سیدہ ریحانہ بخاری

مسلمان مرد اور عورت دونوں کا معاشرتی کردار اور مسلم معاشرے کے حوالے سے جو ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر عائد ہوتی ہیں انہیں ایک ہی آیت کریمہ میں واضح کر دیا گیا ہے۔

يٰاَيُّهَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِيْکُمْ نَارًا

(التحريم ، 66 : 6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ‘‘۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالی نے اس بات کا برملا اظہار کر دیا کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی یا اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں پر یکساں عائد ہوتی ہے دونوں ہی اپنی اس ذمہ داری کے ضمن میں برابر کے جواب دہ ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی دونوں کا فریضہ ہے اور دونوں کو اپنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس فرض کی ادائیگی کرنا ہو گی گویا کہ عورت بھی تعمیر معاشرہ کے ضمن میں یکساں اہمیت کی حامل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پر یہ ذمہ داری ایک حوالے سے مرد سے قدرے زیادہ عائد ہوتی ہے کیونکہ عورت کی گود ہی وہ اولین مکتب ہے، جہاں معاشرے کا ہر فرد بلا تخصیص مرد و عورت اپنی زندگی کے ابتدائی اور بنیادی مراحل سے گزرتا ہے، یہاں بھی اس کی ذہنی، اخلاقی، روحانی تربیت اور نشوونما کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اسی بنیاد پر اس کی زندگی کی پوری عمارت تعمیر ہوتی ہے، ماں کی گود اور عورت کا بنایا ہوا یہ گھر ہی اس معاشرے کا سب سے اہم انسان ساز ادارہ ہے، اس لحاظ سے عورت معاشرے کا سب سے مفید اور نہایت اہم رکن ہے جو اپنی انفرادی حیثیت میں بھی کل معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہے اور ایک بھرپور معاشرتی کردار ادا کر رہی ہے۔ آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ اپنے مخصوص دائرہ کار میں رہتے ہوئے قرآن یا اسلام عورت سے کس قسم کی معاشرتی ذمہ داریوں کا تقاضا کرتا ہے۔

عورت کا معاشرتی کردار بحیثیت بیوی

ارشاد باری تعالی ہے۔

فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَاحَفِظَ اللّٰهُ

(النساء، 4 : 34)

’’پس نیک بیویاں، اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں‘‘

اس آیت کریمہ میں واضح کیا جا رہا ہے کہ بحیثیت بیوی وہ عورتیں نیک سیرت کہلانے کی حقدار ہیں جو وفا شعار، پرہیزگار اور متقی ہوتی ہیں جن کا عمل یہ ہوتا ہے کہ اگر شوہر کچھ دیر کچھ دن یا کچھ عرصے کے لئے کسی بنا پر گھر سے باہر ہوتا ہے تو اس کی عدم موجودگی کے باعث کسی بھی طرح بھٹکتی نہیں بلکہ ایسی صورت میں وہ اور زیادہ تندھی کے ساتھ خود کو اللہ تعالی کی نگرانی میں شوہر کے تمام حقوق مثلاً اولاد کی تربیت، گھر کی دیکھ بھال، شوہر کے اہل خانہ سے نیک سلوک اور سب سے بڑھ کر شوہر کی امانت یعنی اپنی عفت و عصمت کی محافظ ہوتی ہیں۔

