صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیرتحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

درس نمبر19

بسا اوقات انسانی ذہن اور حواس پر کوئی تصور (Imagination) یا خیال (Idea) ایسا چھا جاتا ہے کہ انسان ہر وقت اُسی کے بارے میں سوچتا اور اسی میں گم رہتا ہے اور پھر ُاس میں مسلسل گیان دھیان (Cogitation) اور مراقبہ (Meditation) اسے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیتا ہے، کہ وہی خیال عقیدے (Creed, Dogma) میں ڈھل جاتا ہے، پھر انسان اس عقیدے کے تحت زندگی گزارنے کے ایسے اصول وضع کر لیتا ہے کہ جن پر عمل کرنا اُس کا جزوِ ایمان بن جاتا ہے، یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ لادینی فلسفہ ہائے حیات زیادہ تر اسی طرح وجود میں آتے رہے ہیں، لیکن جب عقیدے کا تعلق کسی الہامی دین (Divine Religion) سے ہو تو پھر ایمان اور ایقان کے متحقق ہونے کے لئے رسالت کا واسطہ (Prophethood) اور پیغمبرانہ تربیت (Prophetic guidance) ضروری ہوتی ہے۔ سچے الہامی ادیان کا بنیادی عقیدہ ’’توحید‘‘ ہے اور عقیدہ توحید ہی کسی دین کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے اور اُس کی پہچان ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ جل مجدہ کی وحدت مطلقہ (Absolute Oneness) یعنی واحد و یکتا ہونے پر دل کی تمامتر صداقت اور زبان کے اقرار کے ساتھ اس اعلان کو کہ معبود اور مسجود فقط اللہ وحدہ لاشریک ہے، وہی رب ہے، وہی پالن ہار اور رکھوالا ہے، وہی زندگی دینے اور لینے والا ہے، عقیدہ توحید کہتے ہیں۔ عقیدہ توحید پر ایمان رکھنے والے کو مومن اور اس پر عمل کرنے والے کو مسلمان کہا جاتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو عقیدہ اور ایمان کے لئے علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ علم کی افادیت اور موثریت کا اندازہ مُعَلِّم کے ذاتی تُعَلُّم، منابع علم، شخصیت، مقاصد تعلیم اور عمل کا اندازہ علم محصول کی تعمیل اور تکمیل سے ہوتا ہے۔ حقیقت الحقائق ’’توحید‘‘ یعنی ’’لاَ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ‘‘ پر کائنات میں سب سے اول شہادت خلق اول خاتم الانبیاء ’’مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰه‘‘ نے اپنی تخلیق کے وقت اپنے خالق و مالک اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان احدیت، وحدانیت، حاکمیت، ملکیت، قدرت اور ماورائے خیال قوت و طاقت دیکھ کر دی۔ کائنات کا ذرہ ذرہ، جن و بشر اور ملائکہ عقیدہ توحید پر شاہدِ عادل ہیں عقیدہ توحید کی خبر اس علم نافع پر قائم ہے کہ جو نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے مخلوقات ارض و سماوی کو عطا ہوا، کائنات میں علم نافع کا سرچشمہ، منبع اور مصدر ’’اصلِ نباء‘‘ نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات پاک ہے، اَلنَّبِیُّ وَالنَّبِیُّ، سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے الہام یا وحی کی بنا پر غیب کی باتیں بتانے والے، پیشین گوئی کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق خبریں دینے والے کو کہا جاتا ہے، ایسی خبر کہ جس کا علم دیگر مخلوق کو نہیں ہوتا، النباء غیب کی اس خبر کو کہتے ہیں کہ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نبی کو دی جاتی ہے۔ النَبِیْ ایسی بلند دشوار ترین جگہ کو بھی کہتے ہیں، جہاں عام لوگوں کی رسائی ممکن نہیں ہوتی ہے، زمین سے سبزی کے پھوٹنے کو نَبَتَ اس لئے کہا جاتا ہے کہ پھوٹنے سے پہلے وہ زمین کے اندر نظروں سے غائب ہوتی ہے، خبر کی تفتیش اور تحقیق کو النَبَاء اور اَسْتَنْبَآ سے تعبیر کرتے ہیں۔

اُمّ، ماں، والدہ، اصل، جڑ اور چشمہ کو کہتے ہیں، مکہ معظمہ کو اُمُّ الْقُرَی اس واسطے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں انسانوں کی پہلی آبادی تھی، اُمُّ النُّجُوْم، کہکشاں کو کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کا منبع ہے، اُمُّ الدِمَاغ وہ جھلی ہوتی ہے کہ جس میں دماغ لپٹا ہوا ہوتا ہے، اُمُّ الکِتَاب لوح محفوظ یا پورے قرآن کو کہا جاتا ہے اور سورہ فاتحہ شریف کو اُمُّ الْقُرآن اس لئے کہتے ہیں کہ یہ خلاصہ قرآن ہے۔

نبی آخر الزماں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو اُمّی اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کی ذات اقدس تمام علوم و فنون کی اصل اور مصدر و منبع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  تلمیذ الرحمن ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے کسی سے پڑھا اور نہ کسی نے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو پڑھنا لکھنا سکھایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات طیبہ معلم کائنات ہے۔

