہونے کی صورت میں اجارہ کے معاہدے کے درست ہونے کیلئے بھی ولی کی اجازت ضروری ہے۔

َ باپ، وصی، قاضی اور اس کے امین کی طرف سے کیا ہوا اجارہ نافذ ہوتا ہے۔

باپ اپنے بیٹے کو کسی بھی کام پر اجارہ کروا سکتا ہے۔

باپ کو اپنے چھوٹے بیٹے پر اسی طرح ولایت ہے جیسے اپنی ذات پرہوتی ہے۔

باپ اپنی ذات کیلئے بھی بچے کو اجارہ پر لے سکتا ہے۔ امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

باپ کی محبت و شفقت کے سبب اپنی ذات کیلئے اجارہ پر کسی قسم کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ سو باپ ولی ہونے کی بنا پر خود اپنی ذات کے لیے بھی بچے سے اجارہ کر سکتا ہے اور باپ بچے کو صرف مثل اجارہ پر لے سکتا ہے۔ (کاسانی، البدائع الصنائع، ، /234)

معمولی کمی و بیشی کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یہ شرط اس لیے بھی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ عاقل و بالغ افراد ناسمجھ اور نابالغ افراد کی ذات و مال کا استحصال کریں۔ اس سے نابالغ افراد کے مالی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ احناف کے نزدیک اجارہ مال میں بلوغت پر فسخ اجارہ کا اختیار نہیں ملتا مگر اجارہ نفس میں بلوغت پر فسخ کا اختیار ملتا ہے وہ اجارہ کو اپنے حق میں بہتر جانے تو اسے جاری رکھے اور اپنے حق میں مفید نہ سمجھے تو اس کو منسوخ کر سکتا ہے۔ وصی بچے کے مال کے بیع کا بالکل مالک نہیں ہوتا۔ وصی بچے کی ذات کے اجارہ کا مالک بھی نہیں ہوتا۔

باپ بچے کے اجارہ کا صرف اس لیے مالک ہے کہ وہ اجارہ اس بچے کی جسمانی ورزش، تہذیب اور تادیب کی قسم ہے۔

سو آج کے دور میں بچے کی ذات کا اجارہ مختلف انواع کی ٹیکنیکل اور فنی مہارت کے حصول کیلئے ضروری ہے۔ یہ ایسی چائلڈ لبیر ہے جس سے بچے کو جسمانی ورزش، تہذیب اور تادیب حاصل ہوتی ہے۔ امام کاسانی کتاب الاجارۃ میں اس طرح کے فن کے حصول کیلئے اجارہ کے متعلق’’فیہ نظر للصبی‘‘کے الفاظ بیان کرتے ہیں۔ جس سے مراد یہ ہے کہ بچے کے حق میں اس کی ذات کا اجارہ اس پر شفقت کرنے اور اس کی مدد کرنے کے مترداف ہے کیونکہ یہ اس کی آئندہ زندگی بہتر طور پر گزرانے میں معاون ثابت ہوگا۔ (بدائع الصنائع، /3514)

مالکیہ کی رائے :

مالکیہ کے نزدیک چائلڈ لیبر کے باب ولایت کے کردارکا ذکر حسب ذیل ہے :

بچے کا اپنی ذات کا اجارہ ولی کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے اور مفہوم مخالف کے طور پر یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ولی کی اجازت کے ساتھ بچے کی ذات کا اجارہ درست ہے۔

ولی کا اجارہ بلوغت کے بعد لازم نہیں رہتا اور بچے پر اس اجارہ کے مطابق کام کرنا ضروری نہیں رہتا۔

شوافع کی رائے :

شوافع کے نزدیک چائلڈ لیبر کے باب میں ولایت کا کردار حسب ذیل ہے : :

i۔ بچے کی ذات و مال کا اجارہ ولی کیلئے جائز خواہ وہ باپ ہو یا وصی یا متولی۔

ii۔ اجارہ کا جواز مصلحت کے ساتھ مشروط ہے۔

iii۔ مدت اجارہ عمر کے اعتبار سے سن بلوغت سے زائد نہ ہو اور شوافع کے ہاں سن بلوغت پندرہ سال ہے۔

حنابلہ کی رائے :

