منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام تنظیمات کیمپ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی تربیتی گفتگو

ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد، ناقلہ : مریم حفیظ

بسم الله الرحمن الرحيم

منہاج القرآن ویمن لیگ کے اس تنظیمات کیمپ میں آپ سب مختلف سطح پر عہدیداران ہیں اور آپ دعوت دینے والی ہیں اور جو دعوت کا فریضہ انجام دیتا ہے اسے سب سے پہلے دعوت کی ابتداء اپنے نفس، اپنی جان اور اپنے آپ سے کرنی چاہئے۔ دعوت دینا بنیادی طور پر ایک نصیحت ہے کہ لوگوں کو شر کی راہ سے بچایا جائے اور خیر کی راہ کی طرف بلایا جائے۔ دعوت ہر چند ایک نصیحت ہے۔

جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا :

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ.

(النحل، 16 : 125)

’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اب یہ تین چیزیں دعوت کے لئے اللہ رب العزت نے ضروری قرار دی ہیں۔ ان تینوں چیزوں کو اگر غور سے دیکھیں تو تینوں چیزوں کے اندر بنیادی خوبی انسانی نفس اور انسانی فکر کی اصلاح ہے۔ فکر کی اصلاح ہو تو دعوت، حکمت پر مبنی ہوگی فکر میں پختگی اور Clarity ہونی چاہئے۔ فکر کے ساتھ اس کے لوازمات ہوتے ہیں۔ یہ اسی فکر کی وسعت اور پختگی کا حصہ ہے کہ جس کو دعوت دی جارہی ہے دیکھا جائے کہ اس کا فہم کیا ہے؟ اس کی Back Ground کیا ہے؟ اس کا عقیدہ کیا ہے؟ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ اس کی سوچ، رحجان اور اس کے میلانات کیسے ہیں؟ ان ساری چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعوت دی جائے تو یہ وہ اسلوب اور لوازمات ہیں جو Case to case اور Group to group بدلتے جائیں گے۔ ایک طبقے کو خواتین کے ایک گروہ کو ایک انداز سے دعوت دی جائے۔ کسی کو اصلاح نفس اور اصلاح احوال اور اصلاح اعمال کی دعوت دی جائے۔ کسی کے ساتھ اس کی ذہنی فکر کی Clarity کے Aspects کو زیادہ نمایاں کیا جائے۔ کسی کے ساتھ گفتگو میں تصوف کا موضوع اور کسی کے ساتھ توحید کا موضوع رکھا جائے۔ کسی کو روحانی اور صوفیانہ انداز کے ساتھ دعوت دی جائے اور تصوف، سلوک اور محبت و معرفت کا انداز اپنایا جائے۔ کسی کے ساتھ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر کا موضوع اپنایا جائے۔ چھوٹی عمر کے ہیں تو ان کی ان کی طبیعت، ان کی نفسیات، ان کے رحجانات اور فہم جو ان کی سمجھ بوجھ کی سطح ہے کے مطابق بات چیت کی جائے۔ یہ سارا حکمت میں آتا ہے۔ اب باقی دو چیزوں کی طرف آئیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ درد مندانہ نصیحت ہونی چاہے اور درد مندانہ نصیحت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک بندے کے نفس کا تزکیہ نہ ہو۔ پھر امت کا درد پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ درمیان میں سے انسان کا اپنا نفس نکل جاتا ہے۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ

’’اللہ کے ساتھ ایسے ہو جاؤ کہ جب اللہ کے ساتھ تمہارا تعلق استوار ہو اور تمہارا کوئی معاملہ اللہ کے ساتھ قائم ہو اور کوئی کام اللہ کے حکم کی بجا آوری میں تم انجام دینے لگو تو اس وقت مخلوق درمیان میں نہ لاؤ‘‘۔

ہر کام جو اللہ کے لئے انجام دے رہے ہو۔ اسے اس طریقے سے انجام دو جس میں ریاکاری اور دکھلاوا نہ ہو۔ پھر اللہ کے ساتھ معاملہ خالص ہو جاتا ہے۔ خالص للہیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب کوئی معاملہ مخلوق کے ساتھ کرو تو اس وقت نفس کو درمیان میں سے نکال دو۔ جیسے اللہ کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے، مخلوق کو درمیان سے نکال دیا۔ یعنی آپ جب اپنی سہیلیوں، اپنی کولیگز، اپنے بہن بھائیوں، خونی رشتہ داروں، اپنے پڑوسیوں، اپنے اعز و اقارب کے ساتھ کوئی بھی معاملہ کریں تو درمیان میں نفس کو نہ لائیں۔ اب نفس کے نہ رہنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر وہ آپ کو آپ کی اچھائی اور نیکی پر برا Response بھی دیں گے تو آپ کو پریشانی اور تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ تکلیف تو نفس کو ہوتی ہے اور تکلیف کا احساس بھی نفس دلاتا ہے جب آپ نے معاملہ کیا اور نفس درمیان میں ہی نہ ہوا تو آپ کو نہ تو تکلیف اور دکھ ہوگا اور نہ ہی دل ٹوٹے گا۔

