صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

درس نمبر 21

سلوک و تصوف کی راہ کے سالک، صوفی، درویش، فقیر اور مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ عقیدہ توحید کی حقیقی اور اصل روح سے پوری طرح واقف ہو، وہ اس عقیدہ پر جو شریعت، طریقت اور حقیقت کا محور و مرکز ہے، دل و جان سے اس طرح عمل کرے جو اسوہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اسوہ اہل بیت اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نمونہ اعمال کے عین مطابق ہو، سالک کو یہ امر ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ سلوک، تصوف، احسان اور طریقت حتیٰ کہ ایمان بھی اللہ سبحانہ و تعالی کی بارگاہ میں اس وقت قابل قبول ہوتا ہے کہ جب اس کی اساس اتباع نبوی ہو، وہ نام نہاد تصوف، درویشی اور فقیری جو شریعت اور اتباع اسوہ رسالت سے ہٹ کر کسی خود ساختہ طریق پر یا کسی غیر متشرع پیر، فقیر کی پیروی اور اتباع میں ہو، وہ اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں مردود و مبغوض ہوتی ہے، متروک ادیان باطلہ کے فقیروں اور جوگیوں کے خود ساختہ عقائد، عبادات، پوجا پاٹ، جادو، ٹونے اورچمتکار تمام علامات استدراج ہیں جو نہ عند اللہ ماجور ہیں اور نہ مقبول، اس زمرہ میں وہ غیرمتشرع ڈبہ پیر، خوساختہ سجادہ نشین، صاحبزادے، پیرزادے، ٹونے، ٹوٹکے اور تعویذ گنڈہ کا سہارا لینے والے بہروپیئے بھی شامل ہیں کہ جو ان پڑھ، جاہل، سادہ لوح مسلمانوں اور خاص کر ضعیف الاعتقاد خواتین کے ایمان کو داؤ پر لگا کر ان سے مشرکانہ رسوم و رواج اور غیر شرعی افعال و اشغال کا ارتکاب کراتے ہیں، بدقسمتی سے برصغیر پاک و ہند کے کچھ مشہور و معروف مبلغین اسلام اولیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ جن کی ساری زندگی اشاعت اسلام، فروغ دین مبین اور عقیدہ توحید و السنہ کے ابلاغ میں گزری، ان کے مزارات، خانقاہوں اور درگاہوں پر قابض سجادہ نشینوں اور خود ساختہ پیران و مشائخ کا غیر شرعی مشرکانہ اور مبتدعانہ رسومات کاچلن بھی دین اسلام کی جڑوں کو بری طرح کھوکھلا کر رہا ہے، اعراس کے موقع پر میلے ٹھیلوں، مرد و زن کے مخلوط دھمالوں، قوالیوں، ناچ گانے، ہیجڑوں کے بھنگڑوں اور تھیٹر، ڈراموں کے ذریعے ان پڑھ جاہل مسلمان مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کو اس راہ پر ڈال دیا جاتا ہے، جو دین اسلام کی تعلیمات اور بنیادی ارکان سے کوسوں دور ہے، اس قسم کے مزارات پر منشیات کا کاروبار عام ہوتا ہے، غیر شرعی اشغال، میلے ٹھیلوں میں ہونے والی خرافات اور نشہ بازوں کی وجہ سے وہ دیندار مسلمان بھی جو حقیقی معنوں میں بزرگان دین اور اولیاء کرام کے مزارات کو مرجع ہدایت و عرفان سمجھتے ہیں، حاضری سے محروم ہو جاتے ہیں، دروس سلوک و تصوف کے قارئین کیلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی معرکۃ الاراء کتاب ’’طاغوتی یلغار کے چار محاذ‘‘ میں سے ایک بہت اہم حصہ بعنوان ’’اشراقیت‘‘ بطور اقتباس پیش کروں، جو وقت کی اہم ضرورت ہے اور سالک کیلئے جس سے باخبر اور واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔

’’جہاں مادیت کے حملے سے ملت بیضا کو اسلام کے روحانی پہلو سے محروم کیا جا رہا ہے، وہاں اشراقی فتنے کے ذریعے نقلی و مصنوعی روحانیت کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو منہاج شریعت سے دور رکھنے کے جتن کئے جا رہے ہیں، شریعت اور طریقت میں دوئی اور بعد پیدا کر کے ظاہری احکام شریعت سے یہ کہہ کر پہلو تہی کی جا رہی ہے کہ دین کی اصل تو باطن ہے جسے ظاہری شریعت سے کوئی علاقہ نہیں۔ اشتراقیت کے حملے کے ذریعے اطاعت و اتباع احکام الہی اور شریعت مطہرہ کی پیروی کے تصور کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے اور آزاد خیالی وآزاد روی کے نام پر ایک مصنوعی اور کھوکھلی روحانیت کو رواج دیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے اس تصور کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ اصل راہ تو طریقت و باطنیت کی راہ ہے اور منزل تک رسائی حاصل کرنے کے لئے شرعی احکام کی کوئی ضرورت و حاجت نہیں‘‘۔

اتباع نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ’’عملی توحید‘‘ کو اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میں ایک خود کار نظام (Automatic System) کے تحت ایسا راسخ کرنا سالک کے لئے ناگزیر اور لابدی ہے کہ وہ چاہے یا نہ چاہے، وہ اس کی فطرت ثانیہ اور فطرۃ بالفعل (Actual Nature) بن جائے۔

حضور سرور ثقلین نور مجسم آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملی توحید کو اپنی حیات طیبہ میں کس طرح راسخ فرمایا؟ سالک کو یہ جاننے اور اس عظیم الشان سرمدی توحید پر عمل کرنے کے لئے اس دور کے مذہبی حالات و واقعات رسومات و عقائد، سیاست مدن، تاریخ اور جغرافیہ سے واقفیت ضروری ہے۔

بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے بھی دنیا میں انسان کے اصلاح احوال کے لئے بہت ساری تحریکیں اٹھیں، ان ادوار میں بھی گمراہی، بے دینی، فحاشی، عریانی، ظلم و استبداد، فرعونیت، نمرودیت اور حکمرانوں کی سفاکیت شدید تھی، لیکن گمراہی اور بے راہ روی کی یہ شدت، ظلم و استبداد کا یہ عذاب، وحشت و جہالت کا یہ دور دورہ، بہیمانہ طاقتوں کی یہ علمداری، غلامی کی یہ زنجیریں، بے رحم بادشاہت، ظالم امارت، بے ضمیر حاکمیت، نفس پرستی اور ابو الہوسی کی یہ حالت اس حد تک شدید پہلے کبھی نہیں تھی۔ ان حالات میں نبی امّی نورمجسم سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی وحدانیت، حاکمیت، ربوبیت، رحمانیت اور رحیمیت کا پرچم بلند فرمایا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بتایا، کہ اللہ سبحانہ و تعالی ایک ہے، وہی مالک کل ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں، اسی سے مانگنا ہے اور اسی نے دینا ہے، وہی رکھوالا اور پالن ہار ہے، اس کی کوئی شبیہ نہیں اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ وہی ہمارا خدا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق متولیانِ خانہ کعبہ کے خاندان سے تھا، کعبہ میں رکھے گئے تین سو ساٹھ بت آپ کے خاندان کی تولیت میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بزرگ دادا جان رضی اللہ عنہ اور والدگرامی رضی اللہ عنہ قریش کے جلیل القدر سردار تھے، بچپن ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہا، والدگرامی رضی اللہ عنہ اور جلیل القدرجدّ امجد رضی اللہ عنہ کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے تھے۔ بعثت نبوی کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے سامنے اللہ سبحانہ و تعالی کی توحید پر ایمان لانے کی دعوت پیش فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عقیدہ توحید کے اعلاء کلمۃ الحق سے باز رکھنے کے لئے بے رحم اور جابر سرداران قریش اور مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں پر شدائد و مصائب اور ایسے مظالم ڈھائے کہ انسانیت تھراّ اٹھی، اس وقت صرف بلاد عرب ہی میں عقیدہ توحید کی مخالفت نہیں ہو رہی تھی اور ظلم و ستم کا بازار گرم تھا بلکہ پوری دنیا عقیدہ توحید سے بے بہرہ تھی، رحمت خداوندی بھی روٹھ گئی تھی۔ انسانیت پوری دنیا میں ظلم و استبداد کے عذاب میں مبتلا تھی، چہار سو وحشت و بربریت کا دور دورہ تھا، سرزمین عرب اور مکہ میں بہیمانہ طاقتوں کی حکمرانی تھی، عدل وانصاف کا نام و نشان نہ تھا، انسانیت زخموں سے چور، غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی، ظالم سرداروں کے خونین ہاتھوں نے عوام کی گردنیں دبوچی ہوئی تھیں، انسان کے جسم کی طرح اس کی عقل بھی گرفتار بلا تھی انسان کے اندر عقیدہ توحید دم توڑ چکا تھا اور عقیدت غلامانہ ہو چکی تھی، سرزمین عرب کے چاروں اطراف قدیم تہذیبوں والی بے رحم اور سفاک سلطنتیں تھیں۔ روم کی قیصریت، اور ایران کی کسرائیت کو فوق البشر حکمرانی کا درجہ حاصل تھا، فراعنہ مصر کو دیوتا اور ہندوستان کے برہمنوں کو انسانوں سے بالاتر خدائی مخلوق سمجھا جاتا تھا، دنیا کی اجتماعی معاشرتی، اخلاقی، روحانی، معاشی اور سیاسی حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ عام لوگوں کی زندگی موت سے بدتر ہو گئی تھی، ان سارے حالات کا لازمی نتیجہ انحطاط فکر تھا۔ اونچے طبقات میں عیش و عشرت کو فن لطیف کا درجہ حاصل تھا، غریب اور مفلوک الحال طبقات ہر طرح کے مصائب، شدائد اور ابتلاء کا شکار تھے، روحانیت، امن، سلامتی اور سکون کا ہر صحت مند تصور زنگ آلود ہو گیا تھا، لوگ زندگی کی کشمکش سے فرار حاصل کرنے کے لئے ترک دنیا اور غاروں کے اندر پناہ حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے، الوہی ہدایت اور پیغمبرانہ پند و نصائح کی بجائے لوگ مصری، مانی، سقراطی، افلاطونی، ارسطوی، رواقی اور کلبی فلسفہ حیات، ہندومت کے نظریات اور بدھ مت کی غیرالوہی تصوراتی تعلیمات کو شعار حیات سمجھنے پر مجبور تھے۔