حنابلہ کے نزدیک چائلڈ لیبر کے باب میں ولایت کے کردار کا ذکر حسب ذیل ہے :

i1۔ ولی بچے کی ذات اور مال کا اجارہ کر سکتا ہے۔

ii۔ مدتِ اجارہ کے دوران بلوغت پر اجارہ کے فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔

احناف، شوافع اور مالکیہ کے ہاں بلوغت کے بعد بچے کا اجارہ لازم نہیں رہتا مگر حنابلہ کے ہاں بلوغت کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔

اس بحث سے ثابت ہوا کہ مذاہب اربعہ کے نزدیک چائلڈ لیبر کا جوا زہے۔ یہ اس فرد کیلئے جائز ہے جو مال میں تصرف کا حق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وصی کیلئے چائلڈ لیبر درست نہیں۔

مروجہ قوانین :

آئین پاکستان سیکشن11(3)میں چائلڈ لیبر کے متعلق بنیادی ضابطے کا ذکران الفاظ میں ہے :

No Child below the age of fourteen years shall be engaged in any factory or mine or any other hazardous employment.

(The Constitution of Pakistan/7)

چودہ سال سے کم عمر کسی بچے کو کسی فیکٹری یا کان یا کسی دوسری خطرناک ملازمت پر نہیں لگایا جا سکتا۔

پاکستان میں متعدد ایسے ایکٹ موجود ہیں جن میں صراحتہً یا ضمناً چائلڈ لیبر کے حوالے سے بحث ہے۔ یہ ایکٹ حسب ذیل ہیں :

i.The Mines Act, 1923 (کانوں کے متعلق ایکٹ)

ii.The Factories Act,1934 (کارخانہ جات ایکٹ)

iii.The Employment of Children Act,1938 (بچوں کی ملازمت کا ایکٹ)

iv.The Shops and Establihments Ordinance,1969(دوکانات اور ادارہ جات آرڈینیس)

v.The Employment of Children Act, 1991 (بچوں کی ملازمت کا ایکٹ)

بچوں کی ملازمت کا ایکٹ1991کی بنا پر1938کا ایکٹ منسوخ ہو چکا ہے۔

4. The Labour Code/362, Mansoor Book House, Lahore.

1991کے ایکٹ میں صرف بچوں کی ملازمت کا ذکر ہے۔ اس ایکٹ میں حکومت نے ولایت عامہ کے تحت بچوں کی استعداد کے مطابق خصوصی سہولیات کے ساتھ ان سے لیبر کی اجازت دی ہے۔

1991کے ایکٹ میں بیان کردہ اہم امور حسب ذیل ہیں :

بچوں کے حقوق کی قومی کمیٹی :

وفاقی حکومت اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بچوں کے حقوق پر کنونشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کی قومی کمیٹی بنائے تا کہ وہ وفاقی حکومت کو ان امور کے متعلق مشاورت دے۔

)Ibid/357(

بچوں سے کام کروانے کے ضوابط :

بچوں کے کام کے اوقات، چھٹی اور رجسٹر کے حوالے سے اہم ضوابط حسب ذیل ہیں :

(Ibid/357-9)

i۔ چودہ سال یا اٹھارہ سال سے کم عمر افراد سے صرف اتنے گھنٹے کام لیا جا سکتا ہے جس قدر دورانیہ ادارہ اور فیکٹری کیلئے بیان کیا گیا ہے۔

ii۔ ایک بچے سے لگاتار تین گھنٹے سے زائد کام نہیں لیا جا سکتا۔ تین گھنٹے سے زیادہ کام کرنے سے پہلے ایک گھنٹہ کا وقفہ ضروری ہو گا۔

iii۔ ایک گھنٹہ آرام کو شامل کرتے ہوئے سات گھنٹے سے زیادہ کام کا دورانیہ نہیں ہو گا۔ اسمیں وہ وقت بھی شامل ہو گا جو بچہ کام کے انتظار میں گزارتا ہے۔

iv۔ شام سات بجے کے بعد سے لے کر صبح آٹھ بجے تک کسی بچے سے کام نہیں لیا جا سکتا۔

v۔ کسی بچے سے اضافی وقت(Over Time)لگانے کی اجازت نہیں ہے۔

vi۔ اگر بچہ ایک فیکٹری یا ادارہ میں ایک دِن کام کر چکا ہو تو اسی دِن کسی دوسری جگہ اس سے کام نہیں کروایا جا سکتا۔

