انسانی شخصیت میں صفتِ عدل کی اہمیت (آخری قسط)

ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد، ناقلہ : نازیہ عبدالستار

اس بات کو ایک اور مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں۔ جب ہم ٹرین میں سفر کرتے ہیں تو اس میں فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کلاس ہوتی ہے جب کوئی تھرڈ کلاس میں سفر کرے تو اس میں کھڑکیوں کا اتنا شور ہوتا ہے اور گردو غبار اڑتا ہے کہ سفر کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ سیکنڈ کلاس میں قدرے سکون ہوتا ہے جبکہ فرسٹ کلاس ایئر کنڈیشن کلاس ہوتی ہے۔ اس میں نہ کوئی شور آتا ہے اور نہ گرد آتی ہے۔ اب آپ مختلف قسمیں دیکھ لیں ایک ہی گاڑی سفر کر رہی ہے۔ وہ بھی لوگ ہیں جو کھڑ کھڑ کرنے والے خانے میں لکڑی کی سیٹوں پر بیٹھے ہیں اس میں اندر والے بھی کھڑک رہے ہیں اور کھڑکیاں بھی کھڑک رہی ہیں۔

اس کھڑک کے ساتھ گردو غبار بھی ہے جو باہر سے اڑ کر تھرڈ کلاس کے اندر آرہی ہے۔ اگر فرسٹ کلاس ہوگی تو اس میں ڈبل شیشے اور پردے لگ جاتے ہیں پھر باہر کا شور، ہنگامہ، گردو غبار بھی نہیں آتا۔ دل مست الست رہتا ہے پھر اس میں آپ کیبن میں ہوں تو آپ بالکل محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اولیاء اللہ کے لئے یہ بند کمرہ دل کی طرح ہے کہ اس کمرے میں گھر کے بیڈ روم کی طرح سوتے بھی رہیں پھر بھی گاڑی کے ہلنے کا بھی اندازہ نہیں ہوتا اور آرام و سکون سے سفر کرتے ہیں۔ اسلام نے انسانوں کو رہبانیت کا درس نہیں دیا کہ دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں اور غاروں میں چلے جائیں نہیں بلکہ اللہ نے دنیا میں رہ کر رزق حلال کمانے کا حکم دیا ہے۔ یہ رزق حلال کما کر آپ اچھے گھر میں رہنے کے علاوہ اچھی گاڑی میں سفر کریں۔ کھائیں، پئیں، دنیاوی کاروبار کریں، شرط حلال کمائی کی ہے۔ جبکہ دنیا میں رہتے ہوئے زیر و بم، Ups and Downs بھی آتے ہیں مگر اہل اللہ وہ ہوتے ہیں جو ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول اور مصروف رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

اَلَا بِذِکْرِاللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب.

(الرعد، 13 : 28)

’’جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

جن دلوں کے اندر، اللہ کی یاد رچ بس جاتی ہے وہ دل اطمینان پاتے ہیں اور ہر قسم کے غم و حزن سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا :

اَلَا اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ.

(يونس، 10 : 62)

’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہونگے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

یہ سب چیزیں قرآن کی روشنی میں اسی امر کو واضح کر رہی ہیں کہ بندے پر اللہ کے فضل کی شکل یہ ہوتی ہے کہ دل اغیار کے خیال اور غبار سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اب اللہ کے فضل کی ایک دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ جب اہل اللہ کے دل پر کوئی کدورت غالب ہو جاتی ہے اور وہ دل کو متفکر اور پریشان کر دیتی ہے یہ کدورت کے اثرات ہوتے ہیں کہ دل پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ باہر کا غم ان کے دل کو پریشان نہیں کرتا، یہ غم دنیا نہیں ہوتا بلکہ غم محبوب ہوتا ہے۔ پریشانی دنیا کی نہیں بلکہ یہ ہوتی ہے کہ ہائے دنیا کی پریشانی میرے اندر کیوں داخل ہوگئی؟ میری اللہ کی طرف توجہ، ذوق، کیف، یکسوئی، انہماک استقلال اور استغراق تھا۔ پھر مجھے دنیا کی پریشانی کیوں تنگ کر رہی ہے؟ یہ حالت قبض کہلاتی ہے اور اللہ کے فضل کی دوسری علامت ہے۔ دل کو اگر فرحت رہے اور وہ مسرور رہے تو اس حالت کو حالت بسط کہتے ہیں اور اگر پریشانی اور گھٹن آ جائے تو یہ حالت قبض ہے۔