تیسری صدی عیسوی (300- AD) میں نوافلاطونی فلسفیانہ مذہبی نظام (Neo-platonism)، یونان، مصر اورمشرق وسطی میں رائج ہو چکا تھا، یہ افلاطونی، مزدکی اور بدھ فلسفہ اخلاق کا ملغوبہ تھا، یہ نظام فکران تمام محرکات کا ماحصل تھا جو انسانی ذہن پر بری طرح حاوی ہو گیا تھا، عیسائیت کے قالب پر بھی اس کا رنگ پوری طرح چڑھ گیا تھا اور بڑے بڑے مفکر اور دانشور بطور فیشن اس کے پیروکار ہونے کا چرچا کرتے تھے، قدیم اور جدید تمام فلسفہ ہائے اخلاق کی طرح اس فلسفہ حیات میں بھی اللہ جل مجدہ کی وحدت مطلقہ (Absolute Oneness) کا تصور معدوم تھا، یہ دنیا اور انسان کی نفی کرتا تھا، مراقبہ (Meditation) کو ادراک حقیقت کا واحد ذریعہ سمجھتا تھا، اس کے نزدیک حق (Truth) اور حق پرستی؛ توحید، واسطہ رسالت، غور و فکر، تعقل اور عمل نافع کی بجائے صرف کشف (revelation,manifestation,devination) سے حاصل ہو سکتا تھا، جو ہر انسان کے لئے ممکن تھا، اس فلسفہ کے مطابق حسن اعمال، نیکی، عدل اور دوسرے اخلاقی تصورات کا زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، عیش پرستی اور بوالہوسی تمام اخلاقی اقدار پر غالب تھی، دولت، عورت، شراب اور شباب تمام معاشرے کے لئے مشترک حیثیت رکھتی تھی، لہذا جس شخص کو جب، جہاں اور جیسے یہ سب میسر آتا، وہ اس کو حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتا تھا، نوافلاطونی فلسفہ نے اشتراکیت کا یہ اصول مزوکی فلسفہ زندگی سے مستعار لیا تھا، پورا انسانی معاشرہ اس کی لپیٹ میں آ کر عیاشی، بے حیائی اور عریانی کی موجوں میں بالکل اسی طرح غرق ہوگیا تھا، جیساکہ آج امریکہ، یورپ اور ہندوستان میں نظر آتا ہے، پاکستان میں اس کلچر کو ریاستی طاقت اور اغیار کے میڈیا کے ذریعے عام کیا جا رہا ہے اور عوام الناس کو ذہنی طور پر اس کو قبول کرنے پر مائل کیا جا رہا ہے، جو لوگ عریانی، فحاشی اور برہنگی کے کلچرکے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، ان کو ہر طریقے سے کچلاجاتا ہے، امریکہ، یورپ اسرائیل اور بھارت، فحاشی اور عریانی کی اس تحریک کو ہر سطح پر فروغ دے رہے ہیں۔ جس طرح ایران میں زرتشتیوں اور مزوکیوں کی خانہ جنگی، قیصر اور کسریٰ، رومن، یہودیوں اور نصرانیوں کے درمیان ہونے والی ہولناک جنگوں نے عالم انسانیت کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ پاکستان، افغانستان، عراق اور فلسطین میں اسی طرح کی آویزش جاری اور ساری ہے۔

