حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 22 آیت نمبر 39، 40، 41 (سورۃ البقرہ)

تجوید : اسمِ جلالت ’’اَﷲ يا اَللّٰهُمَّ‘‘ کا بیان

سوال : اسمِ جلالت ’’اَﷲ‘‘ کو کیسے پڑھا جائے گا؟

جواب : اسمِ جلالت ’’اَﷲ يا اَللّٰهُمَّ‘‘ کا ما قبل ’’ مفتوح یا مضموم‘‘ ہوگا تو اسے ’’مُفَخَّم‘‘ یعنی موٹا پڑھیں گے۔

اسمِ جلالت ’’اَﷲ يا اَللّٰهُمَّ‘‘ کا ماقبل اگر’’ مکسور‘‘ ہوگا تو اِسے ’’مُرَقَّق‘‘ (یعنی باریک) پڑھیں گے۔

ترجمہ

وَالَّذِينَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ

متن وَ الَّذِينَ كَفَرواْ وَ كَذَّبُواْ
فظی ترجمہ اور جو لوگ کفر کرینگے اور جھٹلائیں گے
عرفان القرآن اور جو لوگ کفر کریں گے او ر جھٹلائیں گے۔

بِآيَاتِنَا أُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَO

متن بِ آيَاتِنَا أُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِي هَا خَالِدُونَ
فظی ترجمہ ساتھ ہماری آیات وہی لوگ اہل دوزخ وہی میں اس ہمیشہ رہیں گے
عرفان القرآن ہماری آیتوںکو تو وہی دوزخی ہوں گے ‘ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ

متن يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِ يَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْ كُمْ
فظی ترجمہ اے اولاد یعقوب کی تم یاد کرو نعمت میری وہ جو میں نے انعام کی پر تم
عرفان القرآن اے اولاد یعقوب! میرے وہ انعام یادکرو جو میں نے تم پر کئے

وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِO

متن وَ أَوْفُواْ بِ عَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِ كُمْ وَ إِيَّايَ فَارْهَبُونِ
فظی ترجمہ اور پورا کرو ساتھ / کو میرے عہد میں پورا کرونگا عہد کو تمہارے اور مجھ ہی سے پس ڈرو
عرفان القرآن

اور تم میرے(ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرا کرو

وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ

متن وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ
فظی ترجمہ اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا تصدیق کرتی اسکی جو تمہارے پاس اور نہ ہو جاؤ پہلے کافر اسکے
عرفان القرآن اور اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو میں نے (اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اتاری (ہے، حالانکہ) یہ اس کی (اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو

وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَّإِيَّايَ فَاتَّقُونِO

متن وَ لاَ تَشْتَرُواْ بِ آيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَّ إِيَّايَ فَاتَّقُونِ
فظی ترجمہ اور نہ خریدہ بدلے میری آیتوں قیمت تھوڑی اور مجھ ہی سے پس ڈرو
عرفان القرآن اورمیری آیتوں کو (دنیا کی) تھوڑی سی قیمت پر فروخت نہ کرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

تفسیر

بنی اسرائیل پر انعامات کی بارش

یہاں سے خصوصی معنوی نعمتوں والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اہل مدینہ میں چونکہ آبادی بیشتر اہل کتاب کی تھی جن پر پشت ہا پشت سے احسانات اور انعامات کا سلسلہ جاری تھا اور حسب و نسب ریاست و پیرزادگی و صاحبزادگی سے انکا دماغی توازن حد اعتدال سے باہر ہو گیا تھا اور ان میں طرح طرح کی قابل نفرت برائیاں پیدا ہوگئی تھیں اس لئے تفصیلاً اس پر گفتگو مناسب سمجھی گئی۔ چنانچہ اس سورۃ میں دس احسانات، دس قبائح، دس انتقامات کی فہرست پیش کی گئی ہے اور اس طرح کہ اول اجمالاً ان نعمتوں کو یاد دلایا گیا ہے پھر انکو دھرایا جائے گا۔ تاکہ پورے طور پر اس کا اہتمام اور عظیم الشان ہونا واضح ہو جائے۔ قرآن کو مصدق انجیل کہنا اس وجہ سے ہے کہ جگہ جگہ ان کتابوں کی بشرطیکہ محرف نہ ہوں تصدیق کی گئی ہے اور جو حصہ تحریف والا ہے وہ توراۃ وانجیل ہونے سے بھی خارج ہے۔ (تفسیر جلالین)

وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا. . . . . الخ بنی اسرائیل کو تنبیہ

