حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر 24 آیت نمبر 47 تا 49 (سورۃ البقرہ)

تجوید : میم ساکن (مْ) کے قواعد کا بیان

سوال : میم ساکن (مْ) کے کتنے قاعدے ہیں؟

جواب : میم ساکن (مْ) کے تین قاعدے ہیں۔

1۔ اِدغامِ شفویْ 2۔ اِخفاءِ شفوی 3۔ اِظہارِ شفوی

سوال : اِدغامِ شفوی کسے کہتے ہیں؟

جواب : اگر میم ساکن کے بعد میم متحرک آجائے تو میم ساکن کو میمِ متحرک میں مدغم کر دیں گے۔ اسے ’’ادغامِ شفوی‘‘ کہتے ہیں جیسے وَ کَمْ مِّنْ

سوال : اِخفاءِ شفوی کیا ہے؟

جواب : میم ساکن (مْ) کے بعد اگر حرفِ ’’ب‘‘ آ جائے تو اس وقت اِخفاء مع الغُنّہ کریں گے یعنی دونوں ہونٹوں کو ملا کر آواز ناک میں لے جائیں گے۔ اسے ’’اِخفاءِ شفوی‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً : أَمْ بِه.

سوال : اظہار شفوی کسے کہتے ہیں؟

جواب : (مْ) کے بعد ’’ب اور میم‘‘ کے علاوہ کوئی اور حروفِ تہجی ہو تو اس وقت ’’اظہارِ شفوی‘‘ ہوتا ہے۔ مثلاً

 أَلَمْ تَرَ، لَمْ يَلِدْ

ترجمہ

يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ

متن يَا بَنِي إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْ كُمْ
فظی ترجمہ اے اولاد اسرائیل تم یاد کرو میری نعمت وہ جو میں نے عطا کی پر تم
عرفان القرآن اے اولاد یعقوب! میرے وہ انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے

وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَO وَاتَّقُواْ يَوْماً

متن وَ أَنِّي فَضَّلْتُ كُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ وَ اتَّقُواْ يَوْماً
فظی ترجمہ اور بیشک میں نے فضیلت دی تم کو پر تمام عالم اور ڈرو اس دن سے
عرفان القرآن میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی۔ اور اس دن سے ڈرو

لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئاً وَّلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ

متن لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئاً وَّلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ
فظی ترجمہ نہ کام آئے کوئی بارے میں کسی کے کچھ اور نہ قبول کی جائے اس سے کوئی سفارش
عرفان القرآن جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی اور نہ اس کی طرف سے (کسی شخص کی) کوئی سفارش قبول کی جائیگی

وَّلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلاَ هُمْ يُنصَرُونَO

متن وَّ لاَ يُؤْخَذُ مِنْ هَا عَدْلٌ وَّ لاَ هُمْ يُنصَرُونَ
فظی ترجمہ اور نہ لیا جائے سے اس بدلہ اور نہ ان کو مدد پہنچے گی
عرفان القرآن (جسے اذنِ الہٰی حاصل نہ ہوگا) اور نہ اس کی طرف سے (جان چھڑانے کے لئے) کوئی معاوضہ قبول کیاجائے گا اور نہ (امرالٰہی کے خلاف) ان کی مدد کی جا سکے گی

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ

متن وَإِذْ نَجَّيْنَا كُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَ كُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ
فظی ترجمہ اور جب ہم نے نجات دی تم کو سے قوم فرعون مبتلا رکھتے تم کو بُرا عذاب
عرفان القرآن اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قوم فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔

يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُم

متن يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَ كُمْ وَ يَسْتَحْيُونَ نِسَاءَ كُمْ وَ فِي ذَلِكُم
فظی ترجمہ ذبح کرتے ہیں بیٹوں کو تمہارے اور زندہ رکھتے ہیں بیٹیوں کو تمہاری اور میں اس
عرفان القرآن تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں

بَلاَءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌO

متن بَلاَءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
فظی ترجمہ اور نہ لیا جائے سے
عرفان القرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (کڑی) آزمائش تھی

تفسیر

مضامین

(1) بنی اسرائیل کو انعامات خداوندی کی مکرر یادہانی

(2) قیامت کی ہولناکی اور اس دن کسی کا بغیر اذن الٰہی کام نہ آنے کا بیان۔

(3) مظالم فرعون سے بنی اسرائیل کی نجات دہی۔

(4) بنی اسرائیل کا سخت آزمائش سے گزرنا (تفسیر منہاج القرآن)