خانگی و بیرونی زندگی

انسانی معاشرہ ایک کل ہے اس کے دو جزو ہیں۔

1۔ عائلی اور خانگی زندگی 2۔ بیرونی زندگی یعنی سیاسی سماجی اور معاشرتی زندگی

بیرونی زندگی سائنس دانوں، تاجروں، اساتذہ کرام، علماء دین، سیاستدانوں، حکمرانوں سپہ سالاروں، ججوں، قاضیوں، مفتیوں اور بزنس پیشہ لوگوں وغیرہ سے عبارت ہے جبکہ خانگی زندگی خونی اور نسبی رشتوں سے تشکیل پاتی ہے، معاشرہ کی تشکیل و تکمیل کا اہم کام سر انجام دینے والے تمام اہم عناصر سیاستدان، سائنس دان، علماء کرام، سپہ سالار جج، قاضی، مفتی وغیرہ سب ایک عورت کی گود کے ہی پروردہ ہیں اور تربیت یافتہ ہیں۔ اس صورت میں ماں کے روپ میں ایک عورت بالواسطہ بھی اور بلاواسطہ بھی پورے معاشرے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ ایسے میں ماں کی اہمیت اور حیثیت بلا شک و شبہ اپنی جگہ مسلّم لیکن یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ ماں بچے کو نو ماہ شکم میں رکھتی ہے، اس کی تخلیق کے کرب سے گزرتی ہے۔ دو سال اسے اپنا خون جگر پلاتی ہے۔ اپنی گود کے ابتدائی مکتب میں اس کی تعلیم و تربیت کی بنیاد رکھتی ہے اور جب وہ مرد معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو بے شمار ذمہ داریوں کے ہمراہ ایک دوسری عورت کے سپرد کر دیتی ہے جسے بیوی کا نام دیا جاتا ہے۔ اب ماں کی ذمہ داری کسی حد تک پوری ہو گئی۔ اب مرد کی عملی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ برائی، حلال و حرام کے سب راستوں اور ان پر چلنے کے اچھے یا برے انجام سے باخبر بھی ہے اور انہیں اپنی مرضی سے اختیار کرنے کے معاملے میں خود مختار بھی یعنی مرد کو بحیثیت شوہر عورت کا قوام بنا دیا جاتا ہے، اس مرحلے پر مرد نہ صرف یہ کہ بحیثیت قوام عورت کا ذمہ دار ہے بلکہ معاشرتی انتظامیہ کا ایک نہایت اہم اور ذمہ دار رکن بھی۔ عورت بطور بیوی اس کی تمام اہم معاشرتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ایک نہایت اہم کردار ادا کر سکتی ہے، معاشرے میں پھیلی ہوئی تمام برائیوں کا تعلق زیادہ تر بیرونی زندگی سے ہوتا ہے۔ مثلاً رشوت، غبن، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ، رقص و سرور، دھوکہ فریب وغیرہ اور یہ تمام افعال مرد کے ہی ہاتھوں انجام پاتے ہیں۔ اگر بیوی شوہر کے تمام اندرونی اور بیرونی امور پر بھرپور نظر رکھے اور ایک محبت کرنے والی ہمدرد رفیقہ حیات کے روپ میں بہت ذہانت اور خوبی کے ساتھ کبھی کبھار شوہر سے ان امور پر گفتگو کرلے اورغیرمحسوس طریقے سے اسے اسلامی احکامات کی روشنی میں ان برائیوں سے بچتے رہنے کی تلقین کرے اور ان برائیوں اور گناہوں کے باعث جو بد اثرات اس کی گھریلو زندگی اور خاص طور پر اولاد پر مرتب ہوتے ہیں، سدباب کرے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرد خود اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے مستثنیٰ ہے اور اگر عورت اسے گائڈ نہ کرے تو مرد ہر الزام سے بری ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ مرد اپنے فرائض کو پورا کرنے کا خود ذمہ دارہے اور عورت یعنی بیوی کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں تاکہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی پورا کرتے ہوئے دونوں کا یہ متوازن رویہ ایک بہترین فلاحی مسلم معاشرے کی تشکیل و تکمیل میں ممد و معاون ثابت ہو۔

محبت و دانشمندی

عورت کی بحیثیت بیوی دوسری اہم معاشرتی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ گھر کے ماحول کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے۔ اگرچہ ترقی کرنا اور معاشرے میں اپنے لئے قابل احترام مقام پیدا کرنا غلط بات نہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر جو کچھ کما کر لائے بیوی اسے سلیقے اور سگھڑ پن سے خرچ کرے۔ تعیشات سے بھرپور زندگی گزارنے کی خواہش میں بے جا فرمائشیں اور ہرجائز و ناجائز طریقے سے کھانے کی ترغیب سے بے شمار معاشرتی برائیوں کا آغاز ہوتا ہے بیوی شوہر سے زیادہ سے زیادہ آمدنی کا مطالبہ کرتی ہے اور وہ مطالبے کی تکمیل کے لئے اپنی عقل استعمال کئے بغیر جائز و ناجائز حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر ہی مزید ذرائع آمدن کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ اس میں اس کی اپنی سوچ کا بھی دخل ہوتا ہے، اس غیر مناسب اور غیر ذمہ دار رویے کا اختتام آخر کار گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر ہوتا ہے۔ (جاری ہے)