اسی طرح معاملہ جب تنظیموں میں ہو تو وہ بھی بلا نفس ہو۔ آپس میں Interaction ہو تو بلا نفس ہو۔ مثلاً اگر کسی نے آپ کو تکلیف پہنچائی آپ کی بات نہیں سنی آپ کو دکھ ہوا یا آپ کو تکلیف پہنچی اس پر آپ رنجیدہ خاطر اور پریشان نہیں ہوں گے۔ کیونکہ آپ معاملہ کر رہی ہیں اللہ کے لئے جب اللہ کے ساتھ معاملہ کیا تو مخلوق کو درمیان میں نہیں لیا اور جب مخلوق کے ساتھ کیا تو درمیان میں نفس کو نہیں لیا۔ یہ ایک ایسا گر ہے جس کو اپنا موٹو بنالیں۔ اس کا یہ Benefit ہے کہ انسان جب کسی مرتبے پر پہنچتا ہے اور اس کے قلب و باطن کا جب یہ حال ہو جاتا ہے تو پھر اس کے اندر کی مَیں ختم ہو جاتی ہے۔ پھر وہ آگ سے جھگڑا اور تکرار نہیں کرتا۔ اس سے تنظیمی زندگی میں لڑائی اور پھڈے نہیں ہوتے۔ دعوت میں پھڈا نہیں ہوتا۔ یہ ہے وہ بنیادی کام جو داعی یا داعیہ کرتا ہے۔ داعیہ جب دعوت دے تو غور کرے کہ کیا میں نے اپنے نفس کو دعوت دی؟ دعوت کی ابتداء اپنے نفس سے کرے پھر دوسروں کو دعوت دے۔ سب سے پہلے اپنے نفس کی اور اپنی ذات کی اصلاح کرے۔ اس چیز کو اپنے اوپر لازم کر لیں تو جب انسان اپنے نفس کو دعوت دیتا ہے تو اصلاح ہوتی ہے اور اس کا سب سے پہلا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر ساری خرابیاں اور نقائص میرے اندر ہیں تو میں اپنی خرابیوں اور نقائص کو Address کروں اور ان کی اصلاح کروں تو جب تک اپنے نفس کو قابل اصلاح نہ سمجھا جائے اس وقت تک انسان اپنے آپ کو دعوت ہی نہیں دے سکتا اور جب تک اس کے اپنے نفس کی اصلاح نہ ہو۔ اس وقت تک اس کی دعوت سے دوسرے نفوس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک آدمی خود ڈوب رہا ہے تو خود ڈوبنے والا سوچنے کی بات ہے کہ دوسرے کو کیسے بچائے گا؟ اسی طرح جو خود اندھا ہے وہ دوسرے کا ہاتھ اسے راستہ دکھانے کے لئے کیسے تھامے گا؟ دوسروں کا ہاتھ وہی شخص ہی پکڑتا ہے جس کو نظر آرہا ہو اور وہ اس کو صحیح راستے پر لے جا سکے۔

دعوت کا مضمون دیکھنے میں تو زبان کا مضمون ہے۔ آدمی زبان کے ذریعے دعوت دیتا ہے مگر چونکہ دعوت نصیحت ہے۔ لہذا نصیحت ہونے کے اعتبار سے یہ قلب کا مضمون ہے اور چونکہ قلب کا مضمون ہے۔ اس لئے جلوت میں لے جانے سے پہلے اس پر خلوت میں محنت ہونی چاہئے۔ پھر دہرا رہا ہوں کہ دعوت زبان کا مضمون ہے۔ لیکن دعوت چونکہ مبنی بر نصیحت ہے، دعوت کی روح نصیحت ہے۔ لہذا نصیحت قلب کا مضمون ہے اور دعوت بغیر نصیحت کے نہیں ہوتی۔ دعوت زبان کی ہوتی ہے اور نصیحت قلب سے۔ جب نصیحت جو کہ دعوت ہے یہ دل کا مضمون ہوگئی تو جب دل کا مضمون ہے تو یہ جلوت میں باہر جانے سے پہلے اس مضمون کی اصلاح اور اس کی نوک پلک کو سنوار کر اس کی تصیح کرے۔ اس کی صفائی اور درستگی کرے جو جلوت میں نہیں ہوگی بلکہ خلوت میں ہوگی۔ خلوت میں راز کی بات ہوتی ہے اور جلوت میں اعلان کی بات ہوتی ہے۔