سام کی اولاد میں سب سے پہلے بنی اسرائیل کلام الہی کے امانتدار بنے، لیکن انہوں نے امانت میں شدید خیانت کی، شروع سے ہی یہودی، بہت ظالم، کینہ پرور اور سنگدل قوم واقع ہوئے ہیں، یہ یہودی ہی تھے کہ جنہوں نے اللہ سبحانہ و تعالی کے پیغمبروں، رسولوں اور نبیوں کو جھٹلایا، اذیتیں دیں، انہیں ناحق قتل کیا، بفحوائے قرآنی ان کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت تھے، قتل و خونریزی ان کی عادت ثانیہ اور کمزوروں کا استحصال ان کا معمول بن گیا تھا، وہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے معزز اور قابل احترام قوم سمجھتے تھے، وہ خود کو اللہ تعالی کے چہیتے، اہل خاندان اور نبوت و رسالت کو فقط اپنا حق سمجھتے تھے، اللہ تعالی کے احکامات اور توریت کی آیات کو اپنے مطلب کے مطابق گھڑنا ان کا شیوہ بن چکا تھا، اللہ کی کتاب اور صحائف انبیاء کی بجائے وہ قصے کہانیوں اور افسانوں پر زیادہ یقین رکھتے تھے، یہود، ہنود اور نصاریٰ اوہام، جادو، ٹونے ٹوٹکے اور تعویذ گنڈوں کے کاروبار میں بری طرح ملوث تھے، مال و دولت ان کا ایمان اور سودی لین دین ان کا کاروبا ربن چکا تھا، سودنہ ملنے پروہ لوگوں کو غلام بنا لیتے تھے، سرزمین عرب میں یہودیوں کی کافی تعداد آباد تھی۔ بعثت نبوی کے وقت عرب باشندوں کی حالت بھی باقی دنیا کی طرح دگرگوں تھی عرب شدید جہالت کاشکار تھے اور اپنی جاہلیت، قتل وغارت اور خونریزی پر فخر کرتے تھے، شراب نوشی، قمار بازی، سودی کاروبار، رہزنی، دختر کشی، بدکاری ان کا قومی شعار بن چکا تھا۔

سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی پیغمبرانہ تعلیمات و تربیت کی بدولت شروع میں اہل عرب ایک خدائے بزرگ و برتر کو مانتے تھے، لیکن امتداد زمانہ سے رفتہ رفتہ وہ بھی بت پرست بن گئے، عقیدہ توحید کی بجائے شرک نے معاشرہ میں جڑیں پکڑیں، بتوں کے استھانوں پر وہ جانوروں کے ساتھ قیدی اور غلاموں کوبھی بھینٹ چڑھاتے تھے، بتوں کے علاوہ وہ سورج، چاند اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے، عرب میں قبائلی نظام زندگی رائج تھا، ریاست اور بادشاہت نہ تھی، لہذا عرب پر حکمرانی کے لئے طاقت صرف قبیلے کے سردار کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، یہ سردار عموماً بہت ظالم اور سفاک ہوتے تھے، غلامی کا رواج عام تھا اور اسے نفع بخش تجارت سمجھاجاتا تھا۔