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فرزند سیدنا اسحق علیہ السلام جو حضرت سارہ عراقیہ کے بطن میں سے تھے ان کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل ہے اس کا معنی ہے عبد اللہ‘ اللہ کا بند ہ (تفسیر ضیاء القرآن)

ایفائے عہد کا حکم : بنی اسرائیل سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی بدولت جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔

فائدہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سند صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم دیاگیا کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر ایمان اور انکی اتباع کا عہد پو را کرنا‘ میں تمہارے بوجھ ختم کرنے کا عہد پورا کروں گا اور تم سے جنت کا وعدہ ایفا کرونگا۔ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبتِ غلامی سے مشکلات آسان ہوتی ہیں اور انعامات الٰہیہ نصیب ہوتے ہیں۔

وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ

خوف الٰہی کی ہدایت اور ذکر نعمت الٰہی کا حکم

فائدہ : ایفاء کی دو جہتیں ہیں اور مراتب وفا کثیر ہیں ہر درجہ میں ایک وفا بطور شرط و عمل ہماری طرف سے ہے اس پرایک وفا بطور صلہ و جزاء باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

تم اپنا عہد وفا پورا کرو میں تمہیں منزل صفا عطا کروں گا

تم عہد اطاعت وفا کرو میں تمہیں منزل قربت عطا کروں گا

تم عہد توکل وفا کرو میں تمہیں منزل کفایت عطا کروں گا

تم استعداد معرفت کے مطابق مجاہدہ کرو میں تمہیں خزائن غیب کا مشاہدہ عطا کروں گا

الغرض تم مراحل فنا سے گزرو میں تمہیں منزل بقا عطا کرونگا (تفسیر منہاج القرآن)

مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ : قرآن کریم تو تمہاری کتاب کی تائیداور تصدیق کرتا ہے تمہارے دین کی حقانیت کا علم بردار ہے، تمہارے انبیاء کی شان بلند کرتا ہے پھر تم اس سے کیوں بدکتے ہو۔

وَلَاتَشْتَرُوْا ۔ ۔ ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالی کی آیتوں کو تھوڑے داموں فروخت نہ کرو اور اگر منہ مانگے دام ملیں تو فروخت کردو بلکہ مقصد یہ ہے کہ کسی قیمت پر حق کو مت بیچو کیونکہ ساری دنیا کے خزانے بھی اس کے مقابلے میں حقیر ترین معاوضہ ہیں۔ (تفسیر ضیاء القرآن)

قواعد

باب کسے کہتے ہیں؟

ماضی اور مضارع کو ملا کر پڑھنے کا نام ’’باب‘‘ہے۔ جیسے ’’نَصَرَ یَنْصُرُ‘‘ ایک باب ہے۔ اسی طرح ’’سَمِعَ یَسْمَعُ‘‘ بھی ایک باب ہے۔ یونہی ’’ضَرَبَ یَضْرِبُ‘‘ بھی ایک باب ہے۔

باب کی جمع ’’ابواب‘‘ آتی ہے، جس کا معنی ہے ’’بہت سے ابواب‘‘

ابواب کی تعداد

ماضی اور مضارع کے ’’عین کلمہ‘‘ میں کبھی موافقت ہوتی ہے۔ یعنی دونوں مضموم یا دونوں مفتوح یا دونوں مکسور ہوتے ہیں۔ اور کبھی مخالفت ہوتی ہے، یعنی اگر ایک مفتوح ہوتا ہے تو دوسرا مضموم یا مکسور ہوتا ہے۔

اس لحاظ سے ابواب کی تعداد چھ ہے۔

(1) ماضی مفتوح العین اور مضارع مکسور العین جیسے ضَرَبَ یَضْرِبُ

(2) ماضی مفتوح العین اور مضارع مضموم العین جیسے نَصَرَ یَنْصُرُ

(3) ماضی مکسور العین اور مضارع مفتوح العین جیسے سَمِعَ یَسْمَعُ

(4) ماضی اور مضارع دونوں مفتوح العین جیسے فَتَحَ یَفْتَحُ

(5) ماضی اور مضارع دونوں مضموم العین جیسے کَرُمَ یَکْرُمُ

(6) ماضی اور مضارع دونوں مکسور العین جیسے حَسِبَ یَحْسِبُ

دعا

سفرکی دعا

سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا هٰذَا وَمَا کُنَّا لَه مُقْرِنِيْنَ وَاِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ

’’پاک ہے وہ ذات جس نے اس (سواری) کو ہمارے لئے مسخر کر دیا اور ہم اس کو قابو میں رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کی طرف ضرور لوٹنے والے ہیں۔‘‘