حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس

درس نمبر 21 آیت نمبر 36 تا 38 (سورۃ البقرہ)

تجوید : حروفِ تفخيم (مستعليه) کا بیان

سوال : مُفَخَّم کسے کہتے ہیں؟

جواب : موٹی اور بڑی چیز کو مُفَخَّم کہتے ہیں۔

سوال : حروفِ تفخيم سے کیا مراد ہے؟

جواب : حروفِ تفخيم سے مراد وہ حروف ہیں جو ہمیشہ ’’موٹے‘‘ (پُر) پڑھے جاتے ہیں۔

سوال : حروفِ تفخيم کتنے اور کون کون سے ہیں؟؟

جواب : حروفِ تفخيم سات (7) ہیں اور وہ یہ ہیں : ’’خ، ص، ض، غ، ط، ق، ظ‘‘

سوال : حروفِ تفخيم کا مجموعہ اور دوسرا نام کیا ہے؟

جواب : حروفِ تفخيم کا مجموعہ ہے : خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ اور ان کا دوسرا نام ’’حروفِ مستعلیہ‘‘ ہے۔

ترجمہ

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا

چش
متنفَأَزَلَّ هُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَ هُمَا
فظی ترجمہ پھر پھسلا دیا انکو شیطان نے وہاں سے پس نکال دیا انکو
عرفان القرآن پھر ان کو پھسلا دیا، شیطان نے انہیں اس مقام سے الگ کر دیا۔

مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ

چش
متنمِمَّا كَانَا فِيهِ وَ قُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُ كُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ
فظی ترجمہ اس سے جو دونوں تھے جس میں اور ہم نے کہا اتر جاؤ بعض تم میں سے دوسروں کیلئے دشمن
عرفان القرآن اس جگہ سے جہاں وہ تھے‘ اور(بالاخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اتر جاؤ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔

وَّلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ إِلَى حِينٍO

چش    
متنوَّ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ إِلَى حِينٍ
فظی ترجمہ اور تمہارے لئے میں زمین ٹھہرنا اور نفع اٹھانا ہے تک ایک وقت خاص
عرفان القرآن اب تمہارے لئے زمین میں معینہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدر کر دیا گیاہے۔

فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ

چش    
متنفَ تَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَ تَابَ عَلَيْهِ
فظی ترجمہ پھر سیکھ لئے آدم سے اپنے رب کچھ باتیں پس توبہ قبول فرمائی اس پر
عرفان القرآن پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لئے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی،

إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُO قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً

چش    
متنإِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْ هَا جَمِيعاً
فظی ترجمہ بیشک وہ وہی توبہ قبول کرنیوالا رحم فرمانیوالا ہے ہم نے کہا تم اتر جاؤ سے اس تم سب
عرفان القرآن بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ ہم نے کہا تم سب جنت سے اتر جاؤ۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ

چش    
متنفَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ
فظی ترجمہ پس اگر کبھی آئے تمہارے پاس میری ہدایت تو جو پیروی کریگا میری ہدایت پس نہیں کوئی خوف ان پر
عرفان القرآن پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف ہو گا۔

وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَO

چش    
متنوَ لاَ هُمْ يَحْزَنُونَ
فظی ترجمہ اور نہ وہ غمگین ہوں گے
عرفان القرآن اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تفسیر

فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا........... الخ

1۔ دونوں کو ابلیس کا بہکاوا۔ 2۔ جنت سے خروج اور ہبوطز
3۔ انسان کا باہمی تضادات و عداوت او رجدلیات کا قرآنی فلسفہ۔
4۔ انسانوں کے لئے مستقر اور متاع کی فراہمی۔

فائدہ :

1۔ شیطانی حملے صرف ناقص اور مبتدی پر ہی نہیں کامل اورمنتہی پر بھی ہوتے ہیں منازل سلوک میں اول سے آخر تک حفاظت و توفیق الٰہی کی حاجت رہتی ہے۔

2۔ نافرمانوں کو گناہوں کے ارتکاب پر مزید ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ نافرمانی اور سرکشی میں خوب بڑھ جائیں اور زیادہ عذاب کے مستحق ٹھہریں۔ مگر نیکوکاروں اور فرمانبرداروں کو ادنیٰ لغزش اور غیر ارادی خطا پر فوری گرفت کی جاتی ہے تاکہ تصفیہ و تزکیہ میں مزید کمال حاصل کریں اور ا حساس خطا سے ندامت اور توبہ کی طرف راغب ہوں اس سے انہیں مزید روحانی ترقی میسر آتی ہے۔ سو ڈھیل نافرمانوں کیلئے غضب الٰہی اور فرمانبرداروں کے لئے رحمت الٰہی ہے۔

فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّه......... الخ

1۔ حضرت آدم علیہ السلام کو بارگاہ الٰہی سے توبہ کی تلقین و تعلیم۔ 2۔ حضرت آدم علیہ السلام کی قبول توبہ۔

طبرانی، حاکم، ابو نعیم، ابن منذراور بیہقی نے حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی اور ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ‘‘کے بعد ان کلمات سے توسل کیا ’’اَللّٰهُمَّ اِنِّی أسْئَلُکَ بِجَاهِ مُحَمَّدٍ اَنْ تَغْفِرَلِی خَطِيْئَتِی‘‘ (اے اللہ میں تجھ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عزت ومرتبت کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ میری خطا معاف فرما دیجیے) چنانچہ آپ کی توبہ اور دعا قبول فرمالی گئی۔

فائدہ :

گرفت کے ساتھ کلمات توبہ بھی تلقین فرمادئیے اور تادیب کے ساتھ معافی کا اشارہ بھی فرمایا۔ اپنوں سے ایسا ہی معاملہ کیا جاتا ہے۔ ابتلاء توبہ سے ختم ہوتا ہے اور کثرت توبہ ترقی درجات کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوّا علیہا السلام نے ندامۃً چالیس روز تک کھانا پینا بند رکھا۔ سو سال تک ایک دوسرے سے قربت نہ کی اور دوسوسال تک روتے رہے اور شہر بن حوشب سے مروی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے تین سو سال تک حیاء اپنا سر اوپر نہ اٹھایا، الغرض توبہ میں ندامت، گریہ، استغفار، تضرع اور دعا کی کثرت محمود ہے۔ (تفسیر منہاج القرآن)

شیطانی اثرات

رہی یہ بات کہ شیطان جب خارج الجنۃ اور مردود ہو چکا تھا تو اس سے ملاقات کیسے او ر کہاں ہوئی؟

اس کا جواب یہ کہ یاتو لباس و شکل تبدیل کر کے آگیا ہوگا جس سے شناخت نہیں ہو سکی یا باب جنت پر ملاقات ہوئی کہ یہ دونوں اندر رہے اور باہر رہتے ہوئے بھی وسوسہ انداز اور اثر رساں ہو سکا حدیث : ’’إنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِیْ کَمَجْرِی الدَّمِ‘‘ اس کی مؤید ہے۔

بہر حال اس غلطی پر ایک سزا ظاہری تویہ ملی کہ جنت کی عیش و عشرت سے نکال کر دنیا کے غمکدہ میں ڈال دئیے گئے، دوسری باطنی سزا یہ ہوئی کہ اولاد کی باہمی عداوت، نااتفاقی چپقلس کی اطلاع دی گئی جس سے لطف زندگی بہت کچھ کم ہو جاتا ہے اور اولاد کی نااتفاقی سے والدین کو صدمہ ہوتا ہی ہے اور پھر یہ کہا کہ دنیا میں جا کر بھی دوام نہ ملے گا بلکہ بعد ازاں وہ گھر بھی چھوڑنا پڑے گا۔ مگر بعد میں خود ہی کلمات توبہ تلقین فرمائے اور معاف فرمادیا۔ (تفسیر جلالین)

قواعد : فعل مضارع کی گردان

  واحد تثنیہ جمع  
مذکر یَفْعَلُ یَفْعَلاَنِ یَفْعَلُوْنَ غائب
مونث تَفْعَلُ تَفْعَلَانِ یَفْعَلْنَ //
مذکر تَفْعَلُ تَفْعَلَانِ تَفْعَلُوْنَ حاضر
مؤنث تَفْعَلِیْنَ تَفْعَلاَنِ تَفْعَلْنَ //
متکلم اَفْعَلُ   نَفْعَلُ  

دعا : وضوکرنے کے بعد کی دعا

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِی مِنَ التَّوَّابِيْنَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَهِّرِيْنَ وَاجْعَلْنِی مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِيْنَ

’’اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں‘ خوب پاکی حاصل کرنے والوں اور اپنے نیک بندوں میں سے بنا۔‘‘