vii۔ بچے کیلئے ہفتہ وار چھٹی ضروری ہو گی اور اس کو نوٹس بورڈ پر آویزں کیا جائے گا۔

viii۔ کارخانہ دار انسپکٹر کو لکھا ہوا نوٹس فراہم کرے گا جسمیں اس کارخانے کا پتہ، محل وقوع، حقیقی مالکان کے نام، کام کی نوعیت کا اندراج ہو۔

ix۔ اگر کسی بچے کی عمر کے حوالے سے آجر اور انسپکٹر کے درمیان تنازع ہو جائے تو سر ٹیفکیٹ کی عدم موجودگی میں میڈیکل اتھارٹی سے فیصلہ کروایا جائے گا۔

x۔ آجر کو ایک ایسا رجسٹر تیار کرنا ہو گا جس کو انسپکشن کے وقت دیکھا جا سکتا ہے۔ اس رجسٹر میں کام کرنے والے بچوں کے نام، تاریخ پیدائش، کام کے اوقات، وقفے کے اوقات اور بچوں سے لیے جانے والے کام کی نوعیت درج ہوتی ہے۔

بچوں کی صحت اور تحفظ کیلئے اقدامات :

بچے جن فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں وہاں ان کے تحفظ اور ان کی صحت کے حوالے سے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔

. )The Labour Code/359-60(

i۔ کام والی جگہ کا صاف ہونا اور وہاں شور کا نہ ہونا۔ ii۔ ردی کو ٹھکانے لگانے کے انتظامات۔

iii۔ جگہ کا ہوا دار ہونا اور مناسب درجہ حرارت کا ہونا۔ iv۔ گردوغبار سے بچاؤ کا انتظام۔

v۔ روشنی کا مناسب انتظام۔ vi۔ پینے کے پانی کی فراہمی۔

vii۔ لیٹرین کا انتظام۔ viii۔ تھوک دان کا ہونا۔

ix۔ مشینری کا تیز نہ ہونا۔ x۔ جلتی ہوئی مشینری کے نزدیک کھڑے نہ ہونا۔

xi۔ خطرناک مشینری پر کام نہ کرنا۔ xii۔ خطرناک مشینری پر کام کرنے کی ممانعت۔

xiii۔ بجلی کو بند کرنے کی تدبیر کی ممانعت۔ xiv۔ آٹومیٹک مشینری نہ ہو۔

xv۔ نئے مشینری کو ابتدائی طور پر نہ چلانا۔ xvi۔ منزلیں، سیڑھیاں اور رسائی کے ذرائع پر کام کی ممانعت۔

xvii۔ گڑھوں، گندے پانی کے حوض، پٹرول دان پر کام لینے کی ممانعت۔

xviii۔ استعداد سے بڑھ کر کام نہ لیا جائے۔ xiv۔ آنکھوں کے تحفظ کا خیال رکھا جائے۔

xx۔ مصنوعی ٹھنڈک کاا ہتمام۔ xxi۔ آتشگیر گیس پر کام کرنے کی ممانعت۔

xxii۔ آگ کی صورت میں پیشگی تدبیر کی عدم دستیابی۔ xxiii۔ عمارت کی مرمت کیلئے کام کی ممانعت۔

xxiv۔ عمارات اور مشینوں کی حفاظت کیلئے کام کی ممانعت۔

ممنوع پیشے :

اس ایکٹ میں درج ذیل پیشوں میں چائلڈ لیبر منع ہے :

i۔ ریلوے کے ذریعے مسافروں یا سازو سامان کی نقل و حمل۔

ii۔ کوئلہ کی پیکنگ، راکھ کو صاف کرنا۔

iii۔ ریلوے اسٹیشن پر سامان پہنچانے کا کام کرنا اور اس دوران ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر جانا۔

iv۔ ریلوے اسٹیشن یا ریلوے لائنوں کے دوران تعمیراتی کام۔

v۔ بندرگاہ پر کام کرنا۔

vi۔ دو کانوں میں آتش بازی اور پٹاخوں کے سامان کو بیچنا۔

1. The Labour Code / 363

اس کے علاوہ حسب ذیل اشیاء کی تیاری میں بچوں سے کام لینا منع ہے :

