صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی

مرکزی امیرتحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

درس نمبر22

خطاب، تقریراور درس میں فرق ہوتا ہے، مقرر یا خطیب کسی گروہ یا مجمع کے سامنے جب تقریر یا خطاب کرتا ہے، تو اس کا مقصد وقتی طور پر ان کو کسی واقعہ یااحوال سے باخبر کرنا ہوتا ہے، وہ سامعین کو اپنی باتوں سے متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد حاضرین و ناظرین کو من و عن سارے حالات و واقعات سے آگاہ کرنا یا واقعات کی تمام تر باریکیوں اور تفصیلات سے مطلع کرنا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی مقرر کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے۔ مقرر کا کام اعلام یعنی کسی شخص یا گروہ کو کچھ بتا دینا مقصود ہوتا ہے، لیکن درس، تدریس اور تعلیم کسی شخص کو صرف کچھ بتانا نہیں ہوتا بلکہ اس کو کچھ سکھانا اور سمجھانا بھی ہوتا ہے۔ آج کل کے سیاسی مقررین کو آپ دیکھتے ہیں، دھواں دھار تقریر کرتے ہیں، لیکن عوام کو پوری بات نہ بتاتے اور نہ سمجھاتے ہیں۔ اکثر لگتا ہے کہ تقریر برائے تقریر کی جا رہی ہے، فکر و فہم اور تفکر و تدبر سے عاری، تقریر کے مندرجات کی نہ مقرر نے تعمیل و تکمیل کرنی ہوتی ہے اور نہ ہی عوام الناس اس کی قیادت میں کوئی معرکہ آرا کا رنامہ سرانجام دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں قائد کو منزل مقصود کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی پارٹی کے لوگوں کو مشترکہ مقاصد و اغراض سے کوئی غرض ہوتی ہے، سیاسی مقرر کا مقصد ووٹ کاحصول ہوتا ہے، پانچ سال میں فقط ایک بار تقریر اور عوام کے سامنے جلوہ افروز ہونا سیاسی قائدین کا وطیرہ ہوتا ہے، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاسی راہ نما جب اسمبلیوں میں قانون سازی کے لئے پہنچتے ہیں، تو وہاں ان کی تقریریں مضحکہ خیز، وقت کا ضیاع اور پارٹی سیاست کی آئینہ دار ہوتی ہیں، وزیر اعظم اور صدر مملکت کے لئے جو تقریریں لکھی جاتی ہیں، وہ اکثر علم و دانش سے عاری، فضول اور لا یعنی ہوتی ہیں۔ اتفاق سے اگر اسمبلی میں کسی طور کوئی ایک آدھ عالم دین، دانشور، پروفیسر یا ڈاکٹر پہنچ بھی جائے، تو اس کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز بن جاتی ہے، ناموافق حالات پیدا کر کے ایسے صاحب علم اور دانشور ممبراسمبلی کو جلد از جلد اسمبلی سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا جاتاہے۔ بہت زیادہ خطابات اور تقریریں کرنے والا دوسرا طبقہ علماء کا ہوتا ہے، موجودہ دور کے علماء کا دائرہ اپنی مسجد کے محراب و منبر تک محدود ہو گیا ہے، زیادہ سے زیادہ جمعہ کے دن آدھ گھنٹہ کی تقریر، جس کے دوران نماز کے لئے آنے والے لوگ زیادہ تر محو خواب نظر آتے ہیں، نہ وہ امام صاحب کو نظر آتے ہیں نہ ان کو امام صاحب، بس اک فریضہ بے لذت ہے، جو نبھایا جا رہا ہے۔ اعلام، اعلان، تقریر اور خطاب ایک عام کام ہوتاہے یعنی ایک ایسا کام جس میں زیادہ محنت اور مشقت کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آپ اپنے کسی ساتھی یا مہمان کو چینک (چائے کا برتن) یا تھرماس سے چائے نکال کر دیتے ہیں، جو ایک عام کام ہے، لیکن آپ کے مقابلے میں چائے بنانے والے یا والی کا فعل، تفعیل کے باب میں آتا ہے کیونکہ چائے بنانے کے فعل میں اس نے زیادہ محنت، مشقت، اخلاص، علم اور عمل سے کام کیا ہے، چائے پلانی؛ ایک عام سلوک ہے جو آپ نے مہمان کے ساتھ روا رکھا، لیکن آپ کی محترمہ والدہ، بہن، اہلیہ یا بیٹی صاحبہ نے چائے بنانے میں جو سلوک کیا، وہ ایک سلوک نہیں ہوتا بلکہ متعدد سلوکوں (کاموں) کا مجموعہ ہوتاہے، چائے؛ اگر بہتر تیارہوئی اور آپ کے مہمان کو اچھی لگی، تووہ خواتین کے سلوک کی تعریف کرتا ہے۔ سلوک میں علم، عمل، محنت، مشقت، ریاضت، خلوص، عزم، ہمت، استقلال اور توجہ کا ارتکاز جتنا زیادہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی صاف تر، صفی، مصفّٰی، مزکّٰی، اور مجلّٰی ہوتا چلا جاتا ہے، سلوک کرنے والا سالک اپنے نیک عمل اور سلوک سے خود بھی خوش، مطمئن اور راضی ہو جاتا ہے اور جس کے ساتھ نیک سلوک ہوا، وہ بھی خوش مطمئن اور راضی؛ یعنی عمل صالح دونوں جانب سے ہوتا ہے اور دونوں کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کمہار کے ہاتھ کے بنے مٹی کے پیالے میں لوگ پانی پیتے تھے، بعض لوگ اب بھی پیتے ہیں، کمہار مٹی کا ایک پیالہ بنانے کیلئے بڑی محنت اور مشقت سے زمین کھود کر مٹی نکالتا ہے، گوندھنے سے پہلے وہ مٹی سے ہر قسم کے کثیف عناصر مثلاً ریت، سلیکا، چونا وغیرہ چھان کر الگ کرتا ہے، یعنی اس کا تصفیہ اور تزکیہ کرتا ہے ، پھر صاف اورخالص مٹی کو گوندھ کر بڑی مہارت سے اس کا ایساخمیر تیار کرتا ہے کہ جو اس کے چاک کے ساتھ ایسا چپکا رہے کہ اس سے جدا نہ ہو اور کمہار کی انگلیاں اس کو جس طرح چاہے، شکل دے دے۔ محنتی، تربیت یافتہ اور ہنرمند کمہاروں کے ہاتھ کے بنے مٹی کے ظروف کے قدیم نمونے ازمنہ قدیم سے لے کراب تک آثار قدیمہ کی شکل میں عجائب گھروں کی زینت بنے نظر آتے ہیں، پیالہ بنانے میں ظرف ساز کے ہر فعل میں ایک خاص محنت، مشقت، عزم، حوصلہ، ہمت، استقلال، نظم و ضبط اور حسن انتظام دکھائی دیتا ہے، چاہے پیالہ معمولی قیمت کا ہو یا بہت قیمتی، بنانے والا کسی بھی مرحلے پر غفلت، بے فکری، بے توجہی، تساہل اور سست روی کا شکار نہیں ہوتا، وہ ہر پیالے کو اپنا تخلیقی شاہکار سمجھ کر بناتا ہے اور پورے اخلاص سے اپنے ہر عمل اور سلوک میں کامیابی کے لئے کوشاں رہتاہے۔ یہی اس کے کام، عمل اور سلوک کا تصوف ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ سبحانہ و تعالی کا دوست ہوتا ہے۔ ’’الکاسب حبيب اللّٰه‘‘  (ہاتھ سے کام کرنے والا اللہ کا دوست ہے) یعنی جو شخص اپنے ہر عمل کو اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا اور تہذیب و تمدن کے پروان کے لئے پوری محنت اور خلوص سے سرانجام دیتا ہے۔ اسے اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ظروف سازی کے علم اور فن میں بہت ترقی ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ مٹی کے مختلف اجزاء میں تصوف یعنی تطہیر (Purification) کا سلوک بھی جاری رہا، اس مسلسل عمل کی وجہ سے مٹی سے ریت، سلیکا اور شیشہ الگ کیا جاتا رہا، مٹی، پتھر، ریت اور معدنیات کی مختلف انواع پر سائنسی تجربات اور تحقیقی کام (Research work) ہوتا رہا، مٹی سے چائنہ کلے (China Clay) کی وہ قسمیں تیار کی گئیں کہ ایک روپے کی پیالی سے لے کر دس ہزار رو پے تک والی پیالی اور سو روپے والے ڈنرسیٹ سے لے کر پانچ لاکھ روپے والے ڈنرسیٹ بنے، پہاڑوں میں کھدائی سے معمولی پتھر سے لے کر دنیا کی اعلیٰ ترین سنگ مرمر، معمولی قیمت کے زمرد، یاقوت، پکھراج اور کچے ہیرے سے لے کردنیا کے قیمتی ہیرے نکالے جاتے رہے، ریت سے ایسا شیشہ بنایاگیا کہ مٹی کے پیالے کی جگہ شیشے کے گلاس نے لے لی اور گلاس بھی ایسے کہ دو روپے سے لے کر قیمت جس کی دس ہزار وپے تک ہو اور پھر اسی شیشے سے عینک کے لئے ایسا خاص شیشہ بنایاگیا کہ جسے نزدیک کی اشیاء نظر نہ آئے اس سے صاف نظر آئے اور جس کی دور کی بصارت کمزور ہو، اسے دور کی چیزیں صاف نظر آئیں، نظر کا ایسا شیشہ بنایا گیا کہ جو سورج کی تیز روشنی میں سیاہ اور رات کے اندھیرے میں سفید ہو جائے، پھر دور بینوں کا شیشہ کہ جس میں ستارے، سیارے، نبیولے، کہکشاں اور نیو کلائیڈز تک نظرآئیں، یہ سب کیسے ہوتا ہے، ان امور پر اللہ جل شانہ غور و فکر کرنے کا حکم دیتا ہے، ایسی تفکیر و تدبیر کہ جو انسان کو تلاش حقیقت میں مدد دے، قرآن حکیم واضح کرتا ہے کہ خالق کی تلاش مخلوق میں کرو، خیر اور شر کا علم اور عمل ؛ ہر جگہ، ہر وقت موجود اپنے جلوے دکھا رہا ہے۔ علم نافع اور عمل خیر؛ سلوک، تصوف اور احسان کی مختلف شکلیں ہیں، کائنات و انفس میں سلوک و تصوف کا ایک خودکار نظام جاری ہے۔ تفکیر، تدبیر، تعمیل اور تکمیل مسلمانوں کے وہ فرائض منصبی ہیں۔ جس کی ضرورت آج کے گلوبل دور میں جب دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکا ہے ، بہت زیادہ ہے۔