یہ دونوں روحانی حالتیں ہیں اور اللہ کے فضل میں شامل ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث مبارکہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی اس روحانی حالت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی۔ ایک مرتبہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ راستے میں ملے اور ان سے کہا کہ حنظلہ منافق ہوگیا ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وجہ دریافت فرمائی تو کہا کہ جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں بیٹھتا ہوں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور سامنے ہوتا ہے اور آپ کی باتیں سنتا ہوں آپ کی آواز کان میں پڑتی ہے تو یہ کیفیت ہوتی ہے جیسے جنت اور دوزخ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب گھر چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور دنیا کے کام کاج میں مصروف ہو جاتے ہیں تو یہ حالت زائل اور غائب ہو جاتی ہے۔ وہ حالت اور کیفیت برقرار نہیں رہتی لہذا یہ نفاق کی علامت ہے۔

اللہ تعالیٰ کو کسی نیکو کار کی نیکی پر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی کسی بندے کے ندامت اور توبہ کرنے پر خوشی ہوتی ہے۔ یہ کیفیت قبض ہے یہ اللہ کے فضل کی علامتوں میں ہے۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے یہاں اس کیفیت کو سمجھا کہ منافقت ہے جبکہ یہی علامت فضل الہٰی ہے۔ یہ اہل فضل لوگ ہیں جو کدوت کے دل میں داخل ہونے پر پریشان اور مضطرب ہوتے ہیں، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے حنظلہ! یہ کیفیت تو میری بھی ہے۔ آؤ پھر مل کر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں چلتے ہیں۔ جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں اپنا مدعا پیش کیا تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام مسکرا دیئے۔ فرمایا نہیں یہ منافقت کی کیفیت نہیں بلکہ یہ ایمان کی علامت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک اوپر نیچے کر کے فرمایا کبھی یہ ایسے ہوتا ہے کبھی ایسے ہوتا ہے۔ فرمایا یہ حالت ایمان ہے تبھی تو حالت ایمان کے تغیر پر پریشانی ہوگئی۔

اس حدیث کی روشنی میں آپ بھی یہ عادت پیدا کریں کہ جہاں کوتاہی دیکھیں، شرمندگی محسوس کریں، پریشان ہو جائیں اور توبہ کر لیں پھر علاج کے لئے اس روحانی ہسپتال کی طرف آئیں۔ یہ ماہانہ محفل آپ کا کلینک اور Hospital ہے۔ یہاں سے اپنی بیماری کا علاج اور دوائیاں لے کر جائیں اور انہیں مہینہ بھر استعمال کریں، ایسا نہ ہو کہ نسخہ لے لیں اور جا کر رکھ دیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے خطاب کی واہ واہ تو کر دی مگر اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فائدہ تب ہے جب مریض اس نسخہ کو استعمال کرے۔ اگر استعمال نہ کرے گا تو شفایابی کیسے ہوگی؟

آپ سب کا یہاں پر آنا علامت ایمان ہے اس لئے آئے کہ طلب ہے جو تڑپ پیدا کرتی ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : یہ ایمان کی علامت ہے اگر تمہارا حال، حالت مشاہدہ والا جو میری بارگاہ میں ہوتا ہے گھر میں جاکر بھی برقرار رہے تو پھر تمہارا درجہ اتنا بلند ہو کہ تم گلیوں میں چلو تو ملائکہ دائیں بائیں قطار اندر قطار تمہارا استقبال کریں، تمہارے ساتھ مصافحہ کریں اور تمہاری زیارت کے لئے آئیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات فرما کر وضاحت کر دی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ حالت نہ بدلے اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کی حالت نہیں بدلتی پھر وہ جہاں سے گزرتے ہیں ملائکہ ان کے دیدار اور مصافحہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

یہ صاحبان استقامت ہوتے ہیں یہ دونوں حالتیں اللہ کے فضل کی ہیں۔ دوسری صورت میں جب کدوت دل پر غالب ہوجائے تو بندہ گھبراتا ہے اور الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کدورت اور تشویش سے باہر نکلے، وہ اس سے نجات پانا چاہتا ہے۔ اس پر شیخ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ تو اس پریشانی اور الجھن کو ختم کرنے کے لئے تگ و دو ضرور کر لیکن یہ انتظاراور غلطی نہ کر کہ تو اس دھیان کی طرف لگ جائے کہ پہلے میں فلاں کام کرلوں یا فلاں کام سے فراغت پالوں یا فلاں چیزوں سے نجات حاصل کرلوں۔ پھر یکسوئی سے اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جاؤں گا پھر مجھے اس عبادت کے دھیان سے ہٹانے والا دنیا کا کام کاج کوئی نہیں ہوگا اور اللہ کی طرف رغبت اور استغراق بلا شرکت غیر ہو جائے گی۔ فرمایا یہ غلطی نہ کر کیونکہ اس وقت جو تمہیں نعمت میسر ہے وہ تمہیں اس سے بھی محروم کردے گی اس لئے یہ اغیار ہیں اور خالی وقت کبھی نہیں آئے گا۔