دعوت اعلان ہے نصیحت راز ہے۔ دعوت زبان پر ہوتی ہے، نصیحت قلب پر ہوتی ہے۔ دعوت جلوت میں ہوتی ہے نصیحت خلوت میں ہوتی ہے۔ لہذا خلوت مقدم اور پہلے ہے آقا علیہ السلام کی یہ سنت مبارکہ ہے کہ جب دعوت دینے کا وقت قریب آیا اور بعثت اور نزل وحی کا زمانہ قریب آیا تو آقا علیہ السلام نے خلوت کو اپنے اوپر لازم فرما لیا اور خلوت سے محبت کرنے لگے اور غار حرا میں تشریف لے جا کر خلوت میں بیٹھتے جہاں اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی نازل ہوگی۔

یہ جو انسان دنیا سے Cut off ہو کر آبادیوں اور شہروں سے خلوت گاہ میں جاتا ہے۔ اس سے نصیحت کے لئے قلب کی اصلاح ہوتی ہے اور جس نفس کو نصیحت حاصل نہیں ہوتی۔ اس شخص کی زبان کی دعوت بے فائدہ ہو جاتی ہے۔ خلوت آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت طیبہ کے علاوہ دیگر انبیاء کی بھی سنت ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے جب ہم کلامی کا وقت آنے لگا تو کوہ طور پر چالیس دن خلوت میں رہے اس کے بعد رب تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف عطا ہوا۔

اب یہ جو اعتکاف آرہا ہے اس کا بھی اس مضمون سے گہرا تعلق ہے۔ انبیاء کرام کی درج بالا سنت سے معلوم ہوا کہ خلوت کے بعد نصیحت و حکمت اور خیر و فلاح کا چشمہ جب اندر پھوٹ پڑتا ہے تو وہ اندر ایک تاثیر بن کر زبان سے ادا ہوتا ہے اور یہ تاثیر زبان سے کہے ہوئے کلمات میں داخل ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ دعوت بھی قلب سے چلتے ہوئے اگلے سننے والے کے قلب تک جاتی ہے۔ جس دعوت کا سفر زبان سے شروع ہو اور دعوت دینے والے کا دل اس کے اندر Involve نہ ہو تو زبان سے جو دعوت شروع ہوتی ہے وہ سامع کے کان پر ختم ہوجاتی ہے۔ زبان ایک ظاہری عضو ہے۔ اس سے نکلی ہوئی بات کا اثر بھی سامع کے ظاہری عضو (کان) تک جائے گا۔ زبان کے سودے کا خریدار کان ہے، دل نہیں ہے۔ دل خریدار ہے تاثیر کا آواز کا نہیں ہے۔ کان خریدار ہیں آواز کے اور دل آواز کا خریدار نہیں۔ دل خریدار ہے تاثیر کا اور تاثیر الفاظ سے نہیں بلکہ دل سے جنم لیتی ہے اور دل سے دل تک جاتی ہے۔ آواز زبان سے کان تک جاتی ہے یہ وہ Gap آجاتا ہے جس سے آگے Response پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا تاثیر پیدا کرنے کے لئے خلوت درکار ہوتی ہے یہ چیزیں خلوت میں جنم لیتی ہیں اور آقا علیہ السلام کی امت میں دس دن اعتکاف کے اسی خلوت کے لئے بنائے گئے۔ کثرت میں بھی خلوت رہتی ہے۔ ہر شخص جب گھر بار، بیوی بچوں، کاروبار سے کٹ کر آجاتا ہے تو اس صحبت میں بھی خیر اور فلاح ہوتی ہے۔ اصلاً خلوت ہی رہتی ہے۔ لہذا ویمن لیگ کی بہنیں، بیٹیاں اور مشن کے تمام وابستگان و کارکنان و قائدین اس خلوت کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