شریعت، طریقت، معرفت، حقیقت، سلوک، تصوف، احسان، اخلاق، اعمال حسنہ، کشف، دھیان، گیان، امن، آشتی، مخلوق سے محبت غرضیکہ قرب الٰہی کے جتنے بھی طور طریق مانے، پڑھے ، سمجھے اور برتے جاتے ہیں، سرور ثقلین و کونین نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ فقط عقیدہ توحید الٰہی ہے، جس کا ماننا، سمجھنا اور زندگی کے ہر ہر لمحے کا ’’حال‘‘ بنانا، ہر مسلمان، مومن، صوفی، درویش، فقیر، پیر، ولی، اوتاد، مردمان، ابدال، غوث اور قطب کا پہلا فریضہ زندگی ہے۔ مخلوق الٰہی میں سے کسی فرد اور شئے کو اس سے استثنا نہیں، اللہ سبحانہ و تعالی کی توحید، قوت اور طاقت کے گرد خلق اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہر وقت اظہار عبودیت میں مصروف طواف ہیں اور خلق اول کے وجود پاک سے ہر لمحہ اور ہر لحظہ پیدا اور منتشر ہونے والی آفاق و انفس بھی اسی طرح اللہ جل شانہ کی قوت وطاقت کے گردا گرد اظہار بندگی میں مصروف ہیں۔