يٰبَنِی إِسْرَآئِيْلَ. . . . . . الخ

ہدایت، علم و حکمت اور حکومت یہ تینوں چیزیں اس وقت بنی اسرائیل میں پائی جاتی تھیں۔ جو عمومی طور پر اس وقت بنی اسرائیل کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں تھیں۔ اس لئے ان کی بزرگی اور فضیلت مسلم تھی لیکن تعصب کی وجہ سے انہوں نے پیغام ہدایت کو ٹھکرا دیا اوراپنی خواہشات کی تسکین کے لئے علم و حکمت کے آسمانی صحیفوں میں تحریف اور بگاڑ شروع کر دیا اور انبیاء کرام کی توہین اور بے ادبی کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ اور بعض کو قتل بھی کر دیا تو ان کرتوتوں کے باعث ان پر ذلت و مسکنت کی لعنت مسلط کر دی گئی۔ گویا انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی فضیلت کا گلا گھونٹ دیا اور اپنی بزرگی کا جنازہ نکال دیا اب چونکہ ان فضائل و اوصاف کی حامل امت مسلمہ تھی اس لئے فضیلت و کرامت کا تاج اس کے سر پر رکھ دیا گیا اور اسے کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ کا مثردہ سنا دیا گیا۔ اس لئے امت مسلمہ پر بنی اسرائیل کی فضیلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

وَاتَّقُوْا يَوْماً لَاتَجْزِی. . . . . . الخ

دنیا میں مجرم کی رہائی کے جتنے طریقے ہیں ان سب کی نفی کر دی کہ قیامت کے دن ان طریقوں میں سے کوئی طریقہ کام نہیں آئے گا۔

وَاِذْ نَجَّيْنٰٰکُمْ مِّنْ آلِ. . . الخ

بچوں کے قتل کی وجہ کیا تھی قرآن نے اس کا ذکر نہیں فرمایا البتہ عام مفسرین کا خیال ہے کہ نجومیوں نے فرعون کو بتا دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والاہے جو تیری حکومت کا تختہ الٹ دے گا احتیاطی تدبیر کے طور پر اس نے حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل میں جو بچہ پیدا ہو اسے ذبح کر دیا جائے اور لڑکیاں زندہ رہنے دی جائیں تاکہ بڑی ہو کر لونڈیاں بنیں لیکن شیخ محمد ابن عبدہ نے ایک اور وجہ اسکی بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی نسل اس تیزی سے بڑہنے لگی کہ فرعون کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اگر ان کی اکثریت کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ان کی اقلیت اکثریت میں بدل جائے گی اور اپنی غالب اکثریت کی بنا پر یہ کوئی انقلاب بپا کر دیں گے اس خدشہ کے پیش نظر اس نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کا حکم دیا۔ (تفسیر ضیاء القرآن)

قواعد

فعل مضارع

فعل مضارع کو مستقبل سے خاص کرنے والے حروف

قرآن مجید میں آنے والے افعال مضارع کا ترجمہ کبھی زمانہ حال میں کبھی زمانہ مستقبل میں کیا جاتا ہے۔ عام طور پر اس کا اندازہ تو سیاق و سباق سے ہوتا ہے۔ البتہ بعض حروف کی موجودگی میں ترجمہ صرف مستقبل میں کیا جاتا ہے۔ وہ حروف درج ذیل ہیں۔

(1) س/ سوف (عنقریب)

اگر فعل مضارع کے شروع میں’’س‘‘یا’’سوف‘‘ آ جائے تو وہ زمانہ مستقبل کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے۔ ’’س‘‘ کا استعمال عموماً مستقبل قریب کے لئے اور’’سوف‘‘ کا مستقبل بعید کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً سَيَعْلَمُوْنَ (وہ عنقریب جان جائیں گے)۔ سَوفَ تَعْلَمُوْنَ (وہ جان جائیں گے)

(2) ل (لام مفتوح) اور ن (نون مشدد)

یہ دونوں حروف فعل مضارع کو مستقبل کے ساتھ خاص کرنے کے علاوہ اس میں تاکید در تا کید کا مفہوم بھی پیدا کرتے ہیں۔

دعا

روزہ افطار کرنے کی دعا

اَللّٰهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ

’’اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھی پر بھروسہ کیا اور تیرے عطا کئے ہوئے رزق سے افطار کیا۔‘‘