اداریہ : 11 ستمبر یوم قائد اعظم....... تجدید عہد کادن

27 رمضان المبارک کو دنیا کے نقشے پر ایک عظیم مملکت پاکستان نمودار ہوئی، دنیا کی تاریخ میں پاکستان کا قیام ایک معجزے سے کم نہیں۔ بلاشبہ قیام پاکستان، دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا اور لاکھوں قربانیاں دے کر آئینی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیاگیا۔ اس الگ مملکت کا خواب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا اور پھر اس کی تعبیر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے کی جنہوں نے بڑی جرات، استقامت اور پامردی سے پاکستان دشمن قوتوں کا مقابلہ کیا اور بالاخر اپنی 50 سالہ کامیاب سیاست کے بعد اپنی ذہانت، جرات اور عمل پیہم کے نتیجے میں پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

اصل شخصیت، کردار اورقیادت وہ ہوتی ہے کہ غیر بھی جن کی عظمت کا اعتراف کریں۔ اخبارات میں حقیقت پر مبنی تاریخی انکشاف پر مشتمل ایک اہم خبر آپ نے پڑھی ہو گی جس سے پوری قوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ دوسری طرف بھارت میں غم وغصے کی فضا پیداہو گئی ہے جب بھارت کے سابق وزیرخارجہ او ربی جے پی کے رہنما جسونت سنگھ کی کتاب Jinah and the partiton of India منظر عام پر آئی جس نے بھارت میں تہلکہ مچا دیا۔ یہ کتاب 600 صفحات پر مشتمل ہے اور موصوف نے اسے پانچ سال کی محنت اور تحقیق کے بعد مکمل کیا ہے جس میں نہایت اہمیت کی حامل چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ واضح طور پر تقسیم ہند کا ذمہ دار جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل کو قرار دیا گیا ہے اور قائداعظم کو گاندھی سے بھی بڑا رہنما ثابت کیاگیا ہے۔ اس اہم انکشاف نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسونت کی اس کتاب میں لکھی جانے والی حقیقت اور سچائی کو بی جے پی برداشت نہیں کر سکی اور انہیں فوری طور پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ دوسری طرف گجرات کے بی جے پی کے انتہا پسند رہنما نریندر مودی نے اپنی ریاست میں اس کتاب کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کتاب میں درج ذیل مزید نکات ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

  1. تقسیم ہند کے لیے محمد علی جناح کو بلا وجہ بدنام کیا گیا۔
  2. حقیقت یہ ہے کہ جواہر لعل نہرو نے اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے الگ مسلم مملکت کے قیام کے لیے محمد علی جناح کو مجبور کیا۔
  3. بھارتی مغربی تاریخ دان اور میڈیا محمد علی جناح کو "ولن" کے طور پر پیش کرتا رہا حالانکہ انکا کردار "ہیرو" کا تھا جسکی وجہ سے بھارت نے جناح کی عظمت کو سمجھنے میں غلطی کی۔
  4. محمد علی جناح، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل سے زیادہ بڑے سیاسی رہنما تھے۔
  5. جناح کو کئی مرتبہ گاندھی عظیم ہندوستانی قرار دے چکے ہیں جس سے انکی عظمت آشکار ہوتی ہے۔

اب یہ حقائق بھارتی حکومت، اپوزیشن اور عوام کو بھلا کب ہضم ہو سکتے تھے۔ لامحالہ مزکورہ کتاب کی رونمائی کے چند گھنٹوں بعد پورے بھارت میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا جس کے بعد جسونت سنگھ نے پریس کانفرنس کر کے یہ موقف اختیار کیا کہ جس دن ہم لکھنے پڑھنے، سوچنے اور برداشت کرنے کا سلسلہ ترک کر دیں گے اس وقت ہم انتہائی قابلِ ر حم قوم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے۔

مذکورہ بالا واقعہ سے بخوبی عیاں ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی جماعتوں حکمران کانگرس اور اپوزیشن بی جے پی نے جس طرح حق کا نعرہ بلند کرنے والے جسونت سنگھ کو تنقید کا نشانہ بنایا اس سے جہاں ہندو ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے وہاں بجا طور پر محسوس ہو تا ہے کہ قائدِ اعظم کی قیادت میں جنوبی ایشیا میں الگ وطن کا قیام کس قدر ناگزیر تھا؟۔

اس سے یہ امر بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ اپنے قلم کے ساتھ انصاف کرنے والی جسونت سنگھ جیسی اہم سیاسی شخصیت کے ساتھ حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے جب یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے تو عام مسلمانوں کے ساتھ ہندو طبقات کا طرزِ عمل کیسا ہو گا؟۔

اس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی بھارتی حکومت بے نقاب ہو گئی ہے کہ بھارت میں کسی کو اظہارِ رائے کی قطعاً آزادی حاصل نہیں ہے۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق وقت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ سچائی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔

11 ستمبر کو قائدِ اعظم کے یوم وفات کے موقع پر پوری قوم ان کی عظمت اور قیادت کو خر اجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ ذہن میں رکھنے چاہیے کہ قائدِ اعظم ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھے خود ایک مقصد کبھی نہیں رہے۔ لہذا ہمیں اس موقع پر تجدیدِ عہد کرنا ہوگا کہ جس مقصد کے لیے پاکستان تعمیر کیا گیا تھا اس کی تکمیل کے لیے اب ہم قائدِ اعظم جیسی، مخلص، باکردار، جرت مند، محبِ وطن، باصلاحیت، نڈر اور بے باک قیادت کو تلاش کر کے آگے لائیں گے تاکہ وہ دینِ اسلام اور اس کے نام پر حاصل کیے گئے ملکِ عزیز پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کرے۔ ہمیں یہ یقین رکھنا ہو گا کہ

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

مینجنگ ایڈیٹر