خلق کے محور و مرکز محبت، اللہ سبحانہ و تعالی بھی اپنے اردگرد طواف اور اظہار بندگی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اس علیم و خبیر کو اپنے ساتھ محبت کرنے اور اطاعت کرنے والوں کی خوب خبر ہے، وہ اپنے چاہنے والوں کی تلاش میں رہتا ہے اور مختلف طریقوں سے محبت کرنے والوں کے پیغام کا جواب دیتا ہے، کبھی مرغان چمن اس کا پیام الفت دیتے ہیں، کبھی برگ لالہ پر وہ اپنا پیغام محبت لکھ دیتا ہے، ملاحظہ، مشاہدہ، تفکیر اور تدبیر کی بات ہے، ورنہ فطرت کے سب کے سب مظاہر اپنے بندوں کے لئے اسی کی محبت کے پیام پر معمور ہیں۔

ماازخدائے گم شدہ ایم، او بہ جستجو ست
چوں مانیاز مندوگرفتار آرزوست

گاہے بہ برگ لالہ نویسد پیام خویش
گاہے درون سینہ مرغاں بہ ہاؤ ہوست

اللہ جل شانہ کی سنت ہے، کہ جو اس سے محبت کرتا ہے، وہ اس سے محبت کرتاہے، ایک حدیث قدسی میں سرورکائنات نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ رب جل شانہ کا ارشاد ہے کہ ’’میرے بے شمار بندے ایسے ہیں، جو مجھ سے محبت کرتے ہیں، میں ان سے محبت کرتا ہوں، وہ میرے مشتاق رہتے ہیں، میں ان کا مشتاق رہتا ہوں، وہ میری ملاقات کے آرزو مند رہتے ہیں، میں ان کی ملاقات کا متمنی رہتا ہوں، وہ مجھے تکتے رہتے ہیں، میں ان کو تکتا رہتا ہوں، عرض کیا گیا، ان کی پہچان کیا ہے؟ فرمایا : ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ راتوں کو دنوں پر ترجیح دیتے ہیں، اس طرح کہ جب رات کے سایے پھیلنے لگ جاتے ہیں، تو وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ملاقات کی گھڑی آن پہنچی ہے، وہ رات کی طرف یوں کشاں کشاں دوڑتے چلے آتے ہیں کہ جس طرح دن کے تھکے ماندے پرندے رات کو اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹتے ہیں، یا جس طرح ریوڑ اپنے گھروں کی طرف دوڑتے ہیں، جب رات پر سکون ہو جاتی ہے ، وہ آرام چھوڑ کر اور اپنے پہلوؤں کو نرم وگداز بستروں سے جدا کر کے میرے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، پھر وہ تمام شب مجھ سے ہم کلام رہتے ہیں، اہل نگاہ (قلب و خیال سے) مجھے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ میری محبت کا کبھی کوئی گلہ نہیں کرتے ، وہ کبھی قیام کی حالت میں مجھے پکارتے ہیں تو کبھی سجدے کی حالت میں۔ ان کی ساری رات اسی طرح بسر ہوتی ہے۔ میں ایسے انسانوں کو ان کی عبادت کا کیا صلہ دیتا ہوں؟ میں انہیں یہ صلہ دیتا ہوں، کہ پھر میں ان کے قریب تر ہو جاتا ہوں اور اپنے نور میں سے ایک نورانی شمع ان کے دل میں روشن کر دیتا ہوں، وہ اس نورانی شمع سے مجھے اس طرح پہچان لیتے ہیں، جس طرح میں ان کو پہچان لیتا ہوں، میری یاد ان کے دلوں میں گھر کر لیتی ہے، پھر میں انہیں اس محبت کے صلے میں وہ مقام اور وہ متاع عطا کرتا ہوں کہ اگر آسمان سے زمین تک عرش معلی سے تحت الثریٰ تک ساری کائنات ایک پلڑے میں رکھ دی جائے اور دوسرے پلڑے میں قرب کی وہ دولت رکھ دی جائے جو میری محبت کے صلے میں ان کو نصیب ہوتی ہے تو وہ پلڑا جھک جائے گا۔

