اداریہ : تحفظ پاکستان کے لئے متفقہ علمی و روحانی قیادت کی ضرورت

مغربی سامراجی اور استعماری قوتوں نے اپنے باطل عقائد و نظریات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جہاں اور بہت سے اقدامات اٹھائے وہاں دین اسلام، اس کی اقدار کی پامالی اور اس کا دم بھرنے والوں کی رسوائی اور ناقدری میں بھی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کی اس انداز سے تحقیر و تذلیل کی گئی کہ معاشرے میں ان کے مقام و کردار کو ختم کرنے کی سعی کی گئی۔ معاشرے میں عوام کے دلوں سے ان کی تعظیم و تکریم کو ختم کرنے کے لئے ان کی نوجوان نسلوں کو دین اسلام سے دور کر دیا گیا۔ انگریزی اقتدار و تمکن سے پہلے اسلامی علوم و فنون کا دور دورہ تھا اور اس کی سرکاری سطح پر پذیرائی ہوتی تھی۔ عربی، فارسی، ترکی اور مسلمانوں میں مروجہ دیگر قومی زبانیں ہی سرکاری و دفتری زبانیں ہوتی تھیں اور تمام اسلامی دنیا میں اسلام نافذ تھا۔ باقاعدہ قاضی عدالتیں قائم تھیں، علم کی اہمیت تھی اور علم کے شاہسواروں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا۔ علمی اداروں کی باقاعدہ کفالت کا اعلیٰ پیمانے پر اہتمام کیا جاتا اور درسگاہوں سے جید علماء اور خانقاہوں سے تربیت یافتہ صوفیاء نکلتے جو لوگوں میں علم و عرفان اور تصوف و عشق کی دولت تقسیم کرتے تھے۔

موجودہ حالات میں مشائخ عظام کو اپنا اصل کردار زندہ کرنا ہوگا تاکہ ان سے وابستہ لاکھوں، کروڑوں عوام اپنی فکر کا قبلہ درست کریں۔ مشائخ عظام کی شبانہ روز کاوشوں سے مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ آج اگر اس کے تحفظ کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے تو یہ ذمہ داری بھی مشائخ ہی کو ادا کرنی ہے۔ کیونکہ ایک منظم سازش کے ذریعے مزارات اور خانقاہوں کو مسمار کرنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے۔ تصوف و روحانیت کی فکر کے حاملین کو سر عام قتل کیا جا رہا ہے۔ خواتین کی تعلیم پر پابندی لگا کر دور جاہلیت کی یاد تازہ کی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں خود کش حملے کر کے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے جس کے رد عمل میں پاک فوج کی طرف پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آپریشن جاری ہے۔ ایسے وقت میں ان غیر ملکی دہشت گردوں کے خاتمے کے خلاف قومی اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے بالخصوص آج اگر مشائخ نے وقت کی آواز پر کان دھرتے ہوئے اس منظم طاغوتی، مغربی اور غیر ملکی سازش کا مقابلہ نہ کیا تو پھر ذلت و ناکامی ہمارا مقدر بنا دی جائے گی لہذا اے مشائخ عظام ’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری‘‘ کے مصداق اٹھیے! اور اس اکیسویں صدی میں حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور تمام سلاسل کے اکابر کا کردار زندہ کیجئے جنہوں نے اپنی ایک نظر سے لاکھوں افراد کو دائرۂ اسلام میں داخل کیا۔ جن کے لئے کیا خوب کہا گیا کہ

دارا کے لئے ہے نہ سکندر کے لئے ہے
کونین کی ہر چیز قلندر کے لئے ہے

بالخصوص دو قومی نظریہ کے تحت تحریک پاکستان کی سرپرستی کا فریضہ سرانجام دے کر قیام پاکستان کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے والے محدث علی پوری حضرت پیر حافظ سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ، پیر صاحب آف مانکی شریف حضرت پیر امین الحسنات رحمۃ اللہ علیہ اور پیر صاحب آف زکوڑی شریف حضرت پیر عبداللطیف رحمۃ اللہ علیہ کا کردار زندہ کیجئے۔

پاکستان بنیادی طور پر ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے۔ آج پاکستان کے پاس سب کچھ ہے۔ عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے۔ آج اگر پاکستان میں کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اتحاد اور قیادت کی کمی ہے، اگر اس قوم کو اتحاد و یگانگت نصیب ہو جائے تو دنیا میں سر اونچا کر کے چل سکتی ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس امر کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

اگر آج مشائخ عظام اس سلسلے میں اہم کردار ادا کریں اور اس قرآنی حکم پر کہ ’’دشمنوں کے مقالے میں اپنی قوت کو مجتمع کرو‘‘ اپنی توانائیوں کو یکجا کرلیا جائے تو پھر مستقبل اسلام اور پاکستان کا ہے۔ پھر امت مسلمہ متحد ہوکر چیچنیا، بوسنیا، افغانستان، عراق، فلسطین اور کشمیر کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکے گی۔ مسلمانان عالم کے لئے اس وقت پاکستان مضبوط سہارا ہے لہذا یہاں کے علماء و مشائخ کو قوم کو جگانے کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔

اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد مشائخ عظام کا دوسرا اہم فریضہ قوم کو قیادت عطا کرنا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ قیادت کا فقدان رہا۔ اگر پاکستان کو باکردار اور جرات مند قیادت مل جاتی تو پاکستان کا وقار اور مقام بلند تر ہوتا۔ جرمنی کی مثال ہمارے سامنے ہے اسے ہٹلر جیسا قوم پرست قائد ملا جس نے اپنی قوم کو چند سالوں مں عظیم قوم بنا دیا۔ اسی طرح چین کو ماؤزے تنگ جیسا محب وطن قائد ملا جس نے اپنی قوم کو عظیم قوم بنا دیا۔ ایران کو امام خمینی جیسا قائد ملا جس نے وہاں باطل نظام کا تختہ الٹ کر اپنی قوم کو انقلاب آشنا کر دیا۔ اسی طرح قائداعظم کی صورت میں مسلمانان ہند کو ایک عظیم قائد ملا جس نے اپنے علم و عمل اور حکمت و فراست کی بدولت ہمیں پاکستان عطا کر دیا۔ ہمیں اب بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

آج قوم مسلم کی تقدیر کو بدلنے اور اسے پھر سے عروج آشنا کرنے کے لئے احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاح احوال امت کے لئے قائم کی گئی دینی عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کی سرپرستی جملہ علماء و مشائخ عظام کو قبول کر کے امت مسلمہ کی ڈوبتی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچانے، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خواب کو تعبیر میں بدلنے اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے عالم اسلام کی عظیم علمی، فکری انقلابی اور دینی قیادت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دین اسلام کا وکیل اور خادم تسلیم کر کے مشترکہ طور پر ان کی سرپرستی اور عملی سپورٹ کرنا ہوگی تاکہ تحفظ پاکستان اور پھر تکمیل پاکستان کا خواب جلد از جلد شرمندہ تعبیر ہو سکے اور جس مقصد کے لئے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘اس کی عملی صورت قوم کو دکھائے دے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پرچم اسلام دینی قیادت کے ہاتھ میں ہوگا جو نہ جھکنے اور نہ بکنے والی ہوگی اور پوری قوم اس پرچم تلے یہود و ہنود اور عالمی دہشتگردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رسم شبیری ادا کرتے ہوئے حق کی خاطر اپنا لہو گرانے سے بھی دریغ نہ کرے گی تب انقلاب کی سحر طلوع ہوگی۔

مینجنگ ایڈیٹر