اُمّی و دقیقہ دانِ عالم
بے سایہ و سائبانِ عالم

معلم کائنات نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے دنیا کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات فَوْقُ الاِدْراکيِّت، اَحَدِيَّت، صَمَدِيَّت، لَا وَالِدِيَّت، لَا وَلَدِيَّت اور لَاکُفُوِيَّت کی خبر اللہ باری تعالیٰ کے حکم ’’قُلْ‘‘ (’’محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ فرمادیئے‘‘) کے مطابق عطا فرمائی، یہ عقیدہ توحید کو سمجھنے کے لئے واسطہ رسالت ہے، اس کا مخبر حضور نبی پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہیں۔ جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود شاہد، مبشر، نذیر اور داعی بنایا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ایک سمجھنا تصور وحدت ہے، جو کوئی اپنے خیال، سمجھ، فہم اور عقل سے بن دیکھے خدا کو ایک مانتا ہے، تو یہ اس کا ذاتی تصور وحدت ہوگا کیونکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دیکھنے پر قادر و شاہد نہیں ہے، لیکن جب زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سن کر کوئی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ایک مانے گا تو یہ عقیدہ توحید ہوگا۔ جو فرمان الہٰی ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدَ‘‘ کے عین مطابق ہے۔

اقرار توحید سے پہلے نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رسالت کا اقرار ضروری ہے کہ کائنات کی عظیم ترین حقیقت کی ’’خبر توحید‘‘ کا ’’مخبر صادق‘‘ نبی الامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات گرامی ہے، دنیا کا بڑے سے بڑا عالم، فلسفی، نکتہ داں اور دانشور بذاتہ منبع علم نہیں ہے، بلکہ وہ کسی سے علم حاصل کرنے کے بعد عالِم اور مُعلِّم بنا ہے، اس کا علم زیادہ سے زیادہ انسانی حواسِ خمسہ ظاہری اور باطنی تک محدود ہے، جبکہ ذات باری تعالیٰ انسان کے ظاہری اور باطنی حواس اور اس کے ادراک سے ماوراء ہے، ذات باری تعالیٰ کی شاہد صرف ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہے۔ عقیدہ توحید پر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شہادتِ ذاتی اصالۃً ہے، جبکہ آپ کے تصدّق و توسّل سے امت کی شہادت نیابۃً (Vicergerency) ہے۔

دنیا میں ہر عمل، سلوک (Action) اور کام (Work) کرنے کے لئے علم (Knowledge) کی ضرورت ہوتی ہے، علم اور شعور کے بغیر ہونے والے کام عبث اور فضول ہوتے ہیں، عمل کو علم اور شعور کے ذریعے مزکّٰی اور مصفّٰی (Purify) کیا جاتا ہے، سلوک جتنا زیادہ صاف (Purified) پختہ اور بے عیب (Perfect) ہوتا ہے، مرتبۂ تصوّف (Degree of Purity) اتنا ہی اعلیٰ و اکمل ہوتا ہے۔

’’عقیدہ‘‘، وہ علم ہے جس کا اظہار عمل سے ہوتا ہے، یہ ایک ایسا فعل ہے جو ہر وقت ذہنی، قلب اور جوارح میں مستحضر اور جاری رہتا ہے، عقیدہ توحید کوئی تصوراتی یا تخیلاتی عمل نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مکمل اور جامع تفعیلی خاصیت رکھنے والا فعل ہے جس کا اظہار تعمیل کی صورت میں مسلمان کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں لازمی ہوتا ہے، یہ وہ استقراری عمل ہے کہ جس کو زندگی کی ہر ساعت میں پوری طرح مان اور سمجھ کر پوری محنت، ریاضت، عزم و استقامت، استقلال اور اخلاص کے ساتھ انجام دینا ہوتا ہے، اگر عمل میں یہ خصائص نہ پائے جائیں، تو وہ ایک عام فعل ہوگا، تفعیل نہیں ہوگا، آفاق و انفس کا مشاہدہ بھی اگر دقتِ نظر سے کیا جائے، تو کائنات کے ذرہ ذرہ میں ’’عقیدہ توحید‘‘ کا رنگ جھلکتا نظر آتا ہے، ذرہ ذرہ پوری طرح توحید میں ڈوبا ہوا ہے، ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے گرد سب مصروف طواف ہیں، ایک وحدہ لاشریک کے سامنے سب کے سر جھکے ہوئے ہیں، کوئی چھوٹے سے چھوٹا ستارہ بھی کسی بڑے سے بڑے ستارے کا محتاج نظر نہیں آتا، سب اپنے اپنے مدار میں کام کر رہے ہیں اور راہ سلوک و تصوف کا سفر طے کر رہے ہیں، ایک مالک کا حکم بجا لا رہے ہیں، کسی کو نہ کسی سے کوئی طلب، نہ امید، نہ کوئی آرزو، سوائے مالک کائنات سبحانہ و تعالیٰ کے نہ کسی اور کا خوف اور نہ ڈر، نہ وہ کسی غم و یاس کا شکار ہیں، سب کا خالق، مالک، معبود اور حاکم ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے۔

سب ماننے والے اسی ایک کو مانتے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں۔ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں، اسی کی اطاعت کرتے ہیں، اسی سے محبت کرتے ہیں، اسی ایک پر توکل اور بھروسہ کرتے ہیں، آفاق و انفس کا ہر فرد بخوبی جانتا ہے کہ سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.

’’ہم تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے (مال) ہیں، ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔ (البقرہ : 156)