محبت الٰہی کے حصول کے مقابلے میں ساری دنیا ہیچ ہے۔ نبی مکرم و معظم خلق اول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کااعلان توحید اور دعوت ایمان باللہ اگر محض کوئی خالی خولی زبانی نعرہ ہوتا، تو وہ کفار اور مشرکین مکہ کے لئے اتنی زیادہ بوکھلاہٹ اور پریشانی کا باعث نہ ہوتا کیونکہ وہ لوگ اس قسم کے مذہبی دعوؤں او ر دینی دعوتوں سے آگاہ تھے، دنیا میں جزیرۃ العرب ؛ایک ایسا خطہ ہے کہ جس میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر، انبیا اور رسل یا ایک اور روایت کی رو سے کم ازکم چالیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے، اسلام سے پہلے توحیدی مذاہب میں دین حنیف، دین موسوی اور مسیحیت کاظہور بھی اسی خطہ زمین پر ہوا تھا، اگرچہ تاریخ میں ان تمام پیغمبروں کا ذکر نہیں ہے، لیکن مقدس کتابو ں اور صحائف میں سینکڑوں ایسے برگزیدہ پیغمبروں کے اسمائے گرامی موجود ہیں کہ جن کی دعوت اور زندگی کے حالات سے ہم کسی حدتک آگہی رکھتے ہیں۔ مکہ، طائف اور عرب کے لوگ رسومات کی حد تک مختلف مذاہب سے واقف تھے، یہودی اورعیسائی اپنے اپنے مذاہب پر اپنے عقیدے کے مطابق عمل پیرا بھی تھے، صابئین بھی تھے، ستارہ پرست بھی تھے، یونانی نظریہ تناسخ اورہندو ازم اور بدھ کے نظریہ آواگون ماننے والے بھی تھے، سورہ الحج کی آیہ نمبر 11 میں اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے۔

’’بے شک جو لوگ مومن ہیں، اور جو یہود اور صابی اور نصرانی اور آتش پرست ہیں اور جو مشرک ہیں، اللہ ان سب کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے دے گا کہ (کون حق پر ہے) بے شک اللہ ہر شئے سے واقف ہے۔ (اور جو کچھ بھی لوگ کرتے ہیں، اس کی نظر میں ہے)‘‘

جزیرۃ العرب میں بہت سارے مذاہب کی پیروی ہو رہی تھی، ان کے پیروکار موجود تھے، ان میں بڑے عالم و فاضل بھی تھے، ان میں طاقتور سردار بھی تھے، رؤساء، امیر اور بادشاہ بھی تھے لیکن حضور نبی محتشم سرکار آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان توحید و رسالت کے خلاف سب سے زیادہ شدت سے سامنے آنے اور مخالفت کرنے والے قبیلہ قریش اور خاندان بنو ہاشم کے بعض سردارتھے اور وہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے بھی تھے۔ سلوک و تصوف کے طالب علم اور سالک کے لئے جدوجہد اور کٹھن آزمائشوں کے ان واقعات سے آگاہی بہت ضروری ہوتی ہے۔ کیونکہ متلاشیان حق کی راہ میں سب سے زیادہ مشکلات اپنے ہی خاندان اور قبیلے کی طرف سے سامنے آتی ہیں۔ اکثر اس کے عزیز و قارب دوست شناسا، محلے علاقے اور شہرکے لوگ مختلف حیلے بہانوں سے ان کو راہ حق پر چلنے سے روکتے ہیں۔ بیوی، بچے، بھائی، بہن اور خاندان کے دوسرے لوگ اور بزرگ سامنے آ جاتے ہیں۔ لومۃ لائم، ایک بہت بڑا امتحان ہوتا ہے جس میں سے سالک کوگزرنا ہوتا ہے، بدی کی قوتیں؛ جہاں اس کے نفس امارہ کی آبیاری کرتی ہیں، وہیں وہ سالک کے لئے پورے ماحول کو ناسازگار بناتی ہیں، شیطان؛ دوست احباب کی صورت میں اسے دنیا کی رنگینیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسے قسم قسم کی ترغیبات دیتا ہے، بڑھاپے اور موت کے خوف کو اس کے ذہن پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے، سالکین کا سخت امتحان ان کی بیویوں کے ذریعے ہوتا ہے، طرح طرح کے گلے شکوے اور مطالبات ؛ اپنا گھر نہیں ہے، بچوں کے مستقبل کا کیا ہو گا، رشتہ داروں کے بچے اعلیٰ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہمارے بچوں کی تعلیم کا کیا ہو گا، بچے بچیوں کی شادی بھی کرنی ہے، آخر ہو گا کیا؟ یہ سب باتیں جہاں لومۃ لائم کے زمرہ میں آتی ہیں، اصلاً یہ جائز بھی ہوتی ہیں، باقی لوگوں کی طرح سالکین اور ان کے اہل خانہ کے اذہان میں اس قسم کی باتوں کا در آنا عجیب نہیں ہوتا ہے، یہ انسانی نفسیات (Human Psychology) اور جبلی داعیات (Human Instincts) کے مطابق اور فطرۃ بالفعل (Actual Nature) سے متعلق باتیں ہیں، لیکن ان امتحانی مواقع پر ایک عام شخص اور صوفی میں فرق یہ ہوتا ہے کہ عام شخص ذہنی تفکرات، خدشات، توہمات اور وساوس کے گرداب میں پھنس کر اپنی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کے لئے ہرجائز اور ناجائز ذرائع استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا ہے، وہ اللہ سبحانہ و تعالی کی حاکمیت اور احکام کو بھول جاتا ہے، خدا پر اس کا توکل متزلزل ہو جاتا ہے، اللہ جل مجدہ کی ذات پر اس کا ایقان کمزور ہو جاتا ہے، مال وزر کی ہوس اور تفاخر و تکاثر کی طمع اور جذبات اس کے پیش پیش ہوتے ہیں، نفس امارہ؛ اس کے دل ودماغ میں اس کی فطری خواہشات اور مطالبات کے حصول کے لئے ایسے خیالات پیدا کرتا ہے کہ کمزور انسان اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد کو پس پشت ڈال کر پہلے اپنی ذات اور اہل خانہ کی حفاظت اور مالی استحکام کو مقدم سمجھنے لگتا ہے، وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لئے مختلف قسم کی تاویلات اور توجیہات گھڑتا ہے، اس نوع کے اکثر افراد ذہنی اور قلبی طور پر بزدل ہوتے ہیں، وہ اپنی ذاتی، معاشی، اقتصادی اور معاشرتی حفاظت کے بارے میں ہر وقت مشوش اور متفکر رہتے ہیں، وہ اللہ سبحانہ و تعالی پر توکل اور بھروسہ جیسی نعمت سے محروم ہو کر دنیاوی اسباب پر تکیہ کرنے لگتے ہیں، اعلیٰ مقاصد حیات کی بجائے ایسے لوگ دولت کے حصول کی اندھی دوڑ میں لگ جاتے ہیں، اور قبر میں جانے تک اسی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے۔

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُO حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَO كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَO ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَO كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِO

(التکاثر : 1 تا 5)

’’تمہیں کثرت مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ ہرگز نہیں، (مال و دولت تمہارے کام نہیں آئیں گے) تم عنقریب (اس حقیقت کو) جان لو گے۔ پھر (آگاہ کیا جاتاہے) ہرگز نہیں : عنقریب تمہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔ ہاں ہاں : کاش تم (مال و زر کی ہوس اور اپنی غفلت کے انجام کو) یقینی علم کے ساتھ جانتے (تو دنیا میں کھو کر آخرت کو اس طرح نہ بھولتے)‘‘ (ترجمہ عرفان القرآن)

انا لله وانا اليه راجعون

گذشتہ دنوں تحریک منہاج القرآن کے رہنما اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے دیرینہ رفیق محترم محمد رشید طاہر کے والد گرامی محترم امیر احمد خان صاحب اپنے آبائی گاؤں جڑانوالہ فیصل آباد میں بقضائے الہٰی وفات پاگئے۔ انا لله وانا اليه راجعون. مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ محترم علامہ صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور ضلعی امیر تحریک منہاج القرآن محترم علامہ سید ہدایت رسول قادری صاحب نے بخشش و مغفرت کی دعا فرمائی۔ مرکزی وفد میں تحریک کے مرکزی راہنما محترم راجہ زاہد محمود، امیر تحریک منہاج القرآن پنجاب محترم احمد نواز انجم، اسسٹنٹ ڈائریکٹر امور خارجہ محترم رانا نفیس اور دیگر مقامی قائدین نے شرکت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شفاعت عالیہ سے بہرہ یاب فرمائے۔ آمین