ظہور اسلام سے پہلے دنیا اور سر زمین عرب میں بحیثیت مجموعی ہر طرف کفر اور شرک کی حکمرانی تھی، عقیدہ توحید ناپید تھا، زمین پر بسنے والی اللہ سبحانہ و تعالی کی مخلوق اپنے خالق، مالک، معبود اور مسجود کوبھول چکی تھی، وہ حقیقت سے ناآشنا اور اللہ تعالی کی رحمت سے بہت دور نکل چکی تھی، فطرت میں پنہاں ’’اللہ ‘‘کے حسن و جمال کو دیکھنے والا کوئی نہ رہا تھا، اس سے محبت کرنے والا روئے زمین پر کوئی موجود نہ تھا، اس کی معرفت اور حقیقت کی تلاش میں راہ محبت، سلوک و ہدایت پر چلنے والا کوئی راہ نورد نہیں تھا، اجسام و اجساد موجود تھے جن میں قید، ارواح مضمحل تھیں۔ ساری دنیا بت پرستی کی لپیٹ میں تھی، سر زمین عرب میں تین سوساٹھ بتوں کو پوجا جا رہا تھا۔ بھارت میں بتیس کروڑ خداؤں کی عبادت ہو رہی تھی، یونانی دیو مالا کا راج یورپ اور مشرق وسطیٰ پر قائم تھا، اس عالم حسرت ویاس میں ناگاہ کوہ فاران کی چوٹیوں سے نبی الامی، محسن انسانیت، رؤف و رحیم سرکارِ ہر دوسرا، سرور کونین، رسول ثقلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے اپنے رب ذوالجلال کی توحید مطلقہ کی ایک ایسی صدا بلند ہوئی، کہ جو اس سے پہلے ارواح انسانی نے یوم الست کے موقع پر بھی سنی تھی، اور اب وہی صدا کرہ ارض پر بسنے والی مظلوم نوع انسانی کے لئے پیام نجات اور نوید امن لے کر کوہ فاران کی چوٹی سے بلند ہوئی۔ کائنات ارض وسماء میں ’’لااله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه‘‘ کے نعرئہ حق کے بلند ہونے سے اللہ سبحانہ و تعالی کی روٹھی ہوئی رحمت؛ رحمۃ للعالمین کی شکل میں پھر زمین کی طرف متوجہ ہوئی، جمال حق کے پرتو نے زندگی کو پھر حسین بنا دیا، خوف وغم، دردوالم چھٹ گئے، غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں، توحید، عبدیت، حریت، مساوات، عدل اور انصاف کا نور روئے زمین پر پھیلنے لگا، خود ساختہ خداؤں کے تخت الٹنے لگے، مغرور سروں سے تاج گر نے لگے، تباہ حال انسانیت خوشحال ہونے لگی، مردہ دل زندہ اور بے جان روحوں میں زندگی کی رمق آنے لگی۔ اللہ تعالی کی توحیدکے نور سے بندوں کی جبینیں منور ہو نے لگیں، غم زدہ چہرے مسکرا اٹھے، اورعام انسان غلامی وبے کسی کی زنجیروں سے رہا ہو کر قیصر و کسریٰ کا ہمسر نظر آنے لگا۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

اعلان توحید و رسالت؛ نبی الامی سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محض کوئی تصور اور خیال نہیں تھا اور نہ ہی صرف ابلاغ کی حد تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود لوگوں کو پیغام پہنچانا تھا، مشرکین مکہ و طائف کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریر اور خطاب ایسا نہیں ہوتا تھا، کہ لوگ سن لیتے اور کپڑے جھاڑ کر چل دیتے، توحید کے بارے میں آپ کا بیان ایک ایسا مکمل درس ہوتا تھا، جو سعید قلوب کو متاثر کرتا تھا۔