اداریہ : قیام پاکستان کے مقاصد اور آج کا پاکستان

قیام پاکستان کے مقاصد سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ سے بڑھ کر کون آگاہ ہو سکتا ہے؟ آیئے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے اور کن مقاصد کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کر رہے تھے؟ قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے اکتوبر 1947ء میں حلف اٹھایا۔ اس موقع پر انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’پاکستان کا قیام جس کے لئے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشو و نما پا سکیں اور اسلام کے عدل عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں‘‘۔

(اکتوبر 1947ء، پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں خطاب)

قائداعظم کے مذکورہ فرمان کی روشنی میں قیام پاکستان کے مقاصد روز روشن کی طرح عیاں ہیں جس کے مطابق وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جو آزاد انسانوں کا ملک ہو، جہاں اسلامی اقدار حیات کا تحفظ ہو، وہ اسلامی ثقافت کا علمبردار ہو، وہ معاشرتی عدل و انصاف کی فطری بنیادوں پر قائم ہو۔ جس میں لوگوں کی جان و مال محفوظ ہو، اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، رشوت ستانی، بدعنوانی، اقرباء پروری اور نسلی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصب کا وجود نہ ہو لیکن شومئی قسمت کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ان مقاصد سے کوسوں دور کھڑے ہیں جو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر تھے۔

آج کے پاکستان کا جو نقشہ اور حلیہ ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے بنا دیا ہے۔ قیام پاکستان کے مقاصد سے اس کا دور کا بھی واسطہ اور تعلق نہیں ہے جس مقام پر آج ہم کھڑے ہیں وہ ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی کا مقام ہے۔ آج روشن خیالی اور لبرل ازم کے دلفریب اور خوش کن نعروں سے پوری ملت اسلامیہ کو جہاں اندھیر نگری میں دھکیل دیا گیا ہے وہاں خود کش حملوں اور بم بلاسٹ کے ذریعے عوام الناس اور علماء دین بھی محفوظ نہیں رہے۔ ملک عزیز کو بدامنی، دہشت گردی، فتنہ پروری، قتل و غارتگری، اخلاق باختگی، بے حیائی و بے شرمی، اقرباء پروری، رشوت ستانی اور عریانی و فحاشی کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے جس کی بناء پر مملکت اسلامیہ میں اخلاق و کردار، عدل و انصاف، امانت و دیانت، نیکی و شرافت اور آئین و قانون نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ اس قسم کا خواب نہ تو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا اور نہ ہی قائد اعظم تصور کر سکتے تھے۔ موجودہ دگر گوں حالات کے باوجود ناامید ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ دین اسلام میں ناامیدی کفر کے مترادف ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی ناامید نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں۔

نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

مفکر پاکستان کی طرح بانی پاکستان نے بھی جرات کا پیکر بن کر ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کیا اور حوصلہ و ہمت نہیں ہارے۔ آپ کے بارے میں روزنامہ ’’ملاپ‘‘ نے لکھا تھا کہ ’’متحدہ ہندوستان نے مسٹر جناح سے زیادہ مضبوط، زیادہ باہمت اور زیادہ سخت آدمی آج تک پیدا نہیں کیا۔ متحدہ ہندوستان کی تمام سیاسی طاقتیں اس ایک شخص سے شکست کھاگئیں‘‘۔

14 اگست کا دن ہمیں پیغام دیتا ہے کہ آج پاکستانی قوم اپنے قائد کے نقش قدم اور تعلیمات پر عمل کر کے اپنی قوت ایمانی کو زندہ کرے اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کی اب اس کی تکمیل کے لئے عالم اسلام کی عظیم علمی، فکری، دینی، سیاسی اور انقلابی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے ان کی قیادت کے سائبان کے نیچے جمع ہو جائے تاکہ تکمیل پاکستان کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے علاوہ موجودہ حالات میں تحفظ پاکستان کو یقینی بنایا جا سکے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر آپ کی شخصیت پر پوری طرح منطبق دکھائی دیتا ہے۔

نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

مینجنگ ایڈیٹر