عائشہ شبیر

عقیدہ علم غیب

عقائد کے باب میں آج کا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ صحیح عقیدہ ایمان کی اساس ہوتا ہے اگر عقیدہ ہی درست نہ ہو تو ایمان میں خامی اور عمل میں نقص رہ جاتا ہے۔ معاشرے میں بہت سے فسادات و برائیاں عقیدہ کی خرابی کے باعث جنم لیتی ہیں۔ عقائد کے باب میں توحید کے بعد رسالت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے بلکہ قصرِ ایمان اسی اساس پر قائم ہے۔ عقیدہ رسالت کے بغیر عقیدہ توحید جو کہ ایمان کی روح ہے متحقق نہیں ہو سکتا۔ امتِ مسلمہ کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ عقیدہ رسالت کے باب میں اختلافات نے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے دورِ حاضر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو مناظروں اور مباحثوں کا موضوع بنایا جاتا ہے کبھی نور و بشر کے جھگڑے، کبھی حیاتِ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اختلافات، کہیں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر بحثیں اور کہیں علم غیب کے اثبات اور عدم اثبات پر مناظرے۔ یہ سب اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف سازشوں میں ممدو معاون ثابت ہورہے ہیں۔ یہ اختلافات خدانخواستہ اسلام کو نیست و نابود کرنے کی عالمی سازشوں کو راستہ دے رہے ہیں۔ آج امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا بنیادی سبب بھی درِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری ہے اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق جوڑنے کی بجائے اس ذات اقدس کو وجہ اختلاف اور موضوع بحث بنانا ہے۔ اس صورتحال میں بلاشبہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بے نظیر و بے مثال کام کیا ہے۔ صحیح عقائد سے آگہی کے ساتھ ساتھ اعتقادی اصلاح کے ضمن میں تحقیق و تحریر اور تقریر کے ذریعے معاشرہ کو سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ یقینا وہ شیخ الاسلام کا عظیم کارنامہ ہے۔

’’عقیدہ علم غیب‘‘ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شاہکار تصنیف ہے۔ اس کتاب میں افراط و تفریط سے قطع نظر صحیح اور خالص عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ مستند اور مدلل کتاب علم غیب سے متعلقہ پیدا ہونے والے اشکالات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے اور الجھے ہوئے ذہنوں اور دلوں کو طمانیت دیتی ہے۔ اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اوّل کا عنوان علم غیب کا حقیقی تصور جبکہ حصہ دوم علوم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعت ہے۔

حصہ اول: ’’علم غیب کا حقیقی تصور‘‘ کے سات ابواب ہیں. پہلا باب ’’علم غیب کی تعریف و اقسام‘‘ کے نام سے ہے جس میں ’’علم‘‘ اور ’’غیب‘‘ کی الگ الگ لغوی اور اصطلاحی تشریحات کی گئی ہیں۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ علم کیا ہوتا ہے، علم کسے کہتے ہیں علم کے معنی کیا ہیں۔ علم کی اقسام کیا ہیں اور غیب کسے کہتے ہیں، علم غیب کی اقسام کیا ہیں؟ تاکہ اس عقیدہ کے اختلافی پہلو پر گفتگو سے پہلے قاری کو ان سب سوالوں کے جوابات تفصیلاً مل جائیں۔ باب دوم۔ ’’علم الہٰی کی حقیقت و ماہیت‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب کی دو فصول ہیں۔ فصل اول میں ’’توحید فی العلم کا تصور‘‘ ثابت کیا گیا ہے کہ عطائے الہٰی اور اذن الہٰی شرک نہیں۔ فصل دوم میں ’’علم الہٰی کی وسعت کا قرآنی تصور‘‘ میں علم الہٰی کی وسعت کا بیان ہے۔

باب سوم میں آیت الکرسی اور تصور علم غیب کو واضح کیا گیا ہے۔ مسئلہ علم غیب کو سمجھنے کے لئے آیۃ الکرسی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اس موضوع پر ذہن میں پائے جانے والے بہت سے ابہام و اشکال کو دور کرنے کے لئے اس آیہ کریمہ کے مطالب و مفاہیم تک رسائی اسی باب کو پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس باب میں آیۃ الکرسی کے مفاہیم کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ شان ربوبیت کا مظہر اتم ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