i۔ قالین سازی ii۔ بننا

iii۔ سیمنٹ بنانا اور اس کی پیکنگ کرنا iv۔ کپڑے بننا اور اس کو رنگ کرنا

v۔ ماچس اور دھماکہ خیز مواد بنانا vi۔ شعاؤں سے کاٹنا

vii۔ کارتوس بنانا viii۔ صابن بنانا

ix۔ چمڑا رنگنا x۔ روئی صاف کرنا

xi۔ عمارت تعمیر کرنا xii۔ سلیٹ پینسل بنانا اور اس کی پیکنگ

xiii۔ پتھر کی مصنوعات کی تیاری xiv۔ زہریلی اشیاء کی تیاری۔ (1)

)The Labour Code/363(

خلاف ورزی پر سزا :

مذکورہ بالا شروط اور قواعد و ضوابط سے انحراف کی صورت میں اس ایکٹ میں حسب ذیل سزاؤں کا ذکر ہے :

i۔ مذکورہ بالا ممنوع پیشوں میں بچے سے مزدوری کروانے پر زیادہ سے زیادہ ایک سال تک قید یا بیس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔

ii۔ اگر دوبارہ اس غیر قانونی کام کا ارتکاب ہو تو اس میں قید کی سزا کم سے کم چھ ماہ سے دو سال تک دی جا سکتی ہے۔

iii۔ اگر کسی جگہ درج ذیل ضابطوں میں سے کسی ایک پر عمل نہ کیا جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک قید یا دس ہزار جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں :

ا۔ کسی کارخانے والے کا اپنا نام، محل و قوع، حقیقی مالکان، مزدوروں کے نام اور کام کی نوعیت کی تفصیل کا نوٹس تیار نہ کرنا۔

ب۔ رجسٹر کو تیار نہ کرنا یا اس میں غلط اندراج کرنا۔

ج۔ ہفتہ وار چھٹی کا نوٹس آویزاں نہ کرنا۔

د۔ کسی اور ضابطے پر عمل نہ کرنا جس کا ذکر اس ایکٹ میں کیا گیا ہے۔

)Ibid/360-1(

خلاصہ بحث

اس تمام بحث کو پڑھنے سے جو خلاصہ ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے بنیادی ضابطے دیئے ہیں کہ ان کوروزگار اور نان ونفقہ کا مکلف تو نہیں ٹھہرایا گیا تا ہم اس سے اس کی استعداد کے مطابق خدمت یا کام لیا جا سکتا ہے مزید یہ کہ اس دوران اس کو تعلیم و تربیت سے محروم نہیں ہونا چاہئے۔ قدیم فقہاء نے بھی اس پر گفتگو اور بحث کی ہے اور اس باب میں بنیادی ضوابط کا ذکر کیا ہے جیسے امام کاسانی نے مختلف صنعتوں میں بچے کے کام کو اس کی تہذیب اور تادیب میں سے شمار کیا ہے جسے آجکل فنی تعلیم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قدیم فقہاء نے اپنے دور کے مطابق اس مسئلہ پر بھرپور بحث کی مگر آج کے دور میں یہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل مسئلہ بن چکا ہے۔ اس لیے دنیا میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین بنائے گئے۔ انہیں بین الاقوامی اثرات کے پیش نظر پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر پر تفصیلی قوانین بنائے گئے جن کا ابھی ذکر ہوا۔ مگر اس کے برعکس آج کے دور کے اہل علم نے قدیم علماء کی طرح اپنے دور میں پیش آنے والے مسائل کی طرح چائلڈ لیبر کی اس طرح جزئیات و تفصیلات بیان نہیں کیں جیسے قدیم علماء کا خاصہ تھا۔ اس لیے عصرِ حاضر کے اسلامی فقہ کے لٹریچر میں چائلڈ لیبر پر اس طرح نظم اور تفصیل کے ساتھ بحث نہیں ہے جیسے کہ مروجہ قوانین میں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی قانون اور اقوام متحدہ کے کنونشن میں بچوں کے جو حقوق بیان کیے گئے ہیں ان تمام قوانین کو ملکی قوانین کا حصہ بنایا جائے اور ان پر سختی سے عمل کرایا جائے اور ان حقوق کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