عائشہ شبیر

عقیدہ توسل

دور حاضر میں مسلمان جدت کے پیچھے بھاگتے بھاگتے دین کے اہم بنیادی و اعتقادی امور میں کشمکش کا شکار ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور فکری انتشار کے باعث ایسے غیر متنازع اور خیر خواہی پر مبنی اعمال کی بجا آوری کو بھی مسلکی تعصب اور عناد کی بھینٹ چڑھا کر متنازعہ مسئلہ بنا دیا گیا۔ اس مشکل اور کٹھن دور میں مسلمانوں کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے باہمی اختلافی امور کے اصل مرض کی تشخیص کے صحیح و درست علاج کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس ضرورت کو شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پورا کیا اور مسلمانوں کے ایمانی و اعتقادی اختلافات، تنگ نظری اور کج فکری کو اپنی علمی و فکری ریسرچ کے ذریعہ دور کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ جن عقائد کو وجہ اختلاف بنا کر بدعت یا شرک کے نام کا فتنہ برپا کیا جا رہا ہے ان میں سر فہرست عقیدہ ’’توسل‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’عقیدہ توسل‘‘ میں اس موضوع سے متعلقہ تمام اشکالات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے روایتی تعصب اور عناد سے ہٹ کر ’’توسل‘‘ کے صحیح مفہوم کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ٹھوس دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے کہ توسل قرب خداوندی کے حصول کے لئے دعا کی ایک شکل ہے اور پسندیدہ و جائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جس عمل یا شخصیت کو بطور وسیلہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے مقصود یہ امید ہوتی ہے کہ ہم چونکہ اللہ کے عاجز، گناہگار بندے ہیں جس کا وسیلہ پیش کر رہے ہیں وہ اللہ کا محبوب و مقرب ہے اس کے وسیلہ سے اللہ ہماری پریشانیوں سے نجات عطا فرمائے گا۔ اس عمل کے دوران متوسل بہ کو اللہ کا شریک سمجھا جاتا ہے نہ اللہ کا ہمسر، اس لئے کہ حقیقی کارساز اور مشکل کشا تو اللہ ہی ہے۔ بس اللہ کی بارگاہ میں رسائی اس وسیلہ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ کتاب بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو راہ راست پر لانے اور درست عقیدہ کی طرف رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نبض شناس ہیں جنہوں نے ایمانی و اعتقادی اور فکری پختگی کو کج فکری کا علاج قرار دیتے ہوئے عقیدہ توسل سے متعلقہ تمام غلط فہمیاں دور کرنے کی مخلصانہ علمی کاوش ہے۔

سات ابواب پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علم و تحقیق کا روشن ستارہ ہے۔ ان ابواب میں حقیقت توسل کو واضح کیا گیا ہے کہ اصل میں توسل کیا ہے؟ عقیدہ توسل کا صحیح تصور کیا ہے؟ توسل کا لغوی و شرعی مفہوم کیا ہے؟ سورۃ المائدہ آیت نمبر 35 عقیدہ توسل کا ثبوت پیش کرتے ہوئے گواہی دے رہی ہے کہ

يَاَ يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللهَ وَابْتَغُوْ اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ.

(المائده، 5 : 35)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب و رسانی کا) وسیلہ تلاش کرو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس کتاب میں قرآن حکیم کے ان مقامات سے چند کا ذکر کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے کس طرح صراحت کے ساتھ وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم فرمایا ہے۔ وسیلے کو قرآن سے ثابت کرنے کے بعد شیخ الاسلام مدظلہ ’’توسل پر اعتراضات کے رد کا باب‘‘ لائے ہیں۔ جن میں تمام ممکنہ اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے آیات کریمہ سے جواز توسل کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

شیخ الاسلام مدظلہ مزید لکھتے ہیں کہ انبیاء و صلحاء سے توسل درحقیقت محل صالح سے توسل ہوتا ہے اور ذوات صالحین سے توسل درحقیقت ان سے محبت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اللہ کے کسی نیک بندے سے محبت کرنا خود عمل صالح ہے اور عمل صالح سے توسل پر امت محمدی کا اتفاق ہے۔ جس کو ڈاکٹر صاحب نے احادیث مبارکہ سے بھی ثابت کیا ہے کہ امت مصطفوی سے شرک کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اپنی امت کے دوبارہ شرک کی طرف پلٹ جانے کا اندیشہ نہیں رہا‘‘ اور ہم ہیں کہ محض مسلکی تعصب اور عناد کی بنا پر جھوٹی انا کی تسکین کے لئے ایک دوسرے پر مشرک ہونے کا فتویٰ لگاتے جا رہے ہیں اس سے بڑھ کر بد بختی کوئی نہیں۔