باب چہارم میں علم غیب ذاتی کی نفی اور عطائی اثبات میں علم خالق اور علم مخلوق میں فرق بیان کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ علمِ مخلوق کو علم خالق سے کوئی نسبت نہیں۔ اسی باب میں علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلی یا جزوی ہونے کی وضاحت کی گئی ہے کہ تمام مخلوق کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم کلی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں علم جزوی ہے۔ پس خالق و مالک کائنات کے علم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے مابین کل اور جز کی نسبت ہے۔

باب پنجم میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ علوم نبوت و رسالت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جن کی فراہم کردہ معلومات میں غلطی اور خطا کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتا۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ علم غیب خصائص نبوت سے ہے۔

باب ششم میں وحی کا مفہوم، اقسام اور نزول کی عمومی اور خصوصی صورتوں کا تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ علم کا ذریعہ فقط قرآنی وحی نہیں تھا بلکہ قرآنی وحی کے علاوہ بھی کئی صورتیں تھیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم سے بہرہ ور فرمایا۔

باب ہفتم میں انبیاء علیہم السلام کے مطلع علی الغیب ہونے پر قرآنی شواہد مذکور ہیں۔

علوم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وسعت : یہ حصہ 6 ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کلی پر قرآن کی شہادت اور احادیث کی شہادت بیان کرکے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں کر دی ہے کہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

باب دوم میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے رب کے سوا کسی سے کچھ نہ پڑھنا، کچھ نہ سیکھنا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمّی ہونا ایک عظیم معجزہ اور عظیم حکمت الہٰیہ ہے۔ خاکِ دہلیز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم کی روشنی کا ظہور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے اور اس معجزے کا تسلسل ہی تہذیب انسانی کے مختلف مظاہر کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے ان حکمتوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جسے پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

باب سوم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب کا قرآن سے استدلال کیا گیا ہے۔ ساری کائنات کا علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے مقابلے میں جز کی حیثیت رکھتا ہے جسکا ثبوت قرآن دیتا ہے۔

باب چہارم: میں جامعیت قرآن کی عملی شہادتوں کے ذکر کے ساتھ قرآن میں احوالِ غیب کا بیان بھی بڑی تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ اس باب میں سائنسی مباحث اور دلائل کے ذریعہ سے اس حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے کہ کائنات کی ہر شے کا علم قرآن میں موجود ہے۔ اس کتاب کو جملہ علومِ کائنات کا سرچشمہ بنایا گیا ہے اس کا علم اپنی تمام وسعت و جامعیت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کر دیا گیا ہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسعت علم کو تمام اہل جہاں پر آشکار کر دیا گیا ہے۔

باب پنجم میں ان تمام احادیث کا ذکر کیا گیا ہے جس میں احوال قبور کی خبر سے لے کر مستقبل میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور دور حاضر کی جدید سائنسی ترقی کی خبروں سے لے کر اہل جنت اور اہل دوزخ کی پہچان تک شامل ہے۔ قرب قیامت سے لے کر احوال قیامت تک کی تمام خبریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے ہی امت تک پہنچتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے شمار احادیث گذشتہ و آئندہ کے واقعات کی خبروں پر مشتمل ہیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ شیخ الاسلام مدظلہ نے اس باب میں کیا۔

باب ششم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علوم خمسہ کے اثبات کا تذکرہ تفصیلاً کیا گیا ہے۔ جس میں وقوع قیامت، نزول باراں، علم آنے والے کل کا علم اور جائے وفات کا علم مذکور ہیں۔

اس مختصر سے تعارف میں عقیدہ علم غیب کے موضوع پر شیخ الاسلام مدظلہ کی شاندار تصنیف کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس عقیدہ سے متعلقہ تمام الجھنیں ختم ہو جاتی ہیں۔ دل و نگاہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کی اس عظیم شان کے احترام میں جھک جاتے ہیں اور قاری بے اختیار یہ کہہ اٹھتا ہے کہ

فان من جودک الدنيا و ضرتها
و من علومک علم اللوح و القلم

بے شک دنیا و عقبیٰ آپ کے جودو سخا کے مرہون منت ہیں اور آپ کے علوم باطنی، لوح و قلم پر محیط ہیں۔