اعمال صالح سے توسل اور دعا میں وسیلہ پیش کرنے کو مختلف احادیث اور سنت طیبہ سے ثابت کیا گیا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دنیا سے وصال فرمانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت جاری ہے اور قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی نبوت و رسالت جملہ احکام کے ساتھ باقی رہے گی تو پھر بعد از وصال سلسلہ توسل کے منقطع ہونے کا کیا جواز رہ جاتا ہے جبکہ قرآن و حدیث میں کوئی لفظ بعد از وصال توسل کے انقطاع پر موجود نہیں جس سے نصوص قرآنی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں توسل ثابت ہے ان ہی نصوص سے بعد ازوصال بھی توسل ثابت ہے۔ آپ کی ولادت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کیا گیا۔ اس کو حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دلائل کی روشنی میں ثابت کر کے توسل کے بارے میں صحیح عقیدہ کو واضح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں وسیلہ بنانے کے حوالے سے قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلاً بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہری حیات مبارکہ میں نہ صرف کسی ایک خاص معاملے میں توسل کیا گیا بلکہ جملہ دینی اور دنیوی امور میں ان روایات سے ثابت ہوا کہ بیماری، دکھ، تکلیف، ایمان و اسلام، گناہوں کی بخشش اجتماعی طور پر لوگوں کی معاشی بدحالی و ابتری سے نجات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کیا گیا کسی نے کیا خوب کہا۔

کسی کو کچھ نہیں ملتا تیری عطا کے بغیر
خدا بھی کچھ نہیں دیتا تیری رضا کے بغیر

بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کو مدلل انداز میں ثابت کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کے خلاف دلائل کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور من گھڑت طریقوں سے صحیح اور ثقہ روایات کو ضعیف اور بے اصل قرار دینا سب بے سود کوشش ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے حَيَاتِیْ خَيْرُلَّکُمْ وَمَمَاتِیْ خَيْرُلَّکُمْ ’’میری زندگی بھی تمہارے لئے خیر ہے اور میری وفات بھی تمہارے لئے خیر ہے‘‘۔

اس کتاب میں روایات کے ذریعہ اس بات کا ثبوت فراہم کیا گیا ہے کہ انبیاء و صالحین سے منسوب آثار و تبرکات فیض رساں اور پر تاثیر ہوتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو تبرکات نبی کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے جسکی تفصیل جو اس کتاب میں دی گئی ہے کہ پڑھنے کے بعد عقیدہ مستحکم اور ایمان مزید پختہ ہوتا ہے۔ ان کا مقصد ان کو برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان آثار و تبرکات سے فیوض برکات لے کر اپنے مقاصد جلیلہ حاصل کرتے اور آفات و بلیات کو دفع کرنے کے لئے ان کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے۔

انبیاء سے توسل کو نص قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب غیر انبیاء سے توسل کا باب لاتے ہیں جس میں انہوں نے صالحین سے توسل اور آثار صالحین سے توسل کا جواز ثابت کیا ہے۔

آخری باب ائمہ قائلین توسل اور ان کے معمولات و مشاہدات کے نام سے قائم کرکے اس میں اکابر علمائے امت کے نظریات و معتقدات کو اور اکابر اولیاء کرام کے معمولات و مشاہدات کو تفصیلاً ان کے اسماء طیبہ کے ساتھ لکھا ہے۔

حرف آخر میں ڈاکٹر صاحب نے عقیدہ توسل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ٹھوس دلائل سے واضح کر دیا ہے جس سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا کہ توسل حکم ربانی اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرب الہٰی اور اس کی بارگاہ سے اپنی دعاؤں کی فوری قبولیت کے لئے ایک درست، جائز اور شرعی طریقہ ہے۔ شیخ الاسلام یہ پیغام دیتے ہیں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ دینی عقائد و اعمال کو افراط و تفریط سے ہٹ کر دین کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھا جائے۔

اس مختصر سے تعارف میں کتاب ’’عقیدہ توسل‘‘ کی علمی و اعتقادی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا جب تک اس کا عمیق مطالعہ نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف علم و معرفت کا خزانہ ہوتی ہیں پس قاری کے دامن پر منحصر ہے کہ وہ کتنے موتی چن لیتا ہے۔

اظہار تعزیت

گذشتہ دنوں محترمہ صائمہ فیاض نائب ناظمہ تنظیمات منہاج القرآن ویمن لیگ کے دادا جان، محترمہ زریں لطیف نائب ناظمہ لاہور کے جواں سال کزن محمد سعید، محترمہ انجم فاطمہ ناظمہ نشر و اشاعت مانگا منڈی کے دادا جان قضائے الہٰی سے رحلت فرماگئے۔ انا لله وانا اليه راجعون. اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین